فیصلہ عوام کریں گے

تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی نے عالمی سازش کو کامیاب بنانے کے لیے ہاتھ ملا لیے ہیں


[email protected]

تحریک انصاف نے مطالبہ کیا ہے کہ نیا وزیراعظم نہیں بلکہ نئے انتخابات ہونے چاہییں جب کہ پیپلزپارٹی کا کہنا ہے کہ نئے الیکشن نہیں بلکہ نیا وزیراعظم آنا چاہیے۔ میرا خیال ہے کہ اس محاورے کے استعمال کا یہ مناسب ترین موقع ہے کہ بلی تھیلے سے باہر آگئی کیونکہ اپوزیشن حکومت کو احتساب کی آڑ میں عدم استحکام کا شکارکرنا چاہتی ہے، جب کہ عوام نے حکومت کو پانچ سال کے لیے منتخب کیا تھا۔ وطن عزیز میں حکومتوں کو مدت پوری نہ کرنے کا ڈراما بارہا دہرایا گیا ہے۔ اس سے قبل میں بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کی حکومتوں کو مدت پوری نہیں کرنے دی گئی اور بین الاقوامی و ملکی سطح پر سازشیں کرکے عوامی حکومتوں کو عدم استحکام سے دوچارکیا گیا۔

اس صورت میں کوئی جمہوری حکومت ملک و قوم کی ترقی وخوشحالی کے لیے دل جمعی سے کیونکر منصوبہ بندی کرسکتی ہے۔ دنیا تیزی سے ترقی کررہی ہے، وقت بہت آگے نکل گیا ہے۔ اب پاکستان میں بھی اوچھے ہتھکنڈوں اورگھٹیا سازشوں کے ذریعے حکومتوں کی تبدیلی کے عمل کو بندکرانا ہوگا۔ اب آئیے جے آئی ٹی کی رپورٹ کا ڈھول بجانے والوں کے موقف کی طرف ۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ جے آئی ٹی کوئی عدالت نہیں تھی بلکہ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کو تفتیشی رپورٹ کی تیاری کا ہدف دیا تھا۔ اس نے اچھی یا بری جیسی رپورٹ تیار کی اسے سپریم کورٹ میں جمع کرادیا ۔ آپ نے رپورٹ سامنے آنے کے بعد استعفے کا طوفان کھڑا کردیا۔

ذرا سوچئیے جے آئی ٹی کی رپورٹ ابھی محض رپورٹ ہے۔ اس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے تک آپ کوئی اپنی رائے قائم نہیں کرسکتے۔ حکومت کو سازشوں میں گھیرنے کی کوشش کرنے والوں ابھی عدالتی فیصلے کا ہی انتظار کرلیتے۔ وقت سے پہلے سے شور مچانا شروع کردیا کہ شیر آیا، شیر آیا۔

وزیراعظم محمد نوازشریف نے دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا کہ'' میں دباؤ میں آکر استعفیٰ نہیں دوں گا'' اور یہی بات مریم نواز بھی کہہ چکی تھیں کہ وزیر اعظم استعفیٰ نہیں دیں گے۔ نوازشریف مضبوط اعصاب کے مالک ہیں، انھوں نے سازشوں کا مقابلہ کرنے کا اعلان کرکے جرأت مندانہ اقدام کیا ہے۔ آیندہ سال ملک میں عام انتخابات ہونے ہیں درحقیقت نوازشریف کی قسمت کا فیصلہ اپوزیشن یا جے آئی ٹی نہیں بلکہ اصل فیصلہ اب الیکشن میں عوام کریں گے۔ سازشوں میں تیزی آنے کا ایک بڑا سبب بھی یہی ہے کہ الیکشن 2018 میں نوازشریف اپنی کارکردگی کی بنیاد پر فاتح دکھائی دینے لگے تھے۔ کیونکہ انھوں نے اپنے سوا چار سال کے دورِ حکومت میں ملک و قوم کی بے مثال خدمت کی ہے۔

ملک میں امن وامان کا قیام، دہشتگردی کا خاتمہ، توانائی کے بے شمار منصوبے، لوڈشیڈنگ میں زبردست کمی، شاہراہوں اور موٹرویزکی تعمیر، قومی و صوبائی انتخابات کے بعد مسلسل انتخابی کامیابیاں، بلدیاتی اور ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کو شکست سے دوچار کرنا، دیگر صوبوں کے ساتھ ساتھ سندھ میں نوازشریف کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اس کی واضح مثالیں ہیں، لیکن ان سب سے بڑھ کر پاکستانی قوم کی قسمت بدلنے والا منصوبہ سی پیک ہے جس کا آغاز سیاسی و عسکری قیادت نے بڑے عزم کے ساتھ کیا اور یہ بھی واضح کردیا کہ سی پیک کے خلاف ہر خطرے سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں اور یہ کریڈٹ بھی حکومت کو جاتا ہے کہ جس نے اس منصوبے پر تیز رفتاری سے کام کیااور مکمل کیا اور گوادر پورٹ کو آپریٹ کردیا۔ جہاں سے چینی جہاز اوپن سی میں جانے شروع ہوگئے ہیں۔ اس منصوبے سے ملک میں ترقی و خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔ اور پورے خطے میں پاکستان کو غیر معمولی حیثیت حاصل ہوجائے گی۔ اس سلسلے میں چین جیسے عظیم دوست نے پاکستان کا غیر معمولی انداز سے ساتھ دیا۔

چین ماضی کے حکمرانوں کے مقابلے میں نوازشریف پر زیادہ اعتمادکا اظہار کرتا ہے۔ پاکستان اور چین کی کوششوں سے شروع ہونے والے اس عظیم منصوبے کو دنیا بھر میں اہمیت دی جارہی ہے لیکن مذکورہ منظر نامے کوکوئی پاکستان دشمن کیسے برداشت کرسکتا ہے۔ بھارت کا رویہ نہ صرف مخالفانہ رہا بلکہ وہ سی پیک کے خلاف بھیانک سازشیں کرتا رہا ہے اور پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے ملک میں دہشتگردی کے نیٹ ورک کو منظم کرکے پاکستان دشمن کارروائیوں میں ملوث رہا ہے اس کے جاسوس بھی پاکستان میں سازشیں کرتے ہوئے گرفتار ہوئے ہیں۔ چین سے پاکستان کے خصوصی تعلقات کی وجہ سے امریکا، بھارت سے زیادہ قریب ہوگیا ہے۔ دونوں ملک پاکستان کی تیز رفتار معاشی ترقی اور سیاسی استحکام پر بھارت اور امریکا کی رات کی نیندیں حرام ہوچکی ہیں۔ جس کا منطقی تقاضا یہ تھا کہ پاکستان کی سیاسی حکومت کو غیر مستحکم کیا جائے۔ سیاسی افراتفری پیدا کی جائے۔ امریکی اور بھارتی ایجنٹوں نے جے آئی ٹی کی رپورٹ کی آڑ میں ان ہی مقاصد کی تکمیل کے لیے کام کیا ہے ۔ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سیاسی عدم استحکام نے معیشت پر منفی اثرات مرتب کرنا شروع کردیے ہیں۔ دنیا بھر کے ذرایع نے پاکستان کی اس صورت کو سنگین قرار دیتے ہوئے لکھا ہے پاکستان نے کئی برسوں سے جاری بدامنی اور معاشی بدحالی کے بعد حال ہی میں امن و امان کی بہتر صورتحال اور معاشی بحالی دیکھی ہے لیکن جے آئی ٹی رپورٹ نے پاکستانی معیشت کو توقع سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ وزیر اعظم سے مستعفی ہونے کے مطالبات نے سرمایہ کاروں میں بداعتمادی پیدا کرتی ہے۔ اسٹاک ایکسچینج نو برس بعد پہلی بار انتہائی مندی کا شکار ہورہی ہے۔ 2013 کے بعد پہلی بار سرمایہ کار سر پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں۔ بلاشبہ وزیر اعظم ترقی کے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں لیکن اپوزیشن انھیں ترقی کے ایجنڈے سے ہٹانا چاہتی ہے۔ یقینا جمعیت علمائے اسلام(ف) کے قائد مولانا فضل الرحمن کا یہ کہنا درست معلوم ہوتا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ تباہ کرنے اور پاکستان میں عدم استحکام کے لیے پانامہ کا ہنگامہ کھڑا کیا گیا ہے۔

تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی نے عالمی سازش کو کامیاب بنانے کے لیے ہاتھ ملا لیے ہیں۔ انھوں نے سوال کیا کہ پاناماکیس کا مقصد کرپشن کا خاتمہ ہے یا نوازشریف کو اقتدار سے اتارنا ہے۔ کیا نوازشریف آج دولت مند ہوئے ہیں جو اتنا شور مچایا جارہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی سی پیک کے خلاف متحد ہوگئی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اپوزیشن کے مضحکہ خیز مطالبات سے نہ صرف سیاسی عدم استحکام پیدا ہوگا بلکہ ملک میں جمہوریت بھی کمزور ہوگی۔ پاکستان کی جمہوریت پسندوں کو اس تاریخی موڑ پر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور عوام کو موقع دینا ہوگا کہ وہ 2018 کے عام انتخابات میں نوازشریف کی قسمت کا فیصلہ کریں جو یقینا ان کے حق میں دکھائی دے رہا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں