بلوچستان کا مسئلہحل کیا ہے
1962 میں بھی ایک جنرل نے غلط فیصلہ کیا تھا اور 2006 میں بھی ایک جنرل نے غلط فیصلہ کیا، نتیجہ پوری قوم بھگت رہی ہے۔
بلوچستان کا مسئلہ انتہائی سنگین ہے، وہاں امن و امان کی صورت حال انتہائی خراب ہے، عوام پریشان ہیں۔ اس قسم کی باتیں گزشتہ چند برسوں سے سننے میں آرہی تھیں، پھر پرویز مشرف جن پر مجھ سمیت بہت سے لوگ آئے دن کیچڑ اچھالتے رہتے ہیں، انھیں مسائل کی بنیاد نواب اکبر بگٹی نظر آئے اور انھوں نے اپنی بھرپور طاقت کا اظہار کرکے ایک بزرگ سیاست دان کو اپنے تئیں ہمیشہ کے لیے خاموش کردیا۔ شاید پرویز مشرف کی زندگی کی یہ لال مسجد کے سانحے کی طرح دوسری سب سے بڑی غلطی تھی جو مرتے دم تک انھیں تنگ کرتی رہے گی۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ ایک آبادی کے قلیل اور رقبے کے طویل صوبے کی ساری صورت حال سمجھنے کے باوجود جو غیر دانشمندانہ کام پرویز مشرف کر گئے،
وہ اسی قبر کے تابوت میں وہ آخری کیل ثابت ہوئی جو گزشتہ ساٹھ برسوں سے ہمارے سیاست دان اور حکومتی کارندے تیار کرتے آئے تھے۔ ایک مجموعی صورت حال سے اندازہ لگانا گو آسان نہیں تھا، پیچیدہ اور بظاہر الجھے مسائل اتنے بھی نہیں الجھے تھے کہ آخری حد پار کرلی جاتی، لیکن جو غلطی ہونا تھی ہوگئی۔اب جس صورت حال سے موجودہ حکومت بلوچستان کے سلسلے میں گزر رہی ہے، وہ اس کے لیے کسی قدر توجہ طلب ہیں کیونکہ اس وقت حکومت کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا کہ وہ کرے تو کیا کرے۔ کہا گیا کہ سب سے پہلے پولیس کو بلوچستان سے ہٹالینا چاہیے۔
حکومت نے کردیا اور ساری ذمے داری لیویز کے کندھوں پر ڈال دی۔ علاقوں کی کیٹگری بدل دی گئی، لیکن معاملہ پھر بھی نہ بدلا، ایف سی پر حملے اب بھی ہورہے ہیں۔مسخ شدہ لاشیں بھی مل رہی ہیں ،لوگ لاپتا بھی ہورہے ہیں۔شورش ہے کہ بڑھتی جارہی ہے۔یہ حقیقت ہے کہ بلوچستان کے روٹھے ہوؤں کو منانے کے لیے حکومتی کارروائیاں اور اپوزیشن کی حکمت عملی میں یوں تو مثبت انداز نظر آتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ روٹھے ہوئوں کو ان کے اس انداز سے تبدیلی کا احساس بھی ہورہا ہے یا نہیں۔
غربت کی انتہائی سطح پر رہنے والی آبادی میں پنجاب میں 26 فیصد، سندھ میں 38 فیصد، خیبر پختون خوا میں 29 فیصد اور بلوچستان میں 48 فیصد ہے جب کہ یہاں مردوں میں خواندگی کی شرح فیصد 23 اور خواتین میں صرف 7 فیصد ہے۔ ایک انگریزی اخبار کی اسی سال کے شروع کی خبر کے مطابق بلوچستان کے ہر دو افراد میں سے ایک خطِ غربت کے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔ ہر دو میں سے ایک کی صاف پانی تک رسائی نہیں ہے۔ ہر دو میں سے ایک بچّہ پرائمری اسکول تک کی تعلیم سے محروم ہے۔ ہر تین میں سے صرف ایک بچّے کو حفاظتی ٹیکے لگائے جاتے ہیں اور وہ اس بنیادی حفاظتی سہولت سے محروم ہے۔گوادر میں پینے کے پانی کی شدید قلت ہے۔
ایسی ہی صورت حال کے پیش نظر حکومت نے بقول موجودہ وزیراعظم کے بلوچستان کو 145 ارب روپے حصّہ ملا ہے۔ یہ حصّہ بلوچستان جیسے کم آبادی والے صوبے کے لیے بظاہر بہت ہے لیکن تاحال اس صوبے کی حالت پر کوئی فرق نہیں نظر آرہا۔اربوں روپے گئے کہاں؟ دراصل یہ مسئلہ جتنا حکومت کے لیے گمبھیر ہے اتنا ہی بلوچستان کی حکومت کے لیے بھی دشوار کن ہے کیونکہ کرپشن کا ناگ ہر جگہ ڈسنے کو بیٹھا ہے، حق دار ترس رہے ہیں اور ریوڑیاں ادھر ادھر بٹ رہی ہیں۔ گویا حکومت تو اپنی سی کوشش کررہی ہے لیکن اس کی کوشش کتنی اثرانگیز ہے، اس کا گراف اب بھی اوپر کے بجائے نیچے کی جانب ہے۔
بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات سرد اورگرم موسموں کی طرح رہتے ہیں۔ 2011 میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 1476 واقعات ہوئے، جن میں 36 بم حملے، 68 دھماکے اور 134 گیس تنصیبات پر حملے تھے۔ ان حملوں میں 117 راکٹ فائر کیے گئے اور 215 بارودی سرنگوں کے دھماکے ہوئے۔ 291 افراد کو اغوا کیا گیا۔ سلسلہ وار دہشت گردی کی وارداتیں ہورہی ہیں۔ برسوں سے ساتھ رہنے والے آج کیوں انتشار اور بدامنی کا شکار ہیں۔ کیا اس کی وجہ ان کے درمیان نفسیاتی، معاشرتی یا معاشی مسائل ہیں یا کچھ اور بھی پس پردہ ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی زندگی کے آخری ایّام میں اپنی صاحبزادی بے نظیر بھٹو کی 25 ویں سالگرہ پر 21 جون 1978 کو ایک یادگار خط تحریر کیا تھا، جس میں بہت سی باتیں سامنے آئیں، مثلاً انھوں نے 1962 میں جنرل ایوب خان کے زیر اثر عدالت کے اس فیصلے کا ذکر کیا، جس میں نواب اکبربگٹی کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔ بھٹو صاحب کا اسی زمانے میں آپریشن ہوا تھا۔ سرجن جنرل شوکت نے ان کا آپریشن کیا تھا۔ بھٹو صاحب لکھتے ہیں ''مجھے یاد ہے کہ جب میں کلورو فارم کے زیر اثر مغلوب ہو کربے ہوش ہورہا تھا تو میں کہہ رہا تھا کہ میں اکبر بگٹی کو حکومت کے ہاتھوں سزائے موت نہیں ہونے دوں گا، میں بے ہوش ہوتے ہوئے اکبر بگٹی اور خیر بخش مری کو پکارتا رہا۔''
اس سے آگے وہ اپنی صاحبزادی کو مخاطب کرکے اس آپریشن کا ذکر کرتے ہیں جو ان کے دور میں بلوچستان میں ہوا۔ وہ لکھتے ہیں ''اگر اتفاق سے ان لیڈروں سے تمہاری ملاقات ہوجائے تو ان سے کہنا کہ مجھے اس بات کا پورا یقین ہے کہ بلوچ ایک بہادر باپ اور بہادر ماں کا بیٹا ہوتا ہے، جسے اپنے اوپر فخر ہوتا ہے، بہادری اور فخر دونوں ہی بڑی خوبصورتی سے اس کے چہرے سے نمایاں ہوتے ہیں۔''
بھٹو صاحب کی اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھیں اپنے کیے گئے اس آپریشن پر پشیمانی تھی، خود روایت پسند قوم سے تعلق رکھنے کے باوجود بھی وہ بلوچ قوم کی نفسیات کو نہ سمجھ سکے تھے۔ 1962 میں بھی ایک جنرل نے غلط فیصلہ کیا تھا اور 2006 میں بھی ایک جنرل نے غلط فیصلہ کیا، نتیجہ پوری قوم بھگت رہی ہے۔ اس تمام تناظر میں اگر دیکھا جائے تو اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہ ہوگا کہ ملک میں جمہوریت کی عدم استحکام کے باعث مارشل لاء نے ملک کا سنگین نقصان کیا۔
سیاسی انداز اور جمہوری طریقۂ کار کے مخالف آمرانہ فیصلوں نے ملک کو ایک پیچیدہ راستے پر ڈال دیا ہے۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ گیس کی دستیابی نے پہلے ہی دنیا بھر میں بلوچستان کی اہمیت کا اظہار کردیا تھا جیسے ریکوڈیک میں قیمتی ذخائر کے عیاں ہونے کے بعد کچھ اور بھی ابھار دیا تھا، بڑی طاقتوں کی عقابی آنکھوں میں بلوچستان ایک عرصے سے کھٹک رہا ہے۔ اس شک کو ہرگز نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ قیمتی ذخائر کی موجودگی کے باعث بلوچستان کو دنیا بھر میں ہاٹ کیک سمجھا جارہا ہے۔
اس کیک میں اپنا اپنا حصّہ بنانے کے لیے بہت سی طاقتیں سر جوڑ رہی ہیں۔ دوسری جانب گوادر کی اہم بندرگاہ جسے اپنے اہم خطے کے باعث اہمیت حاصل ہے، ان بہت سے عوامل کے باعث بلوچستان کا رقبہ دنیا بھر میں توجہ کا مرکز بنتا جارہا ہے اور یہ اہم حصّہ پاکستان جیسے کمزور معاشی طور پر غیر مستحکم ملک جسے عالمی برادری میں طرح طرح سے زک پہنچانے کی ترکیبیں اختیار کی جاتی ہیں، کیسے برداشت کیا جاسکتا ہے۔
مجھے اس موقعے پر انگریزوں کا ایک مقولہ یاد آرہا ہے جو برصغیر پر قبضے کے بعد خاصا مقبول بھی ہوا تھا۔ Divide & rule یعنی تقسیم کرو اور حکومت کرو۔ اس مقولے کی روشنی میں بہت سے وہ نکات واضح ہوجاتے ہیں، جن پر ہمارے اپنے جذباتی اور جلد باز حکمرانوں نے ماضی میں حقارت سے آبیاری کی تھی۔
کیا یہ واقعی درست ہے کہ ملک سے باہر بیٹھے عسکریت پسند بلوچ سرداروں کے نشانے اب بھی بلوچستان پر تاک تاک کر لگ رہے ہیں یا حکومتی نشستوں پر بیٹھے بلوچ سردار اپنے منصب سے پوری طرح انصاف کررہے ہیں اور اگر واقعی یہ انصاف پوری طرح سے ہورہا ہے تو بلوچستان میں ترقیاتی کام کیوں نظر نہیں آتے۔ حالانکہ اب تو صوبے کا وزیراعلیٰ بھی بلوچ ہے اور گورنر بھی بلوچ ہے۔ علاقے میں امن و امان کی ڈور کس کے ہاتھ میں ہے۔ ملک سے باہر بیٹھے عسکریت پسند بلوچ سرداروں کے ہاتھ میں یا کسی دوسری طاقت کے ہاتھ میں ہے، جس کا پورا ہاتھ تو چھپا ہوا ہے، بس ڈوریں ہلتی نظر آرہی ہیں۔ یہ چشم کشا سوال ہے۔
وہ اسی قبر کے تابوت میں وہ آخری کیل ثابت ہوئی جو گزشتہ ساٹھ برسوں سے ہمارے سیاست دان اور حکومتی کارندے تیار کرتے آئے تھے۔ ایک مجموعی صورت حال سے اندازہ لگانا گو آسان نہیں تھا، پیچیدہ اور بظاہر الجھے مسائل اتنے بھی نہیں الجھے تھے کہ آخری حد پار کرلی جاتی، لیکن جو غلطی ہونا تھی ہوگئی۔اب جس صورت حال سے موجودہ حکومت بلوچستان کے سلسلے میں گزر رہی ہے، وہ اس کے لیے کسی قدر توجہ طلب ہیں کیونکہ اس وقت حکومت کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا کہ وہ کرے تو کیا کرے۔ کہا گیا کہ سب سے پہلے پولیس کو بلوچستان سے ہٹالینا چاہیے۔
حکومت نے کردیا اور ساری ذمے داری لیویز کے کندھوں پر ڈال دی۔ علاقوں کی کیٹگری بدل دی گئی، لیکن معاملہ پھر بھی نہ بدلا، ایف سی پر حملے اب بھی ہورہے ہیں۔مسخ شدہ لاشیں بھی مل رہی ہیں ،لوگ لاپتا بھی ہورہے ہیں۔شورش ہے کہ بڑھتی جارہی ہے۔یہ حقیقت ہے کہ بلوچستان کے روٹھے ہوؤں کو منانے کے لیے حکومتی کارروائیاں اور اپوزیشن کی حکمت عملی میں یوں تو مثبت انداز نظر آتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ روٹھے ہوئوں کو ان کے اس انداز سے تبدیلی کا احساس بھی ہورہا ہے یا نہیں۔
غربت کی انتہائی سطح پر رہنے والی آبادی میں پنجاب میں 26 فیصد، سندھ میں 38 فیصد، خیبر پختون خوا میں 29 فیصد اور بلوچستان میں 48 فیصد ہے جب کہ یہاں مردوں میں خواندگی کی شرح فیصد 23 اور خواتین میں صرف 7 فیصد ہے۔ ایک انگریزی اخبار کی اسی سال کے شروع کی خبر کے مطابق بلوچستان کے ہر دو افراد میں سے ایک خطِ غربت کے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔ ہر دو میں سے ایک کی صاف پانی تک رسائی نہیں ہے۔ ہر دو میں سے ایک بچّہ پرائمری اسکول تک کی تعلیم سے محروم ہے۔ ہر تین میں سے صرف ایک بچّے کو حفاظتی ٹیکے لگائے جاتے ہیں اور وہ اس بنیادی حفاظتی سہولت سے محروم ہے۔گوادر میں پینے کے پانی کی شدید قلت ہے۔
ایسی ہی صورت حال کے پیش نظر حکومت نے بقول موجودہ وزیراعظم کے بلوچستان کو 145 ارب روپے حصّہ ملا ہے۔ یہ حصّہ بلوچستان جیسے کم آبادی والے صوبے کے لیے بظاہر بہت ہے لیکن تاحال اس صوبے کی حالت پر کوئی فرق نہیں نظر آرہا۔اربوں روپے گئے کہاں؟ دراصل یہ مسئلہ جتنا حکومت کے لیے گمبھیر ہے اتنا ہی بلوچستان کی حکومت کے لیے بھی دشوار کن ہے کیونکہ کرپشن کا ناگ ہر جگہ ڈسنے کو بیٹھا ہے، حق دار ترس رہے ہیں اور ریوڑیاں ادھر ادھر بٹ رہی ہیں۔ گویا حکومت تو اپنی سی کوشش کررہی ہے لیکن اس کی کوشش کتنی اثرانگیز ہے، اس کا گراف اب بھی اوپر کے بجائے نیچے کی جانب ہے۔
بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات سرد اورگرم موسموں کی طرح رہتے ہیں۔ 2011 میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 1476 واقعات ہوئے، جن میں 36 بم حملے، 68 دھماکے اور 134 گیس تنصیبات پر حملے تھے۔ ان حملوں میں 117 راکٹ فائر کیے گئے اور 215 بارودی سرنگوں کے دھماکے ہوئے۔ 291 افراد کو اغوا کیا گیا۔ سلسلہ وار دہشت گردی کی وارداتیں ہورہی ہیں۔ برسوں سے ساتھ رہنے والے آج کیوں انتشار اور بدامنی کا شکار ہیں۔ کیا اس کی وجہ ان کے درمیان نفسیاتی، معاشرتی یا معاشی مسائل ہیں یا کچھ اور بھی پس پردہ ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی زندگی کے آخری ایّام میں اپنی صاحبزادی بے نظیر بھٹو کی 25 ویں سالگرہ پر 21 جون 1978 کو ایک یادگار خط تحریر کیا تھا، جس میں بہت سی باتیں سامنے آئیں، مثلاً انھوں نے 1962 میں جنرل ایوب خان کے زیر اثر عدالت کے اس فیصلے کا ذکر کیا، جس میں نواب اکبربگٹی کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔ بھٹو صاحب کا اسی زمانے میں آپریشن ہوا تھا۔ سرجن جنرل شوکت نے ان کا آپریشن کیا تھا۔ بھٹو صاحب لکھتے ہیں ''مجھے یاد ہے کہ جب میں کلورو فارم کے زیر اثر مغلوب ہو کربے ہوش ہورہا تھا تو میں کہہ رہا تھا کہ میں اکبر بگٹی کو حکومت کے ہاتھوں سزائے موت نہیں ہونے دوں گا، میں بے ہوش ہوتے ہوئے اکبر بگٹی اور خیر بخش مری کو پکارتا رہا۔''
اس سے آگے وہ اپنی صاحبزادی کو مخاطب کرکے اس آپریشن کا ذکر کرتے ہیں جو ان کے دور میں بلوچستان میں ہوا۔ وہ لکھتے ہیں ''اگر اتفاق سے ان لیڈروں سے تمہاری ملاقات ہوجائے تو ان سے کہنا کہ مجھے اس بات کا پورا یقین ہے کہ بلوچ ایک بہادر باپ اور بہادر ماں کا بیٹا ہوتا ہے، جسے اپنے اوپر فخر ہوتا ہے، بہادری اور فخر دونوں ہی بڑی خوبصورتی سے اس کے چہرے سے نمایاں ہوتے ہیں۔''
بھٹو صاحب کی اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھیں اپنے کیے گئے اس آپریشن پر پشیمانی تھی، خود روایت پسند قوم سے تعلق رکھنے کے باوجود بھی وہ بلوچ قوم کی نفسیات کو نہ سمجھ سکے تھے۔ 1962 میں بھی ایک جنرل نے غلط فیصلہ کیا تھا اور 2006 میں بھی ایک جنرل نے غلط فیصلہ کیا، نتیجہ پوری قوم بھگت رہی ہے۔ اس تمام تناظر میں اگر دیکھا جائے تو اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہ ہوگا کہ ملک میں جمہوریت کی عدم استحکام کے باعث مارشل لاء نے ملک کا سنگین نقصان کیا۔
سیاسی انداز اور جمہوری طریقۂ کار کے مخالف آمرانہ فیصلوں نے ملک کو ایک پیچیدہ راستے پر ڈال دیا ہے۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ گیس کی دستیابی نے پہلے ہی دنیا بھر میں بلوچستان کی اہمیت کا اظہار کردیا تھا جیسے ریکوڈیک میں قیمتی ذخائر کے عیاں ہونے کے بعد کچھ اور بھی ابھار دیا تھا، بڑی طاقتوں کی عقابی آنکھوں میں بلوچستان ایک عرصے سے کھٹک رہا ہے۔ اس شک کو ہرگز نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ قیمتی ذخائر کی موجودگی کے باعث بلوچستان کو دنیا بھر میں ہاٹ کیک سمجھا جارہا ہے۔
اس کیک میں اپنا اپنا حصّہ بنانے کے لیے بہت سی طاقتیں سر جوڑ رہی ہیں۔ دوسری جانب گوادر کی اہم بندرگاہ جسے اپنے اہم خطے کے باعث اہمیت حاصل ہے، ان بہت سے عوامل کے باعث بلوچستان کا رقبہ دنیا بھر میں توجہ کا مرکز بنتا جارہا ہے اور یہ اہم حصّہ پاکستان جیسے کمزور معاشی طور پر غیر مستحکم ملک جسے عالمی برادری میں طرح طرح سے زک پہنچانے کی ترکیبیں اختیار کی جاتی ہیں، کیسے برداشت کیا جاسکتا ہے۔
مجھے اس موقعے پر انگریزوں کا ایک مقولہ یاد آرہا ہے جو برصغیر پر قبضے کے بعد خاصا مقبول بھی ہوا تھا۔ Divide & rule یعنی تقسیم کرو اور حکومت کرو۔ اس مقولے کی روشنی میں بہت سے وہ نکات واضح ہوجاتے ہیں، جن پر ہمارے اپنے جذباتی اور جلد باز حکمرانوں نے ماضی میں حقارت سے آبیاری کی تھی۔
کیا یہ واقعی درست ہے کہ ملک سے باہر بیٹھے عسکریت پسند بلوچ سرداروں کے نشانے اب بھی بلوچستان پر تاک تاک کر لگ رہے ہیں یا حکومتی نشستوں پر بیٹھے بلوچ سردار اپنے منصب سے پوری طرح انصاف کررہے ہیں اور اگر واقعی یہ انصاف پوری طرح سے ہورہا ہے تو بلوچستان میں ترقیاتی کام کیوں نظر نہیں آتے۔ حالانکہ اب تو صوبے کا وزیراعلیٰ بھی بلوچ ہے اور گورنر بھی بلوچ ہے۔ علاقے میں امن و امان کی ڈور کس کے ہاتھ میں ہے۔ ملک سے باہر بیٹھے عسکریت پسند بلوچ سرداروں کے ہاتھ میں یا کسی دوسری طاقت کے ہاتھ میں ہے، جس کا پورا ہاتھ تو چھپا ہوا ہے، بس ڈوریں ہلتی نظر آرہی ہیں۔ یہ چشم کشا سوال ہے۔