کالعدم تحریک طالبان موقعے سے فائدہ اٹھائے

پاکستان کے عوام کو امن کی ضرورت ہے جس کے بغیر ترقی اور خوشحالی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔


Editorial February 08, 2013
کا لعدم تحریک طالبان کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کے ردعمل میں میاں نواز شریف نے اپنا موقف واضح کر دیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی/ فائل

کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے 3 فروری کو حکومت پاکستان کو دوبارہ مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے شرط عائد کی تھی کہ مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف' جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن ضمانت دیں تو وہ حکومت سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ کالعدم تحریک طالبان کی طرف سے جب یہ پیشکش سامنے آئی تو اس وقت میاں نواز شریف نے ضامن بننے سے انکار کر دیا تھا' ان کا موقف تھا کہ طالبان سے مذاکرات کے لیے حکومت کی ضمانت نہیں دے سکتے کیونکہ حکومت نے جو وعدے کیے وہ پورے نہیں کیے۔ اب چار روز بعد میاں نواز شریف نے اپنے ایک بیان میں موقف اختیار کیا ہے کہ حکومت طالبان کے ساتھ بلاتاخیر سنجیدہ اور نتیجہ خیز مذاکرات شروع کرے، طالبان کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش کو سنجیدہ لینا چاہیے۔ بارود اور خون کے کھیل سے نفرتیں پھیل رہی ہیں، پاکستان اس کی بھاری قیمت ادا کر رہا ہے۔ پاکستان کے عوام کو امن کی ضرورت ہے جس کے بغیر ترقی اور خوشحالی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

کا لعدم تحریک طالبان کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کے ردعمل میں میاں نواز شریف نے اپنا موقف واضح کر دیا ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر سیدمنور حسن کا ردعمل سامنے آچکا ہے ۔انھوں نے بھی طالبان سے مذاکرات کی حمایت کی ہے۔وہ بھی اس سلسلے میںتین چار روز خاموشی اختیار کیے رہے۔ عمومی طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ مولانا فضل الرحمن اور سید منور حسن تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حامی ہیں۔مولانا فضل الرحمن بھی یقینی طورپر طالبان سے مذاکرات کی حمایت کریں گے۔ میاں نواز شریف توحکومت کو کہہ رہے ہیں کہ وہ امن کی خاطر طالبان سے مذاکرات کا عمل شروع کرے مگر دوسری جانب انھوں نے اپنے اسی موقف کا اعادہ کیا ہے کہ حکومت کے ریکارڈ کے پیش نظر شاید کوئی بھی اس کی ضمانت نہ دے سکے لیکن وہ اس مذاکراتی عمل کی حمایت کرتے ہیں۔


اس وقت موجودہ حکومت اور تمام سیاسی جماعتیں انتخابی تیاریوں کے سلسلے میں میدان میں اتر چکی ہیں۔ انھیں سب سے زیادہ خطرہ دہشت گردی کی کسی واردات ہی کا لاحق ہے۔ کالعدم تحریک طالبان ایم کیو ایم کے ایک جلسہ کو نشانہ بنا کر خطرے کی گھنٹی بجا چکی ہے کہ ایسے حملے کسی بھی سیاسی جلسے میں ہو سکتے ہیں۔ اس سے قبل انھوں نے اے این پی کے سینئر وزیر بشیر احمد بلور کو خود کش دھماکے میں شہید کر کے حکومت اور جمہوری نظام کے خلاف طبل جنگ بجا دیا تھا۔ اب چند ہفتوں بعد نگران حکومت آتے ہی تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابی تیاریوں میں تیزی آ جائے گی، انتخابی جلسوں اور ریلیوں کا مکمل حفاظتی انتظام ایک مشکل امر ہے۔ اگر اس موقعے پر کوئی سانحہ پیش آ جاتا ہے تو بے گناہ افراد کی بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔

بارود اور خون کے اس کھیل کی پاکستانی عوام بڑی بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں۔ اسی لیے میاں نواز شریف نے اس موقعے پر صائب کہا ہے کہ حکومت امن کی خاطر طالبان سے بلاتاخیر اور سنجیدہ مذاکرات کرے۔ نواز شریف نے حکومت اور طالبان کے مذاکرات میں ایک بار پھر ضامن بننے سے انکار تو کر دیا ہے مگر انھوں نے مذاکرات کی حمایت ضرور کی ہے۔ دوسری جانب طالبان حکومت کو مذاکرات کی دعوت تو دے رہے ہیں مگر وہ اپنے رویے میں تبدیلی لانے کے لیے قطعاً آمادہ نہیں' ایسی صورت میں مذاکراتی عمل کیسے شروع ہو سکتا ہے۔ طالبان جمہوری نظام سے نفرت کا اظہار کرتے ہوئے حکومت اور سیاسی رہنمائوں کو نشانہ بنانے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔

آئین کو وہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں' فوج پر وہ عدم اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں جب وہ تمام قوتوں کو ناپسندیدہ قرار دے رہے ہیں تو ایسے میں وہ مذاکرات کن سے کریں گے۔ملک کی سیاسی قیادت کو اس نکتے پر بھی غور کرنا چاہیے۔ مذاکرات سے قبل ضروری ہے کہ طالبان اپنے رویے میں تبدیلی لائیں۔ سب سے پہلے وہ دہشت گردی کی وارداتوں سے کنارہ کشی کا دو ٹوک اعلان کرتے ہوئے ہتھیار ڈالنے کی پیشکش کریں، ایسی صورت میں حکومت بھی ان سے مذاکرات کی جانب قدم بڑھا سکتی ہے۔ حکومت کسی ایسے گروہ سے کن بنیادوں پر مذاکرات کرے جو علی الاعلان دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رکھنے کی دھمکیاں دے رہا' القاعدہ اور افغان طالبان سے اپنی گہری وابستگی کا اظہار کر رہا ہے۔

شاید یہی سبب ہے کہ کئی مذہبی جماعتیںکالعدم تحریک طالبان سے مذاکرات کے سلسلے میں کھل کر کوئی موقف نہیں دے رہیں کیونکہ انھیں بخوبی ادراک ہے کہ طالبان اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کے باعث عوامی حلقوں میں ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں اور ایسے میں طالبان حکومت مذاکرات کی حمایت کرنے کی صورت میں وہ بھی طالبان کے حامی ہونے کے تنقیدی دائرے میں آ سکتے ہیں۔ جے یو آئی (ف) خیبر پختون خوا کے صوبائی سیکرٹری اطلاعات عبدالجلیل نے حکومت اور طالبان مذاکرات میں براہ راست ضامن بننے کے بجائے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا سارا عمل گرینڈ قبائلی جرگہ کے ذریعے ہونا چاہیے کیونکہ یہ جرگہ حکومت اور طالبان کے درمیان حقیقی معنوں میں پل کا کردار ادا کرے گا۔

صوبائی وزیر اطلاعات خیبر پختون خوا میاں افتخار حسین نے بھی اس سلسلے میں لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ طالبان کی اس پیش کش کو اے این پی کی جانب سے بلائی جانے والی اے پی سی میں زیر بحث لایا جائے گا تاکہ اس سلسلے میں موقف اپنایا جا سکے۔ اے این پی کے بعد مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کی جانب سے بھی مثبت ردعمل سامنے آیا ہے۔ انھوں نے مذاکرات کی گیند حکومت کے کورٹ میں پھینک دی ہے۔ ان حالات میں حکومت کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ ملک میں امن و امان کے قیام کو اولین ترجیح دیتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کی اے پی سی بلائے اور ان سب کی رائے سے طالبان سے مذاکرات کے لیے مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دے۔ دوسری جانب طالبان اگر اس امر کے خواہاں ہیں کہ کوئی تیسری طاقت ضامن بنے اور حکومت ان کے مذاکرات پر مثبت جواب دے تو انھیں بھی دہشت گردی کی دھمکیاں ترک کر کے ہتھیار ڈالنے ہوں گے تبھی یہ مذاکرات مثبت اور نتیجہ خیز ہوسکتے ہیں۔

کالعدم تحریک طالبان کی قیادت کو حب الوطنی کا ثبوت دیتے ہوئے ایسی قوتوں سے خود کو الگ کرنے کا اعلان کرنا چاہیے جن کی وجہ سے عالمی سطح پر پاکستان کے لیے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔میاں محمد نواز شریف پاکستان کے دو مرتبہ وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ ان کی جماعت ملک کی بڑی سیاسی جماعت ہے ، آئندہ عام انتخابات میں وہ مرکز میں حکومت بھی بنا سکتی ہے۔حکومت کو بھی ان کے بیان کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور تحریک طالبان کی قیادت کو بھی اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی عسکری سرگرمیاں ترک کرنے کا اعلان کرنا چاہیے تاکہ بامعنی مذاکرات کے عمل کا آغاز ہوسکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں