ذکر کچھ ہم وطنوں کے خیالات کا
اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ میاں نواز شریف کو عہدے سے الگ ہوکر عدالتی کارروائی کا سامنا کرنا چاہیے۔
مجھے امریکا آئے 18 دن ہونے کو آئے ہیں۔ یہاں صحافیوں، سفارت کاروں، پروفیسروں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ہم وطنوں سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ تین ایسی تقاریب میں شرکت کا موقع بھی ملا جن میں کچھ امریکن بھی موجود تھے۔ ان کے خیالات جاننے کا بھی موقع ملا۔ امریکیوں اور دیگر ممالک کے شہریوں کی رائے پھر کسی اور وقت، یہاں وطن سے دور بیٹھے ہم وطنوں کی وطن عزیز کے معاملات کے بارے رائے پیش کرنا چاہیں گے۔ ہم کوشش کریں گے کہ جس قدر آرا اس اظہاریے میں سموئی جاسکیں، انھیں اہل وطن کے سامنے رکھ دیں۔
پاکستان کی صورتحال کے بارے میں ہر پاکستانی نژاد امریکی خاصا متفکر نظر آیا۔ انھیں اس بات پر بھی شدید دکھ ہے کہ ملک میں رائے عامہ دو انتہاؤں میں بٹ چکی ہے۔ درمیان کا غیر جانبدارانہ Grey Area موجود نہیں رہا ہے، جس کی وجہ سے انھیں غیر جانبدارانہ نقطہ نظر جاننے میں دشواریوں کا سامنا ہے۔ جو لوگ نواز شریف کے حامی ہیں، وہ ان پر لگے ہر الزام کو اسٹبلشمنٹ کی سازش قرار دے کر ان کے خلاف ہونے والے ٹرائل کو متنازع بنانے میں لگے ہوئے ہیں، جب کہ مخالفین انھیں JIT کی رپورٹ کی بنیاد پر تختہ دار پر پہنچادینا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی ٹیلی ویژن چینلوں پر اس حوالے سے جو بحث ہورہی ہے، وہ انھیں مایوس کرنے کا باعث بن رہی ہے۔
پروفیسر ممتاز شیرازی، یہاں عمرانیات پڑھاتے ہیں، پنجاب کے ضلع چکوال سے تعلق ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں آئین و قانون کی دھجیاں تو خود بااثر طبقات بکھیرتے ہیں۔ جب ان پر کوئی الزام لگتا ہے تو اپنی پارسائی جتانے کی خاطر کسی نہ کسی ادارے پر الزام عائد کرکے اسے متنازع بنادیتے ہیں۔ یہ نہیں سوچا جاتا کہ ہر ادارے کے متنازع ہوجانے کے بعد گورننس کی بہتری کے لیے کیا راہ بچ سکے گی۔ وہ کہتے ہیں کہ اس میں شک نہیں کہ فوج نے چار بار شب خون مارا، عدلیہ نے اس کے اقدامات کو آئینی تحفظ فراہم کیا۔ لیکن وہ سوال کرتے ہیں کہ کیا قیام پاکستان کے وقت سے آج تک سیاست دانوں نے غلطیاں نہیں کیں؟ کیا انھوں نے خود فوج کو یہ موقع فراہم نہیں کیا کہ وہ اقتدار پر قابض ہوسکے؟ پھر جب فیصلہ سازی کا موقع ملا، تو آئینی اصلاحات اور قانون سازی کے ذریعے بہتری کے اقدامات کرنے کے بجائے status quo کو بڑھاوا دینے کی کیوں کوشش کی؟
اس سلسلے میں وہ بھٹو مرحوم کی مثال دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بھٹو مرحوم کا یہ احسان ہے کہ انھوں نے نیا آئین دے کر باقی ماندہ پاکستان کو یکجا رکھنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ مگر خود ہی سات غیر جمہوری ترامیم کے ذریعے اس کا حلیہ بگاڑ دیا۔ خاص طور پر دوسری آئینی ترمیم کے نتیجے میں مذہبی شدت پسندی اور متشدد فرقہ واریت کی راہ ہموار ہوئی۔
ان کا کہنا ہے کہ سردار داؤد کی حکومت کے خلاف افغان سرداروں اور مذہبی رہنماؤں کی سرپرستی بھٹو مرحوم کی دوسری فاش غلطی تھی، جس کی وجہ سے نہ صرف افغانستان بارود کا ڈھیر بنا، بلکہ پاکستان بھی آج تک مسلسل اس آگ میں جھلس رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس زمانے میں پیپلز پارٹی اور نیشنل عوامی پارٹی میں پیدا ہونے والے اختلافات کی وجہ سے ملک میں روشن خیال اور ترقی دوست سوچ کو خاصا نقصان پہنچا۔ کیونکہ اس اختلاف کی وجہ سے بنیاد پرست عناصر کو ریاستی منصوبہ سازی پر حاوی آنے کا موقع ملا۔ جس کے نتیجے میں پورے ملک میں فکری ارتقا کا راستہ رک گیا۔ جس کا خمیازہ آج پوری پاکستانی قوم کو بھگتنا پڑرہا ہے۔
پاناما لیکس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ یہ عالمی سطح پر ابھرنے والا کرپشن کا ایک اہم ایشیو ہے، جسے ہماری سیاسی جماعتوں نے خود Mishandle کیا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ کبھی اسٹبلشمنٹ کو مورد الزام ٹھہرایا جارہا ہے، کبھی عدلیہ کو۔ حالانکہ اصل خرابی تو سیاست دانوں میں پایا جانے والا معاملہ فہمی کا فقدان ہے۔ پروفیسر صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف اور ان کا خاندان اپنی تضادبیانی کی وجہ سے بری طرح پھنس چکا ہے۔ اس کے رہنماؤں کے حالیہ بیانات سے ظاہر ہے کہ دال میں بہرحال کچھ کالا ضرور ہے۔
اب ان کے لیے بہتری کا یہی راستہ ہے کہ وہ جمہوری نظام کے تسلسل کی خاطر وزارت عظمیٰ سے سبکدوش ہوکر اقتدار اپنے کسی بااعتماد ساتھی کو سونپ دیں۔ ان کا اقتدار سے الگ ہونے سے مسلسل انکار اور عدلیہ اور اسٹبلشمنٹ پر الزام دھرنا ادارہ جاتی تصادم کو مزید ہوا دینے کا باعث بنے گا، جس کے نتیجے میں جمہوریت اور ملکی سالمیت کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔ اس لیے انھیں ہٹ دھرمی سے باز رہنے کی ضرورت ہے۔
ان کی خواہش ہے کہ پاکستان میں میرٹ، شفافیت، جوابدہی اور احتساب کا کلچر فروغ پائے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ملک میں اداروں کو آزادانہ کام کرنے کا موقع دیا جائے۔ ادارے اسی وقت اپنی آئینی محدودات کے اندر رہ کر کام کرتے ہیں، جب ان کو چلانے والے والے ذمے داران اہل ہوں اور ان کا تقرر میرٹ پر کیا گیا ہو۔ انھوں نے سوال کیا کہ پڑوسی ملک بھارت میں عدلیہ اور الیکشن کمیشن کیوں متنازع نہیں ہیں اور تاریخ کے کسی دور میں بھی متنازع نہیں رہے؟ خود ہی جواب دیا کہ وہاں ان اداروں کی اہمیت اور افادیت کو سمجھا گیا۔ اس لیے وہاں ذمے داروں اور اہلکاروں کے تقرر میں میرٹ اور شفافیت پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بھارت میں جمہوریت کے تسلسل میں وہاں کی عدلیہ اور الیکشن کمیشن کا کلیدی کردار ہے۔
جس دوسری شخصیت سے ہمارا تعارف ہوا، وہ فرقان لودھی ہیں۔ یہ گزشتہ 30 برسوں سے امریکا کے شہری ہیں۔ ایک انتہائی پڑھے لکھے گھرانے کے چشم و چراغ ہیں۔ ان کے دادا ریلوے ہائی اسکول سکھر میں استاد تھے۔ والد فزیکل کیمسٹری میں Ph.D تھے۔ انھوں نے PCSIR، بلوچستان یونیورسٹی اور غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں اہم ذمے داریاں سرانجام دیں۔ خود بھی بہت پڑھے لکھے اور حالات حاضرہ پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ہم ان کے خاندان سے سکھر سے واقف ہیں۔ البتہ ان سے پہلی بار اب ملاقات ہوئی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان نے اپنا منطقی جواز اس دن کھو دیا جب اس نے بنگالی زبان کو قومی زبان تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ پھر 1955 میں ون یونٹ بناکر وفاقیت کو نقصان پہنچایا۔ تیسری غلطی مسلم اقلیتی صوبوں سے آنے والوں کے سیاسی حقوق کا تسلیم نہ کیا جانا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تقسیم ہند کی سزا مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمان 70 برس سے سرحد کے دونوں جانب بھگت رہے ہیں۔ جو وہاں رہ گئے، ان کی اولاد آج تک بے اعتباری کا شکار ہیں۔ جو یہاں آگئے، ان کی تیسری نسل بھی پاکستانی سیاست میں قابل قبول نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس طرح ملک نہیں چلتے۔ پاکستان امریکا کی طرح ایک وفاق ہے۔ اگر وفاقیت کے تصور سے مسلسل انحراف اور چھوٹی کمیونٹیز کے سیاسی حقوق غصب کیے جاتے رہے، تو ملک کا وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
اب تک جتنے بھی پاکستانیوں سے ملنے کا اتفاق ہوا، ان کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ میاں نواز شریف کو عہدے سے الگ ہوکر عدالتی کارروائی کا سامنا کرنا چاہیے۔ جو فیصلہ آئے اسے ملک کے وسیع تر مفاد میں قبول کرنا چاہیے۔ اب جب کہ احتساب کا عمل شروع ہوگیا ہے تو جنرلوں، ججوں اور جرنلسٹوں سمیت ہر شعبہ ہائے زندگی کے ذمے داروں کا احتساب ہونا چاہیے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ ماضی کے فرسودہ تصورات سے نکل کر مختلف ریاستی اداروں کی میرٹ کی بنیاد پر تشکیل نو کی جائے تاکہ گورننس کو بہتر بنایا جاسکے۔ ان لوگوں کی خواہش ہے کہ ان کے خیالات پاکستانی حکمرانوں اور منصوبہ سازوں تک کسی نہ کسی طرح پہنچنا چاہئیں، تاکہ ملک مضبوط اور مستحکم ہوسکے، جو ان کے بیرون ملک تشخص و تفاخر کے لیے بھی ضروری ہے۔