کراچی کے امن پر وفاقی حکومت کو کوئی دلچسپی نہیں سپریم کورٹ

تحریری حکم نامے میں ممبر انسپکشن ٹیم کی رپورٹ کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ آئی جی سندھ اس پر تفصیلی رپورٹ جمع کرائیں۔


ویب ڈیسک February 08, 2013
حکم نامے میں کہا گیا کہ تاجروں کے معاشی تحفظ کے لئے کیا اقدامات کئے گئے اور ان اقدامات کی تفصیلات سے بھی عدالت کو آگاہ کیا جائے۔ فوٹو راشد اجمیری

سپریم کورٹ نے کراچی بدامنی کیس کا تحری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ کراچی کے امن پر وفاقی حکومت کو کوئی دلچسپی نہیں۔

سپریم کورٹ رجسٹری نے کراچی بدامنی کیس کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا ہے جو 6 صفحات پر مشمل ہے، تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ ممبر انسپکشن ٹیم کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ 400 پولیس افسران جرائم میں ملوث ہیں، ان کے خلاف کیا کیا گیا، آئی جی سندھ اس حوالے سے تفصیلی رپورٹ جمع کرائیں۔ حکم نامے میں کہا گیا کہ تاجروں کے معاشی تحفظ کے لئے کیا اقدامات کئے گئے اور ان اقدامات کی تفصیلات سے بھی عدالت کو آگاہ کیا جائے۔


سپریم کورٹ کراچی رجسٹری کے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ کراچی میں امن کے لئے جاری عدالتی احکامات پر عمل نہیں کیا گیا، گواہوں اور پراسیکیوٹرز کو تحفظ فراہم نہیں کیا گیا، حکومت سیاسی جماعتوں سے مل کر شہر کے امن کے حوالے سے پالیسی بنائے۔


اس سے قبل سپریم کورٹ رجسٹری میں کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران ایم آئی ٹی رپورٹ پیش کی گئی جس میں کہا گیا تھا کہ شہر میں 400 پولیس افسران سنگین جرائم میں ملوث ہیں جن کی سیاسی وابستگیاں بھی ہیں۔


کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ آئی جی صاحب ہم اپنے حکم پر عملدرآمد چاہتے ہیں، شہر جل رہا ہے، ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کے لئے حکم جاری کریں گے۔ انہوں نے آئی جی سندھ سے پوچھا کہ کراچی میں 14 لاکھ تارکین وطن موجود ہیں، ان میں سے کتنوں کو ملک بدر اور کتنوں کو پابند کیا گیا، جواب میں فیاض لغاری نے بتایا کہ وفاق نے افغان باشندوں کے پاکستان میں رہنے کی مدت میں 6 ماہ کی توسیع کردی ہے۔


اس موقع پر جسٹس خلجی عارف حسین نے استفسار کیا کہ گواہواں کے تحفظ کے لئے کیا اقدامات کیے گئے، اب عوام کو پولیس پر اعتماد نہیں رہا، آئی جی سندھ کے وکیل خاور شاہ نے عدالت کو بتایا کہ لوگ گواہی دینے کو تیار نہیں جبکہ گواہوں کے تحفظ کے لئے ایک کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ اس موقع پر آئی جی سندھ نے عدالت کو شہید اہلکاروں اور مختلف مقدمات کی تفصیل سے بھی آگاہ کیا، انہوں نے کہا کہ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور طالبان کے دہشت گرد پکڑنے پر پولیس کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ عدالت نے کیس کی سماعت 25 فروری تک ملتوی کردی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں