ہڈیاں ہماری کھال تمہاری
لوگوں کے گھروں میں کام کرنے والے بچے جب کئی دنوں کے بعد گھر لوٹتے ہیں تو ان منہ پر سوجن کیوں ہوتی ہے
جب ہم بچے کو اسکول بھیجتے ہیں تو وہ بیماری کے بہانا کیوں بناتا ہے، روزانہ چائے کے ہوٹل پر برتن دھونے اور بے رحم گاہگوں کا سامنا کرنے سے پہلے کوئی بچہ بار بار غریب ماں باپ سے یہ کیوں کہتا ہے کہ مجھے آج کام پر نہیںجانا۔گارمنٹ کی فیکٹریوں سے لے کر پنکچر کی دکانوں اور گاڑیوں کی ورکشاپوں میں کام کرنے والے بچوں کے جسم پر چوٹوں کے نشان کیوں پائے جاتے ہیں۔
لوگوں کے گھروں میں کام کرنے والے بچے جب کئی دنوں کے بعد گھر لوٹتے ہیں تو ان منہ پر سوجن کیوں ہوتی ہے۔ یہ سب سوالات ان ماں باپ کے ذہن میں تو شاید کبھی نہ اٹھتے ہوں جو ایک دوسرے سے بات چیت کے دوران بھی یہ خیال رکھتے ہیں کہ ہماری کسی بات سے بچے کی زندگی پر منفی اثرات مرتب نہ ہوں ، مگر ایسے والدین تو روز جینے اور مرنے کے عمل سے گزرتے ہیں جن کے بچے اپنے خاندان کا پیٹ بھرنے کے لیے ہر صبح تھکے بدن اور چندھیائی آنکھوں سے ناشتہ کرنے کے بعد چپ چاپ اٹھ کر بے رحم مشقت سے پنجہ آزمائی کے لیے چل پڑتے ہیں ۔ پہاڑ جیسے دن اور بجلی کی طرح کڑکتی بے رحم آنکھوں کو شکست دینے کے لیے پانی نما چائے کے ساتھ رات کی بچی ہوئی ٹھنڈی روٹی کا ناشتہ انتہائی نا کافی ہوتا ہے، مگرکبھی کبھی تو یہ بھی نصیب نہیں ہوتا اس لیے کہ گھر میں اتنی روٹیاںہی کہاں بنتی ہیں کہ وہ صبح تک بچ پائیں۔
بچوں پر تشدد کا گلہ اُس نام نہاد پڑھے لکھے جج سے تو کیا جا سکتا ہے جس کی پڑھی لکھی بیوی نے اپنی ملازمہ بچی پر اتنا تشدد کیا کہ اس کی پہچان ہی نا ممکن ہوگئی ، مگر اُس دیہاتی سے کوئی کیا گلہ کرے گا جس نے آٹھ سالہ مدثرکوگدھے کے پیچھے باندھ کر پتھریلی زمین پر تڑپ تڑپ کر مرنے کے لیے چھوڑ دیا تھا ۔ مسکین نامی یہ ملزم سزا کا مستحق تو ہے ، مگر اس سے زیادہ رحم کا بھی مستحق ہے کہ اس کے ساتھ بھی بچپن میں شاید ایسا ہی بے رحمانہ سلوک کیا گیا ہو گا جس کی وجہ سے وہ کسی بچے کو مارنے پیٹنے، اس پر تشدد کرنے، یہاں تک کہ اسے انتہائی اذیت دے کر زندگی سے محروم کرنے کے عمل کو بھی معیوب نہیں سمجھتا ۔ پچھلے دو ہفتوں کے دوران پنجاب کے مختلف علاقوں سے ایسے چار واقعات ہمارے سامنے آئے ہیں جن میں چار چار سال کے بچوں کو اپنے بے رحم ہاتھوں سے مسلنے کے بعد درندہ نما انسانوں نے انھیںموت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔
ہم یہ بات دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ ہوس کے ان پجاریوں کے ساتھ بھی بچپن میں ایسے ہی ہوس ناک واقعات پیش آئے ہوں گے ورنہ وہ ایسا خطرناک قدم اٹھانے سے پہلے ان کے نتائج کے بارے میںہزار دفعہ سوچتے۔انسانی نفسیات کی لاکھوں گھتیاں ہیں جن میں محرومی کی ہزاروں داستانیں بندھی ہوئی ہیں۔ان محرومیوں میں بچپن کی محرومیاں بھی شامل ہوتی ہیں جو زندگی کے آخری حصے تک انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ چھوڑیں گی بھی کیسے کہ ہم کسی نفسیاتی عمل کو سمجھنے سے پہلے تعلیمی مرحلے سے ہی نہیں گزر پاتے۔تعلیم جس پر سب کا حق ہے مگر یہ حق محض ان خاندانوں تک محدود ہے جوتعلیم حاصل کریں یا نہ کریں جائیداد کی طرح اسے خرید بھی لیتے ہیں اور بہت آسانی سے زمین کے مالکانہ حقوق کی طرح انھیں اس کی ڈگریاں بھی مل جاتی ہیں۔ ہمارے ایک صوبے کے وزیر اعلیٰ تو یہ کہہ کر ہمارے تعلیمی نظام کی اہمیت پر مہر ثبت کرچکے ہیں کہ اصلی ہو یا جعلی ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے۔ بد قسمتی سے ایسی ڈگریاں نہ صرف ہمارے کچھ روایتی تعلیمی ادارے انتہائی آسانی سے بیچ رہے ہیں بلکہ اب کسی بچے کو اے لیول کی ڈگری چاہیے تو اسے وہ بھی مل سکتی ہے۔
پرائمری کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ہم جس ہائی اسکول میں داخل ہوئے وہاں چھٹی جماعت سے انگریزی پڑھانے کی ابتدا ہوتی تھی۔ اے بی سی یاد کرنے سے پہلے ہی جب انگریزی پڑھنے کا مرحلہ شروع ہوا تو انگریزی کا استاد ہاتھ میںایک موٹا سا ڈنڈا لے کر کلاس روم میں داخل ہواور آتے ہی ہمیں ایک دن قبل پڑھایا جانے والاانگریزی کا سبق زبانی سنانے کا کہا۔ ہم دیہاتی بچے اس موقعے پر تھر تھر کانپنے لگے کہ انگریزی تو کیا اردو بھی پڑھتے ہوئے ہمیں مشکل درپیش تھی، مگر ہمارے بے رحم استاد نے ہماری یہ مشکل سمجھنے کے باوجود ہمارے ہاتھوں پر اپنی پوری طاقت سے اس طرح ڈنڈے برسائے کہ کئی گھنٹے تک ہمارے ہاتھ سیدھے ہی نہ ہو پائے۔ طیبہ پر تشدد کرنے والے پڑھے لکھے خاندان کی طرح جاگیر دار گھرانے سے تعلق رکھنے والا وہ نام نہاد استاد بھی شاید یہ بات نہیں جانتا تھا کہ انسانی ہاتھ میں کتنی ہڈیاں ہیں اور وہ کتنی نازک ہوتی ہیں۔ انگریزی کے اس استاد کی وجہ سے ہمارے کئی ہم جماعت اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر راج مزدور کا کام کرنے لگے یا سرکاری اداروں میں بھرتی ہو گئے۔
2016ء میں بچوں پر تشدد کا ترمیمی بل منظور ہوا تھا، جس کے مطابق بچوں کے جنسی، جسمانی اور نفسیاتی استحصال کے سلسلے میں الگ الگ سزائیں مقررکی گئی تھیں۔ اس کے باوجود بچوں کے جسمانی اور جنسی تشدد میں کمی کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے ۔ ہمارے خیال میں ہمارا تعلیمی نظام ہی ہمارے بچوں کا سب سے بڑا دشمن ہے جس کے نصاب سے وہ اسباق اور منظومات ہی ہٹا دی گئیں، جن سے وہ یہ سیکھتے تھے کہ انسانوں ، جانوروں، پھولوں ، اور پرندوں یہاں تک کہ درختوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جانا چاہیے۔ تعلیم کا بنیادی مقصد کیا ہے اور انسان کو اشرف المخلوقات کیوں کہا گیا ہے ۔زیادہ تر بچوں کے والدین اب بھی اساتذہ سے روایتی انداز میں اسی بات کہ متمنی ہوتے ہیں کہ '' ہڈیاں ہماری، کھال تمہاری۔'' یعنی بچے کی اخلاقی، روحانی،ادبی اور سماجی تربیت ہو یا نہ ہو جانوروں کی طرح مار کھا کھا کر اسے کاغذ کی ایک ڈگری ضرور حاصل کرنی چاہیے تاکہ کل وہ بھی کسی اسکول میں استاد کی مقدس مسند سنبھالنے کے بعد ڈنڈا لے کر اپنے شاگردوں سے وہی سلوک کرے جو خود اس کے ساتھ ماضی میں ہو چکا ہے۔