خون خاک نشیناں
سیاست دانوں کی آنکھوں پر تو خودغرضی، ہوس اقتدار کی پٹی چڑھی رہتی ہے
میرے سامنے گزشتہ دنوں کے اخبارات رکھے ہیں اور ان کی سرخیاں دیکھ کر محسوس ہورہا ہے کہ ہم اب زندہ انسان نہیں رہے بلکہ ایسی چلتی پھرتی لاشوں میں بدل گئے ہیں جو انسان کو مرتے، ان کے ٹکڑے بکھرتے، ان کے لواحقین کو سر پیٹتے، گریہ و زاری کرتے دیکھتے ہیں اور منہ سے کچھ نہ بولتے ہیں۔ ملک کے مختلف حصوں خصوصاً خیبر پختونخوا اور کراچی میں ہر روز ہونے والے جانی نقصان کا نہ تھمنے والا سلسلہ برسوں سے جاری ہے، جس میں اب تک ہزاروں انسان مارے جاچکے ہیں۔ میں حیرت سے ان حکمرانوں، ان سیاستدانوں کو دیکھ رہا ہوں جو اپنا سارا وقت، ساری توانائیاں، سارے وسائل انتخابی مہم پر لگا رہے ہیں، قتل و غارت کی ان دل ہلا دینے والی خبروں کا ان کے ذہنوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا، خلق خدا کی لعنت ملامت سے بچنے کے لیے ان سانحات پر ایک مذمتی بیان دے دیا جاتا ہے باقی سب خیریت!
خیبر پختونخوا کی حکومت کی جانب سے بار بار سیاسی اور مذہبی رہنماؤں سے ایک اے پی سی بلانے کی درخواست کی جارہی ہے، جس میں دہشت گردی کی اس قیامت کو روکنے کے لیے کوئی قومی پالیسی بنائی جائے لیکن انتخابات کی تیاریوں میں مگن سیاستدانوں اور مذہبی رہنماؤں کے کانوں پر جوں ہی نہیں رینگ رہی ہے۔ خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات گڑگڑا کر کہہ رہے ہیں کہ میں سیاستدانوں، مذہبی رہنماؤں کے پیر پڑنے کے لیے تیار ہوں کہ خدارا! آپ اے پی سی میں آکر ملک و قوم کے مستقبل کو تباہ ہونے اور بے گناہ انسانوں کے قتل عام کو روکنے میں ہماری مدد کریں، لیکن ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ہم انسانیت کے درجے سے اس قدر نیچے گرگئے ہیں کہ ہمیں ہر روز سڑکوں پر بہنے والا بے گناہوں کا خون اور ان کے جسموں کے اڑتے ہوئے اعضا تک دکھائی نہیں دے رہے، اگر ہم میں تھوڑی سی بھی شرم اور انسانیت ہوتی تو ہم اپنی ساری ذاتی اور سیاسی مصروفیات کو چھوڑ کر سر جوڑ کر بیٹھتے اور قوم و ملک کے مستقبل پر سایہ فگن دنیا کی تاریخ کے اس بدترین عفریت سے نجات حاصل کرنے کی کوئی صورت تلاش کرتے، لیکن ہائے رے اقتدار کی ہوس، جس نے ہمیں اور ہماری ذہنیت کو بے حسی کی چادر میں اس طرح لپیٹ کر رکھ دیا ہے کہ ہمیں نہ سڑکوں پر ہر روز بہنے والا بے گناہ انسانوں کا خون نظر آرہا ہے نہ ان کی ٹکڑوں میں بٹی لاشیں نہ ان کے جنازے نہ ان کے لواحقین کی گریہ و زاری۔
سیاست دانوں کی آنکھوں پر تو خودغرضی، ہوس اقتدار کی پٹی چڑھی رہتی ہے، ہمارے ملک میں آج ہر ''محترم انسان'' کی زبان پر قانون آئین کی بالادستی کا نعرہ ہے لیکن قانون اور انصاف سمیت ملک کی ہر چیز کو خون غریباں میں ڈبونے والی وحشی قوتوں کی ناک میں نکیل ڈالنے، بے گناہ انسانوں کو کیڑوں مکوڑوں کی طرح مرنے سے روکنے کا کسی کو ذرہ برابر خیال ہے نہ احساس۔ ہماری اعلیٰ مرتبت مذہبی قیادت دیکھ رہی ہے کہ مسجدوں، امام بارگاہوں کی دیواریں نمازیوں کے خون سے سرخ ہورہی ہیں، مسجدوں، امام بارگاہوں میں نماز ادا کرنے والے خدا کے بندوں کو خودکش حملوں، بارودی گاڑیوں اور ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے خاک و خون میں نہلایا جارہا ہے اور وہ سیاسی اتحادوں، سیاسی جوڑ توڑ کے گندے کھیل میں الجھے ہوئے ہیں۔
ہمارا آزاد اور طاقت ور میڈیا قتل و غارت کے مناظر تو دکھا رہا ہے، لیکن اس قتل و غارت کو روکنے کے لیے اہل سیاست کو مجبور کرنے کے بجائے اپنے وقت کا 90 فیصد حصہ متحارب سیاستدانوں کی بلیم گیم پر صرف کررہا ہے۔ ہر چینل سیاست کا مچھلی بازار بنا ہوا ہے، ایک دوسرے پر گندے الزامات کی بھرمار کرنے والے محترم سیاستدان منہ سے جھاگ اڑاتے ہوئے فن الزام تراشی میں اپنی ساری مہارت اور صلاحیت تو صرف کر رہے ہیں لیکن سڑکوں پر بہنے والے خون غریباں پر بات کرنے کے لیے ان کے پاس وقت نہیں۔ میڈیا ہر روز مارے جانے والے بے گناہ انسانوں کے جسموں کے بکھرے اعضا عمارتوں کے ملبے لواحقین کی گریہ و زاری، ان کے جلوس جنازہ، ان کی تدفین کے مناظر تو دکھا رہا ہے، لیکن اسی میڈیا پر بھارتی فلموں کے بیہودہ ڈانس اور ہلدی، مہندی، بارات کے رنگین مناظر بھی پیش کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ میڈیا ہی میں لفافہ جرنلزم کے احیاء کی خبریں بھی آرہی ہیں۔ یہ سب کیا ہے، کیوں ہے، کیوں ہورہا ہے؟
بھارت دشمنی پر استوار ہماری 65 سالہ پالیسی پر تو ہم ڈٹے ہوئے ہیں، کشمیر کو کفاروں کے پنجوں سے آزاد کرانے کے لیے تو ہم سر دھڑ کی بازی لگانے پر تیار ہیں، لیکن یہ دیکھنے اور سمجھنے کے لیے تیار نہیں کہ بھارت ممبئی حملے کی ایک دہشت گردی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں، بھارت دہشت گردی کے ایک چھوٹے سے واقعے پر اس طرح آسمان سر پر اٹھالیتا ہے کہ ساری دنیا اس کی طرف متوجہ ہوجاتی ہے، بھارت ایل او سی پر اپنے ایک سپاہی کی موت پر پاکستان سے مذاکرات ختم کردیتا ہے۔ امریکا جسے ہم دن رات گالیاں دیتے نہیں تھکتے، دہشت گردی کو اپنی سرحدوں سے ہزاروں میل دور ہی دفن کرنے پر اپنی ساری توانائیاں صرف کر رہا ہے، امریکا کی قیادت اور سیاست ایک ایک امریکی کی جان کی حفاظت کے لیے سو سو جتن کر رہی ہے۔ امریکا اس بلا سے نجات حاصل کرنے کے لیے کھربوں ڈالر خرچ کر رہا ہے، امریکا دہشت گردی کو روکنے کے لیے ساری دنیا میں ڈرون حملے کرنے کا اعلان کررہا ہے، امریکی وزیر دفاع کہہ رہا ہے کہ دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے ہم ''ہر ٹیکنالوجی کو استعمال کریں گے''۔
امریکا کے اتحادی بڑے ظالم اور مفاد پرست ہیں لیکن فرانس، برطانیہ، جرمنی، مالی، الجیریا اور اس سے ملحقہ ملکوں میں جہاں دہشت گردوں کے اڈے ہیں اپنی فوج بھیج رہے ہیں اور ان علاقوں میں دہشت گردوں کے اڈوں کو تباہ کر رہے ہیں اور ان کے قبضے ختم کرا رہے ہیں، ان علاقوں کے عوام ان مغربی ملکوں کی راہ میں آنکھیں بچھا رہے ہیں اور مجھے ذاتی طور پر یہ نظر آرہا ہے کہ اگر ان فوجی کارروائیوں سے دہشت گردی قابو میں نہ آسکی تو امریکا اور اس کے اتحادی دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے شاید ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے میں ذرا بھی پس پیش نہیں کریں گے۔ میں امریکی وزیر خارجہ کی اس دھمکی میں ایٹمی ہتھیار دیکھ رہا ہوں جس میں انھوں نے دہشت گردی کے خلاف ''ساری ٹیکنالوجی'' استعمال کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اور ہم ہر گھڑی، ہر روز خیبر سے کراچی تک اپنے بے گناہ اور معصوم لوگوں کو قتل ہوتے، ان کے اعضا کو بکھیرتے، سڑکوں کو خون آلود ہوتے دیکھ رہے ہیں، لیکن اس وحشت و بربریت کو روکنے کے لیے نہ ہمارے پاس وقت ہے نہ اسے ہم کوئی اہمیت دینے کے لیے تیار ہیں، کیونکہ ہماری پہلی ترجیح انتخابات ہیں، ہمارا اولین مسئلہ جمہوریت کو ڈی ریل ہونے سے بچانا ہے، کیونکہ یہ جمہوریت ہی ہے جو انھیں اربوں کی دولت جمع کرنے، اربوں کی جائیداد بنانے اور اپنے ولی عہد تیار کرکے آنے والی نسلوں تک حق حکمرانی حاصل کرنے میں مدد دیتی ہے۔ یہ بوری بند جمہوریت لاشوں کے کلچر کی تدفین کب کریگی؟