قوم کس کو ووٹ دیتی ہے
پاکستان کی تاریخ میں صرف ایک بار ہی ایسا ہو سکا کہ کسی جمہوری حکومت نے اپنی مدت پوری کی
کون چاہتا ہے کہ وہ اپنے گھرکی چوکیداری، چوروں کے حوالے کردے ؟ کیا ہم میں عقل نہیں ہے جو ہمیشہ یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کوئی لٹیرا ہی ہمارا سربراہ ہوگا؟ پیپلزپارٹی کی دو حکومتوں پرکرپشن کا الزام لگا کرگھر بھیج دیا مگرکوئی دانشور مجھے یہ بتا سکتا ہے کہ اُس کے باوجود پیپلزپارٹی نے آصف علی زرداری کی قیادت میں حکومت کیسے بنائی ؟ یہ جوعظیم مفکر ہر وقت چلا چلا کر کہہ رہے تھے کہ آصف علی زرداری نے سارا خزانہ لوٹ لیا ان پر عوام نے اعتبارکیوں نہیں کیا؟ نواز شریف صاحب کی پہلی حکومت کو چورکہہ کر گھر بھیج دیا، لیکن ایک مہینے کی تیز سماعت کر کے انھیں بحال کردیا گیا۔ نواز شریف نے اس بحالی کے باوجود استعفی دے دیا ۔ سب چوری کے الزامات لگاتے رہے مگر عوام نے انھیں بھاری اکثریت دے دی ۔ جب اخبار ، TV اور سوشل میڈیا پر ہر وقت ان جماعتوں کے لیڈران کو چور ، دہشت گرد ، بھارت کا پٹھو ، امریکا کا غلام ، یہودیوں کا ایجنٹ اور ملک دشمن کہتے کہتے تھکتے نہیں ، مگر میرے جگر کے ٹکڑے ، میرے لوگ یہ بات کیوں نہیں سمجھتے؟
ایک نظر اپنی باتوں پر غورکر لیجیے کہ کہیں لوگوں کو آپ سے زیادہ ان پر یقین تو نہیں ہے ۔ کہیں عوام کو آپ سے زیادہ ان پر اعتبار تو نہیں ہے ۔ ایک لمحے کو سکون سے آنکھیں بند کر کے غور کیجیے کہ کہیں آپ کے حفاظتی دعوؤں کے باوجود عوام کو سیاسی دہشت گردوں پر اعتماد زیادہ تو نہیں؟میرے چھوٹے چھوٹے سوالوں کے جوابات دیجیے۔ اربوں ڈالر کے اسکینڈل کا شور مچاتے رہے، سپریم کورٹ خط کا شور مچاتی رہی ۔اینکر یہ ثابت کرتے رہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت ان کے ٹی وی شوکے فوراً بعد ختم ہوجائے گی مگر اس کے باوجود پیپلزپارٹی آج بھی سندھ میں مضبوط کیوں ہے ؟ سارے پاناما کے باوجود کوئی اس بات سے انکار نہیں کرسکتا کہ نواز شریف کا ووٹ بینک نہیں ہے ۔کیا ان کو ووٹ دینے والے آپ پر بھروسہ کرتے ہیں ۔ متحدہ کے بانی یا قیادت یا جماعت پر وطن پرستی جو بھی الزام ہو، لیکن کیا حالیہ ضمنی الیکشن میں انھوں نے ووٹ نہیں لیے؟
کچھ لوگ عوام کو جاہل (ایک ڈکٹیٹر نے کہا تھا) کہتے ہیں ۔ مگر یہ جاہل عوام جانتے ہیں کہ ان کے ووٹ کی طاقت کیا ہے ۔ یہ سارا ظلم سہنے کے باوجود کیوں ووٹ ڈالتے ہیں؟ سیاسی جماعتوں کی اکثریت پڑھی لکھی ہے ۔ شہروں میں انھیں ووٹ ڈالنے والے بھی پڑھے لکھے ہیں ۔ پھرکیوں گنگا ہمیشہ tv اسکرین کے الٹی بہتی ہے ؟میں ایک دو نہیں ہزاروں پڑھے لکھے نوجوانوں کو جانتا ہوں جو پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ، تحریک انصاف ، MQM سے وابستہ ہیں ، میں کئی الیکشن کی رپورٹنگ کر چکا ہوں ۔ میں جانتا ہوں کہ ایک بڑی تعداد جو پڑھی لکھی ہے ، سیاسی شعور رکھتی ہے وہ ان کو ووٹ دیتی ہے ۔ میرے بھائی،کیا وجہ ہے کہ یہ سب کچھ جانتے ہوئے ، سیاسی شعور کے باوجود آپ کی بات نہیں مانتی؟
میں اپنی بات کو آگے بڑھانے کے لیے جماعت اسلامی کے ایک عظیم لیڈر قاضی حسین کے الفاظ دہراتا ہوں۔ قاضی صاحب نے 1993 کے الیکشن میں پاکستان اسلامک فرنٹ کے نام سے ووٹ مانگا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کراچی سے لے کر خیبر تک انھوں نے شاندار الیکشن مہم چلائی ۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) سے زیادہ بڑے جلسے کیے۔ پورے پاکستان میں 105 امیدوارکھڑے کیے۔ انھوں نے اپنے جلسوں میں نواز شریف ، بینظیر بھٹو اور تمام مخالفین کے خلاف کرپشن کی کہانیاں سُنا دی، مگر نتیجہ یہ نکلا کہ عوام نے اکثریت ان دونوں کو ہی دے دی ۔ پیپلز پارٹی کو 89 اور نواز شریف کو 73 سیٹیں ملی۔ پاکستان اسلامک فرنٹ کو صرف تین سیٹیں ملی ۔ اس ناکامی پر قاضی حسین نے کہا کہ قوم نے مجبورا چوروں اور ڈاکوؤں کو ووٹ دیا کیونکہ انھیں ہماری کامیابی کا یقین نہیں تھا ۔کیا قاضی حسین صاحب کی بات کو مان لوں ؟کیا عوام مجبور ہیں؟
پاکستان کی تاریخ میں صرف ایک بار ہی ایسا ہو سکا کہ کسی جمہوری حکومت نے اپنی مدت پوری کی، اور پھر 2013 میں دوسری منتخب جماعت کو حکومت دے دی ۔ ورنہ حکومت گرانے اور بنانے کا اختیار عوام کو مل ہی نہیں سکا ۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اگر پھر الیکشن ہوئے تو عوام انھیں مبینہ بدعنوانوں کو ووٹ دیں گے ، لیکن کیوں؟
پہلی وجہ کیا یہ ہوسکتی ہے کہ عوام کو ان لوگوں پر بھروسہ ہی نہیں ہے جو انھیں صبح شام چوری کے نت نئے قصے سناتے ہیں؟ کیا وہ سیاستدانوں کو ان اینکروں ،اداروں ، محکموں اور لوگوں سے زیادہ ایماندار سمجھتے ہیں جو عوام کے ووٹ کا احترام نہیں کر تے؟ یا پھر ووٹ دینے والے عوام یہ سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ چور تو ہیں پر مارکر چھاؤں میں پھینکتے ہیں؟ یا پھر عوام یہ سوچتے ہیں کہ چھوٹا چورکون ہے؟ یا پھر بھارت کا ایجنٹ ٹھیک ہے یا امریکا کا غلام ۔ یہودیوں کا پیسہ ٹھیک ہے یا کرپشن کی دولت۔ وہ کون سے عناصر ہیں جو اربوں روپے کے پروپیگنڈے، کھربوں روپے کے آپریشن، غداریوں کے سرٹیفیکٹ کے باوجود عوام کو ان کی طرف لے جاتے ہیں۔
بھٹو کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد بے نظیر بھٹو نے جیلوں میں قیامت کی سختیاں برداشت کی۔ حد یہ تھی کہ زبردستی اُن کے آپریشن بھی کردیے گئے ، ملک سے نکال دیا گیا، جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی دباؤ ڈالا گیا۔ عوام کے سامنے ضیاء دور میں یہ تاریکی ہر طرف پھیلائی گئی کہ بھٹو قیادت کرپٹ ہے، چور ہے، بھارت کی ایجنٹ ہے۔ امریکا کی یار ہے۔ یہودیوں کی زبان بولتے ہیں، دہشت گردی کرتے ہیں ۔ الذوالفقارکو دنیا کی سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم کہا گیا، لیکن 2 دسمبر 1988 کو بے نظیر ملک کی پہلی خاتون وزیراعظم بن گئی ۔ کسی نے ہماری غیرت کو للکارا، کسی نے کہا خاتون کی سربراہی جائز نہیں ۔ سب اچھا ہے کہنے والوں کے باوجود لوگوں نے بے نظیر کو ووٹ دیا ۔ 6 اگست 1990 کو ان پرکرپشن کے الزامات لگا کر گھر بھیج دیا۔ پیسے اور طاقت کی بنیاد پر آئی جے آئی بنی ۔ نواز شریف صاحب نے 6 نومبر 1990 کو وزیر اعظم کا حلف لیا ۔ ان پر بھی کرپشن کے الزامات لگے۔ 18 اپریل 1993 کو نواز شریف پر کرپشن کے الزامات لگا کر گھر بھیج دیا گیا، مگر صرف ایک مہینے بعد 26 مئی کو سپریم کورٹ نے ان کی حکومت بحال کر دی ۔ دباؤ برداشت نہ کر سکے اور دو مہینے بعد 18 جولائی 1993 کو انھوں نے اسمبلی توڑ دی، لیکن پھر عوام نے پیپلزپارٹی اور نواز شریف کو دو بار اقتدار دیا۔
میرے عزیز ہم وطنوں ! یہ سارے کرپشن کے قصے پرانے ہیں۔ کئی حکومتیں گئیں اورکئی وزرائے اعظم کو گھرکا راستہ دیکھایا گیا۔ عوام کو معلوم ہے کہ چور کون ہے، لیکن سارا مسئلہ اعتبار اور اعتماد کا ہے۔ انھیں آپ پر اعتبار نہیں ۔ کیونکہ جن جن دعوؤں کی بنیاد پر آپ نے عوام کے ووٹ کو جھٹلایا وہ کبھی پورے نہیں ہوسکے۔ ایوب خان سے لے کر آج تک احتساب کا نام ''ٹرینڈ'' ہی بنا رہا۔ اس لیے عوام نے قاضی صاحب کو ووٹ دیا یا نہیں دیا وہ ان کی اس بات کو ضرور سمجھتی ہے کہ آپ کچھ بھی کر لو آپ جیت نہیں سکتے ۔ آپ چہروں سے انتقام لے سکتے ہیں نظام نہیں بدل سکتے۔ جب عوام کو آپ کی بات پر اعتبار آیا تو چوروں کو ووٹ نہیں ملے گا ۔لیکن ا س کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ آپ عوام سے ان کا حق چھین لیں۔