حکمران طبقہ کی داخلی کشمکش
وزیر داخلہ چوہدری نثار نواز شریف کے قریبی اور وفادار ساتھیوں میں سمجھے جاتے ہیں
LONDON:
مسلم لیگ (ن)اور اس کے قائد نواز شریف اس وقت ایک بڑی مشکل صورتحال سے دوچار ہیں۔ اگرچہ ماضی میں بھی ان کو کئی بڑے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا، لیکن موجودہ بحران ماضی کے بحران کے مقابلے میں بہت بڑا ہے۔
ماضی میں وہ سیاسی مسائل میں الجھ کر اداروں سے ٹکراؤ کا شکار رہے ہیں۔ وہ اس لڑائی کو عمومی طور پر جمہوریت اور سول حکومت کی بالادستی کے نعرے کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ اگرچہ وہ اس حالیہ بحران کو بھی اسی تناظر میں جوڑنے کی کوشش کررہے ہیں، لیکن اس بار مسئلہ اتنا سادہ نہیں۔ کیونکہ اس دفعہ ان کی اور ان کے خاندان کی مالی، سیاسی اور اخلاقی ساکھ پر بنیادی نوعیت کے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ یہ سوالات محض ان کے سیاسی مخالفین تک ہی محدود نہیں بلکہ ملک کی اہم عدالت اور اس کے حکم پر بننے والی جے آئی ٹی نے بھی یہ سوالات مقدمہ سماعت اور تفتیشی عمل میں اٹھائے ہیں ، جس سے ان کو بڑی مزاحمت کا سامنا ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف کے سامنے اس وقت چار بڑے چیلنجز ہیں ۔ اول قانونی یعنی سپریم کورٹ کے محاذ پر ، دوئم سیاسی مخالفین کے محاذ پر ، سوئم میڈیا کے محاذ پر اور چہارم اپنی ہی جماعت اور خاندان کی سطح پر۔ عمومی طور پر جب کسی بھی سیاسی قیادت پر برا وقت آتا ہے یا وہ کسی بڑی طرز کے بحران کا شکار ہوتی ہے تو اس کی اصل طاقت اس کی اپنی جماعت اور داخلی استحکام ہوتا ہے۔
کیونکہ جب سب اس کے مخالفین کسی بھی وجہ کو بنیاد بنا کر اس کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو پارٹی ہی اس کا دفاع کرتی اور تحفظ فراہم کرتی ہے اور مخالفین کے حملوں کا تابڑ توڑ جواب دیتی ہے ۔یہ حکمت عملی مخالفین کو دبانے اور انھیں ناکام بنانے کے لیے اپنائی جاتی ہے۔ اس وقت ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ نواز شریف اور اس کے خاندان پر جو الزامات ہیں وہ ان کی حکومت اور کابینہ پر نہیں بلکہ براہ راست ان کے خاندان پر ہیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ حکومتی سطح پر وزیر اعظم بالخصوص ان کے خاندان کے دفاع میں مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔
اگرچہ ابھی تک ہمیں مسلم لیگ (ن) کے داخلی محاذ پر کوئی ایسی بڑی مشکل دیکھنے کو نہیں ملی کہ جو میاں نواز شریف کے لیے بڑا خطرہ ثابت ہو۔ لیکن اگر صورتحال کا تجزیہ کیا جائے تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس وقت مسلم لیگ(ن)کے داخلی محاذ پر ایک بڑی سیاسی کچھڑی پک رہی ہے ۔ جو لوگ یا سیاسی پنڈت مسلم لیگ کی تاریخ جانتے ہیں چاہے وہ کسی بھی فریق یا گروپ کی ہو وہ کوئی بڑی مزاحمتی سیاست کے ساتھ کھڑی نہیں ہوتی ۔یہ ہی وجہ ہے کہ کنونشن مسلم لیگ سے لے کر آج کی نواز شریف کی مسلم لیگ کی سیاست کا بنیادی نقطہ اقتدار اور اس کے اردگرد بننے والی طاقتور سیاسی تکون کا ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ جب بھی مسلم لیگ اقتدار میں ہوتی ہے اپنے داخلی بحران کے نتیجے میں تقسیم بھی ہوتی اور یہ تقسیم ابھی ہمیں دیکھنے کو مل رہی ہے ، جس پر نواز شریف کو قابو پانا ہوگا۔
وزیر داخلہ چوہدری نثار نواز شریف کے قریبی اور وفادار ساتھیوں میں سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی ایک حیثیت مسلم لیگ، نواز شریف اور داخلی بڑی طاقتوں یا اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ثالث کی بھی ہے جو مشکل وقت میں نواز شریف کو اسٹیبلشمنٹ کی مزاحمتی سیاست سے بچاکر ایک مصالحت کار یا ضامن کا کردار ادا کرتے رہے ہیں ۔خود شہباز شریف بھی اسی سیاست کے حامی ہیں۔
اس لیے یہ تاثر کہ وہ نواز شریف کے خلاف ہیں ، درست نہیں اور نہ ہی ان کی نیت پر شبہ کیا جانا چاہیے۔کہا جا رہا ہے کہ چوہدری نثار بعض وفاقی وزرا اور مشیروں کی سیاسی ، قانونی حکمت عملیوں سے سخت نالاں نظر آتے ہیں ۔ اس کا برملا اظہار انھوں نے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کیا اورکہا کہ وزیر اعظم صاحب یہ سارا بحران آپ کا اپنا پیدا کردہ ہے اور جن نادان و ناسمجھ دوستوں نے آپ کو اداروں کے ساتھ ٹکراؤ کی سیاست میں الجھا دیا ہے، وہ آپ کے خیر خواہ نہیں ۔پارٹی میں جو لوگ چوہدری نثار سے نالاں ہیں یا ان سے سیاسی فاصلے رکھتے ہیں وہ نواز شریف اور چوہدری نثار میں بدگمانی پیدا کرکے خود سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔
بعض سیاسی حلقے کہہ رہے ہیں کہ وزیر داخلہ عملی طور پر کابینہ کے اجلاس میں اپنے تحفظات کا اظہار کرنے کے بعد پارٹی کے اہم مشاورتی اجلاسوں میں شریک نہیں ہو رہے جو پارٹی کے لیے زیادہ مسئلہ بن رہا ہے ۔کیونکہ ان کی عدم شرکت کو بنیاد بنا کر بہت سے لوگ پارٹی میں تقسیم کو پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔جو لوگ بھی مسلم لیگ کی سیاست کا وسیع مطالعہ رکھتے ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اس وقت مسلم لیگ نواز اختلاف رائے کے سبب دو حصوں میں تقسیم ہوتی نظر آ رہی ہے۔
اول کہ ہمیں ریاستی اداروں سے کسی بھی قسم کے ٹکراؤ کی سیاست سے گریز کرنا چاہیے اور اپنی جماعت اور حکومت کو بچا کر اس موجودہ بحران سے نکلنا چاہیے ۔جب کہ اس کے برعکس دوسرا طبقہ سمجھتا ہے کہ سارا بحران غیر سیاسی قوتوں کا پیدا کردہ ہے اور عمران خان اس کا مہرہ ہے اور ہمیں کسی مصلحت کا مظاہرہ کرنے کے بجائے ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے۔ اسی طبقہ کے بقول اس بار اسٹیبلیشمنٹ کسی اور حکمت عملی کو بنیاد بنا کر میدان میں اتری ہے اور وہ جوڈیشل مارشل لا لگانا چاہتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طرف مسلم لیگ (ن)کاایک طبقہ مزاحمت کی سیاست پر زور دیتا ہے ، لیکن وہ یہ بھول جاتا ہے کہ جنرل مشرف کے دور میں جب انھوں نے فوجی مداخلت کے خلاف مزاحمت کرنے کا فیصلہ کیا تو کتنے لوگ ان کے ساتھ کھڑے تھے۔مسلم لیگ(ن) میں ایسے لوگوں کی بڑی تعداد موجود ہے جو سمجھتی ہے کہ اگر ہم نے موجودہ صورتحال میں اداروں کے ساتھ ٹکراؤ کی پالیسی اختیار کی تو اس کا نتیجہ ہمیں 2018ء کے انتخابات میںبڑی ناکامی کی صورت میں دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ اس وقت مسلم لیگ (ن)میں ایک ایسا گروہ موجود ہے جو نجی محفلوں میں اس موقف کی تائید کرتا ہے کہ اگر نواز شریف مستعفی ہوکر اپنی جگہ نیا وزیر اعظم لے آئیں تو اس سے ان کی حکومت ، جماعت اور 2018ء کے انتخابات کو بچایا جاسکتا ہے ، لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا تو اس کا نقصان 2018ء کے انتخابات میں ہوگا اور اس پارٹی کو بھی دوبارہ تقسیم ہونے سے نہیں بچایا جاسکے گا۔
نجی مجالس میں کئی مسلم لیگی نواز شریف اور بعض ساتھیوں کے جارحانہ رویہ اوراسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ٹکراؤ پر پریشان ہیں اور اس کا برملا اظہار کرتے ہیں۔ ان کے بقول بلا وجہ ہمیں مشکل میں ڈالا جارہا ہے، یہ متبادل سیاسی آپشن پر بھی غور کررہے ہیں ،ان کو لگتا ہے کہ یہ کھیل ان کو سیاسی طور پر فائدہ نہیں دے سکے گا۔بنیادی طور پر مسلم لیگ اسٹیبلیشمنٹ کی ہمیشہ سے حامی جماعت رہی ہے ، خود نواز شریف کی مجموعی سیاست اسٹیبلیشمنٹ کی حمایت کے ساتھ ہی کھڑی رہی اور جب بھی ان کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تو نتیجہ اسٹیبلیشمنٹ اور ان کے درمیان نئی مفاہمت کی صورت میں سامنے آیا۔
نواز شریف کو دو باتیں سمجھنی ہونگی کہ چوہدری نثار اور دیگر مصالحت پسندی کی سیاست کرنے والے اہم ہیں ان کو نظرانداز کرکے نواز شریف کی راہ میں بہت سی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں ۔ اس طبقہ کے ساتھ نواز شریف کو مفاہمت کا راستہ اختیار کرنا ہوگا لیکن اس کے لیے وزیر اعظم کو اپنی اداروں کے ساتھ ٹکراؤ کی پالیسی سے گریز کرنا چاہیے۔
چوہدری نثار ارکان اسمبلی میں بھی ایک موثر گروپ تک اپنی مضبوط رسائی رکھتے ہیں اور وہ چوہدری نثار کے ساتھ کھڑے ہونگے۔ دوئم نواز شریف کو سمجھنا چاہیے اس بار ان پر مسئلہ سیاسی نہیں بلکہ کرپشن ، بدعنوانی ، اور بے ضابطگیوں کا ہے جس میں ان کا اور ان کے خاندان پر جے آئی ٹی کے لگائے تحقیقاتی سنگین الزامات ہیں۔ اس لیے ان الزامات کو بنیاد بنا کر نواز شریف کوئی بڑی مزاحمت پیدا نہیں کرسکیں گے۔البتہ یہ کہا جا رہا ہے کہ نواز شریف اس جنگ کو سیاسی بنا کر خود کو سیاسی شہید کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں۔
یہ جو منطق دی جا رہی ہے کہ ہمارے خلاف اصل کھیل غیر جمہوری قوتوں کا ہے اور احتساب محض ان کا ایک نعرہ ہے۔ ان تمام سازشوں کے تانے بانے غیر جمہوری قوتوںسے جوڑے جا رہے ہیں، حالانکہ ان کے خلاف جو ساری سازشیں ہو رہی ہیں وہ محض غیر جمہوری قوتوں کی نہیں بلکہ ان کی اپنی اور سخت گیر ساتھیوں کی پیدا کردہ ہے ، اس لیے مسلم لیگ تقسیم ہوتی ہے یا نواز شریف کا اقتدار ختم ہوتا ہے ، تو اس کی بڑی ذمے داری خود نواز شریف پر بھی ہوگی ۔بہتر ہوگا کہ میاں نواز شریف اس مسلم لیگ کو بچائیں ، وگرنہ مسلم لیگ کا کھیل جو ماضی میں نئی مسلم لیگ کی تشکیل کی صورت میں ہوتا رہا ہے وہ دوبارہ بھی ہوسکتا ہے۔