من کی نگری ہر پل بدلتی زندگی
ایسا کچھ ہوجاتا ہے جو سوچ میں بھی نہیں ہوتا۔
نیا رجسٹر ہے۔ پرانا ہرا پارکر کا قلم ہے۔ آ ج صبح کیلکولیٹر لینے جس د کان پر گیا، وہاں یہ خوب صورت رف صفحات والے ، کم قیمت ، چھو ٹے size کے رجسٹر نظر آئے تو 6 عدد لے لیے۔ دو کلینک میں ر کھ د یے تین ا قر ا کو د ے د یے۔ ایک پر اب رات لگ بھگ ڈیڑھ بجے لکھنا شروع کر دیا ہے۔ مضمون کی کیا صورت بنے گی خیال کی رو کہاں سے کہاں جائے گی نہیں پتا۔ بس یہ ہے کہ جی اُداس نہیں فی الوقت تو، توانائی کسی مثبت زاویے کو ہی High light کرے گی انشاء ا للہ۔
دل تو چا ہ رہا ہے کہ رات کے اس پہر جب نیند نے سب کو ا پنی آغوش میں لے ر کھا ہے، کوئی نیند بھگادینے والی کہانی کہی جائے۔ دل کے تاروں کو چھوتی ہو ئی انسان اور انسان کی محبتوں کی کہانی، رویوں، جذبوں، دُکھوں، امیدوں اور خوابوں کی کہانی۔ تنہائی کی کہانی، تنہائی کی محفلوں کی کہانی۔ ہر فرد کی زندگی اور زند گی کے حالات کی طر ح اُس کی کہانی بھی الگ ہوتی ہے۔ ہر فرد کے لیے اُس کی کہانی دنیا کی تما م کہانیوں اور تمام باتوں سے زیادہ رنگین و سنگین اور اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ زندگی کے ہر دور میں ہر فرد کی کہانی مدوجزر کا شکار ہوتی ہے۔ کچھ کردار In ہوتے ہیں۔ کچھ کردار خاموشی سے out ہوجاتے ہیں۔ حاضر منظر سے نکل کر پسِ منظر میں چلے جاتے ہیں۔
کچھ کرداروں کا Impact رہتی عمر تک رہتا ہے۔ کچھ مہمان اداکاروں کا Role ادا کرکے ہمیشہ کے لیے Fade out ہوجاتے ہیں۔ کبھی دوبارہ نہ ملنے نہ آنے کے لیے ۔ کچھ زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ کسی کو پتا نہیں ہوتا کہ کب اْس کی یکسانیت سے بھرپور کہانی میں Twist آجائے یا اُچھل کود سے بھرپور زندگی سکوت اور ٹھہراؤ کے سمندر میں اُتر جائے۔ کبھی کبھی پوری زند گی عمرقید میں گْزرتے گزرتے خاتمے کی جا نب ہوتی ہے تو اچانک کہیں سے کوئی اجنبی محبت بھرا دل آزادی کی کنجی تھامے نمودار ہوجاتا ہے، تو کبھی تمام عمر، شوق آوارگی ٹو ٹے پتوں کی طرح ادھر سے اُدھر اُڑاتا پھرتا ہے تو ایسے میں کو ئی مہرباں، کوئی ہمدم، زخموں سے چُور بدن کو مر ہم لگانے اور گھر گرہستی کے سکو ن میں بند کرنے ہماری مدد کو چلا آتا ہے۔
کچھ پتا نہیں چلتا کب کیا ہوجائے ۔ بس یو نہیں یک دم سے کچھ ہوجاتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے گہر ے سرمئی بادل چاروں اور اندھیرا کرکے بارش برسانا شروع کردیتے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے یک دم سورج، بادلوں کی اوٹ سے نکل کر اُجالا کرڈالتا ہے۔ کسی بات کا پتا نہیں چلتا۔ کس لمحے کیا ہوجائے کیا سے کیا ہوجائے۔Routineسے بھرپور زندگی کا اچانک Tempo ختم ہوجاتا ہے۔ کچھ نیا ہوجاتا ہے۔
ایسا کچھ ہوجاتا ہے جو سوچ میں بھی نہیں ہوتا۔ کبھی تو بُجھا ہوا دل، نئی نمو نئی حرارت پاکر دوبارہ دھڑکنے لگتا ہے، تو کبھی ہنستا مُسکراتا شاداب چہرہ، غم اور اُداسی کی زرد چادر اوڑھ لیتا ہے۔ کب اوپر سے کس با ت کا Order آجائے اور وہ ہوجائے، کچھ پتا نہیں چلتا۔ ہم تیار ہوں یا نہ ہوں، ہمیں پُرامید ہوں یا نہ ہوں، ہما ر ے دل میں اُس بات کی خواہش ہو یا نہ ہو۔ ہمارے چاہنے نہ چاہنے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ یہاں تک کہ کسی خاص خیال کو لفظوں کی شکل دینے بیٹھا جاتا ہے لیکن تحر یر کی تصویر جب پوری ہوتی ہے تو متن اور حوالوں سے لے کر مرکزی خیال تک سبھی کچھ بدل چکا ہوتا ہے۔
گول گپے کھانے کی نیت سے باہر نکلتے ہیں، آئسکریم کھاکر واپس آجاتے ہیں ۔ دل پر پتھر رکھ کر فیصلہ کرلیتے ہیں کہ اب کسی پر اعتبار نہیں کریں گے، مگر پھر کچھ عر صے بعد کسی معصوم صورت سے دھوکا کھا بیٹھتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کسی کو نہیں پتا۔ لیکن ایسا سب ہی کے سا تھ ہوتا ہے۔ کسی کے ساتھ اکثر اور کسی کے سا تھ کبھی کبھار۔ کبھی انتہائی معمولی، نہ محسوس ہونے والی، ان چاہی بات ہوجاتی ہے اور کبھی انتہائی معمولی، نہ محسوس ہونے والی، ان چاہی بات کے اثرات تمام عُمر ہماری گرہ سے بندھے رہتے ہیں۔ بات کیسی بھی ہو یہ با ت طے ہے کہ زندگی بدلتی رہتی ہے۔ کبھی کسی بات کی و جہ سے، کِسی فرد کے آنے یا جانے کی وجہ سے، کسی واقعے یا سانحے کی وجہ سے۔ تبدیلی جا ر ی رہتی ہے۔ کبھی بہت آہستگی سے، غیرمحسوس طریقے سے اور کبھی اچانک، یک دم، آناًفاناً ، بنا کسی دستک کے دھڑا، دھڑوم کی آواز آتی ہے اور ہمارے اندر اور باہر سب کچھ بدل جاتا ہے۔ ہماری مرضی کے خلاف۔ ہمار ے خواب و خیال کے گما ن سے بالکل ہٹ کر۔
ہم چاہیں، نہ چاہیں۔ ہمیں تبدیلیاں برداشت کرنی پڑتی ہی۔ ہم میں سے کچھ لوگ بہت le Flexib ہوتے ہیں، لچک دار ہوتے ہیں، روزانہ بھی اُن کو کسی تبدیلی کا سامنا کرنا پڑے تو بہ آسانی اُسے قبول کرتے چلے جاتے ہیں۔ اُس کے مطابق خود کو ڈھالتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن زیادہ تر لوگوں کے لیے کسی بھی تبدیلی کو دل سے قبول کرنا مشکل ہوتا ہے۔ وہ مجبوراً خود کو بدلتے ہوئے حالات کے تحت Adoptکرنے کی کوشش تو کرتے ہیں لیکن اُن کے اندر ان کے وجود کا ایک اہم حصہ باقی ماندہ عمر کے لیے باغی ہوجاتا ہے۔ وہ کسی بھی نئی تبدیلی کے مطابق نہ تو ڈھل پاتا ہے اور نہ ہی بہ رضا ڈھالنا چاہتا ہے۔ یوں ایسے تمام لوگوں کے اندر ایک جنگ شروع ہوجاتی ہے۔ آہستہ آہستہ اُن کی شخصیت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگتی ہے۔
سوچیں پراگندہ اور خیالات، منتشر ہونے لگتے ہیں۔ انجانی اُداسی کے سائے اُن کی روح میں تاریکی پھیلانے لگتے ہیں اور ایک وقت ایسا آتا ہے جب خلا کے مہیب سناٹے اُن کے خون میں سرسرانے لگتے ہیں۔ یہاں سے واپسی کا سفر پھر ممکن نہیں رہتا۔ نہ ہمت بچتی ہے نہ خواہش ۔ Point of No Return پر پہنچ کر ایسے لوگ زندہ ہوتے ہوئے بھی زندوں میں نہیں رہتے۔ نہ ٹلنے والی ناگزیر تبدیلیوں کو د ل سے قبول نہ کر نے پر عا م طور پر ایسا ہی ہوتا ہے۔
مشکل ضرور پیش آتی ہے۔ زند گی کے کسی بھی نئے موڑ پر آنے کے بعد کسی بھی نئی تبدیلی کو گلے لگانا آسان نہیں ہوتا۔ بس بات ذہن کے دریچوں اور دل کے دروازوں کو کُھلا رکھنے کی ہوتی ہے۔ نگاہوں اور سماعتوں کو بھی چوکنا رکھنا پڑتا ہے۔ پھر جو کچھ ہوتا ہے ہمارے باہر اور ہمار ے اندر جو بھی تبدیلی آتی ہے، جو کچھ بھی بدلتا ہے وہ ازخود ہماری ذات کا حصہ بن جاتا ہے۔ لیکن تبدیلیوں کے عمل میں، تبدیلیوں کو قبول یا رد کرنے کے عمل میں ایک نکتہ نہایت اہم ہوتا ہے اور عام طور پر ہم نکتے کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔
تبدیلی دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک تبدیلی ہم خود لاتے ہیں، ہم خود لانے کی کو شش کرتے ہیں اور دوسر ی طرح کی تبدیلی ازخود آتی ہے۔ ہمار ے علم میں آ ئے بغیر۔ ہمار ے شعور کا حصہ بنے بغیر ہماری خواہش یا کوشش یا جستجو یا تگ ودو کے بغیر۔ جو تبدیلی ہماری خواہش و کوشش سے آتی ہے۔ اُسے برقرار رکھنے میں اچھا خاصا خون پسینہ بہانا پڑتا ہے۔ بڑ ے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔
لیکن جس تبدیلی کا ازن قدرت کی طرف سے ہوتا ہے، جو انتہائی خاموشی سے اچانک ہماری زندگی کا حصہ بنتی ہے اُس میں کسی خودرو اُگنے والے جنگلی پودے کی طرح بڑی مضبوطی بڑی جان ہوتی ہے۔ اُس میں پنپنے اور بڑھنے کی بڑ ی اہلیت ہوتی ہے۔ اس طر ح کی تبدیلی میں عام طور پر قدرت کی کو ئی مصلحت پوشیدہ ہوتی ہے۔ یہ مصلحت ہماری سمجھ میں آجائے تو زندگی بہت سہل ہوجاتی ہے، جو ہم اپنی کم علمی اور کم فہمی سے ا س کو سمجھ نہ پائیں اور پھر بھی اسے قبول کرلیں، اپنا سر جُھکادیں، Surrender کردیں تب بھی جلد یا بدیر یہ ہما ر ے لیے کار آمد ہی ثابت ہوگی۔ بس بات اس کو قبول یا رد کرنے کی ہے۔ ماننے والے عافیت میں رہتے ہیں ترک کردینے والے پچھتاتے رہتے ہیں۔
دل تو چا ہ رہا ہے کہ رات کے اس پہر جب نیند نے سب کو ا پنی آغوش میں لے ر کھا ہے، کوئی نیند بھگادینے والی کہانی کہی جائے۔ دل کے تاروں کو چھوتی ہو ئی انسان اور انسان کی محبتوں کی کہانی، رویوں، جذبوں، دُکھوں، امیدوں اور خوابوں کی کہانی۔ تنہائی کی کہانی، تنہائی کی محفلوں کی کہانی۔ ہر فرد کی زندگی اور زند گی کے حالات کی طر ح اُس کی کہانی بھی الگ ہوتی ہے۔ ہر فرد کے لیے اُس کی کہانی دنیا کی تما م کہانیوں اور تمام باتوں سے زیادہ رنگین و سنگین اور اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ زندگی کے ہر دور میں ہر فرد کی کہانی مدوجزر کا شکار ہوتی ہے۔ کچھ کردار In ہوتے ہیں۔ کچھ کردار خاموشی سے out ہوجاتے ہیں۔ حاضر منظر سے نکل کر پسِ منظر میں چلے جاتے ہیں۔
کچھ کرداروں کا Impact رہتی عمر تک رہتا ہے۔ کچھ مہمان اداکاروں کا Role ادا کرکے ہمیشہ کے لیے Fade out ہوجاتے ہیں۔ کبھی دوبارہ نہ ملنے نہ آنے کے لیے ۔ کچھ زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ کسی کو پتا نہیں ہوتا کہ کب اْس کی یکسانیت سے بھرپور کہانی میں Twist آجائے یا اُچھل کود سے بھرپور زندگی سکوت اور ٹھہراؤ کے سمندر میں اُتر جائے۔ کبھی کبھی پوری زند گی عمرقید میں گْزرتے گزرتے خاتمے کی جا نب ہوتی ہے تو اچانک کہیں سے کوئی اجنبی محبت بھرا دل آزادی کی کنجی تھامے نمودار ہوجاتا ہے، تو کبھی تمام عمر، شوق آوارگی ٹو ٹے پتوں کی طرح ادھر سے اُدھر اُڑاتا پھرتا ہے تو ایسے میں کو ئی مہرباں، کوئی ہمدم، زخموں سے چُور بدن کو مر ہم لگانے اور گھر گرہستی کے سکو ن میں بند کرنے ہماری مدد کو چلا آتا ہے۔
کچھ پتا نہیں چلتا کب کیا ہوجائے ۔ بس یو نہیں یک دم سے کچھ ہوجاتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے گہر ے سرمئی بادل چاروں اور اندھیرا کرکے بارش برسانا شروع کردیتے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے یک دم سورج، بادلوں کی اوٹ سے نکل کر اُجالا کرڈالتا ہے۔ کسی بات کا پتا نہیں چلتا۔ کس لمحے کیا ہوجائے کیا سے کیا ہوجائے۔Routineسے بھرپور زندگی کا اچانک Tempo ختم ہوجاتا ہے۔ کچھ نیا ہوجاتا ہے۔
ایسا کچھ ہوجاتا ہے جو سوچ میں بھی نہیں ہوتا۔ کبھی تو بُجھا ہوا دل، نئی نمو نئی حرارت پاکر دوبارہ دھڑکنے لگتا ہے، تو کبھی ہنستا مُسکراتا شاداب چہرہ، غم اور اُداسی کی زرد چادر اوڑھ لیتا ہے۔ کب اوپر سے کس با ت کا Order آجائے اور وہ ہوجائے، کچھ پتا نہیں چلتا۔ ہم تیار ہوں یا نہ ہوں، ہمیں پُرامید ہوں یا نہ ہوں، ہما ر ے دل میں اُس بات کی خواہش ہو یا نہ ہو۔ ہمارے چاہنے نہ چاہنے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ یہاں تک کہ کسی خاص خیال کو لفظوں کی شکل دینے بیٹھا جاتا ہے لیکن تحر یر کی تصویر جب پوری ہوتی ہے تو متن اور حوالوں سے لے کر مرکزی خیال تک سبھی کچھ بدل چکا ہوتا ہے۔
گول گپے کھانے کی نیت سے باہر نکلتے ہیں، آئسکریم کھاکر واپس آجاتے ہیں ۔ دل پر پتھر رکھ کر فیصلہ کرلیتے ہیں کہ اب کسی پر اعتبار نہیں کریں گے، مگر پھر کچھ عر صے بعد کسی معصوم صورت سے دھوکا کھا بیٹھتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کسی کو نہیں پتا۔ لیکن ایسا سب ہی کے سا تھ ہوتا ہے۔ کسی کے ساتھ اکثر اور کسی کے سا تھ کبھی کبھار۔ کبھی انتہائی معمولی، نہ محسوس ہونے والی، ان چاہی بات ہوجاتی ہے اور کبھی انتہائی معمولی، نہ محسوس ہونے والی، ان چاہی بات کے اثرات تمام عُمر ہماری گرہ سے بندھے رہتے ہیں۔ بات کیسی بھی ہو یہ با ت طے ہے کہ زندگی بدلتی رہتی ہے۔ کبھی کسی بات کی و جہ سے، کِسی فرد کے آنے یا جانے کی وجہ سے، کسی واقعے یا سانحے کی وجہ سے۔ تبدیلی جا ر ی رہتی ہے۔ کبھی بہت آہستگی سے، غیرمحسوس طریقے سے اور کبھی اچانک، یک دم، آناًفاناً ، بنا کسی دستک کے دھڑا، دھڑوم کی آواز آتی ہے اور ہمارے اندر اور باہر سب کچھ بدل جاتا ہے۔ ہماری مرضی کے خلاف۔ ہمار ے خواب و خیال کے گما ن سے بالکل ہٹ کر۔
ہم چاہیں، نہ چاہیں۔ ہمیں تبدیلیاں برداشت کرنی پڑتی ہی۔ ہم میں سے کچھ لوگ بہت le Flexib ہوتے ہیں، لچک دار ہوتے ہیں، روزانہ بھی اُن کو کسی تبدیلی کا سامنا کرنا پڑے تو بہ آسانی اُسے قبول کرتے چلے جاتے ہیں۔ اُس کے مطابق خود کو ڈھالتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن زیادہ تر لوگوں کے لیے کسی بھی تبدیلی کو دل سے قبول کرنا مشکل ہوتا ہے۔ وہ مجبوراً خود کو بدلتے ہوئے حالات کے تحت Adoptکرنے کی کوشش تو کرتے ہیں لیکن اُن کے اندر ان کے وجود کا ایک اہم حصہ باقی ماندہ عمر کے لیے باغی ہوجاتا ہے۔ وہ کسی بھی نئی تبدیلی کے مطابق نہ تو ڈھل پاتا ہے اور نہ ہی بہ رضا ڈھالنا چاہتا ہے۔ یوں ایسے تمام لوگوں کے اندر ایک جنگ شروع ہوجاتی ہے۔ آہستہ آہستہ اُن کی شخصیت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگتی ہے۔
سوچیں پراگندہ اور خیالات، منتشر ہونے لگتے ہیں۔ انجانی اُداسی کے سائے اُن کی روح میں تاریکی پھیلانے لگتے ہیں اور ایک وقت ایسا آتا ہے جب خلا کے مہیب سناٹے اُن کے خون میں سرسرانے لگتے ہیں۔ یہاں سے واپسی کا سفر پھر ممکن نہیں رہتا۔ نہ ہمت بچتی ہے نہ خواہش ۔ Point of No Return پر پہنچ کر ایسے لوگ زندہ ہوتے ہوئے بھی زندوں میں نہیں رہتے۔ نہ ٹلنے والی ناگزیر تبدیلیوں کو د ل سے قبول نہ کر نے پر عا م طور پر ایسا ہی ہوتا ہے۔
مشکل ضرور پیش آتی ہے۔ زند گی کے کسی بھی نئے موڑ پر آنے کے بعد کسی بھی نئی تبدیلی کو گلے لگانا آسان نہیں ہوتا۔ بس بات ذہن کے دریچوں اور دل کے دروازوں کو کُھلا رکھنے کی ہوتی ہے۔ نگاہوں اور سماعتوں کو بھی چوکنا رکھنا پڑتا ہے۔ پھر جو کچھ ہوتا ہے ہمارے باہر اور ہمار ے اندر جو بھی تبدیلی آتی ہے، جو کچھ بھی بدلتا ہے وہ ازخود ہماری ذات کا حصہ بن جاتا ہے۔ لیکن تبدیلیوں کے عمل میں، تبدیلیوں کو قبول یا رد کرنے کے عمل میں ایک نکتہ نہایت اہم ہوتا ہے اور عام طور پر ہم نکتے کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔
تبدیلی دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک تبدیلی ہم خود لاتے ہیں، ہم خود لانے کی کو شش کرتے ہیں اور دوسر ی طرح کی تبدیلی ازخود آتی ہے۔ ہمار ے علم میں آ ئے بغیر۔ ہمار ے شعور کا حصہ بنے بغیر ہماری خواہش یا کوشش یا جستجو یا تگ ودو کے بغیر۔ جو تبدیلی ہماری خواہش و کوشش سے آتی ہے۔ اُسے برقرار رکھنے میں اچھا خاصا خون پسینہ بہانا پڑتا ہے۔ بڑ ے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔
لیکن جس تبدیلی کا ازن قدرت کی طرف سے ہوتا ہے، جو انتہائی خاموشی سے اچانک ہماری زندگی کا حصہ بنتی ہے اُس میں کسی خودرو اُگنے والے جنگلی پودے کی طرح بڑی مضبوطی بڑی جان ہوتی ہے۔ اُس میں پنپنے اور بڑھنے کی بڑ ی اہلیت ہوتی ہے۔ اس طر ح کی تبدیلی میں عام طور پر قدرت کی کو ئی مصلحت پوشیدہ ہوتی ہے۔ یہ مصلحت ہماری سمجھ میں آجائے تو زندگی بہت سہل ہوجاتی ہے، جو ہم اپنی کم علمی اور کم فہمی سے ا س کو سمجھ نہ پائیں اور پھر بھی اسے قبول کرلیں، اپنا سر جُھکادیں، Surrender کردیں تب بھی جلد یا بدیر یہ ہما ر ے لیے کار آمد ہی ثابت ہوگی۔ بس بات اس کو قبول یا رد کرنے کی ہے۔ ماننے والے عافیت میں رہتے ہیں ترک کردینے والے پچھتاتے رہتے ہیں۔