جعلی دستاویزات جمع کرانے کے معاملے نے دل توڑ دیا ہے جسٹس عظمت سعید
جے آئی ٹی کے نتائج پرحملے نہ کریں دستاویزات کا جواب دیں، سپریم کورٹ
پاناما کیس کی سماعت کے دوران جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے ہیں کہ جے آئی ٹی کے نتائج پر حملے نہ کریں بلکہ ان کی دستاویزات کا جواب دیں اور جعلی دستاویزات کے معاملہ نے میرا دل توڑ دیا ہے۔
جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی خصوصی بینچ نے پاناما عملدرآمد کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے آغاز میں عدالت عظمٰی نے سلمان اکرم راجا کی جانب سے دستاویزات پیش کرنے سے پہلے میڈیا میں زیربحث آنے پر شدید برہمی کا اظہار کیا، جسٹس اعجاز افضل نے سلمان اکرم راجا سے کہا کہ آپ کی تمام دستاویزات میڈیا میں زیر بحث آئی ہیں، آپ نے اپنا کیس میڈیا میں لڑا ہے، باہر میڈیا کا ڈائس لگا ہے، جا کر دلائل بھی وہیں دے آئیں، جس پر سلما ن اکرم راجہ نے جواب دیا کہ ان کی طرف سے میڈیا کو دستاویزات نہیں دی گئیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ایک دستاویز قطری شہزادے اور ایک برٹش ورجن آئی لینڈ سے متعلق ہے، جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ دونوں دستاویزات عدالت میں ہی کھولیں گے، تمام دستاویزات لیگل ٹیم نے ہی میڈیا کو دی ہوں گی، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ قطری خط میں کیا ہے یہ علم نہیں ۔
اس خبرکو بھی پڑھیں: شریف خاندان کی منی ٹریل کا جواب آج تک نہیں آیا، سپریم کورٹ
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ مریم نواز کے وکیل نے عدالت میں منروا کی دستاویزات سے انکار کیا تھا جس پر وکیل سلمان اکرم نے کہا کہ جے آئی ٹی نے دبئی حکام کے جواب پر حسین نواز سے جرح نہیں کی، یو اے ای کے محکمہ انصاف کے خط کو دیکھ لیں جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے جو دستاویزات دیں، جے آئی ٹی نے ان کی محکمہ انصاف سے تصدیق کرائی جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ دبئی کی دستاویزات کے بارے میں حسین نواز سے پوچھا جانا چاہیے تھا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ متحدہ عرب امارات سے بھی حسین نواز کی دستاویزات کی تصدیق مانگی گئی تھی۔
سماعت کے دوران سلمان اکرم راجہ نے یو اے ای کی وزارت انصاف کا خط پڑھ کرسنایا اور کہا کہ یو اے ای حکام نے گلف اسٹیل ملز کے معاہدے کا ریکارڈ نہ ہونے کا جواب دیا، 12 ملین درہم کی ٹرانزیکشنز کی بھی تردید کی گئی، خط میں کہا گیا کہ مشینری کی منتقلی کا کسٹم ریکارڈ بھی موجود نہیں جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس میں کہا کہ یو اے ای حکام نے کہا تھا یہ مہر ہماری ہے ہی نہیں۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ کچھ غلط فہمی ہوئی ہے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ حسین نواز اور طارق شفیع سے پوچھا تو انہوں نے کہا ہم نے نوٹری نہیں کرایا، سب نے کہا یہ نوٹری مہر کو نہیں جانتے، اس کا مطلب یہ دستاویزات غلط ہیں، پوچھا گیا تھا کہ حسین نواز نے نوٹری پبلک سے تصدیق کروائی، حسین نواز نے جے آئی ٹی کو بتایا تھا کہ وہ دبئی نہیں گئے پھرکس نے نوٹری پبلک سے تصدیق کروائی، اس سے تو یہ دستاویزات جعلی لگتی ہیں، جس پر سلمان اکرم نے کہا کہ حسین نواز کی جگہ کوئی اور نوٹری تصدیق کے لیے گیا تھا، جے آئی ٹی نے حسین نواز پر جرح نہیں کی جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ہم آپ سے پوچھ رہے ہیں اپنا موقف ہمیں بتا دیں جس پر سلمان اکرم نے کہا کہ یو اے ای حکام سے سنگین غلطی ہوئی ہو گی۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو چاہیے تھا تمام ریکارڈ جے آئی ٹی کو فراہم کرتے، اب آپ نئی دستاویزات لے آئے ہیں، اب دیکھتے ہیں کہ ان کے کیس پراثرات ہوں گے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ 12 مئی 1988 اور30 مئی 2016 کے دونوں نوٹری پبلک کودبئی حکام نے جعلی قرار دیا، دبئی حکام نے دبئی سے اسکریپ جدہ جانے کی تردید کی جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یہ سکریپ نہیں مشینری تھی، جے آئی ٹی نے غلط سوال کیے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اگر دبئی میں اندراج نہیں ہوتا تو دبئی کے محکمہ کسٹم کی کیا ضرورت ہے، جس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ ایک ریاست سے دوسری ریاست سامان لے جانے کا اندراج نہیں ہوتا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کیا مشینری کی ترسیل کی دستاویز مصدقہ ہے جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عدالت مہلت دے تو مصدقہ دستاویز بھی دے سکتا ہوں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی دی گئی دستاویز میں میٹریل کی تفصیل شامل نہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جب سوال اٹھایا جاتا ہے تو دستاویز لے آتے ہیں۔ سلمان اکرم نے کہا کہ مشینری کی منتقلی پر پہلے کسی نے شک و شبہ کا اظہار نہیں کیا جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ خلا کو وقت کے ساتھ پر کیا گیا، جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ ان دستاویز کو جے آئی ٹی رپورٹ کے جواب میں لایا گیا یہ نقطہ ہم نے نوٹ کر لیا۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ آپ ٹائی ٹینک کی دستاویز لے آئیں تاکہ ہم مان لیں، نجی دستاویز میں تو یہ بھی لکھا جا سکتا ہے کہ سامان ٹائی ٹینک میں گیا، کوئی مصدقہ دستاویز لائیں، آپ کو لکھ کر دے دیتا ہوں کہ نتائج کی کوئی حیثیت نہیں اور حیثیت ہے تو ان کے میٹیریل کی ہے۔
جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی کے نتائج پرحملے نہ کریں اوران کی دستاویزات کا جواب دیں، جس پرسلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عزیزیہ اسٹیل مل کا بینک ریکارڈ بھی موجود ہے جس پرعدالت کی جانب سے ریمارکس دیئے گئے کہ کیا فروخت کے وقت عزیزیہ پر کوئی بقایا جات تھے جس پر سلمان اکرم نے کہا کہ جو بقایا جات تھے وہ ادا کردیئے گئے، عدالت نے ریمارکس دیئے کہ دستاویزات کے مطابق 21 ملین ریال عزیزیہ کی فروخت کے وقت بقایا جات تھے، جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یہ دستاویزات ذرائع سے حاصل کی گئی تھیں، جے آئی ٹی نے قرار دیا کہ عزیزیہ سٹیل مل 63 ملین ریال کی بجائے 42 ملین ریال میں فروخت ہوئی، 63 ملین ریال کی رقم عزیزیہ کے اکاؤنٹ میں آئی جس کا بینک ریکارڈ موجود ہے جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ یہ بینک ریکارڈ لے آئے ہیں تو دوسرا بھی لے آئیں جس پر سلمان اکرم نے کہا کہ نقطہ یہ ہے کہ 63 ملین میرے اکاؤنٹ میں آئے اس سے آگے چلنا ہے جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ میری جان یہ اتنا آسان نہیں ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کیا عزیزیہ کے واجبات کسی دوسرے نے ادا کئے جس پر وکیل نے کہا کہ معلوم کرکے بتا سکتا ہوں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ حسین ، عباس اور شہباز شریف کی بیٹی عزیزیہ اسٹیل ملز کے حصہ دار تھے، جسٹس عظمت سعید نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کیس کی تاریخ یہ ہے کہ خفیہ جگہوں سے ادائیگیاں ہوتی ہیں جس پر سلمان اکرم نے کہا کہ جے آئی ٹی کو چاہئے تھا کہ ان پر سوالات کرتی۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ کیا اخبار میں اشتہار دے کر سوال پوچھتے، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ تین حصہ دار تھے صرف حسین نواز نے عزیزیہ فروخت کی، کیا حسین نواز پہلے دونوں حصہ داروں کے شیئرز خرید چکے تھے، حسین نواز نے پاور آف اٹارنی آج تک جمع نہیں کرائی جس پر سلمان اکرم نے کہا کہ میرا یہ کہنا ہے کہ یہ ایک خاندانی معاملہ تھا جس کا تحریری جواب موجود نہیں جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ پہلے تو کہا گیا تھا پاور آف اٹارنی موجود ہے۔دستاویزات سے ثابت کریں کہ باقی لوگوں کو حصہ دیا گیا جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جے آئی ٹی نے یہ سوال نہیں پوچھا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی میں حسین نواز نے پاور آف اٹارنی دینے کی بات کی تھی، کیا پاور آف اٹارنی ہے بھی یا نہیں جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ابھی تک سامنے نہیں آیا. عزیزیہ کی فروخت کے معاملے پر گواہوں کو بلایا جا سکتا ہے، دوسرے دو شراکت داروں نے عزیزیہ کی فروخت کو چیلنج نہیں کیا، الزام یہ ہے کہ 1993 میں حسن ،حسین لندن فلیٹ نہیں خرید سکتے تھے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ 1993 سے آج تک لندن فلیٹس میں وزیر اعظم کے بچے رہائش پذیر ہیں، اس وقت تک ہم آمدن کا ذریعہ اور منی ٹریل نہیں ڈھونڈ سکے۔
جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ لندن فلیٹس نیلسن اور نیسکول کے ہیں اس پر کوئی جھگڑا نہیں، نیلسن، نیسکول پہلے بئیریر سرٹیفکیٹ پھر ملکیت میں تبدیل ہوئے، موزیک فونسکا کے ریکارڈ پر ٹرسٹ ڈیڈ موجود نہیں ہے، موزیک فونسکا کے مطابق مریم نواز فلیٹس کی مالک ہیں جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ الزام مریم نواز کے مالک ہونے کا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ یہ الزام نہیں دستاویز کے مطابق حقیقت ہے، موزیک فونسکا کے مطابق مریم فلیٹس کی مالک ہیں۔ سلمان اکرم نے کہا کہ ان کا کہنا ہے مریم مالک ہیں، ہمارا کہنا ہے حسین مالک ہے،فرق تو نہیں جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ بہت فرق ہے اگر مریم مالک ہے تو پھر ہم فنڈز کو بھی دیکھیں گے۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ وہ تو حسین کے معاملہ میں بھی فنڈ ز دیکھے جائیں گے جس پرجسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ 93 میں بچوں کی عمریں دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ فلیٹ خرید نہیں سکتے، الزام ہے کہ فلیٹ وزیر اعظم نے خریدے، درخواست گزار کہتے ہیں کہ وزیر اعظم فنڈز بتائیں۔ جسٹس عظمت سعید نے اپنے ریمارکس دیئے کہ پوچھتے ہیں ہم پر الزام کیا ہے تو کہہ دیتے ہیں کہ (نائین اے فائیو) کا الزام ہے جس کا مطلب ہوتا ہے کہ کرپشن اور کرپٹ پریکٹس جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ الزام یہ ہے کہ بچے بے نامی دارہیں۔
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ مریم، حسن اورحسین نے کوئی غلط کام نہیں کیا صرف اپنے شیئرز وصول کیے۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ ٹھیک ہے نوٹ کرلیا کہ فلیٹ حسین نواز نے حاصل کیے، الزام ہے کہ مریم وزیر اعظم کی کفالت میں ہیں، نعیم بخاری کا کہنا ہے کہ مریم عدالت سے سچ نہیں بولیں گی تو اس کے نتائج ہوں گے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ مریم پرجعلی دستاویز عدالت میں دینے کا بھی الزام ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے اپنے ریمارکس دیئے کہ مسٹرسلمان اکرم راجہ چکری سے آگے چلو۔
سلمان اکرم نے کہا کہ عدالت سوالیہ نشان لگا رہی ہے تو مجھے جواب کا موقع دیا جائے جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ آپ ایک گھنٹے سے دلائل دے رہے ہیں لیکن کوئی نئی بات نہیں کی۔ سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ عزیزیہ اسٹیل ملز بنی اور کام شروع کردیا جس پرجسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اور نقصان بھی اٹھانا شروع کردیا۔
جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ اگرآپ کے خلاف الزام نہیں تو اپنی توانائی کیوں خرچ کررہے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ الزام غلط اور جعلی دستاویزات دینے کے ہیں، ٹھیک ہے مان لیا رقم گلف اسٹیل ملز سے گئی لیکن کیسے، ہم ڈیڑھ سال سے پوچھ رہے ہیں کہ رقم کیسے گئی ، بتائیں کیسے۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ فلیٹس کے ثابت ہونے کا بوجھ پبلک آفس ہولڈر پرہوگا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ فنڈز کے سوالوں کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں، جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ نہ ادھر ھے نہ ادھر ہے کیا کریں، حسن،حسین اور مریم کے اکاوٴنٹ میں رقم آئی تو ان کو معلوم ہو گا کدھر سے آئی، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ قطری خط میں فلیگ شپ اور عزیزیہ سٹیل مل کا ذکر نہیں۔
سماعت کے دوران عدالت نے حمد بن جاسم اوربی وی آئی کی دستاویز کھولیں جن میں جے آئی ٹی کو بھیجے گئے دو خطوط شامل تھے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی اپناکام مکمل کرچکی اس لئے دستاویزات رجسٹرار کو بھیج دی گئیں، ہم نے کھلی عدالت میں دستاویز کا جائزہ لیا اور دونوں فریقین اس ریکارڈ کو حاصل کرسکتے ہیں۔
وکیل سلمان اکرم نے کہا کہ جے آئی ٹی نے خود سے نتیجہ نکال لیا کہ حمد بن جاسم کے انٹرویو کی ضرورت نہیں، جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کہہ چکی ہے فیصلہ دستاویز پر ہونا ہے، آپ دلائل دے رہے ہیں کہ کیس مزید تحقیقات کا بن چکا۔ سلمان اکرم نے کہا کہ میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ مکمل انکوائری ہونی چاہیے، محمد شریف نے اپنی زندگی میں حسن اور حسین کے لیے رقم کا انتظام کیا جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ مزید تحقیقات کا کہہ کر آپ نے نئی بات کردی۔
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ میں نے موکل سے پوچھا ہے، ان کا کہنا ہے کہ 63 ملین ریال ٹوٹل ہے، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ سلمان یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ، آپ کے موکل نے جے آئی ٹی کو کہا 21 ملین ریال کی ادائیگی میری ذمہ داری تھی۔
سلمان اکرم نے کہا کہ دونوں فیملیز نے 63 ملین ریال استعمال کرنے کی اجازت حسین نواز کو دی، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ سب باتیں زبانی ہی ہیں، سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یہ تو خاندان کے اندر کی بات ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی کو دستاویز نہیں دیں، ہمیں نہیں دکھائی پھر کس کو دکھائیں گے، منی ٹریل کا ایک سال سے پوچھ رہے ہیں، سوال ایک ہی ہے رقم کہاں سے آئی، پوچھ رہے ہیں منی ٹریل ہے لیکن کہاں ہے۔
جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ کسی متعلقہ فورم پر دستاویز دینا چاہتے ہیں، سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یہ بات عدالت پر چھوڑتا ہوں۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ ہل میٹل سے کس نے فائدہ اٹھایا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ بار ثبوت آپ پر ہے جو کہ ابھی تک ہے۔
سماعت کے دوران سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ کسی غلط کام کا ثبوت نہیں ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کسی صحیح کام کا بھی ثبوت نہیں ہے، سلمان اکرم نے کہا کہ کسی کا بے نامی دار ہونا بھی ثابت نہیں جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ جن کی جائیداد ہوتی ہے انکو وضاحت دینا پڑتی ہے، یہ دیکھنا ہے کہ کیس بنتا ہے کہ نہیں۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ہزاروں پاکستانی ملک سے باہر کام کررہے ہیں جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ وہ ہزاروں پاکستانی وزیراعظم نہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ آپ ہم سے کہہ رہے ہیں کہ معاملہ احتساب عدالت کو بھیج دیں، جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میں صرف انکوائری کا کہہ رہا ہوں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ قانون کے مطابق وضاحت نہ آئے تو سمجھا جائے گا وضاحت نہیں۔ سلمان اکرم نے کہا کہ ہمارا موقف ہے کہ 40 سال گزر گئے اب کوئی ثابت کرے کہ کچھ غلط ہوا، حسین نواز نے منروا کمپنی سے رابطہ ارینہ کمپنی کے ذریعہ کیا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اس موقع پر 2006 سے بینیفشل آؤنر ثابت کرنے کی ضرورت نہیں، مریم کے بینیفشل مالک ہونے کی دستاویز موجود ہے، نیب کا سیکشن 14 اے بھی پڑھ لیں، کیا قطری خاندان سے تعلق قابل قبول ہے، آفیشل کمپنی کہہ رہی تھی کہ مریم نواز مالک ہیں، آپ کہہ رہے ہیں کہ سرکاری دستاویزات چھوڑ کر نجی کمپنی کی دستاویز تسلیم کرلیں جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عدالت اجازت دیں کہ میں اس کا جواب دوں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ نجی کمپنی جو آپ سے پیسے لیتی ہے اس کا موقف تسلیم کرلیں، کیا آپ چاہتے ہیں کہ ایم ایل اے کی دستاویز کو مسترد کردیں، نجی کمپنی حسین نواز کے لیے کچھ بھی کہہ سکتی ہے جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جے پی سی اے نے تسلیم کیا کہ حسین نواز مالک ہیں اور مریم ٹرسٹی اور جے پی سی اے نے تحریر کیا کہ مریم سے انکی ملاقات نہیں ہوئی۔
سلمان اکرم نے کہا کہ دبئی میں نوٹری کی تصدیق کروانے والے مسٹر وقار یہاں موجود ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ وقار بیان دینا چاہتے ہیں اور حسین انکا نام بتانا نہیں چاہتے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ حکام سے غلطی ہوئی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی بات سے لگتا ہے کہ دبئی حکومت بہت غلطیاں کرتی ہے جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ بی وی آئی نے 2012 میں کمپنیوں کی تفصیلات چند گھنٹے میں طلب کیں، ایک خبر کے مطابق ان معلومات میں بہت سی غلطیاں ہوئیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ 10 دنوں میں 12 ای میلز کا تبادلہ ہوا اور جسٹس اعجاز افضل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ بچے نہ کر سکے تو فلیٹس کے ذرائع ثابت کرنے کا بوجھ پبلک آفس ہولڈر پر ہوگا۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ منروا ون مین کمپنی ہے جو صرف سروس دیتی ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جے پی سی اے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کمپنی ہے وہ آپکو سروس مہیا کرے گی۔ سلمان اکرم نے کہا کہ فیصل ٹوانہ حسین نواز کے نمائندہ کے طورپران کمپنیوں سے ڈیل کرتے ہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ منروا کیساتھ جو معاہدہ ہوا وہ دیکھائیں۔
سلمان اکرم نے کہا کہ منروا کے ساتھ ہونے والا معاہدہ ابھی موجود نہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ عدالت میں پہلی ٹرسٹ ڈیڈ کوکمبر کی دی گئی لیکن میڑیل نیلسن اور نیسکول کا لگایا گیا، جے آئی ٹی نے یہ دستاویز تصدیق کے لیے بھیجیں، انھوں نے کہا کہ یہ فونٹ 2007 میں آیا، ٹرسٹ ڈیڈ 2006 میں تیار ہوئی، فرانزک رپورٹ میں کہا گیا دونوں کمپنیوں کے دستخط والا صفحہ ایک ہے، بادی النظر میں وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ دستاویزات غلط ہیں، دونوں صفحات پر غلطی بھی ایک جیسی ہے۔
عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار کو روسٹرم پر طلب کیا اور استفسار کیا کہ رانا صاحب بتائیں اگر سپریم کورٹ میں غلط دستاویزات دی جائیں تو کیا ہوتا ہے جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ غلط دستاویزات پر مقدمہ درج ہوتا ہے، اس جرم کی سزا سات سال قید ہو سکتی ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ عدالت میں غلط دستاویزات جمع ہونا کیسے ہو گیا، ہم تو سوچ بھی نہیں سکتے، یہ آپ لوگوں نے کیا کر دیا، چھٹی کے دن تو برطانیہ میں کوئی فون بھی نہیں اٹھاتا، جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے ریمارکس دیئے کہ ٹرسٹ ڈیڈ کی تصدیق ہفتہ کے روز کرائی گئی، جے آئی ٹی کے رابطہ کرنے پر کمپنی نے کوئی جواب نہ دیا۔
سلمان اکرم نے کہا کہ یہ دستاویزات اکرم شیخ نے جمع کرائی ہیں، معلوم کروں گا یہ کیسے ہوا۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ جعلی دستاویزات کے معاملہ نے میرا دل توڑ دیا، جعلسازی پر قانون اپنا راستہ خود اختیار کرے گا۔ سلمان اکرم نے کہا کہ تکنیکی بنیاد پر کلبری فونٹ کا معاملہ درست نہیں جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ گورے تو چھینک مارتے ہیں تو رومال لگا لیتے ہیں، کیا کوئی قانونی فونٹ چوری کرے گا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ٹرسٹ ڈیڈ کیساتھ بہت سے مسائل ہیں، ہر شخص کے آئینی اختیارات پر ہم بہت محتاط ہیں جب کہ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ بادی النظر میں ہمارے سامنے کیس جعلی دستاویزات کا ہے، فی الحال بادی النظر سے آگے نہیں جارہے۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ مریم نواز کا آف شور کمپنیوں سے تعلق نہیں، ناصر خمیس اور وقار کو جے آئی ٹی نہیں بلایا، ناصر خمیس دراصل وقار احمد اور حسین کے درمیان ہونے والے معاملات کے گواہ ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ مسٹر وقار احمد نے ان دستاویز کو دیکھا تک نہیں۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ مسٹر وقار عدالت میں موجود ہیں، حمد بن جاسم کی فیملی کی جانب سے تین ادائیگیاں کی گئیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کیا یہ ادائیگیاں بھی نقد کی گئیں جس پر سلمان اکرم نے کہا کہ یہ رقوم بینک کے ذریعہ منتقل ہوئیں، پیسہ کا سوال حمد بن جاسم سے ہو سکتا ہے۔
جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ آپکے اکاؤنٹ میں پیسہ آیا اورآپ بتا دیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ حمد بن جاسم نے خطوط میں رقم بھیجنے کا ایک لفظ نہیں لکھا۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ شہزادے کو کہا آجائیں، اس نے کہامیں نہیں آتا، پاکستانی سفارتخانہ آنے کا کہا وہ ادھر بھی نہیں مانے، کیا ہم سارے اب دوحہ چلے جائیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ خط میں حمد بن جاسم نے کہا کہ میں پاکستانی عدالتوں اور قانون کا پابند نہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ لاء فرم کا اکاؤنٹ دکھا دیں رقم کا فلو واضح ہوجاتا ہے، یہ افریقہ یا پانامہ نہیں انگلینڈ ہے تمام ریکارڈ مل جاتا ہے، ریکارڈ لادیں بات ختم ہوجاتی ہے، یہ وہ سوال ہیں جس کا جواب نہیں ہے۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ شیخ حمد اس کا جواب دے سکتا ہے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ قطری نے تو ویڈیو لنک پر جواب دینے سے بھی انکار کردیا، شاید اس کی تصویر اچھی نہیں آتی اس لیے ویڈیو لنک پر نہیں آئے۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ قطری نے کہا کہ میرے محل میں آؤ۔ جسٹس اعجازافضل نے اپنے ریمارکس دیئے کہ پاکستان، پاکستانی سفارتخانہ اور ویڈیو لنک پر نہیں آنا پھر کیا رہ گیا جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ارسلان افتخار کیس کے مطابق جے آئی ٹی کو قطر جانے کی ضرورت نہیں تھی، انھیں صرف سوال پوچھے جاسکتے تھے جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ کیا قطری پاکستان آنے کو تیار ہے جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ مجھے اس بارے میں کوئی ہدایات نہیں دی گئیں۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ شیئرزحسین نواز کو 2006 میں دیئے گئے جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ دبئی کمپنی کے فنڈز کہاں سے آئے تھے سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آج اس کمپنی کا وجود نہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ کیا وزیر اعظم اسکے چیئرمین ہیں جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جی بالکل چیئرمین ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جبل کمپنی سے 615 ہزار پاونڈز فلیگ شپ کمپنی کو بھیجے گئے، آپ کہہ رہے ہیں کہ اس کمپنی کے کوئی اثاثے نہیں جس پر سلمان اکرم راجہ نے عدالت سے سوال کے جواب کی مہلت مانگ لی۔ سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس کی سماعت کل صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کردی۔
جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی خصوصی بینچ نے پاناما عملدرآمد کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے آغاز میں عدالت عظمٰی نے سلمان اکرم راجا کی جانب سے دستاویزات پیش کرنے سے پہلے میڈیا میں زیربحث آنے پر شدید برہمی کا اظہار کیا، جسٹس اعجاز افضل نے سلمان اکرم راجا سے کہا کہ آپ کی تمام دستاویزات میڈیا میں زیر بحث آئی ہیں، آپ نے اپنا کیس میڈیا میں لڑا ہے، باہر میڈیا کا ڈائس لگا ہے، جا کر دلائل بھی وہیں دے آئیں، جس پر سلما ن اکرم راجہ نے جواب دیا کہ ان کی طرف سے میڈیا کو دستاویزات نہیں دی گئیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ایک دستاویز قطری شہزادے اور ایک برٹش ورجن آئی لینڈ سے متعلق ہے، جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ دونوں دستاویزات عدالت میں ہی کھولیں گے، تمام دستاویزات لیگل ٹیم نے ہی میڈیا کو دی ہوں گی، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ قطری خط میں کیا ہے یہ علم نہیں ۔
اس خبرکو بھی پڑھیں: شریف خاندان کی منی ٹریل کا جواب آج تک نہیں آیا، سپریم کورٹ
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ مریم نواز کے وکیل نے عدالت میں منروا کی دستاویزات سے انکار کیا تھا جس پر وکیل سلمان اکرم نے کہا کہ جے آئی ٹی نے دبئی حکام کے جواب پر حسین نواز سے جرح نہیں کی، یو اے ای کے محکمہ انصاف کے خط کو دیکھ لیں جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے جو دستاویزات دیں، جے آئی ٹی نے ان کی محکمہ انصاف سے تصدیق کرائی جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ دبئی کی دستاویزات کے بارے میں حسین نواز سے پوچھا جانا چاہیے تھا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ متحدہ عرب امارات سے بھی حسین نواز کی دستاویزات کی تصدیق مانگی گئی تھی۔
سماعت کے دوران سلمان اکرم راجہ نے یو اے ای کی وزارت انصاف کا خط پڑھ کرسنایا اور کہا کہ یو اے ای حکام نے گلف اسٹیل ملز کے معاہدے کا ریکارڈ نہ ہونے کا جواب دیا، 12 ملین درہم کی ٹرانزیکشنز کی بھی تردید کی گئی، خط میں کہا گیا کہ مشینری کی منتقلی کا کسٹم ریکارڈ بھی موجود نہیں جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس میں کہا کہ یو اے ای حکام نے کہا تھا یہ مہر ہماری ہے ہی نہیں۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ کچھ غلط فہمی ہوئی ہے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ حسین نواز اور طارق شفیع سے پوچھا تو انہوں نے کہا ہم نے نوٹری نہیں کرایا، سب نے کہا یہ نوٹری مہر کو نہیں جانتے، اس کا مطلب یہ دستاویزات غلط ہیں، پوچھا گیا تھا کہ حسین نواز نے نوٹری پبلک سے تصدیق کروائی، حسین نواز نے جے آئی ٹی کو بتایا تھا کہ وہ دبئی نہیں گئے پھرکس نے نوٹری پبلک سے تصدیق کروائی، اس سے تو یہ دستاویزات جعلی لگتی ہیں، جس پر سلمان اکرم نے کہا کہ حسین نواز کی جگہ کوئی اور نوٹری تصدیق کے لیے گیا تھا، جے آئی ٹی نے حسین نواز پر جرح نہیں کی جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ہم آپ سے پوچھ رہے ہیں اپنا موقف ہمیں بتا دیں جس پر سلمان اکرم نے کہا کہ یو اے ای حکام سے سنگین غلطی ہوئی ہو گی۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ آپ کو چاہیے تھا تمام ریکارڈ جے آئی ٹی کو فراہم کرتے، اب آپ نئی دستاویزات لے آئے ہیں، اب دیکھتے ہیں کہ ان کے کیس پراثرات ہوں گے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ 12 مئی 1988 اور30 مئی 2016 کے دونوں نوٹری پبلک کودبئی حکام نے جعلی قرار دیا، دبئی حکام نے دبئی سے اسکریپ جدہ جانے کی تردید کی جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یہ سکریپ نہیں مشینری تھی، جے آئی ٹی نے غلط سوال کیے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اگر دبئی میں اندراج نہیں ہوتا تو دبئی کے محکمہ کسٹم کی کیا ضرورت ہے، جس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ ایک ریاست سے دوسری ریاست سامان لے جانے کا اندراج نہیں ہوتا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کیا مشینری کی ترسیل کی دستاویز مصدقہ ہے جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عدالت مہلت دے تو مصدقہ دستاویز بھی دے سکتا ہوں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی دی گئی دستاویز میں میٹریل کی تفصیل شامل نہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جب سوال اٹھایا جاتا ہے تو دستاویز لے آتے ہیں۔ سلمان اکرم نے کہا کہ مشینری کی منتقلی پر پہلے کسی نے شک و شبہ کا اظہار نہیں کیا جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ خلا کو وقت کے ساتھ پر کیا گیا، جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ ان دستاویز کو جے آئی ٹی رپورٹ کے جواب میں لایا گیا یہ نقطہ ہم نے نوٹ کر لیا۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ آپ ٹائی ٹینک کی دستاویز لے آئیں تاکہ ہم مان لیں، نجی دستاویز میں تو یہ بھی لکھا جا سکتا ہے کہ سامان ٹائی ٹینک میں گیا، کوئی مصدقہ دستاویز لائیں، آپ کو لکھ کر دے دیتا ہوں کہ نتائج کی کوئی حیثیت نہیں اور حیثیت ہے تو ان کے میٹیریل کی ہے۔
جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی کے نتائج پرحملے نہ کریں اوران کی دستاویزات کا جواب دیں، جس پرسلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عزیزیہ اسٹیل مل کا بینک ریکارڈ بھی موجود ہے جس پرعدالت کی جانب سے ریمارکس دیئے گئے کہ کیا فروخت کے وقت عزیزیہ پر کوئی بقایا جات تھے جس پر سلمان اکرم نے کہا کہ جو بقایا جات تھے وہ ادا کردیئے گئے، عدالت نے ریمارکس دیئے کہ دستاویزات کے مطابق 21 ملین ریال عزیزیہ کی فروخت کے وقت بقایا جات تھے، جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یہ دستاویزات ذرائع سے حاصل کی گئی تھیں، جے آئی ٹی نے قرار دیا کہ عزیزیہ سٹیل مل 63 ملین ریال کی بجائے 42 ملین ریال میں فروخت ہوئی، 63 ملین ریال کی رقم عزیزیہ کے اکاؤنٹ میں آئی جس کا بینک ریکارڈ موجود ہے جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ یہ بینک ریکارڈ لے آئے ہیں تو دوسرا بھی لے آئیں جس پر سلمان اکرم نے کہا کہ نقطہ یہ ہے کہ 63 ملین میرے اکاؤنٹ میں آئے اس سے آگے چلنا ہے جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ میری جان یہ اتنا آسان نہیں ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کیا عزیزیہ کے واجبات کسی دوسرے نے ادا کئے جس پر وکیل نے کہا کہ معلوم کرکے بتا سکتا ہوں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ حسین ، عباس اور شہباز شریف کی بیٹی عزیزیہ اسٹیل ملز کے حصہ دار تھے، جسٹس عظمت سعید نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کیس کی تاریخ یہ ہے کہ خفیہ جگہوں سے ادائیگیاں ہوتی ہیں جس پر سلمان اکرم نے کہا کہ جے آئی ٹی کو چاہئے تھا کہ ان پر سوالات کرتی۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ کیا اخبار میں اشتہار دے کر سوال پوچھتے، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ تین حصہ دار تھے صرف حسین نواز نے عزیزیہ فروخت کی، کیا حسین نواز پہلے دونوں حصہ داروں کے شیئرز خرید چکے تھے، حسین نواز نے پاور آف اٹارنی آج تک جمع نہیں کرائی جس پر سلمان اکرم نے کہا کہ میرا یہ کہنا ہے کہ یہ ایک خاندانی معاملہ تھا جس کا تحریری جواب موجود نہیں جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ پہلے تو کہا گیا تھا پاور آف اٹارنی موجود ہے۔دستاویزات سے ثابت کریں کہ باقی لوگوں کو حصہ دیا گیا جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جے آئی ٹی نے یہ سوال نہیں پوچھا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی میں حسین نواز نے پاور آف اٹارنی دینے کی بات کی تھی، کیا پاور آف اٹارنی ہے بھی یا نہیں جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ابھی تک سامنے نہیں آیا. عزیزیہ کی فروخت کے معاملے پر گواہوں کو بلایا جا سکتا ہے، دوسرے دو شراکت داروں نے عزیزیہ کی فروخت کو چیلنج نہیں کیا، الزام یہ ہے کہ 1993 میں حسن ،حسین لندن فلیٹ نہیں خرید سکتے تھے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ 1993 سے آج تک لندن فلیٹس میں وزیر اعظم کے بچے رہائش پذیر ہیں، اس وقت تک ہم آمدن کا ذریعہ اور منی ٹریل نہیں ڈھونڈ سکے۔
جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ لندن فلیٹس نیلسن اور نیسکول کے ہیں اس پر کوئی جھگڑا نہیں، نیلسن، نیسکول پہلے بئیریر سرٹیفکیٹ پھر ملکیت میں تبدیل ہوئے، موزیک فونسکا کے ریکارڈ پر ٹرسٹ ڈیڈ موجود نہیں ہے، موزیک فونسکا کے مطابق مریم نواز فلیٹس کی مالک ہیں جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ الزام مریم نواز کے مالک ہونے کا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ یہ الزام نہیں دستاویز کے مطابق حقیقت ہے، موزیک فونسکا کے مطابق مریم فلیٹس کی مالک ہیں۔ سلمان اکرم نے کہا کہ ان کا کہنا ہے مریم مالک ہیں، ہمارا کہنا ہے حسین مالک ہے،فرق تو نہیں جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ بہت فرق ہے اگر مریم مالک ہے تو پھر ہم فنڈز کو بھی دیکھیں گے۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ وہ تو حسین کے معاملہ میں بھی فنڈ ز دیکھے جائیں گے جس پرجسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ 93 میں بچوں کی عمریں دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ فلیٹ خرید نہیں سکتے، الزام ہے کہ فلیٹ وزیر اعظم نے خریدے، درخواست گزار کہتے ہیں کہ وزیر اعظم فنڈز بتائیں۔ جسٹس عظمت سعید نے اپنے ریمارکس دیئے کہ پوچھتے ہیں ہم پر الزام کیا ہے تو کہہ دیتے ہیں کہ (نائین اے فائیو) کا الزام ہے جس کا مطلب ہوتا ہے کہ کرپشن اور کرپٹ پریکٹس جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ الزام یہ ہے کہ بچے بے نامی دارہیں۔
وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ مریم، حسن اورحسین نے کوئی غلط کام نہیں کیا صرف اپنے شیئرز وصول کیے۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ ٹھیک ہے نوٹ کرلیا کہ فلیٹ حسین نواز نے حاصل کیے، الزام ہے کہ مریم وزیر اعظم کی کفالت میں ہیں، نعیم بخاری کا کہنا ہے کہ مریم عدالت سے سچ نہیں بولیں گی تو اس کے نتائج ہوں گے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ مریم پرجعلی دستاویز عدالت میں دینے کا بھی الزام ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے اپنے ریمارکس دیئے کہ مسٹرسلمان اکرم راجہ چکری سے آگے چلو۔
سلمان اکرم نے کہا کہ عدالت سوالیہ نشان لگا رہی ہے تو مجھے جواب کا موقع دیا جائے جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ آپ ایک گھنٹے سے دلائل دے رہے ہیں لیکن کوئی نئی بات نہیں کی۔ سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ عزیزیہ اسٹیل ملز بنی اور کام شروع کردیا جس پرجسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اور نقصان بھی اٹھانا شروع کردیا۔
جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ اگرآپ کے خلاف الزام نہیں تو اپنی توانائی کیوں خرچ کررہے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ الزام غلط اور جعلی دستاویزات دینے کے ہیں، ٹھیک ہے مان لیا رقم گلف اسٹیل ملز سے گئی لیکن کیسے، ہم ڈیڑھ سال سے پوچھ رہے ہیں کہ رقم کیسے گئی ، بتائیں کیسے۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ فلیٹس کے ثابت ہونے کا بوجھ پبلک آفس ہولڈر پرہوگا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ فنڈز کے سوالوں کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں، جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ نہ ادھر ھے نہ ادھر ہے کیا کریں، حسن،حسین اور مریم کے اکاوٴنٹ میں رقم آئی تو ان کو معلوم ہو گا کدھر سے آئی، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ قطری خط میں فلیگ شپ اور عزیزیہ سٹیل مل کا ذکر نہیں۔
سماعت کے دوران عدالت نے حمد بن جاسم اوربی وی آئی کی دستاویز کھولیں جن میں جے آئی ٹی کو بھیجے گئے دو خطوط شامل تھے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی اپناکام مکمل کرچکی اس لئے دستاویزات رجسٹرار کو بھیج دی گئیں، ہم نے کھلی عدالت میں دستاویز کا جائزہ لیا اور دونوں فریقین اس ریکارڈ کو حاصل کرسکتے ہیں۔
وکیل سلمان اکرم نے کہا کہ جے آئی ٹی نے خود سے نتیجہ نکال لیا کہ حمد بن جاسم کے انٹرویو کی ضرورت نہیں، جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کہہ چکی ہے فیصلہ دستاویز پر ہونا ہے، آپ دلائل دے رہے ہیں کہ کیس مزید تحقیقات کا بن چکا۔ سلمان اکرم نے کہا کہ میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ مکمل انکوائری ہونی چاہیے، محمد شریف نے اپنی زندگی میں حسن اور حسین کے لیے رقم کا انتظام کیا جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ مزید تحقیقات کا کہہ کر آپ نے نئی بات کردی۔
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ میں نے موکل سے پوچھا ہے، ان کا کہنا ہے کہ 63 ملین ریال ٹوٹل ہے، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ سلمان یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ، آپ کے موکل نے جے آئی ٹی کو کہا 21 ملین ریال کی ادائیگی میری ذمہ داری تھی۔
سلمان اکرم نے کہا کہ دونوں فیملیز نے 63 ملین ریال استعمال کرنے کی اجازت حسین نواز کو دی، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ سب باتیں زبانی ہی ہیں، سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یہ تو خاندان کے اندر کی بات ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی کو دستاویز نہیں دیں، ہمیں نہیں دکھائی پھر کس کو دکھائیں گے، منی ٹریل کا ایک سال سے پوچھ رہے ہیں، سوال ایک ہی ہے رقم کہاں سے آئی، پوچھ رہے ہیں منی ٹریل ہے لیکن کہاں ہے۔
جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ کسی متعلقہ فورم پر دستاویز دینا چاہتے ہیں، سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یہ بات عدالت پر چھوڑتا ہوں۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ ہل میٹل سے کس نے فائدہ اٹھایا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ بار ثبوت آپ پر ہے جو کہ ابھی تک ہے۔
سماعت کے دوران سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ کسی غلط کام کا ثبوت نہیں ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کسی صحیح کام کا بھی ثبوت نہیں ہے، سلمان اکرم نے کہا کہ کسی کا بے نامی دار ہونا بھی ثابت نہیں جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ جن کی جائیداد ہوتی ہے انکو وضاحت دینا پڑتی ہے، یہ دیکھنا ہے کہ کیس بنتا ہے کہ نہیں۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ہزاروں پاکستانی ملک سے باہر کام کررہے ہیں جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ وہ ہزاروں پاکستانی وزیراعظم نہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ آپ ہم سے کہہ رہے ہیں کہ معاملہ احتساب عدالت کو بھیج دیں، جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میں صرف انکوائری کا کہہ رہا ہوں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ قانون کے مطابق وضاحت نہ آئے تو سمجھا جائے گا وضاحت نہیں۔ سلمان اکرم نے کہا کہ ہمارا موقف ہے کہ 40 سال گزر گئے اب کوئی ثابت کرے کہ کچھ غلط ہوا، حسین نواز نے منروا کمپنی سے رابطہ ارینہ کمپنی کے ذریعہ کیا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اس موقع پر 2006 سے بینیفشل آؤنر ثابت کرنے کی ضرورت نہیں، مریم کے بینیفشل مالک ہونے کی دستاویز موجود ہے، نیب کا سیکشن 14 اے بھی پڑھ لیں، کیا قطری خاندان سے تعلق قابل قبول ہے، آفیشل کمپنی کہہ رہی تھی کہ مریم نواز مالک ہیں، آپ کہہ رہے ہیں کہ سرکاری دستاویزات چھوڑ کر نجی کمپنی کی دستاویز تسلیم کرلیں جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ عدالت اجازت دیں کہ میں اس کا جواب دوں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ نجی کمپنی جو آپ سے پیسے لیتی ہے اس کا موقف تسلیم کرلیں، کیا آپ چاہتے ہیں کہ ایم ایل اے کی دستاویز کو مسترد کردیں، نجی کمپنی حسین نواز کے لیے کچھ بھی کہہ سکتی ہے جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جے پی سی اے نے تسلیم کیا کہ حسین نواز مالک ہیں اور مریم ٹرسٹی اور جے پی سی اے نے تحریر کیا کہ مریم سے انکی ملاقات نہیں ہوئی۔
سلمان اکرم نے کہا کہ دبئی میں نوٹری کی تصدیق کروانے والے مسٹر وقار یہاں موجود ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ وقار بیان دینا چاہتے ہیں اور حسین انکا نام بتانا نہیں چاہتے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ حکام سے غلطی ہوئی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی بات سے لگتا ہے کہ دبئی حکومت بہت غلطیاں کرتی ہے جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ بی وی آئی نے 2012 میں کمپنیوں کی تفصیلات چند گھنٹے میں طلب کیں، ایک خبر کے مطابق ان معلومات میں بہت سی غلطیاں ہوئیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ 10 دنوں میں 12 ای میلز کا تبادلہ ہوا اور جسٹس اعجاز افضل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ بچے نہ کر سکے تو فلیٹس کے ذرائع ثابت کرنے کا بوجھ پبلک آفس ہولڈر پر ہوگا۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ منروا ون مین کمپنی ہے جو صرف سروس دیتی ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جے پی سی اے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کمپنی ہے وہ آپکو سروس مہیا کرے گی۔ سلمان اکرم نے کہا کہ فیصل ٹوانہ حسین نواز کے نمائندہ کے طورپران کمپنیوں سے ڈیل کرتے ہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ منروا کیساتھ جو معاہدہ ہوا وہ دیکھائیں۔
سلمان اکرم نے کہا کہ منروا کے ساتھ ہونے والا معاہدہ ابھی موجود نہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ عدالت میں پہلی ٹرسٹ ڈیڈ کوکمبر کی دی گئی لیکن میڑیل نیلسن اور نیسکول کا لگایا گیا، جے آئی ٹی نے یہ دستاویز تصدیق کے لیے بھیجیں، انھوں نے کہا کہ یہ فونٹ 2007 میں آیا، ٹرسٹ ڈیڈ 2006 میں تیار ہوئی، فرانزک رپورٹ میں کہا گیا دونوں کمپنیوں کے دستخط والا صفحہ ایک ہے، بادی النظر میں وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ دستاویزات غلط ہیں، دونوں صفحات پر غلطی بھی ایک جیسی ہے۔
عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار کو روسٹرم پر طلب کیا اور استفسار کیا کہ رانا صاحب بتائیں اگر سپریم کورٹ میں غلط دستاویزات دی جائیں تو کیا ہوتا ہے جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ غلط دستاویزات پر مقدمہ درج ہوتا ہے، اس جرم کی سزا سات سال قید ہو سکتی ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ عدالت میں غلط دستاویزات جمع ہونا کیسے ہو گیا، ہم تو سوچ بھی نہیں سکتے، یہ آپ لوگوں نے کیا کر دیا، چھٹی کے دن تو برطانیہ میں کوئی فون بھی نہیں اٹھاتا، جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے ریمارکس دیئے کہ ٹرسٹ ڈیڈ کی تصدیق ہفتہ کے روز کرائی گئی، جے آئی ٹی کے رابطہ کرنے پر کمپنی نے کوئی جواب نہ دیا۔
سلمان اکرم نے کہا کہ یہ دستاویزات اکرم شیخ نے جمع کرائی ہیں، معلوم کروں گا یہ کیسے ہوا۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ جعلی دستاویزات کے معاملہ نے میرا دل توڑ دیا، جعلسازی پر قانون اپنا راستہ خود اختیار کرے گا۔ سلمان اکرم نے کہا کہ تکنیکی بنیاد پر کلبری فونٹ کا معاملہ درست نہیں جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ گورے تو چھینک مارتے ہیں تو رومال لگا لیتے ہیں، کیا کوئی قانونی فونٹ چوری کرے گا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ٹرسٹ ڈیڈ کیساتھ بہت سے مسائل ہیں، ہر شخص کے آئینی اختیارات پر ہم بہت محتاط ہیں جب کہ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ بادی النظر میں ہمارے سامنے کیس جعلی دستاویزات کا ہے، فی الحال بادی النظر سے آگے نہیں جارہے۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ مریم نواز کا آف شور کمپنیوں سے تعلق نہیں، ناصر خمیس اور وقار کو جے آئی ٹی نہیں بلایا، ناصر خمیس دراصل وقار احمد اور حسین کے درمیان ہونے والے معاملات کے گواہ ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ مسٹر وقار احمد نے ان دستاویز کو دیکھا تک نہیں۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ مسٹر وقار عدالت میں موجود ہیں، حمد بن جاسم کی فیملی کی جانب سے تین ادائیگیاں کی گئیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کیا یہ ادائیگیاں بھی نقد کی گئیں جس پر سلمان اکرم نے کہا کہ یہ رقوم بینک کے ذریعہ منتقل ہوئیں، پیسہ کا سوال حمد بن جاسم سے ہو سکتا ہے۔
جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ آپکے اکاؤنٹ میں پیسہ آیا اورآپ بتا دیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ حمد بن جاسم نے خطوط میں رقم بھیجنے کا ایک لفظ نہیں لکھا۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ شہزادے کو کہا آجائیں، اس نے کہامیں نہیں آتا، پاکستانی سفارتخانہ آنے کا کہا وہ ادھر بھی نہیں مانے، کیا ہم سارے اب دوحہ چلے جائیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ خط میں حمد بن جاسم نے کہا کہ میں پاکستانی عدالتوں اور قانون کا پابند نہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ لاء فرم کا اکاؤنٹ دکھا دیں رقم کا فلو واضح ہوجاتا ہے، یہ افریقہ یا پانامہ نہیں انگلینڈ ہے تمام ریکارڈ مل جاتا ہے، ریکارڈ لادیں بات ختم ہوجاتی ہے، یہ وہ سوال ہیں جس کا جواب نہیں ہے۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ شیخ حمد اس کا جواب دے سکتا ہے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ قطری نے تو ویڈیو لنک پر جواب دینے سے بھی انکار کردیا، شاید اس کی تصویر اچھی نہیں آتی اس لیے ویڈیو لنک پر نہیں آئے۔ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ قطری نے کہا کہ میرے محل میں آؤ۔ جسٹس اعجازافضل نے اپنے ریمارکس دیئے کہ پاکستان، پاکستانی سفارتخانہ اور ویڈیو لنک پر نہیں آنا پھر کیا رہ گیا جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ارسلان افتخار کیس کے مطابق جے آئی ٹی کو قطر جانے کی ضرورت نہیں تھی، انھیں صرف سوال پوچھے جاسکتے تھے جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ کیا قطری پاکستان آنے کو تیار ہے جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ مجھے اس بارے میں کوئی ہدایات نہیں دی گئیں۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ شیئرزحسین نواز کو 2006 میں دیئے گئے جس پر جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ دبئی کمپنی کے فنڈز کہاں سے آئے تھے سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آج اس کمپنی کا وجود نہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ کیا وزیر اعظم اسکے چیئرمین ہیں جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جی بالکل چیئرمین ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جبل کمپنی سے 615 ہزار پاونڈز فلیگ شپ کمپنی کو بھیجے گئے، آپ کہہ رہے ہیں کہ اس کمپنی کے کوئی اثاثے نہیں جس پر سلمان اکرم راجہ نے عدالت سے سوال کے جواب کی مہلت مانگ لی۔ سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس کی سماعت کل صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کردی۔