بڑا مکار بڑا فنکار
جن کو امانتیں سونپی گئیں وہ ایسے بددیانت ہوگئے کہ کوئی نہ روکے۔
قائد اعظم کا کردار، قول و فعل کے ساتھ اتنا شاندار تھا کہ وہ جب انگریزی میں تقریرکرتے تو انگریزی نہ جاننے والے بھی قائد اعظم کے اتنے ہی گرویدہ نظر آتے جتنا سمجھنے والے، کیونکہ وہ لوگ جانتے تھے کہ یہ شخص جو بھی بولے گا وہ سچ ہوگا۔ جب پاکستان معرض وجود میں آگیا، جب لیاقت علی خان کوقتل کیا گیا تو وہ شیروانی کے نیچے پھٹی ہوئی بنیان پہنے ہوئے تھے، جیب میں چند روپے تھے۔
ایمانداری، دیانت، اخلاص کی مثال چوہدری محمد علی تھے۔ کیا شاندار لوگ تھے جو پاکستان بنا گئے بہت سارے شاندار نام جن کی گواہی لوگ آنکھیں بند کرکے بھی دیتے ہیں۔ حکومتوں کا پہیہ چلنا شروع ہوگیا تھا، محمد علی بوگرا، عبدالرب نشتر، سکندر مرزا، ایوب خان، ذوالفقارعلی بھٹو، ضیا الحق سب اپنے اپنے نشان چھوڑ کر چلے گئے، اپنی مثالیں چھوڑ کر جاچکے ہیں۔ کیا ہم نے سیکھا اور کیا قوم کو سبق ملا معلوم نہیں۔ مولانا مودودی جیسے عالم، جن کے افکار آج بھی روشن ہیں۔ علامہ شبیر احمد عثمانی، مفتی محمود، ایک سے بڑھ کر ایک فیض احمد فیض جیسا شاعر، جوش، راشد، مجید امجد، سعادت حسن منٹو، آغا حشر، صوفی تبسم، حفیظ جالندھری کیسے کیسے شاندار نام۔
صادقین جیسا آرٹسٹ، چغتائی، پیچھے پلٹ کر دیکھیں تو زندگی کے ہر شعبے میں ایسے ہیرے نظر آتے ہیں ظرف، ذہانت، محنت اور ایمانداری میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ بے ایمانی، لعنت تصور کی جاتی تھی، چوری چکاری ایسا گناہ کہ سرشرم سے جھک جاتے، نظریں نہ ملائی جاتیں، بہترین اساتذہ ہوتے جو تعلیم کے ساتھ تربیت کا درس بھی دیتے، اعلیٰ کردار بزرگ جو ایسی حکایتیں پیش کرتے کہ اساتذہ کی رہی سہی کسر پوری کردیتے۔
اساتذہ اور بزرگ بے تحاشا کتابوں کا مطالعہ کرتے اور جتنا علم ان کے پاس ہوتا وہ دوسروں کو پہنچانے کی بھرپورکوشش کرتے۔ لگتا ہے گویا جیسے ہم پریوں کے زمانے کی باتیں کر رہے ہیں جہاں بہترین لوگ اور بہترین ماحول ہوتا تھا۔ لفظ سچے اور کردار چمکدار ہوتے تھے۔
پھر ایسا ہوا کہ تمام اعتبار انسانوں اور اداروں پر سے ختم ہوتا چلا گیا، کوئی ایک شخص جس پر اعتبار کرسکیں، 2017 تک پہنچتے پہنچتے ہم کہاں سے کہاں پہنچ گئے، خالی کردار رہ گئے، خالی دامن ہوگئے، نہ کوئی ادارہ نہ کوئی لیڈر میرا آئینہ ہوا، معاشرہ یکسر بانجھ ہوگیا، باکردار، ذہین لوگ کہاں چلے گئے؟ بدقسمتی نے گویا چاروں طرف سے ایسا جکڑا ہم کو کہ اللہ کی پناہ اور اللہ سے پکار کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ کتنے تنہا ہوگئے ہیں ہم کہ کوئی ایسا شخص نہیں جو ہماری ہمت باندھ سکے، راہبری کرسکے، اچھے اور برے کی تمیز سکھا سکے، یہ کیسا دور گزر رہا ہے کہ ہماری آنکھوں میں اپنی اولادوں کی طرف سے شدید خوف ہے، ہم گھبرا رہے ہیں، ڈر رہے ہیں، خوفزدہ ہیں، آنے والے وقت سے کہ اگر آج کا یہ عالم ہے تو آنے والا کل کیا ہوگا؟
ان بے شمار بھیڑوں میں مہربان کون ہوگا، قدرت کو ہم ناراض کیے جا رہے ہیں اپنی من مانیاں کیے جا رہے ہیں، پھر کیوں نہ آنے والے وقتوں سے خوفزدہ نہ ہوں، یا پھر اب سے ہی اپنے آپ پر کام کرنا شروع کریں، ہماری اخلاقیات کا عالم یہ ہے کہ ہم سچ چھپا لیتے ہیں اور جھوٹ چھاپ دیتے ہیں۔ بے چارگی اور بے بسی کے احساسات کے سوا کیا رہ جاتا ہے۔ مسجد سے لے کر پارلیمنٹ تک، مدرسے سے لے کر اعلیٰ اداروں تک سب ہم جھوٹ کے بیوپاری بن گئے ہیں۔ جو بڑا جھوٹا وہ بڑا فنکار، جو چھوٹا جھوٹا وہ چھوٹا فنکار۔ سب کے چہرے مکاروں کی طرح ہوتے جا رہے ہیں۔ نہ نور نہ خوبصورتی، ہر چیز کہیں گم ہوگئی۔
فٹ پاتھ پر خشک میوہ جات بیچتی ہوئی ماں کے ساتھ دونوں بچے ایسے چپکے جیسے گویا وہ اپنی ماں کے جسم سے جڑے ہیں۔ غربت و افلاس چہروں سے عیاں، گاڑیاں میوہ جات لینے رکتی ہیں اور ایسے قیمتوں میں کمی کرواتی ہیں جیسے اگر10 روپے بھی زیادہ دے دیے تو گویا بہت نقصان ہوگا،کہنے کو ہم چیریٹی لاکھوں، کروڑوں میں کرتے ہیں، معصوم، کم خوراکی والے بچے نظر بھی آرہے ہیں مگر نہ جانے کون سا جذبہ ہے جو ان لوگوں کو ان سے پرے کیے دے رہا ہے، کیا ہی حرج ہے کہ اپنی چیریٹی ان فٹ پاتھ پر روزی کماتی ہوئی عورتوں پر صرف کی جائے۔
گھر میں کام کرنے والی خاتون گویا زرخرید غلام، کوئی کام رہ گیا تو گویا عذاب آگیا، گویا جہاں تھوڑی سی قوت ملی وہیں پر اپنا زور دکھایا، چھوٹی جگہ سے بلکہ بڑی جگہ تک کا حال یہی ہو چلا گویا بنجر، یتیم معاشرہ، پستیوں کی طرف چلا جا رہا ہے۔
جن کو امانتیں سونپی گئیں وہ ایسے بددیانت ہوگئے کہ کوئی نہ روکے۔ چمکتے چہرے پر نور، دل آویز مسکراہٹیں خواب ہوگئیں، مکروہ خباثت سے بھرے، مکار اپنے آپ کو معلم کہنے لگے، مسندیں بھر گئیں ایسی شخصیات سے، جو اس قابل ہی نہ تھے کہ ڈر و خوف اللہ اور آخرت سے جاتا رہا پھر زمانے کی رسوائیوں کا کیا؟ کیا بدنام نہ ہوں گے تو نام نہ ہوگا، پلکیں جھپک جھپک کر سوچتے رہیں نہ نیند آئے اور نہ خواب۔
کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ جگہ جگہ موئن جودڑو زندہ ہوگیا ہے، ہر گھرانہ غلام گھرانہ، ہاں ہی ہاں میں چلتی ہوئی غلاموں کی بے شمار گردنیں، جوان یا جھکے ہوئے کندھے، یا اکھڑتی ہوئی سانسیں، پیشانیوں پر شکنوں کا جال، سب ایک جیسے، سب بے مقصد، بے حس لاتعلق۔
جہاں اپنی ذات کے لیے محنت کرنے والے لوگ، اپنی ہی ذات کے گرد گھومنے والے لوگ، انسانوں سے زیادہ چیزیں، قیمتی، مردہ دل، تھکے ہوئے لوگ، کیا کوئی مقصد نہیں صرف ایک کھانے سے دوسرے کھانے کا سفر۔
باغیرت قوموں کو زندہ رہنے کے لیے غیروں کے سہارے کی ضرورت نہیں ہوتی اپنی زمین کو خود ہی سونا چاندی بنانا ہے، دوسرے لوگ تو صرف آپریشن کرتے ہیں۔
اگر امن و امان پر صحیح توجہ دی جاتی ہے، فرقہ واریت کو ختم کیا جاتا، حفاظتی نظام بہتر بنایا جاتا، دہشت گردی کا نیٹ ورک صحیح وقت پر توڑا جاتا تو کہاں فرصت ملتی کہ دوسرے ملکوں میں دولت کے انبار بنائے جاتے کہاں فرصت ملتی کہ اپنوں سے دور رہا جاتا، پھر تو جڑ جاتے ایسے کہ ہر دعا میں شامل ہوتے، ہر لب سے دعا نکلتی ہر دل سے محبت کی آواز آتی، مگر غضب خدا کا، سب کچھ الٹا ہوگیا، سب کچھ غلط ہوگیا، عقلیں جواب دے گئیں، ایسی فنکاری، ایسے کردار کہ سچ کا گماں ہونے لگے، ایسے معصوم چہرے، ایسے الفاظ کا ہیر پھیر کہ سمجھو عقل کل ہوں میں، بنا لو انسان کو بے وقوف مگر کتنا؟ جس نے پیدا کیا ہے وہ تو شاندار انصاف والا ہے، وہ نہ ناانصافی کرتا ہے اور نہ کرنے دیتا ہے۔