جمہوریت اور پاکستان لازم و ملزوم آخری حصہ
پاکستان کی مٹھی بھر اشرافیہ نے محض اپنے مفاد کے لیے ملک کی بقا اور سلامتی کو داؤ پر لگا دیا۔
پاکستان کا قیام عوام کے لیے ان کے خوابوں کی تعبیر تھا، لیکن مشکل یہ تھی کہ اشرافیہ اور عوام کی آرزوئیں اور ان کے خواب ایک دوسرے سے متصادم تھے۔ عوام سمجھے تھے کہ انھوں نے جس مملکت کے قیام کی خاطر ووٹ دیا، جانی اور مالی قربانیاں دیں۔ اپنے وطن اور اپنے پیاروں سے جدا ہوئے، یہ تمام معاملات محترم اور مقدس تھے۔ وہ ان خوابوں کی تعبیر چاہتے تھے لیکن ابتدائی چند مہینوں میں ہی انھیں نظر آنے لگا کہ وہ جس منزل کی تلاش میں نکلے تھے اور دریائے خوں کو عبور کیا تھا، وہ محض فریب نظر تھا۔
دوسری طرف تقسیم کے بعد ابھرنے والی حکمران اشرافیہ تھی جسے اندازہ ہوگیا تھا کہ اس نئی مملکت کا قیام اس کے لیے ''بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا '' کے مترادف ہے۔ اس نے جمہوریت کے بارے میں دنیا کے اعلیٰ ترین دانشوروں کی تحریریں اور تقریریں پڑھی تھیں، وہ جمہوریت کے ثمرات سے بہ خوبی واقف تھی لیکن اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی جانتی تھی کہ جمہوریت اگر مستحکم ہوگئی تو آئندہ وہ ملک پر بلا شرکت غیرے راج نہ کرسکے گی۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی ان کی ''خوش نصیبی'' اور عوام کی بدنصیبی تھی کہ مملکت کے قیام کے فوراً بعد بانی پاکستان رخصت ہوگئے تھے اور ان جیسا دوسرا کوئی اصول پرست اور مستحکم مزاج رکھنے والا رہنما موجود نہ تھا۔
جناح صاحب نے یہ جملہ بے سبب تو نہیں کہا تھا کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں اور یہ ہم سب ہی جانتے ہیں کہ کھوٹے سکے کسی ملک کی تقدیر نہیں بنا سکتے۔ اس صورتِ حال کا اندازہ ہمیں ملک کے ابتدائی برسوں کی تاریخ سے ہوجاتاہے۔ بالادست طبقات سے زیادہ کون اس صورت حال کو جانتا اور سمجھتا تھا۔ وہ ابتدا سے ہی جمہوریت کو بیخ و بُن سے اکھاڑ نے کے درپے ہوگئے اور جب انھوں نے ایک مرتبہ جمہوریت کی نفی کرنے کا فیصلہ کرلیا تو پھر اس کے بعد ناگزیر طور پر انھیں بہت سے اقدامات کرنے پڑے۔
اس حوالے سے سب سے پہلا کام یہ کیا گیا کہ عوام کے منتخب نمائندوں کو راشی، بدعنوان ، چور اور ملک دشمن ثابت کرنے کی ایک نہ ختم ہونے والی مہم چلائی گئی تاکہ عام لوگ یہ سوچنے لگیں کہ ان کے ووٹ ڈالنے کی صورت میں بدعنوان سیاستدان اقتدار میں آجائیں گے۔ ذرا غورکریں خواجہ ناظم الدین، مولوی تمیز الدین خان، حسین شہید سہروردی سے لے کر آج تک کون سا مقبول عوامی رہنما ہے جس پرکرپشن اور مالی بد معاملگی کا الزام نہ لگایا گیا ہو۔
وہ لوگ جنھوں نے تحریک آزادی میں کوئی حصہ نہیں لیا تھا، جن لوگوں نے پاکستان کی تخلیق کے وقت تک برطانوی حکمرانوں سے وفاداری کا حلف اٹھایا تھا، جنھوں نے آزادی کی جدوجہد کرنے والوں کے خلاف جبر اور تشدد کا بازار گرم رکھا تھا اور آزادی کے متوالوں کو پھانسی اور قید و بند کی سزائیں سنائی تھیں۔ انھوں نے ان محب وطن سیاستدانوں کو بدعنوان، راشی اور نا اہل کہنا شروع کردیا جنھوں نے اس ملک کی تخلیق میں قائدانہ کردار ادا کیا تھا۔کیا کوئی ملک آپ نے ایسا دیکھا ہے اور اگر دیکھا ہو تو اس کا نام بتائیں کہ جہاں ملک کی تخلیق کرنے والوں کو غدار، بدعنوان اور ملک دشمن کے القابات سے نوازا گیا ہو؟
پاکستان میں جمہوریت کی نفی، تخلیق پاکستان کی نفی تھی۔ پاکستان کی مٹھی بھر اشرافیہ نے محض اپنے مفاد کے لیے ملک کی بقا اور سلامتی کو داؤ پر لگا دیا۔ جمہوریت کی نفی اور تنوع کو ختم کرنے کے خلاف پہلا ردعمل مشرقی پاکستان سے آیا۔ اس مشرقی پاکستان سے جو مشرقی بنگال کہلاتا تھا اور جس کی بے مثال جدوجہد کے باعث پاکستان کی تخلیق ممکن ہوئی تھی۔ جن بنگالی بولنے والے پاکستانیوں نے ہمیں یہ ملک بنا کر دیا تھا، ہماری اشرافیہ نے ان کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا؟
اس کی تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں۔ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ مشرقی پاکستان کے عوام کو جب ان کے جمہوری اور قومی حقوق سے مسلسل محروم رکھا گیا اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک کی کوئی حد نہ رہی تو انھوں نے پاکستان سے الگ ہوجانے میں ہی اپنی عافیت جانی۔ پاکستان بنانے والوں نے کس دل سے یہ فیصلہ کیا ہوگا یہ تو وہی جانتے ہیں لیکن ہماری حکمران اشرافیہ کو ان کے جانے کا کوئی دکھ نہیں ہوا۔ یہی کہا جاتا رہا کہ شیخ مجیب غدار تھا اور یہ بھی کہ مشرقی پاکستان ہم پر ایک بوجھ تھا، اچھا ہوا جو یہ بوجھ اتر گیا۔
جمہوریت کی نفی سے ملک ٹوٹا اور 90 ہزار فوجیوں نے ہتھیار ڈالے۔ یہ بالکل سامنے کی بات ہے کہ پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کرکے اگر عوام کے مینڈیٹ کو قبول کرلیا جاتا تو پاکستان خواہ ایک کنفیڈریشن کی شکل میں سہی آج بھی موجود اور متحد ہوتا۔ کیا یہ نکتہ غور طلب نہیں کہ عوام کے مینڈیٹ کے سامنے ہتھیار ڈالنا بہتر انتخاب تھا یا کسی غیر ملکی فوج کے سامنے اپنے ہتھیار رکھ دینا؟ سوال تلخ ضرور ہے لیکن اسے اس لیے کرنا چاہیے کیونکہ اسی نکتے میں پاکستان کی بقا اور سلامتی کا راز پنہاں ہے۔ یہ بات اب راز نہیں رہی بلکہ ایک روشن حقیقت کی صورت میں ہمارے سامنے ہمہ وقت موجود رہتی ہے۔
اس وقت جو باقی ماندہ پاکستان ہمارے پاس ہے، اس کو بچانے کے لیے جمہوریت اور پارلیمنٹ کو بچانا لازم ہے۔ وہ لوگ جن کے شوروغوغا سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی وہ کب اس بات کو مانیں گے کہ پاکستان مختلف قومیتوں، مذاہب، مسلکوں، تہذیبی اور سماجی اکائیوں پر مشتمل ایک ملک ہے۔ اس پر کسی ایک نظریے، ادارے، مسلک یا طرز فکر کی سوچ مسلط کرنے سے یہ تنوع جو ہمارے لیے باعث رحمت ہے وہ ایک عذاب میں تبدیل ہوجائے گا، ایک ایسی صورتحال جنم لے گی جس میں ماضی جیسے المناک واقعات کے دوبارہ رونما ہونے کے امکانات پیدا ہوجائیں گے۔
پاکستان کی تخلیق عوام کے مینڈیٹ کا نتیجہ تھی، اسے نہ ماننے سے ملک دو لخت ہوا اور اب بھی اگر عوامی مینڈیٹ کا احترام نہ کیا گیا تو اس کے خوفناک نتائج نکلیں گے۔ ہمارے لیے اس سے بڑی بدنصیبی کی بات اور کیا ہوسکتی ہے۔ یہ فیصلہ کرنا عوام کا کام ہے کہ مسند اقتدار پر کون فائز رہے گا۔ یہ کام ہمارے سوا کسی اور کے کرنے کا نہیں۔ ماضی کی غلطیوں کو نہ دُہرایا جائے اور تاریخ سے سبق سیکھا جائے۔ جمہوریت اور پاکستان لازم و ملزوم ہیں۔ ہمیں 70 سال کے تجربے سے کچھ تو سبق سیکھنا چاہیے۔
اس موقعے پر جاوید اختر کی حسب حال ایک نظم آپ بھی پڑھیں:
کسی کا حکم ہے، ساری ہوائیں/ ہمیشہ چلنے سے پہلے بتائیں/ کہ ان کی سمت کیا ہے/ ہواؤں کو بتانا یہ بھی ہوگا/ چلیں گی جب، توکیا رفتار ہوگی/ جانے کی اجازت اب نہیں ہے/ ہماری ریت کی یہ فصیلیں/ کاغذ کے جو محل بن رہے ہیں/ حفاظت ان کی کرنا ہے ضروری/ اور آندھی ہے پر انی ان کی دشمن/ یہ سب ہی جانتے ہیں/ کسی کا حکم ہے دریا کی لہریں/ ذرا یہ سرکشی کم کرلیں/ اپنی حد میں ٹہریں/ ورنہ پھر بکھرنا اور بکھر کر پھر ابھرنا / غلط ہے ان کا یہ ہنگامہ کرنا/یہ سب ہے وحشت کی علامت، بغاوت کی علامت/ بغاوت تو نہیں برداشت ہوگی/یہ وحشت تو نہیں برداشت ہوگی/ اگر لہروں کو ہے دریا میں رہنا/تو ان کو ہوگا چپ چاپ بہنا/ کسی کا حکم ہے کہ گلستاں میں/ اب ایک ہی رنگ کے پھول ہوں گے/ کچھ افسر ہوں گے جو طے کریں گے/ گلستاں کس طرح بننا ہے کل کا/ یقیناً پھول یک رنگ تو ہوں گے/ مگر یہ رنگ ہوگا کتنا گہرا، کتنا ہلکا/ یہ افسر طے کریں گے/ کسی کو، کوئی یہ کیسے بتائے/ گلستان میں کہیں بھی پھول یک رنگ نہیں ہوتے/ کبھی ہوہی نہیں سکتے/ کہ ہر اک رنگ میں/ چھپ کر بہت سے رنگ رہتے ہیں/ جنھوں نے باغ کو یک رنگ بنانا چاہا / ذرا ان کو دیکھو/ جب ایک رنگ میں سو رنگ ظاہر ہوگئے تو/ وہ اب کتنے پریشاں ہیں، کتنے تنگ رہتے ہیں/ کسی کو یہ کوئی کیسے بتائے/ ہوائیں اور لہریں کب کسی کا حکم سنتی ہیں/ ہوائیں حاکموں کی مٹھیوں میں/ ہتھکڑی میں، قید خانے میں نہیں رکتیں/ یہ لہریں روکی جاتی ہیں/ تو دریا کتنا بھی ہو پُر سکوں بے تاب ہوتا ہے/ اور اس بے تابی کا اگلا قدم/ سیلاب ہوتا ہے/ کسی کو یہ کوئی کیسے بتائے!
جاوید اختر کی اس نظم کو پڑھئے اور پھر سوچئے کہ ہم سب جو تنوع کے دل دادہ ہیں، کیا ہم کسی یک رنگی دنیا میں رہنے کا صدمہ برداشت کرسکتے ہیں؟ اپنی اجتماعی زندگی کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق ہم چند افسروں کو کیوں کر دے سکتے ہیں؟ افسر جو فرنگی کے زمانے میں 'بابو' کہلاتے تھے۔ ہم جمہوریت کو دنیا کا حسن خیال کرتے ہیں، ایسے میں ایک غیر جمہوری پاکستان میں زندگی بسر کرنا کیا ہمارے لیے کال کوٹھری میں زندگی کی گھڑیاں گزارنے جیسا نہ ہوگا؟ قوم کیا اس بھیانک سزا کو برداشت کر سکے گی؟ سوچئے تو سہی۔
دوسری طرف تقسیم کے بعد ابھرنے والی حکمران اشرافیہ تھی جسے اندازہ ہوگیا تھا کہ اس نئی مملکت کا قیام اس کے لیے ''بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا '' کے مترادف ہے۔ اس نے جمہوریت کے بارے میں دنیا کے اعلیٰ ترین دانشوروں کی تحریریں اور تقریریں پڑھی تھیں، وہ جمہوریت کے ثمرات سے بہ خوبی واقف تھی لیکن اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی جانتی تھی کہ جمہوریت اگر مستحکم ہوگئی تو آئندہ وہ ملک پر بلا شرکت غیرے راج نہ کرسکے گی۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی ان کی ''خوش نصیبی'' اور عوام کی بدنصیبی تھی کہ مملکت کے قیام کے فوراً بعد بانی پاکستان رخصت ہوگئے تھے اور ان جیسا دوسرا کوئی اصول پرست اور مستحکم مزاج رکھنے والا رہنما موجود نہ تھا۔
جناح صاحب نے یہ جملہ بے سبب تو نہیں کہا تھا کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں اور یہ ہم سب ہی جانتے ہیں کہ کھوٹے سکے کسی ملک کی تقدیر نہیں بنا سکتے۔ اس صورتِ حال کا اندازہ ہمیں ملک کے ابتدائی برسوں کی تاریخ سے ہوجاتاہے۔ بالادست طبقات سے زیادہ کون اس صورت حال کو جانتا اور سمجھتا تھا۔ وہ ابتدا سے ہی جمہوریت کو بیخ و بُن سے اکھاڑ نے کے درپے ہوگئے اور جب انھوں نے ایک مرتبہ جمہوریت کی نفی کرنے کا فیصلہ کرلیا تو پھر اس کے بعد ناگزیر طور پر انھیں بہت سے اقدامات کرنے پڑے۔
اس حوالے سے سب سے پہلا کام یہ کیا گیا کہ عوام کے منتخب نمائندوں کو راشی، بدعنوان ، چور اور ملک دشمن ثابت کرنے کی ایک نہ ختم ہونے والی مہم چلائی گئی تاکہ عام لوگ یہ سوچنے لگیں کہ ان کے ووٹ ڈالنے کی صورت میں بدعنوان سیاستدان اقتدار میں آجائیں گے۔ ذرا غورکریں خواجہ ناظم الدین، مولوی تمیز الدین خان، حسین شہید سہروردی سے لے کر آج تک کون سا مقبول عوامی رہنما ہے جس پرکرپشن اور مالی بد معاملگی کا الزام نہ لگایا گیا ہو۔
وہ لوگ جنھوں نے تحریک آزادی میں کوئی حصہ نہیں لیا تھا، جن لوگوں نے پاکستان کی تخلیق کے وقت تک برطانوی حکمرانوں سے وفاداری کا حلف اٹھایا تھا، جنھوں نے آزادی کی جدوجہد کرنے والوں کے خلاف جبر اور تشدد کا بازار گرم رکھا تھا اور آزادی کے متوالوں کو پھانسی اور قید و بند کی سزائیں سنائی تھیں۔ انھوں نے ان محب وطن سیاستدانوں کو بدعنوان، راشی اور نا اہل کہنا شروع کردیا جنھوں نے اس ملک کی تخلیق میں قائدانہ کردار ادا کیا تھا۔کیا کوئی ملک آپ نے ایسا دیکھا ہے اور اگر دیکھا ہو تو اس کا نام بتائیں کہ جہاں ملک کی تخلیق کرنے والوں کو غدار، بدعنوان اور ملک دشمن کے القابات سے نوازا گیا ہو؟
پاکستان میں جمہوریت کی نفی، تخلیق پاکستان کی نفی تھی۔ پاکستان کی مٹھی بھر اشرافیہ نے محض اپنے مفاد کے لیے ملک کی بقا اور سلامتی کو داؤ پر لگا دیا۔ جمہوریت کی نفی اور تنوع کو ختم کرنے کے خلاف پہلا ردعمل مشرقی پاکستان سے آیا۔ اس مشرقی پاکستان سے جو مشرقی بنگال کہلاتا تھا اور جس کی بے مثال جدوجہد کے باعث پاکستان کی تخلیق ممکن ہوئی تھی۔ جن بنگالی بولنے والے پاکستانیوں نے ہمیں یہ ملک بنا کر دیا تھا، ہماری اشرافیہ نے ان کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا؟
اس کی تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں۔ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ مشرقی پاکستان کے عوام کو جب ان کے جمہوری اور قومی حقوق سے مسلسل محروم رکھا گیا اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک کی کوئی حد نہ رہی تو انھوں نے پاکستان سے الگ ہوجانے میں ہی اپنی عافیت جانی۔ پاکستان بنانے والوں نے کس دل سے یہ فیصلہ کیا ہوگا یہ تو وہی جانتے ہیں لیکن ہماری حکمران اشرافیہ کو ان کے جانے کا کوئی دکھ نہیں ہوا۔ یہی کہا جاتا رہا کہ شیخ مجیب غدار تھا اور یہ بھی کہ مشرقی پاکستان ہم پر ایک بوجھ تھا، اچھا ہوا جو یہ بوجھ اتر گیا۔
جمہوریت کی نفی سے ملک ٹوٹا اور 90 ہزار فوجیوں نے ہتھیار ڈالے۔ یہ بالکل سامنے کی بات ہے کہ پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کرکے اگر عوام کے مینڈیٹ کو قبول کرلیا جاتا تو پاکستان خواہ ایک کنفیڈریشن کی شکل میں سہی آج بھی موجود اور متحد ہوتا۔ کیا یہ نکتہ غور طلب نہیں کہ عوام کے مینڈیٹ کے سامنے ہتھیار ڈالنا بہتر انتخاب تھا یا کسی غیر ملکی فوج کے سامنے اپنے ہتھیار رکھ دینا؟ سوال تلخ ضرور ہے لیکن اسے اس لیے کرنا چاہیے کیونکہ اسی نکتے میں پاکستان کی بقا اور سلامتی کا راز پنہاں ہے۔ یہ بات اب راز نہیں رہی بلکہ ایک روشن حقیقت کی صورت میں ہمارے سامنے ہمہ وقت موجود رہتی ہے۔
اس وقت جو باقی ماندہ پاکستان ہمارے پاس ہے، اس کو بچانے کے لیے جمہوریت اور پارلیمنٹ کو بچانا لازم ہے۔ وہ لوگ جن کے شوروغوغا سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی وہ کب اس بات کو مانیں گے کہ پاکستان مختلف قومیتوں، مذاہب، مسلکوں، تہذیبی اور سماجی اکائیوں پر مشتمل ایک ملک ہے۔ اس پر کسی ایک نظریے، ادارے، مسلک یا طرز فکر کی سوچ مسلط کرنے سے یہ تنوع جو ہمارے لیے باعث رحمت ہے وہ ایک عذاب میں تبدیل ہوجائے گا، ایک ایسی صورتحال جنم لے گی جس میں ماضی جیسے المناک واقعات کے دوبارہ رونما ہونے کے امکانات پیدا ہوجائیں گے۔
پاکستان کی تخلیق عوام کے مینڈیٹ کا نتیجہ تھی، اسے نہ ماننے سے ملک دو لخت ہوا اور اب بھی اگر عوامی مینڈیٹ کا احترام نہ کیا گیا تو اس کے خوفناک نتائج نکلیں گے۔ ہمارے لیے اس سے بڑی بدنصیبی کی بات اور کیا ہوسکتی ہے۔ یہ فیصلہ کرنا عوام کا کام ہے کہ مسند اقتدار پر کون فائز رہے گا۔ یہ کام ہمارے سوا کسی اور کے کرنے کا نہیں۔ ماضی کی غلطیوں کو نہ دُہرایا جائے اور تاریخ سے سبق سیکھا جائے۔ جمہوریت اور پاکستان لازم و ملزوم ہیں۔ ہمیں 70 سال کے تجربے سے کچھ تو سبق سیکھنا چاہیے۔
اس موقعے پر جاوید اختر کی حسب حال ایک نظم آپ بھی پڑھیں:
کسی کا حکم ہے، ساری ہوائیں/ ہمیشہ چلنے سے پہلے بتائیں/ کہ ان کی سمت کیا ہے/ ہواؤں کو بتانا یہ بھی ہوگا/ چلیں گی جب، توکیا رفتار ہوگی/ جانے کی اجازت اب نہیں ہے/ ہماری ریت کی یہ فصیلیں/ کاغذ کے جو محل بن رہے ہیں/ حفاظت ان کی کرنا ہے ضروری/ اور آندھی ہے پر انی ان کی دشمن/ یہ سب ہی جانتے ہیں/ کسی کا حکم ہے دریا کی لہریں/ ذرا یہ سرکشی کم کرلیں/ اپنی حد میں ٹہریں/ ورنہ پھر بکھرنا اور بکھر کر پھر ابھرنا / غلط ہے ان کا یہ ہنگامہ کرنا/یہ سب ہے وحشت کی علامت، بغاوت کی علامت/ بغاوت تو نہیں برداشت ہوگی/یہ وحشت تو نہیں برداشت ہوگی/ اگر لہروں کو ہے دریا میں رہنا/تو ان کو ہوگا چپ چاپ بہنا/ کسی کا حکم ہے کہ گلستاں میں/ اب ایک ہی رنگ کے پھول ہوں گے/ کچھ افسر ہوں گے جو طے کریں گے/ گلستاں کس طرح بننا ہے کل کا/ یقیناً پھول یک رنگ تو ہوں گے/ مگر یہ رنگ ہوگا کتنا گہرا، کتنا ہلکا/ یہ افسر طے کریں گے/ کسی کو، کوئی یہ کیسے بتائے/ گلستان میں کہیں بھی پھول یک رنگ نہیں ہوتے/ کبھی ہوہی نہیں سکتے/ کہ ہر اک رنگ میں/ چھپ کر بہت سے رنگ رہتے ہیں/ جنھوں نے باغ کو یک رنگ بنانا چاہا / ذرا ان کو دیکھو/ جب ایک رنگ میں سو رنگ ظاہر ہوگئے تو/ وہ اب کتنے پریشاں ہیں، کتنے تنگ رہتے ہیں/ کسی کو یہ کوئی کیسے بتائے/ ہوائیں اور لہریں کب کسی کا حکم سنتی ہیں/ ہوائیں حاکموں کی مٹھیوں میں/ ہتھکڑی میں، قید خانے میں نہیں رکتیں/ یہ لہریں روکی جاتی ہیں/ تو دریا کتنا بھی ہو پُر سکوں بے تاب ہوتا ہے/ اور اس بے تابی کا اگلا قدم/ سیلاب ہوتا ہے/ کسی کو یہ کوئی کیسے بتائے!
جاوید اختر کی اس نظم کو پڑھئے اور پھر سوچئے کہ ہم سب جو تنوع کے دل دادہ ہیں، کیا ہم کسی یک رنگی دنیا میں رہنے کا صدمہ برداشت کرسکتے ہیں؟ اپنی اجتماعی زندگی کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق ہم چند افسروں کو کیوں کر دے سکتے ہیں؟ افسر جو فرنگی کے زمانے میں 'بابو' کہلاتے تھے۔ ہم جمہوریت کو دنیا کا حسن خیال کرتے ہیں، ایسے میں ایک غیر جمہوری پاکستان میں زندگی بسر کرنا کیا ہمارے لیے کال کوٹھری میں زندگی کی گھڑیاں گزارنے جیسا نہ ہوگا؟ قوم کیا اس بھیانک سزا کو برداشت کر سکے گی؟ سوچئے تو سہی۔