تعلیم اور حکومتی رویہ
یہ حقیقت ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے دور سے سندھ کے تعلیمی شعبے میں بدحالی کی صورتحال پیدا ہوئی۔
اسکول نہ جانے والے طلبا کی اکثریت کا تعلق صوبہ سندھ سے ہے۔ ملک میں تعلیم کی صورتحال کے بارے میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق اسکولوں کے ایک جامع سروے کے نتائج سے ظاہر ہوا کہ سندھ میں صرف 60 فیصد بچے سروے کے دوران اسکولوں میں موجود تھے جب کہ آزاد جموں کشمیرمیں یہ تعداد 88 فیصد تھی اور باقی صوبوں میں 80 فیصد بچے اسکولوں میں موجود تھے۔ پاکستان میں اسکولوں کی سطح پر تعلیمی صورتحال کے بارے میں یہ رپورٹ ایک غیر سرکاری تنظیم ادارہ تعلیم و آگہی (ITA) نے ایک اور تنظیم ہینڈز کے تعاون سے تیار کی ہے۔
اس رپورٹ کی تیاری میں اشتراک کرنے والوں میں 20 سرکاری اور غیر سرکاری ادارے شامل ہیں۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سندھ میں بچوں میں سیکھنے کی صلاحیتوں میں خطرناک حد تک کمی ہوئی ہے۔ تیسری جماعت کے 84 فیصد بچے اردو اور سندھی زبان میں کہانیاں نہیں پڑھ سکتے جب کہ 66 فیصد بچے جماعت دوم کے معیار کے جملے تک نہیں پڑھ سکے۔ اس طرح جماعت پنجم کے 70 فیصد طلبا جماعت دوم کے معیار کے انگریزی کے جملے نہیں پڑھ سکے۔ ایسی ہی صورتحال حساب کے مضمون کی ہے۔ اس سروے میں کہا گیا ہے کہ بیشتر اسکولوں میں کمپیوٹر لیب، کتب خانے اور بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے۔
اس رپورٹ میں چاروں صوبوں کا موازنہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پنجاب کے اسکولوں میں پینے کے پانی، بیت الخلا، کھیل کے میدان اور چار دیواری کے حوالے سے سب سے زیادہ سہولتیں ہیں جب کہ گلگت، بلتستان دوسرے نمبر پر ہیں۔ پنجاب میں 77 فیصد اور گلگت میں 69 ، اور خیبر پختونخوا میں 32 فیصد اسکولوں میں تمام سہولتیں موجود ہیں جب کہ بلوچستان میں 3 سے 5 سال کی عمر کے 78 فیصد بچے اسکول میں داخل نہیں ہوئے۔ پنجاب کے علاوہ باقی صوبوں میں 50 فیصد بچے اسکول نہیں جاتے ہیں۔ اس رپورٹ میں چاروں صوبوں، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان کے شہری، دیہی علاقوں، لڑکوں اور لڑکیوں میں تعلیمی صورتحال کے حوالے سے تصدیق شدہ اعداد و شمار دیے گئے ہیں جو کسی صورت تسلی بخش نہیں ہے، مگر سندھ کی جس صورتحال کا اس رپورٹ میں ذکر ہے جمہوری نظام کے تسلسل کے لیے دلائل دینے والوں کے پاس سوائے ماتم کے کچھ نہیں رہا۔
یہ حقیقت ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے دور سے سندھ کے تعلیمی شعبے میں بدحالی کی صورتحال پیدا ہوئی، ایک طے شدہ منصوبے کے تحت تعلیمی بجٹ میں اضافہ نہیں کیا گیا۔ تعلیمی شعبے کو بدعنوان بیوروکریسی کے حوالے کردیا گیا جب کہ 1985 سے منتخب حکومت اقتدار میں آئی تو تعلیمی شعبہ اہمیت اختیار نہ کرسکا، اب محکمہ تعلیم کو ایمپلائمنٹ ایکسچینج میں تبدیل کیا گیا، اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کی اسامیاں فروخت ہونے لگیں۔ اسکول کاغذوں میں تیار ہونے لگے، کئی ہزار اسکول عالمی بینک کی امداد سے تعمیر ہوئے مگر یہ چار دیواری سے محروم تھے۔ وزیروں اور منتخب اراکین نے اسکولوں کو اوطاقوں، مویشیوں کے باڑوں اور گوداموں میں تبدیل کردیا۔ 1988 میں پیپلزپارٹی کی پہلی حکومت اقتدار میں آئی تو سب سے زیادہ گھوسٹ اسکول لاڑکانہ میں تھے۔ پیپلزپارٹی کی دونوں حکومتوں میں وزراء منتخب اراکین اسمبلی نے اساتذہ اور دوسرے عملے کی اسامیوں کو فروخت کرکے اور تعلیمی بجٹ کو اپنے مقاصد میں استعمال کرکے خوب دولت کمائی۔
انتخابات میں اساتذہ کے پولنگ افسر بننے کی بنا پر منتخب اراکین کی بھرتیوں اور پوسٹنگ پر خصوصی توجہ ہوگئی۔ جنرل مشرف کے دور میں سندھ کی تعلیمی صورتحال پر کچھ توجہ دی گئی مگر پھر کرپٹ سیاستدانوں کے اقتدار میں آنے سے صورتحال پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ صنعتوں اور اسکولوں کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کے اثرات سندھ کے تعلیمی شعبے پر بھی پڑے۔ جنرل پرویز مشرف کی خصوصی ہدایات پر کراچی کے بہترین کالج نجی شعبے کے حوالے کیے گئے، پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں جن اسکولوں اور کالجوں کو قومی تحویل میں لیا گیا ان کی عمارتوں کی ملکیت کے بارے میں جامع قانون سازی نہیں کی گئی۔ محکمہ تعلیم کے افسرون کی غفلت سے سابقہ مالکان ان اسکولوں کی عمارتوں کی ملکیت کے مقدمات جیت گئے، اس بنا پر کئی تاریخی اسکول ختم ہوگئے۔
اسکولوں کو غیر سرکاری تنظیموں کے حوالے کرنے کی روایت چلی، تاکہ کچھ عرصے بعد شہر کے امراء کے علاقوں میں قائم ان اسکولوں کی عمارتوں اور زمینوں کو دوسرے مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے اور غریبوں کے احتجاج کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔ جب تقریباً 10 سا ل بعد 2008 میں پیپلزپارٹی کی تیسری حکومت بنی تو امید تھی کہ اب محکمہ تعلیم کو میرٹ کی بنیاد پر چلایا جائے گا مگر یہ امیدیں پانچ سال بعد ختم ہوگئیں۔ اس رپورٹ میں حکومت نے میرٹ کے اصول کو نظر انداز کردیا۔ اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کی اسامیوں کی فروخت کا ایک نیا دور آیا۔ عالمی بینک کی پابندی کی بنا پر اساتذہ کے تقرر کے لیے ایک امتحان لازمی قرار دیا گیا۔ ٹیسٹ سندھ یونیورسٹی، آئی بی اے سکھر نے لیے مگر ان کے نتائج پر عمل نہ ہوا۔ پیسے لے کر کانٹریکٹ پر ملازم رکھنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ خود سندھ کے وزیر تعلیم پیر مظہر الحق نے گزشتہ سال ایک سیمینار میں یہ بات تسلیم کی کہ ان کے محکمے میں بدعنوانی بڑھ گئی۔ سندھ کے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کی صاحبزادی ناہید شاہ کو بدعنوانی کلچرکے خلاف مزاحمت کرنے پر معتوب قرار دیا اور چند ماہ بعد ان کا تبادلہ ہوا۔
ایک صحافی کا کہنا ہے جب حج کے فرائض کے لیے جاری کردہ این او سی فروخت کیے جانے لگے تو پھر صورتحال کتنی خراب ہوگئی، اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ سندھ میں تمام دعوئوں کے باوجود اسکول جانے والے طلبا کی تعداد نہیں بڑھ سکی، نہ اسکولوں میں فراہم کی جانے والی سہولتوں کی شرح تسلی بخش حد تک پہنچ سکی۔ پیپلزپارٹی کی موجودہ حکومت کا ایک بڑا کارنامہ آئین میں کی گئی 18 ویں ترمیم میں آرٹیکل 25A کی شمولیت اور نئے قومی مالیاتی ایوارڈ (NFC) کے اجرا سے آئین میں کی گئی 18 ویں ترمیم کے آرٹیکل 25A کے تحت ریاست ہر شہری کو میٹرک تک تعلیم دینے کی پابند ہے۔ نئے این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو ملنے والی مالیاتی امداد میں کئی سو گنا کا اضافہ ہے۔
اس ترمیم کے تحت صوبے میں خود مختار ہائر ایجوکیشن قائم ہونا چاہیے تھا، اس طرح نصاب کو جدید ترقی پسند بنیادوں پر ڈھالنے کے لیے ٹھوس اقدامات ہونے چاہیے تھے مگر یہ سب کچھ نہیں ہوسکا۔ اگر چہ اسکولوں کی سطح تک طلبا کو کتابیں دینے اور طالبات کو وظائف دینے کی اسکیموں سے تبدیلی آئی مگر دور دراز دیہی علاقوں میں ان اسکیموں پر کتنا عملدرآمد ہوا، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ بعض ماہرین کہتے ہیں کہ سرکاری شعبے سے مایوسی کے بعد عوام نجی تعلیمی اداروں سے رجوع کرنے لگے، جو لوٹ مار اور منافعے کی بنا پر سرمایہ کاروں کے لیے دولت کمانے کا ذریعہ بن گئی ہے۔ 2012 کی اس رپورٹ پر پیپلزپارٹی کے چیئر پرسن بلاول بھٹو کی زیر صدارت پیپلزپارٹی کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں غور ہونا چاہیے اور جو لوگ تعلیمی شعبے میں بدعنوانی کے مرتکب ہوئے انھیں آئندہ انتخابات میں ٹکٹ نہیں دینا چاہیے۔ مستقبل کے لیے پارلیمانی پارٹی کو ایسی پالیسی تیار کرنی چاہیے کہ اگر پیپلزپارٹی پھر 5 سال کے لیے برسر اقتدار آئے تو سندھ تعلیم میں تمام صوبوں سے آگے نکل جائے۔ پیپلز پارٹی جمہوری حکومت میں اگر صوبہ میں تعلیمی صورتحال بہتر نہ ہوگی اور خواندگی کی شرح صد فیصدنہ ہوئی تو عوام کا جمہوری حکومت پر سے اعتماد ختم ہوجائے گا۔ پیپلزپارٹی نے اپنی اساسی دستاویز میں ہر شہری کے تعلیم کے حق کو تسلیم کیا تھا اور ریاست نے یہ ذمے داری قبول کی تھی، پیپلزپارٹی کی قیادت کو اساسی دستاویز پر توجہ دینی چاہیے۔