کیا اب وقت نہیں آگیا
آج کی دنیا موسمیاتی مسائل کو دہشتگردی سے بڑا خطرہ قرار دے رہی ہے۔
دنیا کے جن ملکوں میں سیاسی عدم استحکام اور محاذ آرائی کی کیفیت موجود رہتی ہے وہاں عوامی مسائل پر بحث و مباحثہ یا ذرائع ابلاغ میں عوامی مسائل کوکبھی کلیدی حیثیت حاصل نہیں ہوتی۔ پاکستان کا شمار بھی ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں سیاسی عدم استحکام کے نتیجے میں ایسے تمام مسائل جن کا تعلق براہ راست عوام سے ہوکبھی عوامی سطح پر زیر بحث نہیں آتے آج دنیا کو درپیش چند بڑے مسائل میں ایک موسمیاتی تبدیلی کو مانا جارہا ہے جسکے باعث کرہ ارض کی بقا پر ایک سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ عالمی سطح پر ہونے والی ایسی سرگرمیاں جن میں موسمیاتی تبدیلی جیسا موضوع زیر بحث ہوتا ہے عالمی ذرائع ابلاغ میں انھیں نمایاں جگہ حاصل ہوتی ہے۔
پاکستان کا شمارگزشتہ دو دہائیوں سے ان ملکوں میں کیا جارہا ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کی براہ راست زد میں ہے۔ ان تبدیلیوں کے باعث ہونے والے جانی ومالی نقصانات کی شرح میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ شمالی علاقہ جات میں گلیشیرزکا تیزی سے پگھلنا ہو، سیلاب یا خشک سالی ، پانی کی کمیابی، کھڑی فصلوں کی تباہی لینڈ سلائیڈنگ یا پھر شدید گرمی یہ سب وہ مظاہر ہیں جسکے نقصانات ہم گزشتہ طویل عرصے سے نہ صرف دیکھ رہے ہیں بلکہ عوام ان سے براہ راست متاثر ہورہے ہیں۔
یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ عوام کی منتخب کردہ سیاسی جماعتیں عوام کی ہی منتخب کردہ حکومت کو اپنا دورانیہ مکمل نہیں کرنے دیتیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جمہوری ادوار میں بھی ملک عدم استحکام کا شکار رہتا ہے اور منتخب حکومتوں کا سارا وقت اپنے اقتدار کو تحفظ دینے میں گذر جاتا ہے لہٰذا عوامی مسائل جوں کے توں موجود رہتے ہیں۔
آج کی دنیا موسمیاتی مسائل کو دہشتگردی سے بڑا خطرہ قرار دے رہی ہے۔ یہی سبب ہے کہ عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے ہونے والے کسی بھی بڑی سرگرمی کو بین الاقوامی میڈیا تمام کوریج دیتا ہے جب کہ پاکستان میں ایسی سرگرمیوں پر محض سرسری نگاہ ڈالی جاتی ہے جسکے باعث ملک کے عوام ماحولیاتی و موسمیاتی مسائل سے لا علم رہتے ہیں۔
گزشتہ دنوں جرمنی کے شہر ہیمبرگ میں ہونے والی G-20 ممالک کی سربراہی کانفرنس میں دنیا کو درپیش اہم مسائل پر بحث و مباحثہ اور فیصلے کیے گئے وہیں ماحولیاتی تحفظ کا پیرس معاہدہ ، امریکا کی معاہدے سے علیحدگی اور پیرس معاہدے پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد کا کانفرنس کا سب سے اہم موضوع بنا رہا جب کہ اس سلسلے میں ہونے والی پیش رفت کو بین الاقوامی میڈیا نے نمایاں کوریج دی تو دوسری جانب پاکستان کے میڈیا میں ماحولیاتی تحفظ کے عالمی معاہدے کے حوالے سے ہونے والی اہم پیش رفت کی خبر اپنی جگہ نہیں بنا سکی کیونکہ پاناما کیس اور اس سے جڑے ہوئے دیگر معاملات میڈیا میں سو فیصد جگہ لے چکے تھے۔
G-20 کہلانے والے صنعتی و معاشی طور پر دنیا کے طاقتور ممالک جن میں امریکا، ارجنٹینیا، آسٹریلیا، برازیل، کینیڈا، چین، فرانس، جرمنی، انڈیا، انڈونیشیا، اٹلی، جاپان، جنوبی کوریا، میکسیکو، روس، سعودی عربیہ، ساؤتھ افریقہ، ترکی، برطانیہ اور یورپی یونین دنیا کی دو تہائی آبادی کے ساتھ 80 فیصد اکنامی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ عالمی سطح پر G-20 کو دنیا کے سب سے طاقتور فورم کا درجہ حاصل ہے۔
گزشتہ مہینے جون میں جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ماحولیاتی تحفظ کے عالمی معاہدے سے امریکا کی علیحدگی کا اعلان کیا تھا اس وقت سے دنیا G-20 کے سربراہی اجلاس کی منتظر تھی کیونکہ گروپ میں شامل ممالک جو حقیقی طور پرگرین ہاؤس گیسوں کا سب سے زیادہ اخراج کرنے والے ملک بھی ہیں، امریکی صدر سے پہلی مرتبہ باضابط فورم پر اس اہم عالمی مسئلے پر مذاکرات کرنے والے تھے۔ واضح رہے کہ گروپ کے دیگر ممبران امریکی فیصلے کی شدید مذمت پہلے ہی کرچکے تھے۔
جدید سائنس اس بات کو ثابت کرچکی ہے کہ گرین ہاؤس گیسوں کے بے پناہ اخراج کے باعث کرئہ ارض پر موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اس میں بھی کوئی دو رائے موجود نہیں ہے کہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے سب سے زیادہ ذمے دار دنیا کے طاقتور ترین صنعتی ممالک ہیں جن میں امریکا سر فہرست ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ہی ا س بات کا اعلان کردیا تھا کہ وہ اقتدار میں آکر پیرس عالمی معاہدے سے علیحدگی اختیارکرلیں گے اور انھوں نے ایسا ہی کیا۔ دنیا بھر میں امریکا کی پیرس معاہدے سے علیحدگی کو انتہائی افسوسناک عمل قرار دیا گیا۔ عالمی پالیسی سازوں،کثیر الاقوامی کمپنیوں، سائنسدانوں اور دنیا بھر کی عوام نے بھی اس کی شدید مذمت کی۔
پیرس معاہدے سے علیحدگی کے بعد G-20 پہلا فورم تھا جہاں گرین ہاؤس گیسوں کا سب سے زیادہ اخراج کرنے والے ملکوں کے سربراہ جمع ہوئے تھے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا معاہدے سے علیحدگی کے وقت یہ موقف تھاکہ عالمی معاہدے پر دوبارہ مذاکرات کیے جائیں۔ G-20 کانفرنس میں اپنے اس موقف کے ساتھ امریکا تنہا کھڑا رہا جب کہ دیگر 19 ملکوں نے پیرس عالمی معاہدے کو کرئہ ارض کی بقا کے لیے ضروری قرار دیتے ہوئے اسے جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔
G-20 کانفرنس کے میزبان ملک جرمنی کے چانسلر انجیلا مرکل کا کہنا تھا کہ ''ہم اس بات کا انتظار نہیں کرسکتے کہ کرہ ارض پر موجود آخری شخص سائنسی ثبوتوں سے متفق نہیں ہوجاتا۔''کانفرنس میں موجود امریکا کے علاوہ 19 ممبر ملکوں کے سربراہوں نے 13 صفحات پر مشتمل موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ڈیکلیریشن جسے ''جی ۔20 ایکشن پلان آن کلائمیٹ اینڈ انرجی فار گروتھ'' پر دستخط کیے جس میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ ممبر ممالک پیرس معاہدے میں طے کردہ اہداف کو کس طرح پورا کریں گے۔
G-20 اجلاس کے اختتام پر جاری کیے جانے والے اعلامیے میں کہا گیا کہ G-20 کے دیگر ممالک (امریکا کے علاوہ) سمجھتے ہیں کہ پیرس معاہدہ پر نظر ثانی نہیں کی جاسکتی ہے اور ہم سب اس معاہدے پر مکمل عملدرآمد کی تصدیق کرتے ہیں۔ جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل نے اعلامیہ کا اعلان کرتے ہوئے امریکی پوزیشن کو ''افسوسناک'' قرار دیا۔
اعلامیہ میں الگ سے درج کیے جانے والے پیرا گراف میں کہا گیا ہے کہ ''پیرس معاہدہ ناقابل واپسی ہے، اقوام متحدہ کے فریم ورک آن کلائمیٹ چینج (UNFCCC) کی جانب سے ترقی پذیر ملکوں کو پیرس معاہدے کے تحت موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے اور ان سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے مالی وسائل مہیا کیے جائیں گے۔ ہم پیرس معاہدے پر اپنے مضبوط عزم کا اعادہ کرتے ہیں، ہمیں اس پر مکمل عملدرآمد کے لیے تیزی سے آگے بڑھنا ہے لیکن مختلف ذمے داریوں اور مختلف صلاحیتوں کے ساتھ اپنے اپنے قومی تناظر میں۔ آخر میں ہم ہیمبرگ کلائمیٹ اینڈ انرجی ایکشن پلان فار گروتھ پر مکمل اتفاق کرتے ہیں۔''
کیا اب یہ وقت نہیں آگیا کہ ہمارے ذرائع ابلاغ محض سیاسی موضوعات پر انحصارکرنے کے بجائے سنجیدہ ماحولیاتی مسائل پر بھی توجہ دیں جن پر پاکستان سمیت تمام ملکوں کے بقا کا انحصار ہے۔
پاکستان کا شمارگزشتہ دو دہائیوں سے ان ملکوں میں کیا جارہا ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کی براہ راست زد میں ہے۔ ان تبدیلیوں کے باعث ہونے والے جانی ومالی نقصانات کی شرح میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ شمالی علاقہ جات میں گلیشیرزکا تیزی سے پگھلنا ہو، سیلاب یا خشک سالی ، پانی کی کمیابی، کھڑی فصلوں کی تباہی لینڈ سلائیڈنگ یا پھر شدید گرمی یہ سب وہ مظاہر ہیں جسکے نقصانات ہم گزشتہ طویل عرصے سے نہ صرف دیکھ رہے ہیں بلکہ عوام ان سے براہ راست متاثر ہورہے ہیں۔
یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ عوام کی منتخب کردہ سیاسی جماعتیں عوام کی ہی منتخب کردہ حکومت کو اپنا دورانیہ مکمل نہیں کرنے دیتیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جمہوری ادوار میں بھی ملک عدم استحکام کا شکار رہتا ہے اور منتخب حکومتوں کا سارا وقت اپنے اقتدار کو تحفظ دینے میں گذر جاتا ہے لہٰذا عوامی مسائل جوں کے توں موجود رہتے ہیں۔
آج کی دنیا موسمیاتی مسائل کو دہشتگردی سے بڑا خطرہ قرار دے رہی ہے۔ یہی سبب ہے کہ عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے ہونے والے کسی بھی بڑی سرگرمی کو بین الاقوامی میڈیا تمام کوریج دیتا ہے جب کہ پاکستان میں ایسی سرگرمیوں پر محض سرسری نگاہ ڈالی جاتی ہے جسکے باعث ملک کے عوام ماحولیاتی و موسمیاتی مسائل سے لا علم رہتے ہیں۔
گزشتہ دنوں جرمنی کے شہر ہیمبرگ میں ہونے والی G-20 ممالک کی سربراہی کانفرنس میں دنیا کو درپیش اہم مسائل پر بحث و مباحثہ اور فیصلے کیے گئے وہیں ماحولیاتی تحفظ کا پیرس معاہدہ ، امریکا کی معاہدے سے علیحدگی اور پیرس معاہدے پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد کا کانفرنس کا سب سے اہم موضوع بنا رہا جب کہ اس سلسلے میں ہونے والی پیش رفت کو بین الاقوامی میڈیا نے نمایاں کوریج دی تو دوسری جانب پاکستان کے میڈیا میں ماحولیاتی تحفظ کے عالمی معاہدے کے حوالے سے ہونے والی اہم پیش رفت کی خبر اپنی جگہ نہیں بنا سکی کیونکہ پاناما کیس اور اس سے جڑے ہوئے دیگر معاملات میڈیا میں سو فیصد جگہ لے چکے تھے۔
G-20 کہلانے والے صنعتی و معاشی طور پر دنیا کے طاقتور ممالک جن میں امریکا، ارجنٹینیا، آسٹریلیا، برازیل، کینیڈا، چین، فرانس، جرمنی، انڈیا، انڈونیشیا، اٹلی، جاپان، جنوبی کوریا، میکسیکو، روس، سعودی عربیہ، ساؤتھ افریقہ، ترکی، برطانیہ اور یورپی یونین دنیا کی دو تہائی آبادی کے ساتھ 80 فیصد اکنامی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ عالمی سطح پر G-20 کو دنیا کے سب سے طاقتور فورم کا درجہ حاصل ہے۔
گزشتہ مہینے جون میں جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ماحولیاتی تحفظ کے عالمی معاہدے سے امریکا کی علیحدگی کا اعلان کیا تھا اس وقت سے دنیا G-20 کے سربراہی اجلاس کی منتظر تھی کیونکہ گروپ میں شامل ممالک جو حقیقی طور پرگرین ہاؤس گیسوں کا سب سے زیادہ اخراج کرنے والے ملک بھی ہیں، امریکی صدر سے پہلی مرتبہ باضابط فورم پر اس اہم عالمی مسئلے پر مذاکرات کرنے والے تھے۔ واضح رہے کہ گروپ کے دیگر ممبران امریکی فیصلے کی شدید مذمت پہلے ہی کرچکے تھے۔
جدید سائنس اس بات کو ثابت کرچکی ہے کہ گرین ہاؤس گیسوں کے بے پناہ اخراج کے باعث کرئہ ارض پر موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اس میں بھی کوئی دو رائے موجود نہیں ہے کہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے سب سے زیادہ ذمے دار دنیا کے طاقتور ترین صنعتی ممالک ہیں جن میں امریکا سر فہرست ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ہی ا س بات کا اعلان کردیا تھا کہ وہ اقتدار میں آکر پیرس عالمی معاہدے سے علیحدگی اختیارکرلیں گے اور انھوں نے ایسا ہی کیا۔ دنیا بھر میں امریکا کی پیرس معاہدے سے علیحدگی کو انتہائی افسوسناک عمل قرار دیا گیا۔ عالمی پالیسی سازوں،کثیر الاقوامی کمپنیوں، سائنسدانوں اور دنیا بھر کی عوام نے بھی اس کی شدید مذمت کی۔
پیرس معاہدے سے علیحدگی کے بعد G-20 پہلا فورم تھا جہاں گرین ہاؤس گیسوں کا سب سے زیادہ اخراج کرنے والے ملکوں کے سربراہ جمع ہوئے تھے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا معاہدے سے علیحدگی کے وقت یہ موقف تھاکہ عالمی معاہدے پر دوبارہ مذاکرات کیے جائیں۔ G-20 کانفرنس میں اپنے اس موقف کے ساتھ امریکا تنہا کھڑا رہا جب کہ دیگر 19 ملکوں نے پیرس عالمی معاہدے کو کرئہ ارض کی بقا کے لیے ضروری قرار دیتے ہوئے اسے جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔
G-20 کانفرنس کے میزبان ملک جرمنی کے چانسلر انجیلا مرکل کا کہنا تھا کہ ''ہم اس بات کا انتظار نہیں کرسکتے کہ کرہ ارض پر موجود آخری شخص سائنسی ثبوتوں سے متفق نہیں ہوجاتا۔''کانفرنس میں موجود امریکا کے علاوہ 19 ممبر ملکوں کے سربراہوں نے 13 صفحات پر مشتمل موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ڈیکلیریشن جسے ''جی ۔20 ایکشن پلان آن کلائمیٹ اینڈ انرجی فار گروتھ'' پر دستخط کیے جس میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ ممبر ممالک پیرس معاہدے میں طے کردہ اہداف کو کس طرح پورا کریں گے۔
G-20 اجلاس کے اختتام پر جاری کیے جانے والے اعلامیے میں کہا گیا کہ G-20 کے دیگر ممالک (امریکا کے علاوہ) سمجھتے ہیں کہ پیرس معاہدہ پر نظر ثانی نہیں کی جاسکتی ہے اور ہم سب اس معاہدے پر مکمل عملدرآمد کی تصدیق کرتے ہیں۔ جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل نے اعلامیہ کا اعلان کرتے ہوئے امریکی پوزیشن کو ''افسوسناک'' قرار دیا۔
اعلامیہ میں الگ سے درج کیے جانے والے پیرا گراف میں کہا گیا ہے کہ ''پیرس معاہدہ ناقابل واپسی ہے، اقوام متحدہ کے فریم ورک آن کلائمیٹ چینج (UNFCCC) کی جانب سے ترقی پذیر ملکوں کو پیرس معاہدے کے تحت موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے اور ان سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے مالی وسائل مہیا کیے جائیں گے۔ ہم پیرس معاہدے پر اپنے مضبوط عزم کا اعادہ کرتے ہیں، ہمیں اس پر مکمل عملدرآمد کے لیے تیزی سے آگے بڑھنا ہے لیکن مختلف ذمے داریوں اور مختلف صلاحیتوں کے ساتھ اپنے اپنے قومی تناظر میں۔ آخر میں ہم ہیمبرگ کلائمیٹ اینڈ انرجی ایکشن پلان فار گروتھ پر مکمل اتفاق کرتے ہیں۔''
کیا اب یہ وقت نہیں آگیا کہ ہمارے ذرائع ابلاغ محض سیاسی موضوعات پر انحصارکرنے کے بجائے سنجیدہ ماحولیاتی مسائل پر بھی توجہ دیں جن پر پاکستان سمیت تمام ملکوں کے بقا کا انحصار ہے۔