زکوٰۃ حق ہے نہ کہ خیرات

زکوٰۃ خیرات نہیں ہے حق ہے کیونکہ حد اور لمٹ خیرات کی نہیں بلکہ حق کی ہوتی ہے


Saad Ulllah Jaan Baraq July 21, 2017
[email protected]

PESHAWAR: تقریباً سارے ہی لوگ اس غلط فہمی میں پڑے ہوئے ہیں کہ زکوٰۃ مخیر لوگوں کا بڑا احسان ہے جو وہ غریبوں پر کرتے ہیں اور یہ خیال اصل میں ایک اور خیال سے پید ا ہوا ہے، وہ خیال اپنی ملکیت یا کمائی کا ہے کہ یہ میری ملکیت خیر ہے یا میں نے اپنی محنت سے کمائی ہے۔ اس کے لیے ایک اور غلط اصطلاع ''سلیف میڈ '' کی بھی استعمال کی جاتی ہے حالانکہ کوئی فرد واحد اکیلے اکیلے کچھ بھی نہیں کر سکتا ہے، اس کی کمائی کے ذرایع زمین، جائیداد یا دولت نہیں ہوتی کیونکہ ان تمام چیزوں سے اگر انسانوں کو ہٹا دیا جائے جو اس میں کام کرتے ہیں یا وہ عوام الناس جو ان چیزوں کو خریدتے اور استعمال کرتے ہیں،اکیلا جاگیردار ، اکیلا ٹھکیدار ، اکیلا تاجر اکیلا صنعت کار کچھ بھی نہیں بلکہ اس کی کمائی کا ذریعہ عوام ہوتے ہیں چاہے وہ مزدور کسان ہوں ، خریدار ہوں یا صارفین ہوں، ایک اکیلا شخص جو ملکیت کا دعویدار ہے۔

وہ اکیلے اکیلے تو شاید اپنا پیٹ پالنے کے لیے بھی کچھ نہ کر سکے اگر مختلف شکلوں میں دوسرے انسان اس کے مدد گار نہ ہوں اور تو اور بازار میں ایک پراڈکٹ خریدنے والا ، آٹا دال چاول گھی خریدنے والا سبزی پھل، غلا جات استعمال کرنے والا نامعلوم ''صارف'' بھی اس کا مدد گار ہوتا ہے بالواسطہ سہی لیکن اگر وہ ان چیزوں کا استعمال کر دے جو یہ بیچتا ہے تو یہ کیا کر پائے گا اس لیے ایک جاگیر دار سرمایادار صنعت کار اگر اپنے آپ کو '' مالک '' کہہ کر گردن اکڑاتا ہے تو غلط کرتا ہے۔کسی کو سونے کے پہاڑ پر بٹھا دیجیے اور دوسرے انسانوں سے ان کا ہر رابطہ منقطع کر دیجیے ، وہ اس سونے کا کیا کر پائے گا کہ خود سونا تو انسانوں کے بغیر کچھ بھی نہیں ہے نہ اسے کھایا جا سکتا ہے نہ پیا جا سکتا ہے نہ اوڑھا جا سکتا ہے اسی طرح زمین یا جاگیروں جانداروں کا بھی معاملہ ہے۔

کسی کو ساری دنیا کی زمین دے دی جائے اور اس میں ایک باغ بھی ہو جس میں دنیا جہاں کے پھل سبزیاں اور غلے بھی موجود ہوں اور کسی دوسرے انسان سے اس کا کوئی تعلق نہ ہو اسی طرح ہر کارخانے کے پراڈکٹس ہیں مطلب یہ کہ ایک سرمایہ دار یا دوسرے معنوں میں '' صاحب نصاب'' شخص کے اپنے اندر کی خوبیاں اس کو صاحب نصاب بنانے کے لیے کافی نہیں ہوتیں بلکہ بیکار محض ہیں اگر دوسرے عام انسان اس کے مدد گار نہ ہو۔

یہ تو ایک پہلو ہوا ایک اور پہلو بھی اس کا ہے ایک شخص ان تمام چیزوں کا مالک ہو سکتا ہے جو کسی نہ کسی طرح ذاتی ملکیتوں کی فہرست میں آتی ہیں، زمین جائیداد دولت اور دولت سے شروع ہونے والے دوسرے کام لیکن اس کی دولت کو مزید بڑھانے کے لیے کچھ اور چیزیں اس دنیا میں ابھی باقی ہیں جو اس کی ملکیت نہیں ہیں بلکہ سارے انسانوں کی مشترکہ ملکیت ہیں جیسے آسمان ہے سورج ہے بارش ہے ہوا ہے اور ان سب سے پیدا ہونے والے مختلف موسم ہیں ، دریا ہیں سمندر ہیں، پہاڑ ہیں اب وہ شخص جس کی زمین ہے وہ تو ان چیزوں سے فائدہ اٹھاتاہے ، سمندر پر دھوپ پڑتی ہے۔

بھاپ بنتی ہے اور پھر بادلوں کی شکل میں بارش برساتی ہے، اس بارش سے زمین سیراب ہوتی ہے کیونکہ دریاؤں نہروں ٹیوب ویلوں کنوؤں چشموں میںوہی پانی ہوتا ہے جس میں ملکیت والے جو زیادہ تر ناجائز ہوتی ہے تو فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن جس کی ایک انچ زمین نہیں ہے بلکہ سرچھپانے کے لیے ایک چھوٹا سا ٹکڑا بھی نہیں اس کا بھی اس بارش دھوپ اور ہوا میں حصہ تو ہے جو ابھی زمینی چیزوں کی طرح خوش قسمتی سے چھینا نہیں گیا ہے اور کوئی اسے اپنے نام نہیں کر سکا ہے اس کاوہ حصہ کہاں گیا ؟ ظاہر ہے کہ ملکیتوں والوں نے استعمال کر لیا،زمین پر سڑکیں راستے ہیں اور بھی ایسا بہت کچھ ابھی باقی ہے جس پر کسی کا قبضہ نہیں ہے۔

اب جس کی گاڑیاں ٹرانسپورٹ تجارتی مال ہے وہ تو ان مشترکہ ملکیت کے ذرایع یعنی راستوں گزرگاہوں بندر گاہوں وغیرہ سے فائدہ اٹھالے گا لیکن جس کی ملکیت صرف اپنے ''دو پیر '' ہیں نہ ان راستوں گزرگاہوں پر چلتا ہے نہ چلنے کی استطاعت رکھتا اس کا '' حصہ '' کہاں گیا ہے کیونکہ ابھی سٹرکیں راستے دریا سمندر اور گزرگاہیں کسی نے اپنے نام نہیں کی ہوئی ہے، مختصر طور پر یوں سمجھ لیجیے کہ ابھی ابھی ایسا بہت کچھ اس دنیا میں کائنات میں ہے جو انفرادی ملکیتوں میں نہیں آئی ہیں اور جب انفرادی ملکیتوں میں نہیں آئی ہیں تو ظاہر ہے کہ سارے انسانوں کی اجتماعی ملکیت ہوئیں اور اجتماعی ملکیتوں کا جو زیادہ استعمال کرتاہے، اسے دوسرے کو بھی دینا ضرور اگر زمین بٹائی اجارے پر دولت سود یا شراکت پر ہو سکتی ہیں تو سورج زمین ہوا بارش دریا سمندر پہاڑ اور موسم بھی ہو سکتی ہیں اور ہونا چاہیے۔

زکوٰۃ اسی حق کا نام ہے جو بہت ہی منصانہ تقسیم ہے کہ نوحصے فائدہ اٹھانے والے کو اور صرف ایک حصہ ان بچارے خاموش مالکان کو دیا گیا ہے ۔ جو ان مشترکہ چیزوں سے اتنا فائدہ نہیں اٹھا سکتے جتنا ملکیت اور وسائل والے یا دوسرے معنوں میں ذہین لوگ اٹھاتے ہیں، اگر کوئی زکوٰۃ کو خیرات یا مہربانی یا سخاوت سمجھتا ہے تو غلط سمجھتا ہے۔ زکوٰۃ خیرات نہیں ہے حق ہے کیونکہ حد اور لمٹ خیرات کی نہیں بلکہ حق کی ہوتی ہے ،اب زکوٰۃ کی تقسیم کی طرف آتے ہیں اور شاید۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔