اس سادگی پہ۔۔۔۔۔
مولانا طاہر القادری کی خواہش ہے کہ قریہ قریہ گھوم کر الیکشن لڑنے یا نہ لڑنے کے حوالے سے ایک عوامی سروے کرایا جائے
کہتے ہیں کہ عقل مند کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے، پوری بات تفصیل سے سمجھانا نہیں پڑتی، یوں بھی دانشمندی اور دور اندیشی کا تقاضا یہ ہے کہ کوئی اہم اور بڑا فیصلہ کرنے سے قبل آدمی اپنے ماضی کے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں زمانہ حال کی زمینی سچائیوں اور حقیقتوں کا ادراک کرے، پھر پوری دیانت داری و ایمانداری کے ساتھ حالات کے تناظر میں مستقبل کی منصوبہ بندی کرے تو اسے کسی خفت، شرمندگی اور پشیمانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، لیکن اگر کوئی شخص خود کو عقل کُل سمجھ بیٹھے، حکمت، بصیرت اور تدبر سے کام لینے اور ماضی کے تلخ تجربات سے سبق حاصل کرنے کے بجائے خودساختہ مفروضوں کی بنیاد پر روشن زمینی حقائق کو پس پشت ڈال دے اور محض مادی خواہشات کی تکمیل کے لیے اپنی نیک نامی، پارسائی، عزت اور عمر بھر کی کمائی کو دانستہ داؤ پر لگانے کے لیے کمربستہ ہوجائے تو اس کے طرز عمل پر صرف افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔
ہاں اگر کوئی پیشہ ور دنیا دار آدمی اپنی کم علمی کے باعث بے جا ضد، اناپرستی اور خودنمائی کے زعم میں مبتلا ہوکر ایسی جان توڑ مشقت کرے تو اسے کچھ ''رعایت'' دی جاسکتی ہے، لیکن جب کوئی مستند عالم دین، سکہ بند مبلغ، پیرطریقت، صوفی ازم کا داعی اور صاحب کمال دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور لوگوں کو تزکیہ نفس کی تعلیم دینے کے بجائے دنیاوی جاہ و منصب کے حصول کی خاطر اپنی پے در پے ناکامیوں کے باوجود خارزار سیاست میں آبلہ پائی پر بضد ہو تو پھر سوالات تو جنم لیتے ہیں۔ حضرت امام عالی مقامؓ نے مردوں کی تین قسمیں بتائی ہیں پورا مرد، آدھا مرد اور نامرد۔ پھر تعریف یہ بیان فرمائی کہ پورا مرد وہ ہے جو خود بھی صائب الرائے ہو اور دوسروں سے بھی مشورہ کرتا ہو اور آدھا مرد وہ ہے جو خود تو صائب الرائے ہو لیکن دوسروں سے مشورہ نہ کرتا ہو جب کہ نامرد وہ ہے جو نہ خود صائب الرائے ہو اور نہ ہی دوسروں سے مشورہ کرتا ہو، اتفاق دیکھیے کہ وطن عزیز میں مردوں کی تینوں اقسام پائی جاتی ہیں جن کے ''کارناموں'' سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔
امر واقعہ تو یہ ہے پاکستان کے سیاسی نظام میں مذہبی رہنماؤں، علمائے کرام اور مشائخ عظام کو اقتدار اعلیٰ کے ایوانوں تک رسائی اور ان کے شایان شان مقام و مرتبہ حاصل نہ ہوسکا، عوام کی اکثریت نے ووٹوں کے انتخاب میں انھیں منتخب نہیں کیا اور سیاستدانوں کا پلہ بھاری رہا، لیکن یہ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہے کہ ارض پاک میں ایسے اکابر علماء، صوفی، بزرگ اور خانقاہ نشین بھی گزرے ہیں اور اب بھی موجود ہیں کہ جن کے آستانوں و خانقاہوں میں ہمارے نامور سیاستداں انتخابات میں کامیابی کے لیے ''حاضریاں'' لگاتے ہیں اور دعائیں لیتے ہیں کیونکہ ان بزرگان دین کے حلقہ اثر کی تائید و حمایت حاصل کیے بغیر اہل سیاست پر اقتدار کے دروازے نہیں کھلتے، اس بات سے انکار نہیں کہ تاریخ میں ایسے علما کرام کا ذکر بھی ملتا ہے جو اقتدار کی حریصانہ کشمکش میں فریق تھے، امام ابن تیمیہ نے ''منہاج السنہ'' میں ان کی کارکردگی کا جائزہ لے کر یہ ثابت کیا ہے کہ ایسی کوششیں نہ صرف یہ کہ کامیاب نہیں ہوئیں بلکہ اس سے امت میں انتشار و افتراق کا دروازہ کھلا۔ آج کے جدید و ترقی یافتہ اور تیز رفتار سائنسی ترقی کے دور میں ہر شعبہ ہائے زندگی میں تبدیلیوں کا عمل جاری ہے، سیاست سے صحافت تک، عدالت سے قیادت تک اور معیشت سے معاشرت تک تازہ کاری کا غلغلہ ہے، اقتدار کے ایوانوں تک رسائی کے بھی نہ صرف طور طریقے بلکہ کردار اور انداز بھی بدل چکے ہیں، لوگوں کے شعوروآگہی میں تبدیلی آرہی ہے، اپنے نمائندوں کے انتخاب میں آج کے جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ رجحانات کے حامل سیاستدانوں ہی کو اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں، پاکستان کی سیاسی تاریخ میں تو یہ حقیقت ثابت ہے۔
روز روشن کی طرح عیاں متذکرہ زمینی سچائیوں کے باوجود کینیڈین شہری مولانا طاہر القادری کو نجانے کس کم فہم نے یہ خبر ''بریک'' کی ہے کہ ملک کے 18 کروڑ عوام انھیں اپنا رہبر و رہنما تسلیم کرچکے ہیں اور آئندہ عام انتخابات میں آئینی شق 62/63 کے ''پل صراط'' سے ہنستے کھیلتے گزرنے والے ان کی جماعت کے ''فرشتہ صفت'' امیدوار ملک کے چاروں صوبوں میں اکابر و تجربہ کار سیاستدانوں کو ''شہ مات'' دے کر ناقابل یقین اور ''فقید المثال'' کامیابی حاصل کرکے اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوسکتے ہیں، لہٰذا تقاضائے وقت یہ ہے کہ مولانا طاہر القادری اسلام آباد کے ''چالیس لاکھ'' مجمع پر مشتمل ''انقلابی لانگ مارچ'' کی تلخیوں، کمی کوتاہیوں اور نامرادی و ناکامیوں کو فراموش کرکے نئے عزم و حوصلے کے ساتھ انتخابی معرکہ سر کرنے کے لیے ''انقلابی مارچ'' کا دوسرا مرحلہ شروع کردیں۔ شہروں، قصبوں، گاؤں اور دیہاتوں میں ''انقلابی جلسے'' منعقد کریں، اپنے جوشیلے و جذباتی انداز خطابت کے ''جوہر'' دکھائیں، عوام کا لہو گرمانے کے لیے مولانا کے مریدوں و معتقدین کے قافلے ان کے ہمراہ ہوں گے، جیساکہ حضرت نے اپنی تازہ پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ دھرتی کی بوڑھی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں، جوانوں اور بوڑھوں اپنی امید ختم نہ کرنا، مجھ سے ناامید نہ ہونا، میں آخری دم تک عوام کے حقوق کی جنگ لڑوں گا، ایک ایک شہر جاؤں گا، اور لاکھوں کا سمندر میرے ساتھ ہوگا۔ بے شک حضرت نے بالکل درست کہا جو ''چالیس لاکھ'' افراد سخت سردی میں اسلام آباد کے ڈی چوک پر موسلا دھار بارش میں بھیگتے رہے اور مولانا صاحب کے دیے گئے واسطے اور قسمیں ان بے چاروں کے پاؤں کی زنجیر بنے رہے وہی ''چالیس لاکھ'' کا جم غفیر کل بھی ان کے ہمراہ ہوگا، باقی کا اﷲ حافظ!
مولانا طاہر القادری کی خواہش ہے کہ قریہ قریہ گھوم کر الیکشن لڑنے یا نہ لڑنے کے حوالے سے ایک عوامی سروے کرایا جائے اور نتائج کی روشنی میں انتخابات میں حصہ لینے یا نہ لینے کا فیصلہ کیا جائے، ایسا لگتا ہے کہ مولانا صاحب کے ''مشاورتی بورڈ'' میں ایسے دوراندیش، دوربیں اور صائب الرائے افراد کی کچھ کمی ہے جو زمینی حقائق کا ادراک رکھتے ہوں، وگرنہ انقلابی مارچ سے ملنے والے ''سبق'' کے بعد اپنے ''چالیس لاکھ'' مریدین، معتقدین اور مصاحبین جن میں عورتیں و شیرخوار بچے بھی شامل ہیں کو ''واسطوں'' اور ''قسموں'' کی بیڑیاں پہناکر پھر کسی نئے امتحان و آزمائش میں ڈالنے کا کوئی قرینہ ہی نہیں بنتا۔ اگر مولانا قادری لاہور کے جلسہ عام سے لے کے ''انقلابی مارچ'' کے دوران کیے گئے اپنے بلند بانگ دعوؤں، وعدوں، دھمکیوں، ڈیڈلائنوں اور آخر میں سرینڈر ہوجانے کی ہزیمت اٹھائے جانے کے ''شاہکار کارنامے'' کے حوالے سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں شائع ہونے والے اہل دانش کے تبصروں، تجزیوں اور مشوروں پر سنجیدگی اور دیانت داری کے ساتھ تنہائی میں بیٹھ کر ایک طائرانہ نظر ہی ڈال لیں تو انھیں اپنی ''عوامی مقبولیت'' کا اندازہ ہوجائے گا اور وہ سروے کی ایک اور ''ہزیمت'' سے بچ جائیں گے۔ بقول شاعر ''سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا' کہتی ہے تجھے خلق خدا غائبانہ کیا''
یہ حقیقت مولانا صاحب کو تسلیم کرلینی چاہیے کہ انتخابی معرکہ جیتنے کے لیے ان کے پاس ایسا کوئی ٹھوس، جامع اور قابل عمل پروگرام نہیں جو 18 کروڑ عوام کو اپیل کرتا ہو، ان کا اصل میدان عمل دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت ہے، سیاست ان کے بس کی بات نہیں، تبدیلی کا نعرہ مستانہ اور انقلاب تازہ کی خواہش اپنی جگہ لیکن انتخابی معرکے میں کامیابی کے لیے جن ''ہتھیاروں'' کی ضرورت ہوتی ہے وہ طاہر القادری کی نیام میں موجود نہیں، پھر بھی دعویٰ ہے سرخروئی کا۔ کیا عجب خواہش ہے جناب کی، شاعر نے ایسے ہی موقع پر کہا ہے:
اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
ہاں اگر کوئی پیشہ ور دنیا دار آدمی اپنی کم علمی کے باعث بے جا ضد، اناپرستی اور خودنمائی کے زعم میں مبتلا ہوکر ایسی جان توڑ مشقت کرے تو اسے کچھ ''رعایت'' دی جاسکتی ہے، لیکن جب کوئی مستند عالم دین، سکہ بند مبلغ، پیرطریقت، صوفی ازم کا داعی اور صاحب کمال دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور لوگوں کو تزکیہ نفس کی تعلیم دینے کے بجائے دنیاوی جاہ و منصب کے حصول کی خاطر اپنی پے در پے ناکامیوں کے باوجود خارزار سیاست میں آبلہ پائی پر بضد ہو تو پھر سوالات تو جنم لیتے ہیں۔ حضرت امام عالی مقامؓ نے مردوں کی تین قسمیں بتائی ہیں پورا مرد، آدھا مرد اور نامرد۔ پھر تعریف یہ بیان فرمائی کہ پورا مرد وہ ہے جو خود بھی صائب الرائے ہو اور دوسروں سے بھی مشورہ کرتا ہو اور آدھا مرد وہ ہے جو خود تو صائب الرائے ہو لیکن دوسروں سے مشورہ نہ کرتا ہو جب کہ نامرد وہ ہے جو نہ خود صائب الرائے ہو اور نہ ہی دوسروں سے مشورہ کرتا ہو، اتفاق دیکھیے کہ وطن عزیز میں مردوں کی تینوں اقسام پائی جاتی ہیں جن کے ''کارناموں'' سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔
امر واقعہ تو یہ ہے پاکستان کے سیاسی نظام میں مذہبی رہنماؤں، علمائے کرام اور مشائخ عظام کو اقتدار اعلیٰ کے ایوانوں تک رسائی اور ان کے شایان شان مقام و مرتبہ حاصل نہ ہوسکا، عوام کی اکثریت نے ووٹوں کے انتخاب میں انھیں منتخب نہیں کیا اور سیاستدانوں کا پلہ بھاری رہا، لیکن یہ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہے کہ ارض پاک میں ایسے اکابر علماء، صوفی، بزرگ اور خانقاہ نشین بھی گزرے ہیں اور اب بھی موجود ہیں کہ جن کے آستانوں و خانقاہوں میں ہمارے نامور سیاستداں انتخابات میں کامیابی کے لیے ''حاضریاں'' لگاتے ہیں اور دعائیں لیتے ہیں کیونکہ ان بزرگان دین کے حلقہ اثر کی تائید و حمایت حاصل کیے بغیر اہل سیاست پر اقتدار کے دروازے نہیں کھلتے، اس بات سے انکار نہیں کہ تاریخ میں ایسے علما کرام کا ذکر بھی ملتا ہے جو اقتدار کی حریصانہ کشمکش میں فریق تھے، امام ابن تیمیہ نے ''منہاج السنہ'' میں ان کی کارکردگی کا جائزہ لے کر یہ ثابت کیا ہے کہ ایسی کوششیں نہ صرف یہ کہ کامیاب نہیں ہوئیں بلکہ اس سے امت میں انتشار و افتراق کا دروازہ کھلا۔ آج کے جدید و ترقی یافتہ اور تیز رفتار سائنسی ترقی کے دور میں ہر شعبہ ہائے زندگی میں تبدیلیوں کا عمل جاری ہے، سیاست سے صحافت تک، عدالت سے قیادت تک اور معیشت سے معاشرت تک تازہ کاری کا غلغلہ ہے، اقتدار کے ایوانوں تک رسائی کے بھی نہ صرف طور طریقے بلکہ کردار اور انداز بھی بدل چکے ہیں، لوگوں کے شعوروآگہی میں تبدیلی آرہی ہے، اپنے نمائندوں کے انتخاب میں آج کے جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ رجحانات کے حامل سیاستدانوں ہی کو اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں، پاکستان کی سیاسی تاریخ میں تو یہ حقیقت ثابت ہے۔
روز روشن کی طرح عیاں متذکرہ زمینی سچائیوں کے باوجود کینیڈین شہری مولانا طاہر القادری کو نجانے کس کم فہم نے یہ خبر ''بریک'' کی ہے کہ ملک کے 18 کروڑ عوام انھیں اپنا رہبر و رہنما تسلیم کرچکے ہیں اور آئندہ عام انتخابات میں آئینی شق 62/63 کے ''پل صراط'' سے ہنستے کھیلتے گزرنے والے ان کی جماعت کے ''فرشتہ صفت'' امیدوار ملک کے چاروں صوبوں میں اکابر و تجربہ کار سیاستدانوں کو ''شہ مات'' دے کر ناقابل یقین اور ''فقید المثال'' کامیابی حاصل کرکے اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوسکتے ہیں، لہٰذا تقاضائے وقت یہ ہے کہ مولانا طاہر القادری اسلام آباد کے ''چالیس لاکھ'' مجمع پر مشتمل ''انقلابی لانگ مارچ'' کی تلخیوں، کمی کوتاہیوں اور نامرادی و ناکامیوں کو فراموش کرکے نئے عزم و حوصلے کے ساتھ انتخابی معرکہ سر کرنے کے لیے ''انقلابی مارچ'' کا دوسرا مرحلہ شروع کردیں۔ شہروں، قصبوں، گاؤں اور دیہاتوں میں ''انقلابی جلسے'' منعقد کریں، اپنے جوشیلے و جذباتی انداز خطابت کے ''جوہر'' دکھائیں، عوام کا لہو گرمانے کے لیے مولانا کے مریدوں و معتقدین کے قافلے ان کے ہمراہ ہوں گے، جیساکہ حضرت نے اپنی تازہ پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ دھرتی کی بوڑھی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں، جوانوں اور بوڑھوں اپنی امید ختم نہ کرنا، مجھ سے ناامید نہ ہونا، میں آخری دم تک عوام کے حقوق کی جنگ لڑوں گا، ایک ایک شہر جاؤں گا، اور لاکھوں کا سمندر میرے ساتھ ہوگا۔ بے شک حضرت نے بالکل درست کہا جو ''چالیس لاکھ'' افراد سخت سردی میں اسلام آباد کے ڈی چوک پر موسلا دھار بارش میں بھیگتے رہے اور مولانا صاحب کے دیے گئے واسطے اور قسمیں ان بے چاروں کے پاؤں کی زنجیر بنے رہے وہی ''چالیس لاکھ'' کا جم غفیر کل بھی ان کے ہمراہ ہوگا، باقی کا اﷲ حافظ!
مولانا طاہر القادری کی خواہش ہے کہ قریہ قریہ گھوم کر الیکشن لڑنے یا نہ لڑنے کے حوالے سے ایک عوامی سروے کرایا جائے اور نتائج کی روشنی میں انتخابات میں حصہ لینے یا نہ لینے کا فیصلہ کیا جائے، ایسا لگتا ہے کہ مولانا صاحب کے ''مشاورتی بورڈ'' میں ایسے دوراندیش، دوربیں اور صائب الرائے افراد کی کچھ کمی ہے جو زمینی حقائق کا ادراک رکھتے ہوں، وگرنہ انقلابی مارچ سے ملنے والے ''سبق'' کے بعد اپنے ''چالیس لاکھ'' مریدین، معتقدین اور مصاحبین جن میں عورتیں و شیرخوار بچے بھی شامل ہیں کو ''واسطوں'' اور ''قسموں'' کی بیڑیاں پہناکر پھر کسی نئے امتحان و آزمائش میں ڈالنے کا کوئی قرینہ ہی نہیں بنتا۔ اگر مولانا قادری لاہور کے جلسہ عام سے لے کے ''انقلابی مارچ'' کے دوران کیے گئے اپنے بلند بانگ دعوؤں، وعدوں، دھمکیوں، ڈیڈلائنوں اور آخر میں سرینڈر ہوجانے کی ہزیمت اٹھائے جانے کے ''شاہکار کارنامے'' کے حوالے سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں شائع ہونے والے اہل دانش کے تبصروں، تجزیوں اور مشوروں پر سنجیدگی اور دیانت داری کے ساتھ تنہائی میں بیٹھ کر ایک طائرانہ نظر ہی ڈال لیں تو انھیں اپنی ''عوامی مقبولیت'' کا اندازہ ہوجائے گا اور وہ سروے کی ایک اور ''ہزیمت'' سے بچ جائیں گے۔ بقول شاعر ''سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا' کہتی ہے تجھے خلق خدا غائبانہ کیا''
یہ حقیقت مولانا صاحب کو تسلیم کرلینی چاہیے کہ انتخابی معرکہ جیتنے کے لیے ان کے پاس ایسا کوئی ٹھوس، جامع اور قابل عمل پروگرام نہیں جو 18 کروڑ عوام کو اپیل کرتا ہو، ان کا اصل میدان عمل دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت ہے، سیاست ان کے بس کی بات نہیں، تبدیلی کا نعرہ مستانہ اور انقلاب تازہ کی خواہش اپنی جگہ لیکن انتخابی معرکے میں کامیابی کے لیے جن ''ہتھیاروں'' کی ضرورت ہوتی ہے وہ طاہر القادری کی نیام میں موجود نہیں، پھر بھی دعویٰ ہے سرخروئی کا۔ کیا عجب خواہش ہے جناب کی، شاعر نے ایسے ہی موقع پر کہا ہے:
اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں