انداز حکمرانی بدلنا ہو گا

اب ووٹ نہ فرقہ بندی کی بنیاد پر نہ لسانی گروپ کی بنیاد پر برادری پر دیں بلکہ صرف حب الوطنی اورکارکردگی کی بنیاد پردیں۔

mohsin014@hotmail.com

پوری دنیا میں حکمرانی دو انداز میں ہوتی ہے ایک ظاہری چاہے بادشاہت ہو یا آمریت ، جمہوریت ہوکوئی اور طرز حکمرانی اس کو ظاہری حکومت کہتے ہیں جب کہ اسی حکومت کے پیچھے ایک اور حکمرانی ہوتی ہے جسے ہم باطنی حکومت یا INVISIBLE حکمرانی کہتے ہیں ۔ اس کو ہمارے ملک میں ESTABLISHMENTکہتے ہیں ۔ ظاہری حکومت کا کام ہے اپنے منشور اپنے اصول اپنی بنائی پالیسیوں پر عمل پیرا رہے جب کہ باطنی حکومت ملک کی ریاست کی حفاظت کرتی ہے۔ اس کے نظریے کی حفاظت کرتی ہے۔

وہی ملک دشمن قوتوں پر نگاہ رکھتی ہے وہی بیرونی اور اندرونی دشمن سے نبرد آزما ہوتی ہے اس کا یہ بھی کام ہے اگر ظاہری حکومت کوئی ایسی پالیسی بناتی ہے جو ریاست کے مفاد کے خلاف ہو یا ریاست کوکمزورکر ے تو اسے ایسی حکومت کو متنبہ کرنا ہوتا ہے اگر انتباہ کو حکومت نظر انداز کرے تو اسے کوئی ایسا قدم اٹھانا پڑتا ہے جو ریاست کوکمزور نہ ہونے دے ۔ ظاہری حکومت کے پاس بہت اختیارات ہوتے ہیں وہ یا تو حکومت سے وابستہ لوگوں کو دباؤ میں رکھتی ہے اور من مانے فیصلہ کرواتی ہے اورکرتی ہے۔ اچھی حکمرانی کے لیے ان باطنی حکومت سے وابستہ لوگوں کو ظاہری حکومت سے بہت مزاحمت سے کام لینا ہوتا ہے۔ اس لیے اچھی حکمرانی ESTABLISHMENTکو ساتھ لے کے چلنا ہی بہتر ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر ہمارے ملک میں جو ظاہری معاملات ہیں خاص طور پر امریکا، یورپ، ہندوستان ، افغانستان وہ کسی طور پر اطمینان بخش نہیں کیونکہ ان سب سے ہماری ریاست کا دفاع وابستہ ہے۔ اس لیے جب بھی کوئی خارجہ معاملات حکومت کو طے کرنے ہوں خصوصاً امریکا سے دفاعی سازوسامان ہو یا افغانستان سے سرحدی معاملات ہوں یا ہندوستان سے کشمیرکی آزادی اس کی تحریک کے معاملات تو بہتر یہ ہے کہ حکومت اس معاملے میں ESTABLISHMENTکو اعتما د میں لے ، تاکہ پوری دنیا میں ہمارے وطن کی دفاعی قوت کی ایسی دہاک بیٹھی رہے جیسی کہ جوہری قوت رکھنے والے ملکوں کی ہوتی ہے اور ہماری ریاست ہرحال میں جوہری توانائی کا بہترانداز میں دفاع کرسکے۔

یہ پوری ملت پاکستان کے لیے بڑے فخرکی بات ہے کہ ہماری دفاعی قوت اور ہماری پاک افواج اس کی قیادت میں نظم وضبط تنظیم ، یقین محکم اتحاد کے تمام عنصر موجود ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارا ہر سپاہی بہادری کی بہترین مثال ہے اور پوری دنیا پاکستانی فوج کی صلاحیتوں کو مانتی ہے۔وطن عزیز کے موجودہ حالات انداز حکمرانی جوگزشتہ بیس پچیس سالوں سے UNSTABLE ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت داخلی معاملات میں دن بدن کمزور ہوتی چلی گئی۔ اس کے نتیجے میں بدعنوانی، رشوت خوری اپنی طاقت کا بے جا استعمال، قبضہ مافیا، اسٹریٹ کرائمز ، بھتہ خوری اغواء بے گناہوں کا قتل ٹارگٹ کلنک جیسے میں اتنی شدت سے اضافہ ہوا کہ ریاست کی رٹ ختم ہونے لگی ۔

جس کے لیے مجبوراً فوج سے مدد لی گئی اور رینجرز نے ان حالات کو سنبھالا ۔ پاکستان میں سب سے زیادہ مافیا گیری اس شہرکراچی میں بڑھتی تھی۔ جو اب گزشتہ دوسالوں کے مقابلے میں کافی بہتر ہے، لیکن ابھی اطمینان بخش نہیں ہے، اگر حکمراں عقل مندی سے کام لیں اور سیکیورٹی معاملات کو فوج ، رینجرز کے ذریعے وہ بھی ایسے معاملا ت جس میں دہشت گردی کرنے والے عناصرکی سرکوبی کی جائے۔ ان کا پیچھا کر کے یہ دیکھا جائے کہ ان کے پاس اس دہشت گردی کرنے والے کے سہولت کارکون ہے۔ ان کی مالی امداد کی صورت میں MAN POWERکہاں سے مل رہی ہے۔ یہ کام پولیس کی سطح پر نہیں کیا جاسکتا بلکہ فوج کی نگرانی میں رینجرز ہی کرسکتی ہے اور اس نے کرکے دکھایا ، لیکن شہروں میں اسٹریٹ کرائمز، چوری، ڈکیتی ، قتل وغارت پر قابو پانا پولیس کی ذمے داری ہے جس کے لیے پولیس کے ادارے کو ازسرنو منظم کرنا ہوگا۔


اس محکمے میں بہت سی کالی بھیڑیں ہیں جن کی نشاندہی عوامی شکایتی سیل کے ذریعے ہوسکتی ہے۔ پولیس سے عموماً لوگوں کو یہ شکایت ہے کہ وہ اپنے اختیارات کا بے جا استعمال کرتے ہیں، اکثر مظلوموں کوگرفتارکرتے ہیں ان پر تشدد اور دباؤ ڈالتے ہیں جس کے پیچھے مال و زرکا لالچ ہوتا ہے۔ اس قسم کی شکایت اب پولیس کے اعلیٰ افسران کے لیے بھی پائی گئی ہے۔ حالانکہ پولیس میں آئی جی سے لے کر ڈی آئی جی اور ایس پی سے لے کر سنئیرایس پی تک افسران کی اکثریت ان بدعنوانیوں سے پاک ہے، اگر ہر صوبے میں پولیس کے محکمے کو سیاسی دباؤ سے آزاد کردیا جائے اورآئی جی کو فری ہینڈ دیا جائے جیسا کہ ڈی جی رینجرزکے پاس ہے ۔ تو یقینا یہ آئی جی صاحبان پولیس کو عوام دوست محکمہ بناسکتے ہیں۔

ایسے تھانے بنائے جائیں جہاں اس علاقے کے بعض معززین جو سینئرسیٹزن ہوں ان کی مدد سے تھانے میں آنے والے معمولی معاملات کو مشاورت یا پنچائیت سے حل کیا جا سکتا ہے جس میں کسی ایف آئی آرکی ضرورت نہیں ہونی چاہیے اور پولیس کے محکمے میں شہداء کے لواحقین کو مالی امداد اور بدل ملازمت دی جائے ۔ پولیس کے اعلیٰ ترین افسران عوامی سوشل پروگرامز میں آیا کریں تاکہ عوام میں ان کا وقار بلند ہو اور عوام انھیں اپنا دوست سمجھیں ان کی تنخواہوں میں اضافہ انھیں رہائش علاج اور بچوں کو تعلیمی سہولت دی جائے۔

شہداء کے اہل خانہ کو وظیفہ دیا جائے یہ سب کام حکومت پر بوجھ ڈالنے کے بجائے پولیس کارپوریٹ فنڈز جسے ادارے کو بنا کرکیا جاسکتا ہے جس میں ملک کے صنعت کار، تاجربرادری اور مالی طور پر مضبوط لوگ فنڈنگ کرسکتے ہیں ۔ اور اس فنڈنگ سے پولیس کا محکمہ TRANSPORT-UTILITY STOREشادی ہال جیسے کاروبار میں انوسٹ کر کے اپنے محکمے کی فلا ح کے لیے مالی رقم حاصل کرسکتے ہیں۔

اس ملک میں جو بھی سول حکومت آتی ہے تو صوبے کے وزیر اعلیٰ ہوں یا حکمران سیاسی پارٹی کے سربراہ یہ سب پولیس کو اپنے دباؤ میں رکھتے ہیں تاکہ جب ان کا پسندیدہ شخص کوئی بدعنوانی کرے تو اس نظر اندازکیا جائے ۔ یہی ہمارے معاشرے کا المیہ ہے۔ حالانکہ حکومت کا بنیادی کام یہ ہے کہ عوام کی ضروریات کو ہر حال میں پورا کرے ہر شہر میں انفرا اسٹرکچر پہ توجہ دے۔

بجلی گیس تعلیمی اور صحت عامہ کی ضروریات کو پو را کرے اور خاص طور پر یوتھ کے لیے کھیل کے میدان ، تفریح گاہیں بنائے تاکہ ان میں صحت مندانہ پرورش نظر آئے ۔ بے روزگاری کے لیے مائیکرو فنانسنگ اسکیم بنائی جائے اور پورے شہر کو صاف شفاف رکھا جائے ان کاموں سے عوام میں مثبت احساس ہوتا ہے کہ حکومت ہمارا خیال رکھتی ہے ۔ عوام الناس کو چاہیے آیندہ جب بھی عام انتخابات میں ووٹ ڈالے تو صرف اہلیت وصلاحیت اور سابقہ کارکردگی کو مدنظر رکھے اور طے کرکے اب ووٹ نہ فرقہ بندی کی بنیاد پر نہ لسانی گروپ کی بنیاد پر برادری پر دیں بلکہ صرف حب الوطنی اورکارکردگی کی بنیاد پردیں۔ پھر دیکھیں پاکستان کیسے بدلتا ہے۔
Load Next Story