ریل رومانس
ٹرین میں طویل سفر ایک زمانے میں رومانس کی حیثیت رکھتا تھا۔
بھلے وقتوں میں لوگ ایک شہر سے دوسرے میں جانے کے لیے بذریعہ ٹرین سفرکیا کرتے تھے۔ کثرت سے سفر کرنے والوں کے پاس ٹرینوں کے ٹائم ٹیبل کی بک بھی ہوتی تھی۔ اگر ریلوے کا نظام پرائیویٹ اداروں کے پاس نہ ہو تو حکومت وقت کی ذمے داری ہے کہ وہ اوقات کی پابندی، محفوظ اور آرام دہ سفری سہولت عوام کو مہیا کرائے۔
اس وقت ہوائی سفر کے لیے PIA اور زمینی سفر کے لیے PWR دونوں ہی حکومتی کنٹرول میں ہیں۔ صرف ریلوے سے ایک لاکھ سے زیادہ گھرانوں کا رزق وابستہ ہے لیکن دونوں ادارے نہ صرف خسارے سے دوچار ہیں بلکہ مسافر بہ امر مجبوری انھیں سفر کے لیے منتخب کرتے ہیں۔ ٹرین میں طویل سفر ایک زمانے میں رومانس کی حیثیت رکھتا تھا۔
بارہ سے چوبیس گھنٹے کا فیملی کے ہمراہ کوپے کا سفر، ٹرین کا کبھی جنگل، کبھی ریتلے علاقے سے، کبھی پہاڑوں کے درمیان، کبھی کھیتوں اور باغات کے درمیان، کبھی ندی، نالوں، دریاؤں کے پلوں پر، کبھی دیہات میں سے اور کبھی ویران علاقوں میں سے اور پھر کسی ریلوے اسٹیشن پر رکنا جہاں اس علاقے کی سوغات بیچنے والے آوازیں لگا کر ٹرین کے مسافروں کو سودا فروخت کرتے۔ جب سے سڑکوں کی حالت بہتر ہونا شروع ہوئی ہے اور موٹر کاروں کی ریل پیل ہوئی ہے ریل گاڑیوں میں سفر ثانوی حیثیت اختیار کر گیا ہے اور اب ریلوے نسبتاً کم حیثیت لوگ سفر کرتے ہیں۔
محترمہ بینظیر بھٹو حیات اور سیاست میں تھیں تو ان کے جوشیلے ورکر نعرہ بلند کرتے تھے ''چاروں صوبوں کی زنجیر بینظیر، بینظیر'' اسی طرح ریلوے کی زنجیر پشاور کو لاہور کراچی اور کوئٹہ کے ساتھ ملاتی ہے لیکن تب ریل گاڑی کا سفر بھی محفوظ دلفریب اور وقت کا پابند ہوتا تھا اور خاص طور پر فیملیز اور تقریبات پر جانے والے قبل از وقت ریزرویشن کرواتے تھے۔ ریل کے ڈبے مسافروں سے لدے ہوتے تھے اور انجن کی کوک بھی کانوں کو بھلی لگتی تھی۔ ریلوے پلیٹ فارم بھرے ہوئے بارونق ہوتے تھے۔
ہندوستان میں ریلوے کی ابتدا کا کریڈٹ ایسٹ انڈیا کمپنی کو جاتا ہے۔ سن 1845ء میں دو کمپنیوں کو ریلوے کا ٹھیکہ دیا گیا۔ پہلی پیسنجر ٹرین بمبئی اور تھانے کے درمیان 16 اپریل 1853ء کو چلی۔ یہ 14 بوگیوں کی ٹرین تھی جسے تین انجن چلا رہے تھے، جن کا نام Sindh,Sultan اور Sahib رکھا گیا تھا۔ ریلوے پٹڑی 21 میل لمبی تھی اور ٹرین نے یہ فاصلہ 45 منٹ میں طے کیا۔ یوں تو ریلوے بنانے کی تاریخ پرانی ہے لیکن تجربات ہوتے اور ناکام ہوتے رہے۔
سن 1803ء میں لندن کے علاقے سرے میں لوہے کی پٹڑی پر گھوڑے کے پیچھے ٹرالی باندھ کر گاڑی کھینچنے کا تجربہ ہوا 1812ء میں امریکی انجینئر نے اسٹیم انجن کا تصور دیا۔ ایک برطانوی ریل چلانے کے تجربات کرتا کنگال بھی ہوا۔ سن 1825ء میں برطانیہ ہی کے جارج سٹیفن نامی انجینئر نے اسٹاکٹن و ڈار لنگٹن ریلوے کے نام سے ریل چلانے کا کامیاب تجربہ کیا اسے پہلے اسٹیم انجن کا موجد بھی کہا جاتا ہے۔
یورپ انگلستان اور امریکا میں لوگ اپنی کاریں پارکنگ ایریا میں کھڑی کر کے دفاتر اور نزدیکی شہروں میں ٹرین کے ذریعے جاتے ہیں۔ جب کہ پاکستان میں اب دور دراز کا سفر کرنے والے بھی ٹرین پر جانے کے بجائے سڑک کا رستہ اختیار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ تیس چالیس سال بلکہ اس سے بھی قبل حالات مختلف تھے اور بڑے ہی نہیں بچے بھی ٹرین کے سفر پر اصرار کرتے تھے، بلکہ باراتیں تک ٹرین پر جاتی آتی تھیں۔ اب ٹرین آخری اور غریب آدمی کا آپشن ہے۔ دور کیوں جائیے ہمارے پڑوس میں ٹرین آرام دہ برق رفتار' پابند وقت اور محفوظ سواری ہے۔
انگریز نے 1947ء میں متحدہ انڈیا چھوڑا تو ہندوستان کے حصے میں آیا نیٹ ورک پاکستان کے مقابلے میں خستہ حال تھا لیکن انڈیا کی ریلوے نے سفر کرنے والوں کے لیے ترقی اور بہتری کی طرف سفر کیا جب کہ پاکستان کی ریلوے نے انگریزی کا Suffer کیا اور ریل کی بوگیاں ناگفتہ بہہ حالت کو پہنچیں تو امپورٹڈ ریلوے انجن کمائی کا ذریعہ بنے۔ یہی وجہ ہے کہ ریلوے ٹریک ویران پڑے ہیں اور انٹرسٹی سڑکیں پرائیویٹ اور پبلک ٹرانسپورٹ کے بوجھ تلے دب رہی ہیں۔
پڑوسی ملک میں اس وقت 1600 ہارس پاور کی ٹرین جس کی چھت پر سولر پاور کے پینل لگے ہیں تیار کھڑی ہے۔ اگر یہ تجربہ کامیاب ہو جاتا ہے تو سورج کی انرجی کا مثبت استعمال انقلابی قدم ہو گا۔ پاکستانی سولر پاور انجینئروں کے لیے ہندوستان کا یہ تجربہ اگر کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے تو تقلید کا باعث ہونا چاہیے۔ کئی ترقی یافتہ ممالک نے سولر پاور سے کہیں زیادہ فوائد حاصل کر رکھے ہیں اور ہمارے ہاں تو موسم گرما میں سورج آگ برساتا ہے اور شاعر نے تو گرم مرطوب موسم کے بارے میں بہت عرصہ پہلے کہا تھا؎
مئی کا آن پہنچا ہے مہینہ
بہا چوٹی سے ایڑھی تک پسینہ
لاہور کی کئی تاریخی عمارتیں انجینئر گنگا رام کی زیر نگرانی تعمیر ہوئیں۔ وہ لائلپور کے گاؤں گنگا پور کا رہائشی تھا جہاں ایک چھوٹا سا ریلوے اسٹیشن بچیانہ تھا۔ اس کی اراضی کی سطح بلند تھی جسے سیراب کرنے میں مشکلات تھیں اس نے حل نکالنے کے لیے برطانیہ سے ایک سسٹم انجن منگوا کر بچیانہ ریلوے اسٹیشن پر اتروایا۔ اسے زمینوں تک پہنچانے کے لیے لوہے کی پٹڑی بنوائی جو ضرورت کی مشینری ایک گھوڑا ریل کے ذریعے منزل تک پہنچاتی تھی۔ اس کا مقصد واٹر لفٹر کے کے ذریعے اراضی کو سیراب کرنا تھا۔ لیکن پھر ان کی یہ ذاتی گھوڑا ٹرالی طویل عرصہ تک بچیانہ ریلوے اسٹیشن سے بطور صدقہ جاریہ گنگا پور گاؤں تک مسافروں کو لانے لے جانے کا کام کرتی رہی۔ اسی انجینئر کا بنایا ہوا ایک گنگا رام اسپتال لاہور میں اور دوسرا دہلی میں ہے۔
ٹرانسپورٹ کا نظام جو ریلوے کی شکل میں انگریز نے ہندوستان اور پاکستان کے لیے چھوڑا اصولاً وقت کے ساتھ دنیا کی ماڈرن ریلوے سروسز کے شانہ بشانہ ترقی کرتے ہوئے مثالی ہونا چاہیے تھا لیکن اب تنزلی کا سفر کرتے ہوئے اس مقام پر ہے کہ آپ ایک سو افراد سے پوچھیں کہ آپ نے پاکستان ریلوے سے آخری بار کب سفر کیا تو کوئی کہے گا پانچ سال قبل کچھ کہیں گے دس سال پہلے اور اکثریت کا جواب ہو گا ''شاید بچپن میں جب ریل کا سفر ایک رومانس ہوا کرتا تھا''۔
اس وقت ہوائی سفر کے لیے PIA اور زمینی سفر کے لیے PWR دونوں ہی حکومتی کنٹرول میں ہیں۔ صرف ریلوے سے ایک لاکھ سے زیادہ گھرانوں کا رزق وابستہ ہے لیکن دونوں ادارے نہ صرف خسارے سے دوچار ہیں بلکہ مسافر بہ امر مجبوری انھیں سفر کے لیے منتخب کرتے ہیں۔ ٹرین میں طویل سفر ایک زمانے میں رومانس کی حیثیت رکھتا تھا۔
بارہ سے چوبیس گھنٹے کا فیملی کے ہمراہ کوپے کا سفر، ٹرین کا کبھی جنگل، کبھی ریتلے علاقے سے، کبھی پہاڑوں کے درمیان، کبھی کھیتوں اور باغات کے درمیان، کبھی ندی، نالوں، دریاؤں کے پلوں پر، کبھی دیہات میں سے اور کبھی ویران علاقوں میں سے اور پھر کسی ریلوے اسٹیشن پر رکنا جہاں اس علاقے کی سوغات بیچنے والے آوازیں لگا کر ٹرین کے مسافروں کو سودا فروخت کرتے۔ جب سے سڑکوں کی حالت بہتر ہونا شروع ہوئی ہے اور موٹر کاروں کی ریل پیل ہوئی ہے ریل گاڑیوں میں سفر ثانوی حیثیت اختیار کر گیا ہے اور اب ریلوے نسبتاً کم حیثیت لوگ سفر کرتے ہیں۔
محترمہ بینظیر بھٹو حیات اور سیاست میں تھیں تو ان کے جوشیلے ورکر نعرہ بلند کرتے تھے ''چاروں صوبوں کی زنجیر بینظیر، بینظیر'' اسی طرح ریلوے کی زنجیر پشاور کو لاہور کراچی اور کوئٹہ کے ساتھ ملاتی ہے لیکن تب ریل گاڑی کا سفر بھی محفوظ دلفریب اور وقت کا پابند ہوتا تھا اور خاص طور پر فیملیز اور تقریبات پر جانے والے قبل از وقت ریزرویشن کرواتے تھے۔ ریل کے ڈبے مسافروں سے لدے ہوتے تھے اور انجن کی کوک بھی کانوں کو بھلی لگتی تھی۔ ریلوے پلیٹ فارم بھرے ہوئے بارونق ہوتے تھے۔
ہندوستان میں ریلوے کی ابتدا کا کریڈٹ ایسٹ انڈیا کمپنی کو جاتا ہے۔ سن 1845ء میں دو کمپنیوں کو ریلوے کا ٹھیکہ دیا گیا۔ پہلی پیسنجر ٹرین بمبئی اور تھانے کے درمیان 16 اپریل 1853ء کو چلی۔ یہ 14 بوگیوں کی ٹرین تھی جسے تین انجن چلا رہے تھے، جن کا نام Sindh,Sultan اور Sahib رکھا گیا تھا۔ ریلوے پٹڑی 21 میل لمبی تھی اور ٹرین نے یہ فاصلہ 45 منٹ میں طے کیا۔ یوں تو ریلوے بنانے کی تاریخ پرانی ہے لیکن تجربات ہوتے اور ناکام ہوتے رہے۔
سن 1803ء میں لندن کے علاقے سرے میں لوہے کی پٹڑی پر گھوڑے کے پیچھے ٹرالی باندھ کر گاڑی کھینچنے کا تجربہ ہوا 1812ء میں امریکی انجینئر نے اسٹیم انجن کا تصور دیا۔ ایک برطانوی ریل چلانے کے تجربات کرتا کنگال بھی ہوا۔ سن 1825ء میں برطانیہ ہی کے جارج سٹیفن نامی انجینئر نے اسٹاکٹن و ڈار لنگٹن ریلوے کے نام سے ریل چلانے کا کامیاب تجربہ کیا اسے پہلے اسٹیم انجن کا موجد بھی کہا جاتا ہے۔
یورپ انگلستان اور امریکا میں لوگ اپنی کاریں پارکنگ ایریا میں کھڑی کر کے دفاتر اور نزدیکی شہروں میں ٹرین کے ذریعے جاتے ہیں۔ جب کہ پاکستان میں اب دور دراز کا سفر کرنے والے بھی ٹرین پر جانے کے بجائے سڑک کا رستہ اختیار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ تیس چالیس سال بلکہ اس سے بھی قبل حالات مختلف تھے اور بڑے ہی نہیں بچے بھی ٹرین کے سفر پر اصرار کرتے تھے، بلکہ باراتیں تک ٹرین پر جاتی آتی تھیں۔ اب ٹرین آخری اور غریب آدمی کا آپشن ہے۔ دور کیوں جائیے ہمارے پڑوس میں ٹرین آرام دہ برق رفتار' پابند وقت اور محفوظ سواری ہے۔
انگریز نے 1947ء میں متحدہ انڈیا چھوڑا تو ہندوستان کے حصے میں آیا نیٹ ورک پاکستان کے مقابلے میں خستہ حال تھا لیکن انڈیا کی ریلوے نے سفر کرنے والوں کے لیے ترقی اور بہتری کی طرف سفر کیا جب کہ پاکستان کی ریلوے نے انگریزی کا Suffer کیا اور ریل کی بوگیاں ناگفتہ بہہ حالت کو پہنچیں تو امپورٹڈ ریلوے انجن کمائی کا ذریعہ بنے۔ یہی وجہ ہے کہ ریلوے ٹریک ویران پڑے ہیں اور انٹرسٹی سڑکیں پرائیویٹ اور پبلک ٹرانسپورٹ کے بوجھ تلے دب رہی ہیں۔
پڑوسی ملک میں اس وقت 1600 ہارس پاور کی ٹرین جس کی چھت پر سولر پاور کے پینل لگے ہیں تیار کھڑی ہے۔ اگر یہ تجربہ کامیاب ہو جاتا ہے تو سورج کی انرجی کا مثبت استعمال انقلابی قدم ہو گا۔ پاکستانی سولر پاور انجینئروں کے لیے ہندوستان کا یہ تجربہ اگر کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے تو تقلید کا باعث ہونا چاہیے۔ کئی ترقی یافتہ ممالک نے سولر پاور سے کہیں زیادہ فوائد حاصل کر رکھے ہیں اور ہمارے ہاں تو موسم گرما میں سورج آگ برساتا ہے اور شاعر نے تو گرم مرطوب موسم کے بارے میں بہت عرصہ پہلے کہا تھا؎
مئی کا آن پہنچا ہے مہینہ
بہا چوٹی سے ایڑھی تک پسینہ
لاہور کی کئی تاریخی عمارتیں انجینئر گنگا رام کی زیر نگرانی تعمیر ہوئیں۔ وہ لائلپور کے گاؤں گنگا پور کا رہائشی تھا جہاں ایک چھوٹا سا ریلوے اسٹیشن بچیانہ تھا۔ اس کی اراضی کی سطح بلند تھی جسے سیراب کرنے میں مشکلات تھیں اس نے حل نکالنے کے لیے برطانیہ سے ایک سسٹم انجن منگوا کر بچیانہ ریلوے اسٹیشن پر اتروایا۔ اسے زمینوں تک پہنچانے کے لیے لوہے کی پٹڑی بنوائی جو ضرورت کی مشینری ایک گھوڑا ریل کے ذریعے منزل تک پہنچاتی تھی۔ اس کا مقصد واٹر لفٹر کے کے ذریعے اراضی کو سیراب کرنا تھا۔ لیکن پھر ان کی یہ ذاتی گھوڑا ٹرالی طویل عرصہ تک بچیانہ ریلوے اسٹیشن سے بطور صدقہ جاریہ گنگا پور گاؤں تک مسافروں کو لانے لے جانے کا کام کرتی رہی۔ اسی انجینئر کا بنایا ہوا ایک گنگا رام اسپتال لاہور میں اور دوسرا دہلی میں ہے۔
ٹرانسپورٹ کا نظام جو ریلوے کی شکل میں انگریز نے ہندوستان اور پاکستان کے لیے چھوڑا اصولاً وقت کے ساتھ دنیا کی ماڈرن ریلوے سروسز کے شانہ بشانہ ترقی کرتے ہوئے مثالی ہونا چاہیے تھا لیکن اب تنزلی کا سفر کرتے ہوئے اس مقام پر ہے کہ آپ ایک سو افراد سے پوچھیں کہ آپ نے پاکستان ریلوے سے آخری بار کب سفر کیا تو کوئی کہے گا پانچ سال قبل کچھ کہیں گے دس سال پہلے اور اکثریت کا جواب ہو گا ''شاید بچپن میں جب ریل کا سفر ایک رومانس ہوا کرتا تھا''۔