امریکیوں کاقابل اعتماد کھلاڑی کون ہے
’’قابل، ایماندار اور محب وطن ٹیکنوکریٹس‘‘ کی حکومت بنانے کے منصوبے بن رہے ہیں۔
PESHAWAR:
ہر ایک سے دل کی حالتیں بیان کرتے کرتے شاعر کو بالآخر ماننا ہی پڑا ''فراز تم کو نہ آئیں محبتیں کرنی۔'' برسوں سے اسلام آباد میں رہتے ہوئے آتی جاتی حکومتوں اور پکی نوکری والے کاریگر افسروں کی وارداتوں کا بہت قریب سے مشاہدہ کرتے ہوئے میں بھی اکثر اس وہم میں مبتلا ہو جاتا ہوں کہ ''خبر'' مجھ سے چھپ ہی نہیں سکتی۔ مجھے تو بلکہ اس کا پتہ تخلیق کے مرحلوں میں ہی چل جاتا ہے۔ زبان بند رکھ کر بس اسلام آباد کے ان بڑے گھروں میں آمد و رفت بڑھانے کی ضرورت ہے جو دفاعی کاروبار سے متعلق ہیں یا تیل کی بڑی بڑی کمپنیوں کے ٹھیکے لیتے ہیں۔ جنرل مشرف کے دور سے زمینیں خرید یا ہتھیا کر ان پر ہائوسنگ کالونیاں بنانے والوں کا حلقۂ اثر بھی ضرورت سے کچھ زیادہ بڑھ گیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ بہت عمدہ انگریزی بولنے والے مگر رمضان کے مقدس مہینے میں ''شیطان کو بند'' کر لینے والے ''کارپوریٹیے'' بھی ہیں جن کا تعلق ٹیلی کام کے دھندے سے ہوا کرتا ہے۔
ان سب لوگوں کے طفیل ہی چند ماہ پہلے خبر ملی تھی کہ اسمبلیوں وغیرہ کی فراغت کے بعد ''قابل، ایماندار اور محب وطن ٹیکنوکریٹس'' کی حکومت بنانے کے منصوبے بن رہے ہیں۔ اس حکومت کو فوری انتخابات نہیں کرانا تھے۔ کم از کم دو سال تک سر جھکا کر اس ملک سے کرپشن کا خاتمہ کرنا تھا اور ایسی پالیسیاں بنانا تھیں جو معیشت کو بحال کرنے کے بعد پاکستان کی اقتصادی شرح نمو کو سالانہ 5 فیصد سے کسی بھی طور کم نہ ہونے کی گارنٹی فراہم کر دیں۔ چونکہ میرا اپنا نام اس حکومت کے ممکنہ وزیروں کی فہرست میں شامل ہونے کا دور دور تک کوئی امکان نہ تھا۔ اسی لیے مارے حسد اور احساس کمتری کے پھٹ پڑا۔ ''قابل، ایماندار اور محب وطن ٹیکنوکریٹس'' کی حکومت کی خبر دینے کے بعد اس حکومت کے وزیر اعظم کا نام تلاش کرنے میں مصروف ہو گیا۔
اسلام آباد کے طاقتور گھروں میں اسی ضمن میں نام اسد عمر کا گونج رہا تھا۔ جی ہاں وہی عمر صاحب جو ایک بہت بڑے صنعتی ادارے کی سربراہی چھوڑ کر تحریک انصاف میں چلے آئے تھے۔ اسد عمر کی اسلام آباد کے بڑے گھروں میں مقبولیت سے قطع نظر میرا امریکا کی غلامی میں جکڑا ذہن یہ بات ماننے کو تیار ہی نہ تھا کہ اسلام آباد میں الیکشن کرائے بغیر نظر بظاہر ''غیر فوجی ٹیکنوکریٹس'' کی حکومت واشنگٹن کی مرضی اور اشارے کے بغیر قائم کی جا سکتی ہے۔ اسی بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے مجھے شوکت ترین کا نام اس وقت بہت ہی مناسب لگا جب واشنگٹن میں کئی برسوں سے مقیم ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے لوگوں سے گھلنے ملنے والے ایک پاکستانی نے بذریعہ فون اس کا ذکر کیا۔ میں بے وقوف تو شوکت ترین کا نام ''قابل، ایماندار اور محب وطن ٹیکنوکریٹس'' کی حکومت کے لیے ''فائنل'' کر بیٹھا۔
مگر پھرایک صاحب سے ملاقات ہو گئی۔ مجھے خوب پتہ تھا کہ مجھ سے ملنے سے کوئی دو دن پہلے ان کی صدر زرداری سے اکیلے میں ایک لمبی ملاقات بھی ہوئی تھی۔ ایمانداری کی بات ہے ، میں نے ان صاحب سے اپنی ملاقات میں اس کا تذکرہ نہ کیا۔ مگر وہ صاحب خود ہی بول اُٹھے کہ حفیظ شیخ ان دنوں امریکیوں سے راہ و رسم ضرورت سے کچھ زیادہ ہی بڑھا رہے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ استعفیٰ دے کر خود کو اس حکومت کی سربراہی کے لیے تیار کر لیں جس کے تذکرے اسلام آباد کے طاقتور گھرانوں میں تواتر سے ہو رہے ہیں۔ میں ان کی بات سن کر حیران ہو گیا۔ حفیظ شیخ کی تلاش شروع کی تو پتہ چلا کہ وہ 20 جولائی تک ملک سے باہر رہیں گے۔ و ہ کسی سرکاری دورے پر نہیں تھے۔ اپنی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ یورپ کے کسی ملک میں سرکاری مصروفیات سے قطع تعلق کر کے چھٹیاں منا رہے تھے۔ ایسی چھٹیاں جو اعصابی تنائو کو ختم کر کے بڑے لوگوں کو تازہ دم کر دیتی ہیں۔
اقتدار کے کھیل کے کھلاڑی میری طرح کے بے وقوف نہیں ہوتے۔ انھوں نے حفیظ شیخ کی 20 جولائی تک وطن سے غیر حاضری کو اور انداز میں دیکھا۔ خورشید شاہ جیسے ہوشیار مگر ٹھنڈے دماغ والے وسیلے کے ذریعے حکومت اور نواز شریف کے درمیان پیغامات کے تبادلے ہوئے اور اچانک ہمیں پتہ چلا کہ دونوں جماعتوں نے فخر الدین جی ابراہیم کی بطور چیف الیکشن کمشنر نامزدگی پر اتفاق کر لیا ہے۔ اب تو فخرو بھائی نے اپنے عہدے کا باقاعدہ حلف لے کر انتخابی فہرستوں کا اجراء بھی کر دیا ہے۔ حفیظ شیخ کے بارے میں پھیلی کہانیاں بھلا کر ہمیں نئے انتخابات کا انتظار اور سیاستدانوں کو ان میں حصہ لینے کی تیاری شروع کر دینا چاہیے تھی۔
مگر ایک بہت ہی طاقتور اخبار ہوا کرتا ہے۔ نام ہے اس کا ''نیویارک ٹائمز۔'' اسی اخبار میں گزشتہ ہفتے ایک تفصیلی خبر آئی ہے جس میں ٹھوس واقعات کے ذریعے میرے جیسے عامیوں کو بتایا گیا ہے کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان تنائو قدرے کم ہوا ہے۔ افغانستان میں مقیم نیٹو افواج کے لیے پاکستانی راستوں سے جانے والی رسد کی بحالی کشیدگی میں کمی کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ اب تو آئی ایس آئی کے ڈی جی بھی امریکا کے دورے پر ہیں۔ شاید ان کے دورے سے معاملات مزید بہتری کی طرف چل پڑیں۔ پاکستان کے لیے فی الحال سب سے اچھی خبر یہ بھی ہے کہ ایک ارب ڈالر کی وہ رقم جو دہشت گردی کے نام پر ہم اپنے خزانے سے پہلے ہی خرچ کر چکے تھے ہمیں بذریعہ چیک ادا کر دی گئی ہے۔ راجہ پرویز اشرف اس رقم کے وافر حصے سے بجلی پیدا کرنے والوں کا قرضہ اتارکر ملک کو لوڈشیڈنگ کے عذاب سے نجات دلا سکتے ہیں۔
ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم نیویارک کے ایک بینک سے میرا یہ کالم چھپنے تک پاکستانی خزانے میں آ چکی ہو گی۔ مگر بجلی کا بحران اس رقم کے پہنچنے سے پہلے عذاب کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ اس عذاب کے خلاف اتحادی جماعتیں تو کیا ندیم افضل چن جیسے جیالے بھی بلبلا اُٹھے ہیں۔ مجھے یقین نہیں کہ راجہ پرویز اشرف کو یہ مہلت مل پائے گی کہ وہ امریکا سے آئی رقم کو بجلی کے بحران کے خاتمے کی نذر کر کے اپنی جماعت کی تھوڑی بہت عزت آیندہ ہونے والے انتخابات کے دوران بچا سکیں ۔
راجہ صاحب وہ رقم اپنی جماعت کی عزت بچانے کے لیے صرف کر سکیں گے یا نہیں مگر ''نیویارک ٹائمز'' نے ایک ارب ڈالر کی ادائیگی کا سارا کریڈٹ حفیظ شیخ کو دے دیا ہے۔ ہمیں بتایا ہے کہ صدر، وزیر اعظم، وزیر خارجہ اور پاکستان کی امریکا میں مقیم سفیر سے بالا بالا شیخ صاحب نے ہیلری کلنٹن کے با اعتماد معتمد ٹامس نائیڈ کے ساتھ مسلسل مذاکرات کیے۔ بالآخر 2 اور 3 جولائی کی درمیانی شب امریکا اور پاکستان کے باہمی معاملات سلجھانے میں مدد دے سکنے والی دستاویز تیار ہوئی۔ اس دستاویز پر غور کرنے کے لیے وزیر خارجہ حنا ربانی کے گھر، جی گھر دفتر نہیں، میں ایک اعلیٰ سطح اجلاس ہوا جہاں جنرل کیانی بھی موجود تھے۔ انھیں امریکی وزیر خارجہ کی طرف سے ''معافی مانگنے'' کا جو طریقہ بتایا گیا تھا وہ پسند نہ آیا، وہ ناراض ہوئے۔پھراجلاس کچھ دیر کے لیے معطل کر دیا گیا۔ ٹامس نائیڈ اور حفیظ شیخ ایک بار پھر سر جوڑ کر بیٹھے۔ بالآخر ایک ایسی دستاویز تیار ہو گئی جسے جنرل کیانی نے بھی منظور کر لیا۔
اگر آپ کے پاس وقت ہو تو مہربانی فرما کر نیٹ پر جا کر ''نیویارک ٹائمز'' کی وہ کہانی ضرور پڑھ لیجیے گا جس کا میں ذکر کر رہا ہوں۔ ذرا ٹھنڈے دل سے پڑھیں گے تو آپ کی سمجھ میں آ جائے گا کہ ہمارے ملک کے صدر، وزیر اعظم اور وزیر خارجہ امریکیوں کی نظر میں کسی کام کے نہیں رہے۔ امریکیوں سے معاملات کو صرف حفیظ شیخ ہی طے کر سکتے ہیں اور وہ جو کچھ کریں اس کی منظوری جنرل کیانی ہی دیا کرتے ہیں۔ پتہ نہیں میرے دوست رضا ربانی نے یہ کہانی پڑھی ہے یا نہیں اور اگر پڑھ لی ہے تو ابھی تک پاکستان کی ''خودمختار'' پارلیمان کی ''قومی سلامتی کمیٹی'' والی دکان کیوں کھولے بیٹھے ہیں؟!!