جب پاکستانی بالروں نے بازی الٹ دی
ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کے ایک سنسنی خیز میچ کا دلچسپ قصہ
کسی سیانے کا قول ہے ''تجربہ بڑا ظالم استاد ہے... وہ اکثر سبق پڑھائے بغیر امتحان لے لیتا ہے۔''
13 مارچ 1987ء کی صبح بھارت کا دورہ کرنے والی پاکستانی ٹیم کے کپتان، عمران خان کو بھی اسی قسم کے امتحان سے گزرنا پڑا... اور وہ کسی حد تک فیل ہوگئے۔1971ء سے ٹیسٹ کرکٹ کھیلتے چلے آرہے عمران خان خاصے تجربے کار اور جہاں دیدہ کرکٹر بن چکے تھے، مگر اس صبح سارا تجربہ انہیں دغا دے گیا اور وہ پچ کا حقیقی رخ نہ دیکھ سکے۔ یہ تو ان کی خوش قسمتی ہے کہ تمام تر مشکلات کے باوجود میچ پاکستان جیتنے میں کامیاب رہا ورنہ شکست کا سارا ملبہ خان صاحب پر ہی آن گرنا تھا۔
یہ اس مقابلے کی ڈرامائی داستان ہے جس کا شمار ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کے انتہائی دلچسپ اور سنسنی خیز میچوں میں ہوتا ہے۔ پاکستانی ٹیم جنوری 1987ء میں بھارت پہنچی۔ چنائے، کلکتہ، جے پور اور احمد آباد میں کھیلے گئے ٹیسٹ برابر رہے۔ دراصل دونوں ٹیموں میں چوٹی کے کھلاڑی شامل تھے اور مقابلہ ہم پلہ تھا۔ ورلڈ کپ کی جیت نے ویسے بھی بھارتی کھلاڑیوں کا اعتماد بڑھا دیا تھا اور اب انہیں خصوصاً بھارت ہی میں ہرانا بچوں کا کھیل نہ تھا۔
پاک بھارت مقابلے مزید براں ''کھیلوں کی ماں'' قرار پاتے ہیں۔ ہر مقابلے کے دوران کھلاڑیوں پر عموماً یہی خوف طاری رہتا ہے کہ اگر ہار مقدر بنی، تو ہم وطن طعنے دے دے کر برا حال کردیں گے۔ اسی لیے وہ بہت محتاط ہوکر کھیلتے ہیں۔ حد سے زیادہ محتاط ہونے کے باعث ہی چار ٹیسٹ ہار جیت کے بغیر ختم ہوئے۔ اب آخری ٹیسٹ 13 مارچ سے بنگلور میں کھیلا جانا تھا۔
تب تک بھارتیوں کو احساس ہوچکا تھا کہ عمران خان فاسٹ بالروں کو ترجیح دیتے ہیں۔ چناں چہ انہوں نے چناسوامی اسٹیڈیم کی پچ ایسے ناہموار انداز میں بنائی کہ وہ بھارتی اسپنروں کی مددگار بن سکے۔ بھارتی ٹیم میں تین سّکہ بند اسپنر... شیو لال یادو، روی شاستری اور مہندر سنگھ شامل تھے۔ عمران خان اس پچ کو سمجھ نہ سکے جسے بعدازاں ''بارودی سرنگ'' کا خطاب دیا گیا۔کہا جاتا ہے کہ میچ سے تھوڑی دیر قبل اقبال قاسم کو ٹیم میں شامل کیا گیا۔ جاوید میاں داد کا دعویٰ ہے کہ ایسا ان کی کوششوں سے ہوا۔ عبدالقادر خود کو اس تبدیلی کا ذمے دار ٹھہراتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے ''میرے اصرار پر عمران نے اقبال قاسم کو ٹیم میں شامل کیا۔''
عمران خان کا خیال تھا کہ پچ سیم (فاسٹ) بالروں کی مدد کرے گی۔ اسی لیے وہ عبدالقادر اور اعجاز فقیہہ کو باہر بٹھا کر سلیم جعفر اور منظور الٰہی کو ٹیم میں لے آئے۔ دلچسپ بات یہ کہ اعجاز فقیہہ نے پچھلے ٹیسٹ میں سنچری بنائی تھی مگر انہیں نظر انداز کردیا گیا۔ پاکستانی ٹیم میں صرف دو سّکہ بند اسپنر... توصیف احمد اور اقبال قاسم موجود تھے مگر وہی بھارتیوں پر بھاری پڑگئے۔
عمران خان نے ٹاس جیتا اور بلے بازی کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ غلط ثابت ہوا۔ بھارتی اسپنر،مہندر سنگھ کی گھومتی، بل کھاتی، اچھلتی گیندوں کو پاکستانی بلے باز سمجھ نہ پائے۔ وہ پچ پر آتے، کچھ دیر کھیلتے اور پھر وکٹ گنوا کر واپس لوٹ جاتے۔ مہندر نے سات وکٹیں لیں اور پاکستانی ٹیم صرف 116 رن بناکر آؤٹ ہوگئی۔ سلیم ملک (33 رن)، رمیز راجا (22) اور اقبال قاسم (19) ہی بھارتی سپنر کا کچھ مقابلے کرپائے۔
پاکستانی ٹیم 50 اوور بھی نہ کھیل سکی اور ڈھیر ہوگئی۔ اب بھارتی اننگ کا آغاز ہوا۔ عمران خان اور وسیم اکرم باؤلنگ کرانے لگے۔ مگر سنیل گواسکر اور سری کانت نے دونوں پاکستانی بالروں کو چوکے مارے اور اور کھل کر شاٹ کھیلے۔ تبھی عمران نے سوچا کہ اسپنروں کو آزمانا چاہیے۔ توصیف احمد نے آتے ہی سری کانت اور گواسکر کو واپس پویلین پہنچا دیا۔ لیکن بھارتی بلے باز صرف تین وکٹوں کے نقصان پر 100 رن بنانے میں کامیاب رہے۔
اب خان صاحب کو احساس ہوا کہ پچ تو سپنروں کی مدد کررہی ہے۔ عمران پچھتاوے کا نشانہ بن کر سوچنے لگے کہ کاش وہ عبدالقادر کو ٹیم میں شامل کرلیتے۔ تب عبدالقادر دنیا کے جانے مانے لیگ بریکر بالر تھے۔ اس ''بارودی سرنگ'' پر تو بھارتی بلے بازوں کے لیے ان کی گگلی و دیگر گیندوں کو کھیلنا کارِ دارد بن جانا تھا۔ پاکستان کی خوش قسمتی کہ خصوصاً اقبال قاسم اور توصیف احمد نہ صرف عبدالقادر کا بہترین متبادل ثابت ہوئے بلکہ چھپے رستم بن گئے۔
شارجہ ٹورنامنٹوں میں حصہ لینے والی بھارتی ٹیم جانتی تھی کہ توصیف احمد کو آسان حریف نہیں سمجھنا چاہیے، مگر وہ اقبال قاسم سے بڑی حد تک ناواقف تھی۔ یہ درست ہے کہ اقبال 1979ء میں بھارت کا دورہ کرنے والی ٹیم میں شامل تھے، مگر وہ خاص کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرپائے۔ مزید براں اقبال اوائل 1985ء سے تقریباً غیر متحرک تھے۔ انہیں چوتھا ٹیسٹ کھیلنے کے لیے پاکستان سے بلوایا گیا۔ اس ٹیسٹ میں بھی سری کانت نے اقبال کی بالوں کو خاصا پیٹا اور وہ صرف ایک وکٹ لے پائے۔ لہٰذا بھارتی ٹیم کو یقین تھا کہ اقبال قاسم اس میں بھی ٹھس ثابت ہوں گے... یہ ان کی خام خیالی تھی۔
جیسے ہی بھارتی اننگ کی سنچری ہوئی، اقبال قاسم نے ہلّہ بول دیا۔ 102 کے اسکور پر اظہر الدین لڑھک گئے۔ سکور 126 تھا، تبھی توصیف احمد نے شاستری کی کلی اڑا دی ۔ پھر مزید صرف ''19 رن'' بنا پائے... اقبال قاسم کی زبردست بالوں نے بھارتی ٹیل انڈر کی دھجیاں اڑا دیں۔ ان کی وکٹوں میں وینگ سارکر کی پرائز وکٹ بھی شامل تھی جنہوں نے بھارتی اننگ میں سب سے زیادہ رن (50) بنائے۔ بقیہ کھلاڑیوں میں صرف اوپنر گواسکر (21) اور سری کانت (21) ہی مہمان بالروں کا مقابلہ کرسکے۔ ان کے بیشتر رن بھی عمران اور وسیم اکرم کی بالوں پر بنے تھے۔ اقبال قاسم اور توصیف احمد نے پانچ پانچ وکٹیں حاصل کیں۔
اپنی ٹیم کی آناً فاناً شکست و ریخت نے بھارتی تماشائیوں کو بھونچکا کردیا۔ تاہم بھارت اب بھی اپنے حریف سے آگے تھا اور بھارتی عوام کو امید تھی کہ ان کے تین اسپنر پاکستانی ٹیم کو دن میں تارے دکھلا دیں گے۔
''بارودی سرنگ'' کی حالت مزید خراب ہورہی تھی۔ اس پر ہر رن بنانا عذاب بنتا جارہا تھا۔ یہی دیکھ کر پاکستانی ڈریسنگ روم میں طے پایا کہ اننگ کا آغاز جاوید میاں داد اور رمیز راجا کریں گے۔ میاں داد کے ٹیسٹ کیریئر میں یہ صرف دوسرا موقع تھا کہ وہ بہ حیثیت اوپنر کھیلتے آئے۔ اس سے قبل 1982ء میں لارڈز ٹیسٹ میں میاں داد نے اننگ اوپن کی تھی... اور وہ میچ پاکستان جیت گیا تھا۔
دوپہر کو کھانے کے بعد دوسری پاکستانی اننگ کا آغاز ہوا۔ اوپنروں نے 45 قیمتی رن بنالیے۔ پھر میاں داد 17 رن بناکر چل دیئے۔ بھارتی کھلاڑیوں نے مہمانوں پر شدید نفسیاتی دباؤ ڈال رکھا تھا۔ وہ پاکستانیوں پر طنزیہ جملے چست کررہے تھے۔ ان کی بھر پور سعی تھی کہ پاکستانی کھلاڑیوں کی توجہ ہٹ جائے۔ مگر عمران خان کے شیروں کی دھاڑ مسلسل سنائی دیتی رہی۔
سلیم ملک اور رمیز راجا نے تیسری وکٹ کی شراکت میں 32 رن بنائے۔ رمیز راجا بیش قیمت 47 رن بناکر آؤٹ ہوئے تو عمران نے اقبال قاسم کو بہ حیثیت نائٹ واچ مین بھیج دیا۔ اقبال بڑی سمجھ داری اور تدبر سے کھیلے اور پامردی سے بھارتی اسپنروں کا مقابلہ کرتے رہے۔ سلیم ملک اور اقبال قاسم نے چوتھی وکٹ کی شراکت میں 32 رن بنائے۔ جب دوسرے دن کا کھیل ختم ہوا، تو پاکستان پانچ وکٹوں کے نقصان پر 155 رن بناچکا تھا۔ اقبال قاسم 26 رن بناکر آؤٹ ہوئے۔
اس وقت پاکستان نے میچوں میں ''نیوٹرل امپائر'' تعینات کرنے کی مہم چلا رکھی تھی۔ بھارتی بورڈ نے اسے زیادہ اہمیت نہیں دی۔ مگر دوران میچ بھارتی امپائروں کی جانب داری سے واضح ہوگیا کہ نیوٹرل امپائر ہی صاف شفاف اور اطمینان بخش طریقے سے میچ منعقد کراسکتے ہیں۔ایک موقع پر بھارتی بالر کی گیند اقبال قاسم کے بلے سے لگ کر پیڈ سے ٹکرائی۔ جب بھارتی کھلاڑیوں نے ایل بی ڈبلیو کی اپیل کی تو امپائرنے انگلی اٹھا دی۔ دن دیہاڑے ہونے والی بے ایمانی دیکھ کر اقبال قاسم کو بہت تاؤ آیا۔ وہ اشارہ کرنے لگے کہ گیند پہلے بیٹ سے ٹکرائی تھی۔ پاکستانی مہمان کے احتجاج پر بھارتی امپائر نے اپنا فیصلہ تبدیل کرڈالا۔ یہ اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ ہی تھا جو ناقص بھارتی امپائرنگ کو واضح کرگیا۔
تیسرے دن پاکستانی ٹیم 249 رن بناکر آؤٹ ہوگئی۔ اس دن کے کھیل کی خصوصیت وکٹ کیپر سلیم یوسف اور توصیف احمد کے مابین نویں وکٹ کی شراکت تھی۔ ایک موقع پر بھارتی بالروں نے 198 رن پر آٹھ پاکستانی آؤٹ کردیئے تھے۔ مگر سلیم اور توصیف نے نہایت قیمتی 51 رن بناکر سکور خاصا آگے پہنچا دیا۔ یہ شراکت داری حقیقتاً میچ کے چند اہم ترین موڑوں میں سے ایک موڑ ثابت ہوئی۔ سلیم یوسف 41 رن بناکر ناٹ آؤٹ رہے۔
اب بھارت کو فتح کے لیے 221 رن درکار تھے جبکہ تقریباً ڈیڑھ دن کا وقت باقی تھی۔ وہ باآسانی یہ رن بناسکتے تھے۔ مگر ''بارودی سرنگ'' پر کھیلنا آسان نہیں تھا۔ دوسری بھارتی اننگ کے آغاز ہی میں وسیم اکرم نے اپنی سوئنگ بالنگ کا کمال دکھایا اور دو بالوں پر سری کانت اور مہندر ناتھ کو آؤٹ کردیا۔ بعدازاں توصیف احمد نے بھی یکے بعد دیگرے وینگ سارکر اور کرن مورے کی وکٹیں لے کر بھارتی کیمپ میں کھلبلی مچادی۔ اس زبردست پاکستانی یلغار کو گواسکر بر دقت روکنے میں کامیاب رہے۔اگلا دن آرام کا تھا۔اس روز اتفاق سے اقبال قاسم اور توصیف احمد کی مشہور بھارتی اسپنر، بشن سنگھ بیدی سے ملاقات ہوئی۔بیدی نے اپنے تجربے کی رو سے مہمانوں کو بتایا کہ اگر مہندر سنگھ اس وکٹ پر بہت زیادہ اسپن بالنگ نہ کراتا تو وہ زیادہ وکٹیں لے سکتا تھا۔پاکستانی اسپنروں نے یہ بات گرہ سے باندھ لی۔
17 مارچ کی صبح کھیل پھر شروع ہوا۔اب اقبال قاسم نے بیدی کا تجربہ آزمانے کا فیصلہ کیا اور گیندیں زیادہ اسپن سے نہیں کرائیں۔نتیجہ واقعی شاندار نکلا۔انھوں نے یکے بعد دیگرے اظہر الدین ،شاستری اور کپل دیو کو آؤٹ کر دیا۔یہ دیکھ کر بھارتی تماشائیوں کے چہرے مرجھا گئے۔مگر گواسکر اب تک کریز پر جمے ہوئے تھے۔لگتا تھا کہ وہ بھارتی ٹیم کو فتح دلا کر ہی دم لیں گے۔
اب اقبال قاسم نے گواسکر کو ٹارگٹ بنا لیا۔آخر ان کی محنت رنگ لائی اور سلپ پر رمیز راجا نے ان کا کیچ پکڑ لیا۔گواسکر کے آؤٹ ہوتے ہی سٹیڈیم میں سناٹا چھا گیا۔بھارتی تماشائی یوں خاموش ہوئے جیسے انھیں سانپ سونگھ گیا ہو۔اب پاکستانی ٹیم کو فتح قریب دکھائی دینے لگی۔مگر بھارتی آل راؤنڈر،راجر بنی راہ کی اگلی رکاوٹ بن گیا۔
راجر بنی نے توصیف احمد کو چھکا دے مارا۔بھارتی تماشائی یک دم جاگ اٹھے اور زورشور سے تالیاں پیٹنے لگے۔بنی اسکور کو 205 تک لے گیا۔اب جیت صرف 16 رن دور تھی۔تاہم توصیف نے حوصلہ نہ ہارا اور بنی کو کیچ آؤٹ کرا دیا...یوں تمام تر رکاوٹوں کے باوجود پاکستان 16 رن سے میچ جیت گیا۔سبھی پاکستانیوں نے اس یادگار فتح پر بھرپور جشن منایا۔
یہ ٹیسٹ کئی باتوں کی وجہ سے تاریخی میچ بن گیا۔اول یہ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں تیسرا میچ ہے جب اسپنروں نے زیادہ وکٹیں لیں۔قبل ازیں 1956ء میں آسٹریلیا بامقابلہ بھارت منعقدہ کلکتہ ٹیسٹ میں آسٹریلوی اسپنروں نے35وکٹیں لی تھیں۔پھر 1969ء میں بھارت بامقابلہ نیوزی لینڈ منعقدہ ناگ پور ٹیسٹ میں بھارتی اسپنروں نے37 وکٹیں لے کر ریکارڈ قائم کیا جو تاحال برقرار ہے۔اور اب پاکستانی اسپنروں نے بھی35 وکٹیں لے کر اپنی صلاحیتوں کا سکہ جما دیا۔میچ میں سلیم جعفر اور منظور الہی،دونوں نے ایک بال تک نہیں کرائی۔
دوم بھارتی کرکٹ بورڈ نے اپنے اسپنروں کے لیے ٹرننگ وکٹ خصوصی طور پر تیار کرائی تھی۔لیکن اس سے پاکستانی اسپنروں نے زیادہ فائدہ اٹھایا اور یوں بازی پلٹ دی۔یہی وجہ ہے،جب فتح ملی تو کمنٹری باکس میں بیٹھے پاکستانی کرکٹ ٹیم کے اولیّں کپتان، اے ایچ کاردار بے اختیار چلا اٹھے:''آج ہم نے ہندوؤں کو ہرا دیا۔''
سوم اقبال قاسم اور توصیف احمد کی زبردست بالنگ کے باوجود مین آف دی میچ کا اعزاز سنیل گواسکر کو دیا گیا۔شاید اس لیے کہ وہ بھارتی ٹیم کے واحد کھلاڑی تھے جس نے پاکستانیوں کا مقابلہ کیا۔بہرحال یہی میچ گواسکر کے کیرئر کا آخری ٹیسٹ ثابت ہوا اور انھیں اپنا بوریا بستر گول کر کے گھر جانا پڑا۔
13 مارچ 1987ء کی صبح بھارت کا دورہ کرنے والی پاکستانی ٹیم کے کپتان، عمران خان کو بھی اسی قسم کے امتحان سے گزرنا پڑا... اور وہ کسی حد تک فیل ہوگئے۔1971ء سے ٹیسٹ کرکٹ کھیلتے چلے آرہے عمران خان خاصے تجربے کار اور جہاں دیدہ کرکٹر بن چکے تھے، مگر اس صبح سارا تجربہ انہیں دغا دے گیا اور وہ پچ کا حقیقی رخ نہ دیکھ سکے۔ یہ تو ان کی خوش قسمتی ہے کہ تمام تر مشکلات کے باوجود میچ پاکستان جیتنے میں کامیاب رہا ورنہ شکست کا سارا ملبہ خان صاحب پر ہی آن گرنا تھا۔
یہ اس مقابلے کی ڈرامائی داستان ہے جس کا شمار ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کے انتہائی دلچسپ اور سنسنی خیز میچوں میں ہوتا ہے۔ پاکستانی ٹیم جنوری 1987ء میں بھارت پہنچی۔ چنائے، کلکتہ، جے پور اور احمد آباد میں کھیلے گئے ٹیسٹ برابر رہے۔ دراصل دونوں ٹیموں میں چوٹی کے کھلاڑی شامل تھے اور مقابلہ ہم پلہ تھا۔ ورلڈ کپ کی جیت نے ویسے بھی بھارتی کھلاڑیوں کا اعتماد بڑھا دیا تھا اور اب انہیں خصوصاً بھارت ہی میں ہرانا بچوں کا کھیل نہ تھا۔
پاک بھارت مقابلے مزید براں ''کھیلوں کی ماں'' قرار پاتے ہیں۔ ہر مقابلے کے دوران کھلاڑیوں پر عموماً یہی خوف طاری رہتا ہے کہ اگر ہار مقدر بنی، تو ہم وطن طعنے دے دے کر برا حال کردیں گے۔ اسی لیے وہ بہت محتاط ہوکر کھیلتے ہیں۔ حد سے زیادہ محتاط ہونے کے باعث ہی چار ٹیسٹ ہار جیت کے بغیر ختم ہوئے۔ اب آخری ٹیسٹ 13 مارچ سے بنگلور میں کھیلا جانا تھا۔
تب تک بھارتیوں کو احساس ہوچکا تھا کہ عمران خان فاسٹ بالروں کو ترجیح دیتے ہیں۔ چناں چہ انہوں نے چناسوامی اسٹیڈیم کی پچ ایسے ناہموار انداز میں بنائی کہ وہ بھارتی اسپنروں کی مددگار بن سکے۔ بھارتی ٹیم میں تین سّکہ بند اسپنر... شیو لال یادو، روی شاستری اور مہندر سنگھ شامل تھے۔ عمران خان اس پچ کو سمجھ نہ سکے جسے بعدازاں ''بارودی سرنگ'' کا خطاب دیا گیا۔کہا جاتا ہے کہ میچ سے تھوڑی دیر قبل اقبال قاسم کو ٹیم میں شامل کیا گیا۔ جاوید میاں داد کا دعویٰ ہے کہ ایسا ان کی کوششوں سے ہوا۔ عبدالقادر خود کو اس تبدیلی کا ذمے دار ٹھہراتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے ''میرے اصرار پر عمران نے اقبال قاسم کو ٹیم میں شامل کیا۔''
عمران خان کا خیال تھا کہ پچ سیم (فاسٹ) بالروں کی مدد کرے گی۔ اسی لیے وہ عبدالقادر اور اعجاز فقیہہ کو باہر بٹھا کر سلیم جعفر اور منظور الٰہی کو ٹیم میں لے آئے۔ دلچسپ بات یہ کہ اعجاز فقیہہ نے پچھلے ٹیسٹ میں سنچری بنائی تھی مگر انہیں نظر انداز کردیا گیا۔ پاکستانی ٹیم میں صرف دو سّکہ بند اسپنر... توصیف احمد اور اقبال قاسم موجود تھے مگر وہی بھارتیوں پر بھاری پڑگئے۔
عمران خان نے ٹاس جیتا اور بلے بازی کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ غلط ثابت ہوا۔ بھارتی اسپنر،مہندر سنگھ کی گھومتی، بل کھاتی، اچھلتی گیندوں کو پاکستانی بلے باز سمجھ نہ پائے۔ وہ پچ پر آتے، کچھ دیر کھیلتے اور پھر وکٹ گنوا کر واپس لوٹ جاتے۔ مہندر نے سات وکٹیں لیں اور پاکستانی ٹیم صرف 116 رن بناکر آؤٹ ہوگئی۔ سلیم ملک (33 رن)، رمیز راجا (22) اور اقبال قاسم (19) ہی بھارتی سپنر کا کچھ مقابلے کرپائے۔
پاکستانی ٹیم 50 اوور بھی نہ کھیل سکی اور ڈھیر ہوگئی۔ اب بھارتی اننگ کا آغاز ہوا۔ عمران خان اور وسیم اکرم باؤلنگ کرانے لگے۔ مگر سنیل گواسکر اور سری کانت نے دونوں پاکستانی بالروں کو چوکے مارے اور اور کھل کر شاٹ کھیلے۔ تبھی عمران نے سوچا کہ اسپنروں کو آزمانا چاہیے۔ توصیف احمد نے آتے ہی سری کانت اور گواسکر کو واپس پویلین پہنچا دیا۔ لیکن بھارتی بلے باز صرف تین وکٹوں کے نقصان پر 100 رن بنانے میں کامیاب رہے۔
اب خان صاحب کو احساس ہوا کہ پچ تو سپنروں کی مدد کررہی ہے۔ عمران پچھتاوے کا نشانہ بن کر سوچنے لگے کہ کاش وہ عبدالقادر کو ٹیم میں شامل کرلیتے۔ تب عبدالقادر دنیا کے جانے مانے لیگ بریکر بالر تھے۔ اس ''بارودی سرنگ'' پر تو بھارتی بلے بازوں کے لیے ان کی گگلی و دیگر گیندوں کو کھیلنا کارِ دارد بن جانا تھا۔ پاکستان کی خوش قسمتی کہ خصوصاً اقبال قاسم اور توصیف احمد نہ صرف عبدالقادر کا بہترین متبادل ثابت ہوئے بلکہ چھپے رستم بن گئے۔
شارجہ ٹورنامنٹوں میں حصہ لینے والی بھارتی ٹیم جانتی تھی کہ توصیف احمد کو آسان حریف نہیں سمجھنا چاہیے، مگر وہ اقبال قاسم سے بڑی حد تک ناواقف تھی۔ یہ درست ہے کہ اقبال 1979ء میں بھارت کا دورہ کرنے والی ٹیم میں شامل تھے، مگر وہ خاص کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرپائے۔ مزید براں اقبال اوائل 1985ء سے تقریباً غیر متحرک تھے۔ انہیں چوتھا ٹیسٹ کھیلنے کے لیے پاکستان سے بلوایا گیا۔ اس ٹیسٹ میں بھی سری کانت نے اقبال کی بالوں کو خاصا پیٹا اور وہ صرف ایک وکٹ لے پائے۔ لہٰذا بھارتی ٹیم کو یقین تھا کہ اقبال قاسم اس میں بھی ٹھس ثابت ہوں گے... یہ ان کی خام خیالی تھی۔
جیسے ہی بھارتی اننگ کی سنچری ہوئی، اقبال قاسم نے ہلّہ بول دیا۔ 102 کے اسکور پر اظہر الدین لڑھک گئے۔ سکور 126 تھا، تبھی توصیف احمد نے شاستری کی کلی اڑا دی ۔ پھر مزید صرف ''19 رن'' بنا پائے... اقبال قاسم کی زبردست بالوں نے بھارتی ٹیل انڈر کی دھجیاں اڑا دیں۔ ان کی وکٹوں میں وینگ سارکر کی پرائز وکٹ بھی شامل تھی جنہوں نے بھارتی اننگ میں سب سے زیادہ رن (50) بنائے۔ بقیہ کھلاڑیوں میں صرف اوپنر گواسکر (21) اور سری کانت (21) ہی مہمان بالروں کا مقابلہ کرسکے۔ ان کے بیشتر رن بھی عمران اور وسیم اکرم کی بالوں پر بنے تھے۔ اقبال قاسم اور توصیف احمد نے پانچ پانچ وکٹیں حاصل کیں۔
اپنی ٹیم کی آناً فاناً شکست و ریخت نے بھارتی تماشائیوں کو بھونچکا کردیا۔ تاہم بھارت اب بھی اپنے حریف سے آگے تھا اور بھارتی عوام کو امید تھی کہ ان کے تین اسپنر پاکستانی ٹیم کو دن میں تارے دکھلا دیں گے۔
''بارودی سرنگ'' کی حالت مزید خراب ہورہی تھی۔ اس پر ہر رن بنانا عذاب بنتا جارہا تھا۔ یہی دیکھ کر پاکستانی ڈریسنگ روم میں طے پایا کہ اننگ کا آغاز جاوید میاں داد اور رمیز راجا کریں گے۔ میاں داد کے ٹیسٹ کیریئر میں یہ صرف دوسرا موقع تھا کہ وہ بہ حیثیت اوپنر کھیلتے آئے۔ اس سے قبل 1982ء میں لارڈز ٹیسٹ میں میاں داد نے اننگ اوپن کی تھی... اور وہ میچ پاکستان جیت گیا تھا۔
دوپہر کو کھانے کے بعد دوسری پاکستانی اننگ کا آغاز ہوا۔ اوپنروں نے 45 قیمتی رن بنالیے۔ پھر میاں داد 17 رن بناکر چل دیئے۔ بھارتی کھلاڑیوں نے مہمانوں پر شدید نفسیاتی دباؤ ڈال رکھا تھا۔ وہ پاکستانیوں پر طنزیہ جملے چست کررہے تھے۔ ان کی بھر پور سعی تھی کہ پاکستانی کھلاڑیوں کی توجہ ہٹ جائے۔ مگر عمران خان کے شیروں کی دھاڑ مسلسل سنائی دیتی رہی۔
سلیم ملک اور رمیز راجا نے تیسری وکٹ کی شراکت میں 32 رن بنائے۔ رمیز راجا بیش قیمت 47 رن بناکر آؤٹ ہوئے تو عمران نے اقبال قاسم کو بہ حیثیت نائٹ واچ مین بھیج دیا۔ اقبال بڑی سمجھ داری اور تدبر سے کھیلے اور پامردی سے بھارتی اسپنروں کا مقابلہ کرتے رہے۔ سلیم ملک اور اقبال قاسم نے چوتھی وکٹ کی شراکت میں 32 رن بنائے۔ جب دوسرے دن کا کھیل ختم ہوا، تو پاکستان پانچ وکٹوں کے نقصان پر 155 رن بناچکا تھا۔ اقبال قاسم 26 رن بناکر آؤٹ ہوئے۔
اس وقت پاکستان نے میچوں میں ''نیوٹرل امپائر'' تعینات کرنے کی مہم چلا رکھی تھی۔ بھارتی بورڈ نے اسے زیادہ اہمیت نہیں دی۔ مگر دوران میچ بھارتی امپائروں کی جانب داری سے واضح ہوگیا کہ نیوٹرل امپائر ہی صاف شفاف اور اطمینان بخش طریقے سے میچ منعقد کراسکتے ہیں۔ایک موقع پر بھارتی بالر کی گیند اقبال قاسم کے بلے سے لگ کر پیڈ سے ٹکرائی۔ جب بھارتی کھلاڑیوں نے ایل بی ڈبلیو کی اپیل کی تو امپائرنے انگلی اٹھا دی۔ دن دیہاڑے ہونے والی بے ایمانی دیکھ کر اقبال قاسم کو بہت تاؤ آیا۔ وہ اشارہ کرنے لگے کہ گیند پہلے بیٹ سے ٹکرائی تھی۔ پاکستانی مہمان کے احتجاج پر بھارتی امپائر نے اپنا فیصلہ تبدیل کرڈالا۔ یہ اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ ہی تھا جو ناقص بھارتی امپائرنگ کو واضح کرگیا۔
تیسرے دن پاکستانی ٹیم 249 رن بناکر آؤٹ ہوگئی۔ اس دن کے کھیل کی خصوصیت وکٹ کیپر سلیم یوسف اور توصیف احمد کے مابین نویں وکٹ کی شراکت تھی۔ ایک موقع پر بھارتی بالروں نے 198 رن پر آٹھ پاکستانی آؤٹ کردیئے تھے۔ مگر سلیم اور توصیف نے نہایت قیمتی 51 رن بناکر سکور خاصا آگے پہنچا دیا۔ یہ شراکت داری حقیقتاً میچ کے چند اہم ترین موڑوں میں سے ایک موڑ ثابت ہوئی۔ سلیم یوسف 41 رن بناکر ناٹ آؤٹ رہے۔
اب بھارت کو فتح کے لیے 221 رن درکار تھے جبکہ تقریباً ڈیڑھ دن کا وقت باقی تھی۔ وہ باآسانی یہ رن بناسکتے تھے۔ مگر ''بارودی سرنگ'' پر کھیلنا آسان نہیں تھا۔ دوسری بھارتی اننگ کے آغاز ہی میں وسیم اکرم نے اپنی سوئنگ بالنگ کا کمال دکھایا اور دو بالوں پر سری کانت اور مہندر ناتھ کو آؤٹ کردیا۔ بعدازاں توصیف احمد نے بھی یکے بعد دیگرے وینگ سارکر اور کرن مورے کی وکٹیں لے کر بھارتی کیمپ میں کھلبلی مچادی۔ اس زبردست پاکستانی یلغار کو گواسکر بر دقت روکنے میں کامیاب رہے۔اگلا دن آرام کا تھا۔اس روز اتفاق سے اقبال قاسم اور توصیف احمد کی مشہور بھارتی اسپنر، بشن سنگھ بیدی سے ملاقات ہوئی۔بیدی نے اپنے تجربے کی رو سے مہمانوں کو بتایا کہ اگر مہندر سنگھ اس وکٹ پر بہت زیادہ اسپن بالنگ نہ کراتا تو وہ زیادہ وکٹیں لے سکتا تھا۔پاکستانی اسپنروں نے یہ بات گرہ سے باندھ لی۔
17 مارچ کی صبح کھیل پھر شروع ہوا۔اب اقبال قاسم نے بیدی کا تجربہ آزمانے کا فیصلہ کیا اور گیندیں زیادہ اسپن سے نہیں کرائیں۔نتیجہ واقعی شاندار نکلا۔انھوں نے یکے بعد دیگرے اظہر الدین ،شاستری اور کپل دیو کو آؤٹ کر دیا۔یہ دیکھ کر بھارتی تماشائیوں کے چہرے مرجھا گئے۔مگر گواسکر اب تک کریز پر جمے ہوئے تھے۔لگتا تھا کہ وہ بھارتی ٹیم کو فتح دلا کر ہی دم لیں گے۔
اب اقبال قاسم نے گواسکر کو ٹارگٹ بنا لیا۔آخر ان کی محنت رنگ لائی اور سلپ پر رمیز راجا نے ان کا کیچ پکڑ لیا۔گواسکر کے آؤٹ ہوتے ہی سٹیڈیم میں سناٹا چھا گیا۔بھارتی تماشائی یوں خاموش ہوئے جیسے انھیں سانپ سونگھ گیا ہو۔اب پاکستانی ٹیم کو فتح قریب دکھائی دینے لگی۔مگر بھارتی آل راؤنڈر،راجر بنی راہ کی اگلی رکاوٹ بن گیا۔
راجر بنی نے توصیف احمد کو چھکا دے مارا۔بھارتی تماشائی یک دم جاگ اٹھے اور زورشور سے تالیاں پیٹنے لگے۔بنی اسکور کو 205 تک لے گیا۔اب جیت صرف 16 رن دور تھی۔تاہم توصیف نے حوصلہ نہ ہارا اور بنی کو کیچ آؤٹ کرا دیا...یوں تمام تر رکاوٹوں کے باوجود پاکستان 16 رن سے میچ جیت گیا۔سبھی پاکستانیوں نے اس یادگار فتح پر بھرپور جشن منایا۔
یہ ٹیسٹ کئی باتوں کی وجہ سے تاریخی میچ بن گیا۔اول یہ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں تیسرا میچ ہے جب اسپنروں نے زیادہ وکٹیں لیں۔قبل ازیں 1956ء میں آسٹریلیا بامقابلہ بھارت منعقدہ کلکتہ ٹیسٹ میں آسٹریلوی اسپنروں نے35وکٹیں لی تھیں۔پھر 1969ء میں بھارت بامقابلہ نیوزی لینڈ منعقدہ ناگ پور ٹیسٹ میں بھارتی اسپنروں نے37 وکٹیں لے کر ریکارڈ قائم کیا جو تاحال برقرار ہے۔اور اب پاکستانی اسپنروں نے بھی35 وکٹیں لے کر اپنی صلاحیتوں کا سکہ جما دیا۔میچ میں سلیم جعفر اور منظور الہی،دونوں نے ایک بال تک نہیں کرائی۔
دوم بھارتی کرکٹ بورڈ نے اپنے اسپنروں کے لیے ٹرننگ وکٹ خصوصی طور پر تیار کرائی تھی۔لیکن اس سے پاکستانی اسپنروں نے زیادہ فائدہ اٹھایا اور یوں بازی پلٹ دی۔یہی وجہ ہے،جب فتح ملی تو کمنٹری باکس میں بیٹھے پاکستانی کرکٹ ٹیم کے اولیّں کپتان، اے ایچ کاردار بے اختیار چلا اٹھے:''آج ہم نے ہندوؤں کو ہرا دیا۔''
سوم اقبال قاسم اور توصیف احمد کی زبردست بالنگ کے باوجود مین آف دی میچ کا اعزاز سنیل گواسکر کو دیا گیا۔شاید اس لیے کہ وہ بھارتی ٹیم کے واحد کھلاڑی تھے جس نے پاکستانیوں کا مقابلہ کیا۔بہرحال یہی میچ گواسکر کے کیرئر کا آخری ٹیسٹ ثابت ہوا اور انھیں اپنا بوریا بستر گول کر کے گھر جانا پڑا۔