عبرتِ سرائے
سب سے زیادہ تشویش ناک اور قابلِ مذمت حالت اپنے وطنِ عزیز پاکستان کی ہے جہاں انسان کا لہو پانی سے بھی سستا ہوگیا ہے
KARACHI:
یوں کہنے کو تو انسان اشرف المخلوقات ہے لیکن عملاً ظلم و ستم اور سفّاکی میں اس نے درندوں کو بھی مات کردیا ہے۔ دنیا بھر کے اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کے نیوز بلیٹن صبح سے لے کر شام تک قتل و غارت گری کی خبروں سے بھرے پڑے ہیں۔ کبھی ہم اپنے بزرگوں سے سنا کرتے تھے کہ کتا کتے کا بیری (دشمن) ہوتا ہے مگر نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ انسانوں نے ایک دوسرے سے لڑنے جھگڑنے میں کتوں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
زر، زن اور زمین کو جھگڑے اور فساد کی جڑ کہا جاتا تھا، مگر اب فتنے اور فساد کا سب سے بڑا سبب مذہب بنا ہوا ہے، حالانکہ دنیا کا کوئی بھی مذہب آپس میں لڑنے کی ترغیب نہیں دیتا۔ اس بنیادی حقیقت کو اجاگر کرنے کے لیے ہی تو شاعرِ مشرق نے کہا تھا:
مذہب نہیں سِکھاتا آپس میں بیر رکھنا
میانمار (برما) سے دھڑا دھڑ خبریں آرہی ہیں کہ وہاں مسلمانوں کا نہایت بے دردی کے ساتھ قتلِ عام کیا جارہا ہے۔ صرف ڈیڑھ ماہ میں 20 ہزار مسلمانوں کو خون میں نہلادیا گیا ہے۔ باگ ملیشیا نامی مسلمان دشمن تنظیم نے مسلمانوں کے 70 سے زاید دیہات کو صفحۂ ہستی سے مٹادیا ہے جب کہ پانچ ہزار سے زاید مسلمان خواتین کی عصمتیں لوٹ لی گئی ہیں۔ ایک لاکھ سے اوپر مسلمان نقل مکانی کرچکے ہیں اور 10 ہزار سے زاید مسلمان لاپتا ہیں۔ دوسری جانب شہید کی جانے والی مساجد کی تعداد 22 سے تجاوز کرچکی ہے۔
میانمار کے مسلم اکثریتی صوبے ارکان میں مسلمانوں کا سب سے زیادہ جانی اور مالی نقصان ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ''ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟'' انسانیت کے علم بردار مغربی ممالک اور غیر ملکی فنڈز پر پلنے اور چلنے والی بین الاقوامی تنظیمیں اس درندگی پر چپ کیوں سادھے ہوئے ہیں؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ او آئی سی کیوں ہاتھ پر ہاتھ دھرے یہ سب تماشا دیکھ رہی ہے؟
ابھی میانمار میں جاری قتل عام کی خبروں کی سیاہی خشک نہ ہوئی تھی کہ عراق میں بم دھماکوں کے نتیجے میں 18 انسانی جانوں کے بھاری نقصان کی منحوس خبر آگئی۔ ادھر چند دن قبل ناروے سے ایک جنونی اور شدّت پسند قاتل اینڈرز بہرنگ بریویک کے ہاتھوں 77 افراد کی رونگٹے کھڑے کردینے والی لرزہ خیز خبر موصول ہوئی تھی۔ دنیا بھر میں انسانیت کا علم بردار کہلوانے والے ملک امریکا کا بھی کچھ کم برا حال نہیں ہے۔ وہاں کولوریڈو کے سفّاک درندے جیمز ہومز نے بربریت کا بازار گرم کردیا۔ یہ انسان دشمن جنونی بلاوجہ ایک سنیما ہائوس میں فلم دیکھنے والوں پراندھا دھند فائرنگ کرکے انھیں قتل کرتا رہا۔
دوسری جانب جرمنی میں خود کو نیشنل سوشلسٹ کہلوانے والے ایک انسانیت کش گروپ نے سات ترک باشندوں کے خون میں اپنے ہاتھ لت پت کرلیے۔ خود کو اہنسا کا پجاری (عدم تشدد کا پجاری) کہلوانے والے بھارت میں نریندر مودی، بال ٹھاکرے اور ایل کے ایڈوانی جیسے خون کے پیاسے مظلوم اور ستم رسیدہ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے کے لیے ہمہ وقت تیار بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں۔ ادھر ناٹو افواج ڈرون حملوں کے ذریعے پاکستان کے شمالی سرحدی علاقہ جات کو پے درپے اپنی جارحیت کا نشانہ بنانے پر تلی ہوئی ہیں۔ دریں اثناء بھارت کے صوبے آسام سے یہ خوف ناک خبریں موصول ہوئی ہیں کہ وہاں کا بوڈو قبیلہ مسلمان آبادکاروں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑا ہوا ہے اور ان ستم رسیدہ لوگوں کا کوئی والی وارث نہیں ہے۔ حیف صد حیف کہ اس مادہ پرست دنیا میں انسان کی قیمت کچھ بھی نہیں۔
اگرچہ تاریخ نے چنگیز خان اور ہلاکو کے خونیں ادوار بھی دیکھے ہیں اور ہیروشیما اور ناگاساکی کی ہلاکت خیزی کے مناظر بھی ریکارڈ کیے ہیں لیکن عصرِ حاضر میں جب کہ پوری دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے خونِ انسانی کی ارزانی کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے اور ماضی کے ایک مقبول فلمی گانے کے یہ بول بے ساختہ نوکِ زبان پر آجاتے ہیں:
دیکھ تیرے سنسار کی حالت کیا ہوگئی بھگوان
کتنا بدل گیا انسان، کتنا بدل گیا انسان
سب سے زیادہ تشویش ناک اور قابلِ مذمت حالت اپنے وطنِ عزیز پاکستان کی ہے جہاں انسان کا لہو پانی سے بھی زیادہ سستا ہوگیا ہے۔ شہر شہر، قریہ قریہ، گلی گلی اور کوچہ کوچہ ہلاکتوں پر ہلاکتوں کا بازار گرم ہے اور حکومتِ وقت بے دست و پا محض تماشائی بنی ہوئی دِکھائی دیتی ہے۔ صرف 2011 میں6,300 پاکستانی دہشت گردی کے نتیجے میں لقمۂ اجل بن گئے۔ اس کے علاوہ معاشی تنگ دستی اور معاشرتی جبر سے تنگ آکر 6000 تا 8000 پاکستانی خودکشی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ 100 میں سے 10 شیرخوار بچّے پانچ سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی صحت کی عدم نگہداشت کے باعث فوت ہوجاتے ہیں۔
اس کے علاوہ ایک لاکھ میں سے 25 افراد ہر سال سڑک کے حادثے کی نذر ہوجاتے ہیں۔دوسری جانب رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں بھی کراچی میں روزانہ کشت و خون کی صورت میں رقصِ ابلیس جاری ہے، جس کے نتیجے میں ہر روز دس بارہ افراد لقمۂ اجل بن رہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے نت نئی یقین دہانیاں کرائی جاتی ہیں کہ آیندہ یہ کیا جائے گا اور وہ کیا جائے گا لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ روزانہ لاشوں پر لاشیں گرتی رہتی ہیں اور بے حس و بے بس انتظامیہ ہر قدم پر ناکام نظر آتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب تک ہم خودغرضی اور فرعونیت سے باز نہیں آئیں گے اور انسانیت کا جامہ نہیں پہنیں گے اس وقت تک حالات تبدیل نہیں ہوں گے۔ سچ پوچھیے تو اس وقت دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ فرعونیت ہے۔
ہمارا مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ جب جب انسان کے پاس دولت، شہرت اور طاقت کی کثرت ہوتی ہے تو وہ جامے سے باہر آجاتا ہے اور اپنی اوقات اور اصلیت کو بھول جاتا ہے۔ فرعون صفت انسان سانپوں کی طرح ہوتے ہیں جو جب تک زندہ رہتے ہیں کمزوروں کو کیڑوں مکوڑوں کی طرح ڈستے رہتے ہیں، مگر انجامِ کار جب وہ خود مٹی میں مل جاتے ہیں تو خود بھی کیڑوں مکوڑوں کی خوراک بن جاتے ہیں۔ مت بھولیں کہ یہ دنیا عبرت سرائے ہے!