او آئی سی کا سربراہ اجلاس

او آئی سی کے اعلامیے میں کنٹرول لائن پر ہونے والی جنگ بندی کی خلاف ورزیوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا۔

اعلامیے میں بھارت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ او آئی سی اور حقوق انسانی کی تنظیموں کے حقائق کی تلاش کرنے والے مشن کو مقبوضہ وادی کا دورہ کرنے کی اجازت دے۔ فوٹو: رائٹرز

اسلامی ملکوں کی تنظیم آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن (او آئی سی) نے مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں جمعرات کو ہونے والے اپنے 12 ویں سربراہ اجلاس میں ایک اعلامیے کے ذریعے مسلم امہ کو درپیش مختلف مسائل اور مشکلات کے حل کے علاوہ مقبوضہ ریاست جموں کشمیر کے عوام کے حق خود ارادیت کی حمایت کا اعادہ کیا ہے۔ اس اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے کی۔ اعلامیے میں بھارت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ او آئی سی اور حقوق انسانی کی تنظیموں کے حقائق کی تلاش کرنے والے مشن کو مقبوضہ وادی کا دورہ کرنے کی اجازت دے اور انھیں آزادانہ طور پر تحقیقات کرنے کی سہولت فراہم کرے۔

مقبوضہ وادی میں بہت سی اجتماعی قبروں کے انکشاف کے بعد یہ بات ضروری ہو گئی ہے کہ ان گنت ہلاکتوں کی آزادانہ طور پر تحقیقات کی جائے اور انسانیت سوز کارروائیوں کے ذمے داروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ او آئی سی کے اعلامیے میں کنٹرول لائن پر ہونے والی جنگ بندی کی خلاف ورزیوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا اور پاکستان کی اس تجویز کا خیر مقدم کیا گیا کہ ان خلاف ورزیوں کی تحقیقات اقوام متحدہ کے ملٹری آبزرور گروپ سے کرائی جائے۔ سربراہ اجلاس میں پاکستان کی وزیر خارجہ نے بھی ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ عالم اسلام کو درپیش سنگین چیلنجز کا یکجہتی، اتحاد اور اسلامی بھائی چارے کے جذبے سے سامنا کیا جائے۔ افغان مسئلے کے ضمن میں حنا ربانی کھر نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں امن عمل کی مکمل حمایت کرتا ہے اور اس سلسلے میں ہر ممکن تعاون کرے گا۔


پاکستانی وزیر خارجہ نے ہر قسم کی دہشتگردی کی سخت مذمت کی اور کہا کہ اس عفریت کا صرف فوجی طریقے سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کے لیے ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ انھوں نے اسلام کو بدنام کرنے والی سازشوں کی بھی مذمت کی اور کہا کہ آزادی اظہار کے نام پر اسلام کے خلاف جو سازشیں کی جا رہی ہیں انھیں متحدہ طور پر روکنا تمام عالم اسلام کا فرض ہے۔ پاکستانی وزیرخارجہ نے اس موقعے پر او آئی سی کے رکن ممالک کے مابین تجارت اور اقتصادی تعاون کے فروغ پر بھی زور دیا۔ سربراہ کانفرنس کی سائیڈ لائنز میں پاکستانی وزیر خارجہ نے مختلف برادر ملکوں کے وزرائے خارجہ کے ساتھ ملاقاتیں کیں اور دو طرفہ دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا۔یہاں یہ امر بطور خاص قابل ذکر ہے کہ او آئی سی کے رکن ممالک کی تعداد 56 ہے لیکن اتنے ڈھیر سارے ممالک کی تنظیم ہونے کے باوجود اس کی عالمی امور میں کوئی اہمیت ہی نظر نہیں آتی۔ اس کے مقابلے میں یورپی ملکوں کی تنظیم ''یورپی یونین'' یا نیٹو وغیرہ کی اس قدر زیادہ اہمیت ہے کہ ان کی طرف سے محض اشارتاً کہی گئی کوئی بات بھی نظر انداز نہیں کی جاتی۔ یورپی یونین یا نیٹو اس قدرے مضبوط ہیں کہ ان کے آئین میں درج ہے کہ کسی رکن ملک پر حملہ سب پر حملہ تصور کیا جاتا ہے۔

دوسری طرف او آئی سی کے 56 ممالک میں سے بیشتر ملک نہایت تکلیف دہ مسائل کا شکار ہیں ۔ انھیں کوئی خارجی امداد یا حمایت میسر نہیں ہے۔ کشمیر اور فلسطین کے مسئلوں کی عمر تقریباً مساوی ہے لیکن ان کے حل کی طرف او آئی سی کا کوئی کردار نظر نہیں آتا ۔کیا اس امر کی ضرورت نہیں کہ او آئی سی اپنے منشور یا آئین کا از سر نو جائزہ لے اور اس میں قابل عمل تبدیلیاں پیدا کی جائیں تاکہ اقوام عالم میں اسلامی ملکوں کی آواز بھی سنی جا سکے اور مسلمانوں کے خلاف ہونے والا ظلم و تشدد بند کرایا جا سکے۔ او آئی سی کی تنظیم کا اگر بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی ممالک کے اندرونی اختلافات بہت گنجلک ہیں۔ اس وقت ساری مغربی دنیا امریکا کی قیادت میں متحد ہوکراکیلے ایران کے خلاف صف بندیوں میں لگی ہوئی ہے۔

اس بہانے کے تحت کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا ہے حالانکہ ایران نے واشگاف الفاظ میں اعلان کررکھا ہے کہ ایٹمی ہتھیار بنانے کا اس کا کوئی ارادہ نہیں اور نہ ہی وہ وسیع تباہی کے ہتھیاروں کو جائز تصور کرتا ہے بلکہ وہ جوہری توانائی سے اپنی توانائی کی ضروریات کی بہتر طور پر کفالت کا خواہاں ہے جب کہ بہت سے مغربی ممالک کے علاوہ ہمارا مشرقی پڑوسی بھی جوہری بجلی کے استعمال کا طالب ہے حالانکہ وہاں ایک ایٹمی ری ایکٹر کے پھٹنے سے وسیع پیمانے پر تباہی بھی پھیل چکی ہے لیکن اس حوالے سے اگر پابندیاں عاید کرنے پر زور دیا جاتا ہے تو وہ یا ایران ہے یا پاکستان۔ان حقائق کو دیکھا جائے تو امہ کے مسائل کے حل کے لیے ضروری ہے کہ او آئی سی کو زیادہ مضبوط اور فعال بنایا جائے ، اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو یہ تنظیم ایک نمائشی ادارہ رہے گی اور اقوام عالم میں اس کی آواز پر کوئی کان نہیں دھرے گا۔
Load Next Story