بھارت چین سرحدی تنازعہ
1962ء کی بھارت چین سرحدی جنگ کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتے رہے ہیں
1962ء کی بھارت چین سرحدی جنگ کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتے رہے ہیں، لیکن پچھلے کچھ دنوں سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کا گراف تشویشناک حد تک اوپر جارہا ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق چینی وزارت خارجہ کے ترجمان کے مطابق چین اپنی علاقائی سلامتی کے لیے ہر آپشن استعمال کرسکتا ہے۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ بھارت کی چینی سرحدی علاقے سکم پر فوجی کارروائی ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے۔ بھارت لمبی مدت تک سرحد پر کشیدگی برقرار رکھنا چاہتا ہے وہ چین کی طرف سے بار بار سکم سے بھارتی فوجوں کی واپسی کے مطالبے کے باوجود ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کررہا ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت میں موجود چینی باشندوں کی سلامتی کے لیے نئی دلی میں چینی سفارت خانے نے اپنی ویب سائٹ پر سرکاری طور پر اعلان کیا ہے کہ بھارت میں موجود چینی باشندے اپنی سرگرمیاں محدود کردیں۔ سفارت خانے کی طرف سے جاری یہ الرٹ ایک ماہ کے لیے ہے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق سکم میں بھارتی کارروائی ''آبیل مجھے مار'' کے مترادف ہے۔ بھارت کے متنازع علاقے میں دلچسپی اس علاقے کی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے ہے۔ چینی مبصرین کا کہناہے کہ اگر بھارت سرحدی کشیدگی میں کمی نہیں لاتا تو چین بھارت کے خلاف ہر قسم کے فیصلے کا حق رکھتا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مستقبل میں بھارت کے لیے بین الاقوامی چیلنجز میں سب سے بڑا چیلنج چین کی بڑھتی ہوئی فوجی طاقت سے نمٹنا ہے۔ واضح رہے کہ بھارت کی فوجی صلاحیت چین کے مقابلے میں بہت کم ہے، غالباً یہی وجہ ہے کہ بھارت اب تک سرحدی تنازعے کا اپنی مرضی اور اپنے قومی مفادات کے مطابق حل تلاش کرنے میں ناکام رہا ہے۔
بھارت تبت کو بھی ایک عرصے تک اپنا علاقہ ہی سمجھتا رہا ہے لیکن جب چین نے فوجی طاقت کے ذریعے تبت پر قبضہ کرلیا تو بھارت صرف اتنا کرسکا کہ تبت کے روحانی پیشوا کو بھارت میں پناہ دے دی۔ تبت کے دلائی لامہ اب بھارت میں اپنی زندگی کے باقی دن گزار رہے ہیں۔ ماضی کی بادشاہتوںکے دور میں بھی جنگوں کا اہم مقصد دوسروں کے علاقوں پر قبضہ کرنا رہا ہے۔ ماضی کی ان جنگوں کو آج کا ترقی یافتہ انسان جہل کے کارنامے قرار دیتا ہے لیکن آج بھی دنیا کے کئی ملکوں میں دوسروں کے علاقوں پر قبضہ ہی جنگوں کا اصل سبب بنا ہوا ہے۔
اسے ہم اتفاق کہیں یا حسن اتفاق کہ بھارت نے کشمیر پر جو قبضہ جمایا ہوا ہے وہ بھی دوسروں کے علاقے پر طاقت کے ذریعے قبضے کی تعریف ہی میں آتا ہے اور اس کی وجہ بھی یہی بتائی جاتی ہے کہ کشمیر سے بھارت کے قومی مفادات وابستہ ہیں۔ قومی مفادات کا فلسفہ سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں نے بڑی عیاری سے پیش کیا ہے۔ قومی مفادات کے فلسفے کی عمارت انسانوں کی تقسیم کی بنیاد پر کھڑی کی گئی ہے جس کا بنیادی مقصد قومی مفادات کے نام پر مختلف ملکوں کے درمیان جنگ کی راہ ہموار کرنا ہے۔ مغرب کی اسلحے کی صنعت میں کھربوں کی سرمایہ کاری کی گئی ہے اور اس سرمایہ کاری سے سرمایہ کار اربوں ڈالر کا منافع حاصل کر رہے ہیں، اسی پر بس نہیں سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں نے طاقت کے توازن کے نام پر بھی ایک شاطرانہ فلسفہ پیش کیا ہے، جس کا واحد مقصد ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت میں اضافے کے علاوہ کچھ نہیں اس فلسفے کو کامیاب بنانے کے لیے ملکوں کے درمیان عدم اعتماد اور خوف کی فضا قائم کی جاتی ہے یہ کام بڑی مہارت سے کیا جاتا ہے۔
دنیا کے فیصلوں کا اختیار جب تک سیاست دانوں کے ہاتھوں میں رہے گا، جنگیں جاری رہیںگی اور جنگوں کے لیے راہ ہموار کی جاتی رہے گی۔ اس حوالے سے طاقتور ملکوں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی معقول وجہ کے بغیر کسی ملک کے خلاف جنگ جیسی خوفناک کارروائی کا آغازکریں، ماضی قریب کی تاریخ اس قسم کی جارحانہ جنگوں سے بھری ہوئی ہے جس کی ایک بڑی مثال ویت نام کی جنگ ہے۔ جنگ اصل میں بے گناہ انسانوں کی جانوں کے زیاں کا نام ہے، ویت نام کی جنگ امریکی سامراج کے حکمران سیاست دانوں کی ایسی حماقت آمیز جنگ تھی جس میں لاکھوں ویتنامی ہلاک ہوگئے اور خود امریکی فوج کے 59 ہزار سپاہی اس جنگ کی نذر ہوگئے۔
بھارت ایک پسماندہ ترین ملک ہے جس کی آبادی کا 50 فی صد سے زیادہ حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے، ایسے پسماندہ ملک کا حکمران طبقہ ایک طرف کشمیر پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لیے وہاں پر 8 لاکھ فوج کو استعمال کر رہا ہے، بھارت اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوری ریاست کہتا ہے اور جمہوریت کے بنیادی اصول اکثریت کی رائے کے احترام کو پاؤں تلے روند کر ڈیڑھ کروڑ کشمیریوں کی مرضی کے خلاف ان پر مسلط ہیں۔ چین کی ساری توجہ اپنی صنعتی ترقی پر مرکوز ہے، اگر چین بھارت سے سرحدی جنگ میں الجھ جاتا ہے تو منطقی طور پر اس جنگ سے چین کی صنعتی ترقی متاثر ہوگی، لیکن علاقوں پر جائز یا ناجائز قبضے کا کلچر سرمایہ دارانہ نظام کی ضرورت ہے اور چین بھی اب سرمایہ دارانہ نظام کی چادر اوڑھے ہوئے ہے اور پھر فیصلوں کا اختیار ان سیاست دانوں کے ہاتھوں میں ہے، جو دانستہ یا نادانستہ اسلحہ سازوں کے ہاتھوں میں کھیلتے ہیں۔