تلاش جاری ہے
نگران وزیرِ اعظم کے لیے بلوچستان سے دو تین نام سامنے لائے گئے ہیں۔
تقریباً چار ہفتے کے اندر اندر یہ حکومت ختم ہو جائے گی۔ خدا نے چوتھی بار پیپلز پارٹی کو بطورِ امانت اقتدار بخشا۔ اِس اقتدار اور اختیار سے اللہ کے عام بندوں، جنھیں جمہوریت کی زبان میں ''عوام'' کہا جاتا ہے، کو کیا نفع پہنچایا گیا اور مقتدر افراد نے اپنی ذات کو کیا کیا نفع پہنچایا، اِس پر بحث ہو سکتی ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ اقتدار کے مزے اور لطف ختم ہونے کے بالکل قریب ہیں۔ ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ نگران وزیرِ اعظم کا ہما کس کے سر بیٹھے گا؟ مولانا طاہر القادری، عمران خان اور کسی قدر چوہدری برادران الیکشن کمیشن آف پاکستان کے بارے میں جو بیانات دے رہے ہیں، لگتا ہے باقاعدہ انتخابات کا دنگل ہو گا ہی نہیں۔ شکوک و شبہات کا اندھیرا پھیلانے کی کوششیں بروئے کار ہیں لیکن امید افزا ہوائیں نسبتاً زیادہ قوی اور طاقتور ہیں۔ نگران وزیرِ اعظم کے متفقہ نام پر ابھی آخری بِگل نہیں بجا لیکن ہر بڑی سیاسی جماعت اپنی اپنی طرف سے کچھ نام آگے بڑھا رہی ہے۔ کسی متفقہ نام کے سامنے نہ آنے پر مایوسی تو بہرحال ہے۔ غالباً اِسی لیے قائدِ حزبِ اختلاف جناب نثار علی خان کو بیان دینا پڑا ہے کہ نگران وزیرِ اعظم کی نامزدگی کا کام بھی شاید الیکشن کمیشن کو ہی کرنا پڑے۔
نگران وزیرِ اعظم کے لیے بلوچستان سے دو تین نام سامنے لائے گئے ہیں۔ ویسے انصاف کی بات یہ ہے کہ اِسی صوبے سے نگران وزیرِ اعظم کی متفقہ نامزدگی ہونی چاہیئے۔ شاید اِسی بہانے سے بلوچستان کی مبینہ احساسِ محرومی اور اُس کے ''زخموں'' کا مداوا ہو سکے۔ اِس سلسلے میں محمود خان اچکزئی صاحب اور جناب عطاء اللہ مینگل کے نام اُبھرے ہیں۔ دونوں ہی بلوچستان کے محترم اور تجربہ کار سیاستدان ہیں۔ مینگل صاحب تو وزیرِ اعلیٰ بھی رہ چکے ہیں اور یوں پاکستان اُن کے تجربات سے مستفید ہو سکتا ہے مگر مینگل صاحب یہ بھاری ذمے داری اٹھانے اور نبھانے کے لیے تیار نظر نہیں آتے۔ اُن کے کچھ تحفظات ہیں۔ جہاں تک اچکزئی صاحب کا تعلق ہے، وہ موزوں شخصیت تو ہیں لیکن وہ اپنے متعدد انٹرویوز میں بار بار کہہ چکے ہیں کہ مجھ سے کسی نے رابطہ کیا ہے نہ میَں ابھی ذہنی طور پر اِس کے لیے تیار ہوں۔ وہ رکنِ اسمبلی بھی رہ چکے ہیں۔ پاکستان کی مرکزی سیاست، بلوچستان کی متحارب صورتحال اور صوبائی مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں۔ اُن کا ہاتھ تھاما جا سکتا ہے لیکن زبردستی یہ اہم عہدہ اُن کے سپرد نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارا خیال ہے سابق وزیرِ اعظم ظفر اللہ جمالی صاحب، جن کی کوششوں سے ڈاکٹر قدیر خان کو غیروں کے حوالے کرنے کی سازش ناکام بنائی گئی تھی، کو ایک بار پھر آزمایا جا سکتا ہے۔ سابق وزیرِ اعظم ہونے کے ناتے وہ اسٹیٹ افیئرز سے بخوبی آشنا ہیں۔ ملک سے محبت کرنے والے اور غیر متنازعہ سیاستدان ہیں۔ ہمارا خیال ہے ن لیگ والے بھی اُن کے نام پر متفق ہو سکتے ہیں، اگرچہ جمالی صاحب ق لیگ کے محبی رہے ہیں لیکن ایک دیانتدار شخص کے ماضی کے سیاسی رجحانات اور میلانات کو نظر انداز بھی تو کیا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر قدیر خان، جو محسنِ پاکستان کا لقب بھی رکھتے ہیں، کا نام بھی نگران وزیرِ اعظم کی فہرستوں میں شامل ہے۔ اُنہوں نے پاکستان کو ناقابلِ تسخیر بنانے کے لیے جو کاوشیں کی ہیں، اس کا تقاضا بھی ہے کہ صلے میں انھیں اِس اعزاز سے نوازا جائے۔ خوشی کی بات ہے کہ ڈاکٹر قدیر خان صاحب یہ عہدہ قبول کرنے کے لیے واضح الفاظ میں ''ہاں'' کرتے ہوئے بھی نظر آ رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کو اِس بات کا رنج ہے کہ اگر بھارت میں اُن کے ہم عصر اور ہم پیشہ ایک شخص، ڈاکٹر عبدالکلام، کو صدرِ ہند بنایا جا سکتا ہے تو وہ (کم از کم) نگران وزیرِ اعظم اور صدرِ پاکستان کیوں نہیں بن سکتے۔ ڈاکٹر صاحب اب ایک سیاسی جماعت ٹی ٹی پی (تحریکِ تحفظِ پاکستان) کے سربراہ اور بانی بھی ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ طالبان، جنھوں نے پاکستان کو ہر پہلو سے نقصان پہنچایا ہے، کی ایک جماعت بھی ٹی ٹی پی کہلاتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو اگر نگران وزیرِ اعظم بنایا جاتا ہے تو یقیناً مغربی ممالک خصوصاً امریکا ناراض ہو گا لیکن اپنے محسنوں کی عزت افزائی پر پاکستان ایسے اسلامی قلعے کو عالمِ کفر کی پرواہ ہرگز نہیں کرنی چاہیئے۔ ہمیں حق الیقین ہے کہ اگر ڈاکٹر قدیر خان صاحب کو اِس عہدہ جلیلہ پر متمکن کیا جاتا ہے تو ایم کیو ایم بھی مخالفت کر سکے گی نہ جماعتِ اسلامی۔ اور ق لیگ کے چوہدری برادران تو تہہ دل سے ڈاکٹر صاحب کی حمایت کریں گے۔ ممکن ہے وہ ڈاکٹر صاحب کے نام پر مولانا طاہر القادری صاحب کو بھی منا لیں کیونکہ آجکل چوہدری برادران اور کینیڈا سے آنے والے اِن صاحب کے درمیان خوب گاڑی چھِن رہی ہے۔
عاصمہ جہانگیر کا نام بطور نگران وزیرِ اعظم آنے کے بعد بعض اطراف سے مخالفت کی جا رہی ہے۔ بعض مذہبی جماعتیں اور جناب عمران خان بھی اُن کے مخالفین میں شامل ہیں۔ محترمہ عاصمہ جہانگیر انسانی حقوق کی پاسداری کے حوالے سے جو بیانات کھل کر دیتی آ رہی ہیں، اِس پس منظر میں بھی بعض حلقے اُن کے مخالف اور ناقد ہیں۔ بھارت کی طرف اُن کا (بظاہر) جھکائو اور بھارت کی بار بار یاترا بھی بعض افراد اور اداروں کی آنکھ میں وہ کھٹکتی ہیں۔ اُن کی مخالفت کرتے ہوئے یہ فراموش کر دیا جاتا ہے کہ عاصمہ صاحبہ نے جس دلیری سے پاکستان کی مظلوم خواتین کے حقوق کا عملی تحفظ کیا ہے، جس جرأت سے اُنہوں نے اقلیتوں پر کی جانے والی زیادتیوں کے خلاف پرچم بلند کیا ہے، وہ پاکستان کی کسی اور خاتون کا نصیبہ نہیں بن سکا لیکن دائیں بازو کے شاہینوں نے بڑی چالاکی اور چابکدستی سے اُن کے پلس پوائنٹس کو نیگٹو پوائنٹس میں تبدیل کر دیا۔ وہ بذاتِ خود نگران وزیرِ اعظم بننے کی متمنی بھی نہیں ہیں لیکن وہ حیرت سے یہ استفسار ضرور کرتی ہیں کہ جن لوگوں اور جماعت نے میرا نام نگران وزیرِ اعظم کے ناموں کی فہرست میں شامل کیا، نہ جانے انھوں نے ایسا کیوں کیا؟ مجھ سے پوچھا بھی نہ گیا۔ (مسلم لیگ ن نے اُن کا نام پیش کیا تھا)۔ سات فروری 2013 کو اخبارات میں مجلسِ تحفظِ ختم نبوت کی طرف سے بیان شایع ہوا کہ اگر عاصمہ جہانگیر کو نگران وزیرِ اعظم بنایا گیا تو ملک گیر تحریک چلائیں گے۔
سپریم کورٹ کے سابق دو تین ججوں اور ماہرینِ اقتصادیات کے نام بھی نگران وزیرِ اعظم کے طور پر لیے جارہے ہیں۔ سابق ججوں میں جسٹس (ر) اجمل میاں اور جسٹس(ر) ناصر اسلم زاہد کے نام نمایاں ہیں۔ ماہرینِ معیشت میں جناب شوکت ترین کا نام سامنے آیا ہے جو صدر مشرف کے بھی دوست رہے اور سید یوسف رضا گیلانی نے اُنہیں اپنا وزیرِ خزانہ بھی بنایا۔ دونوں سابق جج صاحبان قانون کے پابند اور قانون سے گہری واقفیت رکھنے والے ہیں مگر پیپلز پارٹی والے بمشکل ان ناموں پر اتفاق کر سکیں گے۔ اگر ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے سابق جج کو بطور نگران وزیرِ اعظم لگانا مقصود ہے تو ہمارا خیال ہے کہ اِس عہدے کے لیے جسٹس (ر) جاوید اقبال (فرزندِ شاعرِ مشرق) اور جسٹس (ر) ناصرہ جاوید اقبال کے ناموں پر بھی سنجیدگی سے غور کیا جا سکتا ہے۔ اِن دونوں میں سے کسی ایک کا نگران وزیرِ اعظم بننا ہم سب پاکستانیوں کے لیے باعثِ فخر ہو گا۔ فرزندِ اقبالؒ قانون دان بھی ہیں،اعلیٰ درجے کے ادیب بھی اور کئی بلند درجے کی حامل کتابوں کے مصنف بھی۔ اور اگر اُن کے نام پر اتفاق نہ ہو سکے تو اُن کی اہلیہ اور جسٹس (ر) ناصرہ جاوید اقبال کو اِس عہدے کے لیے سلیکٹ کیا جا سکتا ہے۔ ہمارا خیال ہے جو لوگ عاصمہ جہانگیر صاحبہ کی بوجوہ مخالفت کر رہے ہیں، ناصرہ صاحبہ کی مخالفت نہیں کر سکیں گے۔ ناصرہ جاوید اقبال کس پائے کی خاتون ہیں، یہ جاننے کے لیے جناب جاوید اقبال کی سوانح حیات ''اپنا گریباں چاک'' کا مطالعہ کرنا از بس ضروری ہے۔پیپلز پارٹی کراچی کی ایک انتہائی محترم شخصیت کے بارے میں چاہتی ہے کہ ان کے نام پر نگران وزیراعظم کے لیے اتفاق رائے ہو جائے' یہ شخصیت کون ہے۔ نام پھر کبھی سہی۔