لاتعداد جماعتیں کیوں
پارٹیاں بنانا اب کاروبار بن چکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ملک میں لاتعداد سیاسی پارٹیاں وجود رکھتی ہیں
اخباری خبروں کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان کے لیے ملک میں موجود جماعتوں کو انتخابی نشانات الاٹ کرنا مسئلہ بن گیا اور درخواست گزار جماعتوں کے لیے انتخابی نشانات کم پڑگئے ہیں، جس کے لیے الیکشن کمیشن مزید انتخابی نشانات اپنے پاس محفوظ کرے گا تاکہ آئندہ ہونے والے انتخابات میں تمام جماعتوں کو انتخابی نشانات مل سکیں۔ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں میں بھی کئی کئی گروپ بنے ہوئے ہیں اور آج بھی سب سے زیادہ گروپ مسلم لیگ کے ہیں جس نے پاکستان بنوایا تھا اور مسلم لیگ کے مختلف گروپوں کو جمہوری اور فوجی دور میں حکومت کرنے یا حکومت میں شامل رہنے کا سب سے زیادہ موقع ملا ہے۔ مسلم لیگ ہی وہ واحد جماعت ہے جس کو فوجی آمروں نے ہمیشہ استعمال کیا اور مسلم لیگ بطور جماعت یا مسلم لیگی رہنما ہر فوجی حکومت میں شامل رہے ہیں۔ آج بھی مسلم لیگ کے ملک میں بے شمار گروپ ہیں جو مسلم لیگ کے ن، ق، فنکشنل، آل پاکستان، عوامی، ہم خیال کے ناموں سے سیاست کر رہے ہیں جب کہ جمعیت علمائے اسلام، جمعیت علمائے پاکستان اور دیگر جماعتوں میں بھی کم سے کم دو گروپ ہیں۔ حکمران پیپلز پارٹی نے تو خود ہی خود کو دو گروپوں میں تقسیم کر رکھا ہے اور پاکستان پر اس پیپلز پارٹی کا گروپ حکومت کر رہا ہے جو الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ نہیں ہے جب کہ رجسٹرڈ پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین ہے جس کے سربراہ مخدوم امین فہیم ہیں جب کہ عملی طور پر پیپلزپارٹی کی قیادت آصف علی زرداری کے ہاتھ میں ہے۔ کسی اور ملک میں اتنی سیاسی جماعتیں شاید نہ ہوں اور نہ ہی بڑی پارٹیوں کے وہاں اتنے گروپ ہوں گے جتنے پاکستان میں ہیں۔
پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں اب تک جماعت اسلامی ہی واحد جماعت ہے جس کے باقاعدہ وقت پر اپنے مقررہ طریقہ کار کے مطابق عہدیدار منتخب ہوتے ہیں اور جماعت اسلامی کو موروثی جماعت نہیں کہا جاتا۔ اب تحریک انصاف بھی اپنے انتخابات کرا رہی ہے جب کہ حکمراں پیپلز پارٹی نے حال ہی میں پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے مرکزی صدر اور جنرل سیکریٹری اور صوبائی صدور کے انتخابات کا اعلان کیا ہے۔ ان عہدیداروں کا اعلان بلاول ہاؤس میں صدر زرداری کی موجودگی میں کیا گیا اور یہ انتخاب کیسے اور اچانک ہوا کسی کو کوئی پتہ نہیں کہ کیا طریقہ کار اختیار کیا گیا۔ الیکشن کمیشن نے سیاسی پارٹیوں میں انتخابات کرانے کی ہدایت تو کر رکھی ہے مگر کبھی یہ نہیں دیکھا گیا کہ وراثتی سیاسی پارٹیوں میں انتخابات کس طرح کرائے جاتے ہیں، کسی بھی سیاسی پارٹی کا قائد ہمیشہ بلامقابلہ کیسے منتخب ہوتا ہے، سیاسی پارٹیوں میں کہا جاتا ہے کہ قائد کا کوئی مقابلہ نہیں کرتا، اس لیے ہر سیاسی پارٹی کا قائد بلامقابلہ منتخب کرلیا جاتا ہے۔ حقیقت میں پارٹی قائد اپنی پارٹی کا قائد ہی نہیں مالک ہوتا ہے اور پارٹی اس کی جاگیر بن جاتی ہے جس کا کوئی اور مالک نہیں بن سکتا۔ ہماری سیاسی پارٹیاں اب موروثی بن چکی ہیں اور وراثت میں قیادت باپ کے بعد بیٹے کو ہی منتقل ہوتی ہے۔
پارٹیاں بنانا اب کاروبار بن چکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ملک میں لاتعداد سیاسی پارٹیاں وجود رکھتی ہیں، الیکشن کمیشن نے سیاسی پارٹیوں کی رجسٹریشن کے لیے کڑی شرائط نہیں رکھیں جس کی وجہ سے ملک میں ایک سو سے زائد پارٹیاں الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہیں اور عام انتخابات کے موقع پر اپنے لیے انتخابی نشان مانگتی ہیں جب کہ اکثر پارٹیوں کے قائدین کی بھی جرأت نہیں ہوتی کہ وہ انتخاب لڑیں۔ دکھاوے اور شہرت کے لیے کچھ کاغذات نامزدگی جمع کراتے ہیں مگر کچھ معاملہ طے ہوجانے کے بعد دستبردار ہوجاتے ہیں کیونکہ اکثر پارٹیاں تانگہ پارٹیاں ہوتی ہیں۔ ملک کے ایک مشہور سیاستدان مرحوم نوابزادہ نصراﷲ خان کی پارٹی کو تانگہ پارٹی کہا جاتا تھا اور اب تو یہ حالت ہے کہ بہت سی ایسی پارٹیاں الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہیں جن کی کوئی سیاسی تو کیا سماجی حیثیت بھی نہیں ہے، مگر اکثر پارٹیاں اپنے لیے انتخابی نشان مانگتی ہیں اور ان خود ساختہ نام نہاد سیاسی پارٹیوں کو دینے کے لیے الیکشن کمیشن کے پاس انتخابی نشان کم پڑ جاتے ہیں۔
نام نہاد اور خودساختہ پارٹیوں کے سربراہوں کا کام پیسہ کمانا ہوتا ہے۔ وہ وال چاکنگ کروا کے شہر کی دیواروں کو بدنما بناتے ہیں، اخبارات میں پریس ریلیز چھپوا کر اپنے وجود کا احساس دلاتے ہیں اور دیواروں اور اخبارات میں اپنا نام دیکھ کر جیتے ہیں اور خود کو مقبول لیڈر قرار دیتے ہیں جب کہ ان کی کارنر میٹنگ میں درجن بھر افراد جمع نہیں ہوپاتے۔دوسری طرف مقبول سیاسی جماعتوں کا بھی طریقہ کار افسوس ناک ہے۔ان کی طرف سے بھی وال چاکنگ اور اپنے رہنمائوں کے بڑے بڑے بورڈ آویزاں کرنے ، نفرت آمیز اورالٹے سیدھے نعرے لکھنے کا رواج ہے جب کہ وال چاکنگ قانوناً جرم ہے۔کسی دوسرے کی شفاف عمارت کے دروازے اور دیواروں پر نعرے لکھوانا ، پوسٹر چسپاں کرنا کہاں کا سیاسی کلچر ہے۔
دوسرا عذاب یہ ہے کہ الیکشن کمیشن میں رجسٹریشن کے بعد ان تانگہ پارٹیوں کو سیاست کرنے کا لائسنس مل جاتا ہے اور ان پارٹیوں کے سربراہوں کا کام سرکاری دفاتر میں رعب جھاڑ کر کام نکلوانا، غلط کام نہ کیے جانے پر متعلقہ محکمے اور افسر کے خلاف اخباروں میں بیانات چھپوانا اور بلیک میلنگ رہ جاتا ہے، الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ خودساختہ اور نام نہاد سیاسی پارٹیوں کے لیے انتخابی نشان تلاش کرنے کے بجائے ایسی پارٹیوں کی حوصلہ شکنی کرے، پارٹی رجسٹریشن کی شرائط سخت سے سخت کی جائیں تاکہ وہ آسانی سے رجسٹرڈ نہ ہوسکیں۔
فلاحی تنظیموں اور لیبر یونینز کے لیے حکومت کے متعلقہ محکموں نے رجسٹریشن کی شرائط رکھی ہوئی ہیں، لیکن سیاسی پارٹی بنانے کی ہر ایک کو مکمل چھوٹ حاصل ہے جو اپنی پارٹی سے ناراض ہوتا ہے اپنی سیاسی پارٹی بنالیتا ہے، ایسی پارٹیاں سو ووٹ لینے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتیں اس لیے الیکشن کمیشن کو ان لاتعداد پارٹیوں پر بھی قابو پانا چاہیے۔کئی برس پہلے ممتاز ماہر قانون اے کے بروہی نے عدلیہ میں کہا تھا کہ صحافت کے میدان میں آنے کے لیے تعلیمی اسناد اور مضبوط فکری بنیاد ضروری ہے ۔اسی طرح آج سیاسی جماعتوں کی تشکیل اور رہنما بننے کے لیے بھی کسی معیار کو سامنے لانا از حد ضروری ہے۔سیاسی افراط و تفریط کا تماشا پوری قوم کے سامنے ہے۔ ؎
ایں سعادت بزور بازو نیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ