جمہور اور جمہوریت

جس ملک کی پارلیمان میں انتخاب کے لیے کوئی معیار نہ ہو تو وہاں صاحب الرائے کہاں سے آئیں گے۔


Anis Baqar August 03, 2012
[email protected]

KARACHI: پاکستان جیسے ملک جہاں موروثی سیاست،وڈیرہ شاہی،پیری مریدی، نسل پرستی، برادری اور جہالت کا دور دورہ ہے وہاں رائے دہی ایک مذاق سے کیا کم ہے۔ یہاں ایک بار جس پارٹی اور گروہ کا قبضہ ہوجائے، اس سے آزادی پانا آسان نہیں۔ پس ماندہ طبقات کو بلند کرنا عوام کو ان کی زندگی میں آسایش پیدا کرنا، رہایش کے مواقعے پیدا کرنا، تعلیم عام اور غیر طبقاتی بنانا، جمہوریت کے ثمرات میں سے چند ہیں۔ ہمارے ملک میں تعلیم کا اوسط بتدریج گھٹ رہا ہے اور حکمران سمیت ایک ایسا طبقہ پیدا ہوگیا ہے جو جعلی ڈگریوں پر ملک میں قانون سازی کررہا ہے،

جس ملک کی پارلیمان میں انتخاب کے لیے کوئی معیار نہ ہو تو وہاں صاحب الرائے کہاں سے آئیں گے۔ نسل پرستی، فرقہ پرستی ہی پروان چڑھے گی۔ نقل کرکے یا پیسے خرچ کرکے اسناد لینے والی نسل پروان چڑھ رہی ہے۔ اس میں غور و فکر کجا وہ تو وقتی فائدے کو ہی فائدہ سمجھتے ہیں، انھیں کیا معلوم کہ آگے کیا مسائل درپیش ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت کا مطلب جو عام آدمی کی سمجھ میں آرہا ہے، وہ یہ کہ آپ کو ہر چیز کی آزادی ہے، خواہ آپ دوسرے کی آزادی سلب کرکے اپنی من مانی کریں۔ اب تو صورتِ حال یہ ہوچکی ہے، مجرموں کی رہائی کے لیے ان کے ساتھی لٹیروں کو سڑکوں پر لاتے ہیں، کیونکہ ان کی نظر میں یہی جمہوریت کا مفہوم ہے۔

اغوا برائے تاوان لینے والے اپنے عمل میں آزاد ہیں۔ بقول چیف جسٹس پاکستان افتخارمحمد چوہدری غریب ہونے کے معنی یہ ہیں کہ وہ 302 کا مجرم ہے، یعنی قاتل ہے اور ظاہر ہے قاتل کی سزا موت ہے۔ اس لیے اسے مرنے، خودسوزی اور خودکشی کی آزادی ہے۔ جمہوریت کی بے لگام تشریح انسانی حقوق کے منافی ہے۔ یعنی آپ اپنے عمل میں رائے زنی، آزادیٔ افکار کی تشریحات میں آزاد ہیں، مگر آپ کو اس امر کی آزادی نہیں کہ دوسرے کی رائے زنی اور اظہارِ خیال پر پابندی لگائیں۔ جس طرح ایک فرد کو ایک ووٹ اور رائے زنی کی آزادی ہے، ایک جمہوری معاشرے میں حکومت عوام کی جان و مال کی نگراں ہوتی ہے،

اسی بنیاد پر وہ 4 یا 5 برس کے لیے حکومت کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ مگر جمہوری حکومتیں اگر محض اپنی کرسی کی طرف دیکھیں اور ملک کے عوام کے لیے اور حکمرانوں کے لیے الگ قانون ہو تو پھر یہ جمہوری عمل اور انسانی حقوق سے متصادم قوانین ہوں گے۔ پاکستان میں کئی مرتبہ قانون کی حکمرانی کو بالائے طاق رکھا گیا۔ اس میں صرف ملٹری حکمرانوں کا قصور نہیں بلکہ ملکی حالات کو اس نہج پر لایا گیا کہ وہاں خلا پیدا ہوا۔ 1956 میں اسکندر مرزا کی ہوشیاری اور سازش ایوب خان کو اقتدار میں لائی۔

1977 میں 9 ستاروں کی موجودگی اور پڑوسی ملک افغانستان کے کمیونسٹ ملک میں تبدیل ہونے پر مغرب نے ضیاء الحق کو آئین معطل کرنے کا اختیار دیا جس کی بِنا پر پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت سے محروم ہوا اور افغان جنگ میں مغربی اتحاد بنا۔ جب ضیاء الحق کا مشن پورا ہوا تو پھر مغربی دنیا نے پھر جمہوری منصوبہ تیار کیا اور ایک نام نہاد جمہوریت جس کا کنٹرول نیٹو کے ہاتھ میں ہو، وہ برسر اقتدار لائی گئی۔ یہ بات اب سب پر عیاں ہوگئی ہے کہ اقتدار کا سرچشمہ یقیناً عوام ہیں، مگر رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے ایسے زمینی حالات پیدا کیے جاتے ہیں کہ حکومت بدل جائے اور جب تک حکومت عالمی اقتصادی نظام کے ماتحت اور ان کی پالیسیوں پر عمل کرے گی۔

حکومت جاری رہے گی۔ بے نظیر شہید کی حکومتوں کا دو مرتبہ کا احوال اور نواز شریف کی حکومت کا ایک بار زوال خود نواز شریف کی پالیسیوں، عدلیہ سے تصادم اور کارگل وار تھی۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ پاکستانی عوام حکومتیں بدلتے ہیں یقیناً یہ درست ہے مگر ان کی رائے کو بھیڑ چال بنانے میں عالمی اور اندرونی قوتوں کا ہاتھ ہوتا ہے۔ یہ کوئی جمہوری روایات کے باعث نہیں ہوتا۔ جمہوریت کے ان لگ بھگ 4-½ برسوں میں عالمی سیاست کے اعتبار سے جو نشیب و فراز آئے حکومت کب کی جاچکی ہوتی

مگر اسامہ بن لادن کے آپریشن کو بنیاد بنا کر نیٹو ممالک نے کوئی بڑا قدم نہیں اٹھایا بلکہ اسامہ بن لادن اور پھر ملاعمر کی موجودگی پر امریکا کے اصرار میں شدّت نہیں آئی، لہٰذا یہ کہنا کہ پاکستان میں جمہوری عمل کو غیر جمہوری قوتیں اور سازشیں ختم کرتی ہیں غلط ہے۔ سازشیں تو ایک طرف اس میں جمہوری یا غیر جمہوری حکومتوں کی اپنی کوتاہیوں اور خامیوں کا بڑا دخل ہے۔ ایسے حالات پیدا ہوجاتے ہیں کہ مداخلت کاروں کو مداخلت کرنے کا موقع حاصل ہوتا ہے، یہ دو طرفہ عمل ہے، اس میں عوام کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔

ناحق ہم مجبوروں پر تہمت ہے مختاری کی

سادہ لوح عوام جو بہ مشکل اپنا نام لکھ سکتے ہیں، کسی وڈیرے کی سرپرستی میں ہیں، کیونکر کسی تبدیلی کا باعث بن سکتے ہیں۔ غریب اور ان پڑھ کی سمجھ میں نہ امریکا آتا ہے نہ پاکستان، نہ سیٹھ نہ وڈیرہ بلکہ پیٹ کی بھوک، تن کا کپڑا اور روزمرّہ بتاتا ہے کہ ان کی زندگی پست ہورہی ہے یا بہتر۔ بے روزگاری اور مہنگائی عام آدمی پر ضرب کاری ہے۔ آزادیٔ اظہارِ رائے تو بعد کی بات ہے، ابھی تک لوگ پاکستان کے چھوٹے قصبوں میں نجی جیل میں رہتے ہیں اور آئے دن وڈیرے کی جیل سے لوگ آزاد کرائے جاتے ہیں۔

کیا کسی جمہوری ملک میں کسی نجی جیل کا تصور ہے؟ تو پھر یہ کیسی جمہوریت ہے۔ یہ جمہوریت نہیں بلکہ جمہوریت کشی اور جمہوریت اور جمہوری عمل کو بدنام کرنا ہے۔ گزشتہ 5 برسوں میں جتنے اسکینڈل نمایاں ہوئے غالباً 50 برس کی تاریخ میں ایسا نہیں ہوا مگر صاحبانِ جمہوریت نے اس کا سدباب کرنے کے بجائے ہر چیز کو سازش قرار دے کر راہِ فرار اختیار کی۔ کرکٹ ہو، میمو گیٹ، پاسپورٹ اسکینڈل، اسامہ بن لادن کا مسئلہ ہو۔ توانائی کا بحران ہو، روزمرّہ کراچی کے حالات خصوصیت کے ساتھ بلوچستان کا مسئلہ، یہ سب کا سب سازش قرار دیا جاتا ہے اور کرسی بچانے پر توجہ صرف کی جاتی ہے۔

حکمرانوں کا انداز نظر یہ ہے کہ یہ جو اٹھارہ کروڑ ہیں، یہ سب کے سب جہل کا نچوڑ ہیں، ان کی کیا اہمیت ہے۔ یہ انتخابات تو صرف کاغذ کا پیٹ بھرنے کے لیے ہیں۔ ایک وقت سوویت یونین کے مردِ آہن جوزف اسٹالن نے کہا تھا کہ ڈپلومیسی اور جنگ میں ایک قدم پیچھے کا مطلب 2 قدم آگے ہوتا ہے، مگر عوام کو اعتماد میں لیے بغیر پالیسیاں نہیں بنانی چاہییں، ورنہ اس کا انجام بے اطمینانی اور ریاست سے عوام کا اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ شاید شیری رحمان کو یہ ادراک نہیں کہ مستقبل کا افغانستان پاکستان کا وہ ہمسایہ نہیں جیسا وہ سمجھتے ہیں بلکہ بھارت نسبتاً بہتر ثابت ہوگا کیونکہ افغانستان کی نظر پاکستان پر ہے اور اس کو اس وقت زبردست بیرونی امداد حاصل ہے۔ آئے دن سرحدی جھڑپیں آنے والے مشکل وقت کا پتا دیتی ہیں۔ واضح رہے کہ جمہوریت کو پٹری پر رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ریل کی پٹری عوام کے لیے رواں دواں رہے مگر وقت یہ آگیا ہے کہ پاکستان ریلوے کے پاس ڈیزل نہیں اور کابینہ کا سائز بڑھتا جارہا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں