کبھی اِس کوچے کبھی اُس نگری

یاد رکھیےکہ معصوم، مظلوم اور قابل رحم صرف سیاستدان نہیں بلکہ ان سیاستدانوں اورجماعتوں کی پیروی کرنیوالےکارکنان بھی ہیں

پاکستان کی سیاست کا المیہ کہیں یا ہمارے معصوم سیاستدانوں پر ظلم کی انتہا کہ اُنہیں اپنے کل کے دوستوں پر لفظی بمباری کرنے کا فریضہ دے دیا جاتا ہے، اور جو جتنا زیادہ حملہ کرتا ہے وہ نئی پارٹی میں اُسی قدر کامیاب تصور کیا جاتا ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

مجھے پاکستان کے سیاستدانوں سے دلی ہمدردی ہے۔ ہم اِن بے چاروں کو ہمیشہ لعن طعن کرتے رہتے ہیں، ہمیشہ اِن کو راشی، جھوٹا، فراڈی اور نہ جانے کیا کیا ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، حالانکہ یہ بے چارے تو نہایت قابلِ رحم ہوتے ہیں۔ یہ بے چارگی میں اپنی مثال آپ ہوتے ہیں۔ اگر آپ بغور جائزہ لیں تو آپ کے چہرے کی غصے میں اُبھری رگوں کی جگہ اُن کے لیے پریشانی میں نمودار ہونے والی سلوٹیں لے لیں گی۔ کیوںکہ آپ کا دل گواہی دے گا کہ ہم اِن مظلوموں کو جتنا رگیدتے ہیں یہ تو اتنے ہی ہمدردی کے قابل ہیں، اور اِن کو تو مفت میں بے نقط کی سنانا شروع کردی جاتی ہیں۔

غلام سرور خان صاحب کی مثال لیجیے، موصوف تحریک انصاف کے ایم این اے ہیں۔ کبھی آزاد حیثیت میں جلسوں پر تمام پارٹیوں کو آڑے ہاتھوں لیتے تھے، پھر مسلم لیگ (ق) کے ہم نوالہ و پیالہ ہوئے تو (ق) کو چھوڑ کر باقی پارٹیوں کی سختی آگئی۔ پھر تحریک انصاف میں آن وارد ہوئے اب (ق) لیگ بھی رگڑے میں رہتی ہے، اور یاد رہے کہ اِن کا تعلق کبھی تعلق پیپلز پارٹی سے بھی رہ چکا ہے۔ شاید وہ جب پیپلزپارٹی سمیت اپنی سابقہ پارٹیوں پر تنقید کے نشتر برساتے ہوں گے تو تنہائی میں توبہ استغفار تو کرتے ہی ہوں گے کہ کل میں بھی اِن کے ساتھ ہی تھا۔

اِسی طرح فردوس بی بی کو دیکھیے، پہلے یہ مسلم لیگ (ق) کا حصہ رہیں، وہاں سے پیپلزپارٹی اور اب تحریک انصاف میں دو دھاری تلوار بنی ہوئی ہیں۔ اِن کی مجبوری تو دیکھیے کہ کل تک جو 'جئے بھٹو' کا نعرہ اوڑھنا بچھونا تھا اب اُسی نعرے کو بُرا کہنا ہے۔ یہ مظلومیت کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے؟

جب بات نکل ہی گئی ہے تو کیوں نہ ذکر کیا جائے دانیال عزیز صاحب کا جو مشرف دور میں نواز شریف کے خلاف پلندے لہراتے نظر آتے تھے۔ لیکن آج اُسی نواز شریف کے حق میں پلندے لہرانا اُن کی مجبوری ہے، اگر نہ لہرائیں تو پارٹی میں کیسے رہیں؟ اِس سے بڑھ کر اُن پر کیا ظلم ہوگا کہ کل کے حامیوں کو آج اُنہیں دشمن کہنا ہے، اور بُرے الفاظ میں کہنا ہے۔

ہم بے جا سیاستدانوں کو بُرا بھلا کہتے ہیں، درحقیقت یہ تو بے چارے اور مظلوم ہیں۔ اب نبیل گبول صاحب کو ہی دیکھیے نا۔ یہ بے چارے پہلے پیپلز پارٹی میں گئے، وہاں سے ایم کیو ایم میں۔ جب پیپلز پارٹی میں تھے تو ایم کیو ایم کو رگیدہ کرتے تھے، لیکن وقت نے اُن نے کے لیے ایسے حالات پیدا کردیے کہ جس ایم کیو ایم اور اُس کے رہنماوں کو تنقید کا نشانہ بنایا کرتے تھے انہی کے ساتھ بیٹھ کر اپنی پرانی جماعت یعنی پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کی عزت کے بخیے ادھیڑنا شروع کردیے، لیکن یہ سفر بھی زیادہ دیر جاری نہ رہ سکا اور اُن کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور وہ واپس پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے، اِس لیے سابقہ پارٹی کے خلاف یہی فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔ کیا آپ کو اِن کی ذات پر ترس نہیں آتا کہ انہیں کل کے دوستوں کے خلاف بولنے کا فریضہ دے دیا گیا ہے؟

دور نہ جائیے، اپنی ہر دلعزیز رہنما ناز بلوچ صاحبہ کو دیکھ لیں۔ جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ابتدائی پارٹی کو چھوڑئے ہوئے اور ایسے بیان دینا پڑ رہے ہیں کہ نئی پارٹی میں آسانی سے جگہ بن جائے۔ اگر پرانی پارٹی کے خلاف نہیں بولیں گی تو نئی پارٹی میں مقام کیسے بنے گا؟ باقی پرانے دوستوں کے خلاف بولنا کون سا بُرا ٹھہرا، تنہائی میں فون وغیرہ کرکے انہیں مجبوری سمجھا ہی دیں گیں، اور وہ بھی سیاستدان ہی ہیں لہذا مجبوری سمجھتے ہیں کہ کل کلاں اُن کے ساتھ بھی تو ایسا حادثہ رونما ہوسکتا ہے۔

ڈاکٹر بابر اعوان صاحب تو ماہر قانون دان ہیں انہیں کچھ کہتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے کہ ہتک کا دعویٰ ہی نہ کردیں۔ کل تو جس کے نام کے نعرے لگاتے تھے آج اُنہیں 'گاڈ فادر ٹو' کہہ کر مخاطب کرنا پڑرہا ہے۔ یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے؟


نذر محمد گوندل صاحب اور نور عالم خان صاحب بھی انصاف واشنگ پاؤڈر میں دھل رہے ہیں اور جلد ہی پرانے دوست اُن کی لفظی توپوں کے نشانے پر ہوں گے۔

جمعیت علماء اسلام (ف) کے سابق رہنما جان اچکزئی اِس اعتبار سے کافی خوش قسمت ہیں کہ (ن) لیگ میں شامل ہونے کے بعد انہیں اپنے پرانے قائد اور پرانی پارٹی کو بُرا بھلا کہنے کی نوبت اب تک نہیں آئی کہ یہ دونوں پارٹیاں اِس وقت اتحادی ہیں۔ اتحاد ٹوٹنے دیں پھر دیکھیے گا کہ بیچارے اچکزئی کتنی مشکل میں پھنس جائیں گے۔

پاکستان کی سیاست کا المیہ کہیں یا ہمارے معصوم سیاستدانوں پر ظلم کی انتہا کہ اُنہیں اپنے کل کے دوستوں پر لفظی بمباری کرنے کا فریضہ دے دیا جاتا ہے، اور حیران کن طور پر جو اپنی پرانی پارٹی کے زیادہ راز کھولتا ہے اور زیادہ ذاتی حملے کرتا ہے وہ نئی پارٹی میں اُسی قدر کامیاب تصور کیا جانے لگتا ہے۔ راقم الحروف کو تو اِن بے چارے سیاستدانوں سے نہ صرف ہمدردی ہے بلکہ اُن پر ترس بھی آتا ہے۔ نہ جانے کس دل سے وہ اپنے پرانے عزیزوں کی عزت کو سرِ بازار نیلام کرتے ہوں گے۔ اتنا مشکل کام بھلا اب عوام سے ہوسکتا ہے؟ عوام کا کام ہی تنقید کرنا ہے۔ ورنہ بھلا دنیا میں یہ کام ہوسکتا ہے کہ ایک دن جس کے ساتھ ایک تھالی میں کھا رہے ہوں، کل کو اُسی کی ذات کو چوراہے میں لاکھڑا کیا جائے اور حد تو یہ ہے کہ لفظوں میں بھی انتخاب بُرے ترین لفظوں کا کرنا پڑتا ہے، تاکہ نئی پارٹی والے خوش ہوجائیں۔

ہاں لیکن یہاں یہ بات یاد رکھیے کہ معصوم، مظلوم اور قابل رحم صرف یہ سیاستدان ہی نہیں بلکہ اِن سیاستدانوں اور جماعتوں کی پیروی کرنے والے کارکنان بھی ہیں۔ انہیں جس دن ایک لیڈر کو گالیاں دینے کا حکم ہوتا ہے، اگلے ہی دن اُن کے لیے زبان سے پھول نکالنے کے احکامات جاری کردیے جاتے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ذاتی طور پر میں اِن کارکنان کو زیادہ قابل رحم سمجھتا ہوں کیونکہ سیاستدان تو اپنے لیے فائدہ حاصل کرلیتے ہیں لیکن اِن بیچارے کارکنان کو آسروں کے سوائے کچھ نہیں ملتا۔

اِس لیے میری گزارش ہے کہ اب سیاستدانوں پر تنقید ذرا سنبھل کر کیجیے گا، کیوں اُن کے لیے مشکلات بڑھاتے ہیں؟ وہ بے چارے پہلے ہی ذہنی اذیت کا شکار ہیں۔ دل کہتا ہے اخلاق چھوڑنا بُرا ہے اور نئی پارٹی والے کہتے ہیں یہاں جگہ چاہیے تو پچھلی پارٹی کو آڑے ہاتھوں لینا ہوگا، ورنہ سیاسی مستقبل تاریک ہوسکتا ہے، اور بھلا اتنا بڑا نقصان کون اُٹھائے؟

[poll id="1398"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے
اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریراپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک و ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کیساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی۔
Load Next Story