دہشت گردی کی من پسند توضیحات
جہاں تک امریکا کا تعلق ہے تو پوری امت مسلمہ میں ڈھکے چھپے انداز میں ناپسندیدگی کی ایک لہر تو دوڑ چکی ہے
ابھی زیادہ دن نہیں گزرے جب لکی مروت میں ملٹری کیمپ میں ایک خودکش حملہ ہوا اور اس میں تیرہ فوجی شہید ہوئے جب کہ بارہ جنگی اور گیارہ سویلین اپنی جان سے گئے، ہمیشہ کی طرح خودکش بمبار آیا اور اپنا کام کرگیا، اس کارروائی کی ذمے داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی، احسان اﷲ احسان نے اس کارروائی کو اپنے دو کمانڈرز طوفانی اور فیصل کی جانوں کا بدلہ قرار دیا جو پچھلے مہینے امریکا کی جانب سے ڈرون حملے کا نشانہ بنے تھے، احسان اﷲ کا کہنا تھا کہ انھوں نے صرف چار جنگجو اس کارروائی کے لیے بھیجے تھے جب کہ حکومت بارہ جنگجوؤں کی ہلاکت کا بیان دیتی ہے۔ اس کارروائی کے بعد ان کی جانب سے ایک واضح بیان سامنے آیا جس کی تصاویر بھی اخبارات کی زینت بنی۔ ان کے بیان سے ظاہر ہورہا تھا کہ جیسے وہ امت مسلمہ کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں، امریکا کی شیطانی چالوں سے بھی وہ خائف ہیں لیکن ساتھ ساتھ انھوں نے یہ بھی وضاحت دی کہ وہ متحدہ قومی موومنٹ پر اپنا عتاب قائم رکھیں گے گویا ان کے خیال میں امریکا اور متحدہ قومی موومنٹ ایک ہی نشست پر براجمان ہیں، بس اتنا ہی نہیں انھوں نے میڈیا اور صحافی حضرات کے لیے بھی ایک حد مقرر کردی یعنی جس نے حد پار کی تو اس کے لیے ان کی ناپسندیدگی اور ظاہر ہے کہ ساتھ بھی کچھ۔۔۔۔۔!
جہاں تک امریکا کا تعلق ہے تو پوری امت مسلمہ میں ڈھکے چھپے انداز میں ناپسندیدگی کی ایک لہر تو دوڑ چکی ہے جس کا سہرا خود امریکا کی حرکتوں کے سر جاتا ہے، لہٰذا اسے ایک مسلمہ حقیقت سمجھتے ایک جانب کردیا جائے تو بہتر ہے، لیکن متحدہ کے لیے اتنی ناراضی کی کیا وجہ ہے؟ سمجھ نہیں آتی، کیا اس عداوت کے پیچھے قومیت کا زہر تو پوشیدہ نہیں۔ بہرحال اس بات کی وضاحت تو خود وہی دے سکتے ہیں، لیکن میڈیا اور صحافی حضرات کی حد مقرر کرنا اس نکتے کو ابھارتا ہے کہ تنقید ان کی برداشت سے باہر ہے، حالانکہ لکی مروت کے واقعے میں حکومتی اداروں کا بارہ جنگجوؤں کی ہلاکت اور خود تحریک طالبان کا صرف چار جنگجوؤں کو کارروائی میں استعمال کرنے کا تضاد انھوں نے بذریعہ فون کسی نامعلوم مقام سے صحافیوں کے ذریعے ہی پہنچایا اور حالیہ بیان بھی انھوں نے صحافیوں کے پل کے ذریعے پار کیا اور خیر سے بڑی سی تصویر بھی اخبارات کی زینت بنی اور ہم کو بھی ان کی شخصیت کو دیکھنے کا موقع ملا۔
اسلام میں جہاد ایک اہم رکن ہے جس پر ایمان لائے بغیر مسلمان ، مسلمان نہیں کہلاتا۔ آج کل اس جہاد سے مراد دنیا بھر میں دہشت گردی کے حوالے سے لی جاتی ہے یعنی جہاد کا دوسرا نام دہشت پھیلانا ہے، انگریزی زبان میں اس کا ترجمہ ہولی وار یعنی مقدس جنگ سے کیا جاتا ہے۔ ایسی ہولی وارز ماضی میں اہل یورپ برسوں لڑتے رہے خون کی ندیاں بہیں، کھوپڑیوں کے پہاڑ بنے، ان مقدس جنگوں کا حل کچھ بھی نہ نکلا، البتہ آج کے مغرب کے لیے ماضی میں خون سے لکھی تحریریں ضرور ثبت ہوگئیں۔ حیرت ہے کہ اہل یورپ ان مقدس جنگوں کو بھول گئے اور نیویارک میں 9/11 کے واقعے میں تین ہزار امریکی اور پینٹاگون میں دو سو معصوم لوگوں کی جانوں کے ضیاع کو اتنی شدت سے دل سے لگایا کہ اس کے بدلے میں جو ماڈرن قسم کی ہولی وار انھوں نے شروع کی اس کی نذر اب تک ہزاروں بے گناہ ڈرون حملوں کا نشانہ بن چکے ہیں لیکن وہ آگ ہے کہ تھمتی ہی نہیں، اس پر طرہ یہ کہ کچھ مسلمان تنظیمیں جو دہشت گردی کو جہاد کی صورت میں سر انجام دے رہی ہیں ، وہ سمجھتی ہیں کہ اس کا توڑ صرف ڈرون حملوں میں ہی ہے۔ ایک مسلمان ہونے کے ناطے اگر میں اپنے دوسرے مسلمان بھائی کی غلط بات کی طرفداری صرف اس لیے کروں کہ وہ ہمارا ہم مذہب ہے، صریحاً غلط ہے کیونکہ اسلام میں جو بات ناجائز ہے وہ میرے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واضح کردی''مومن وہی ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہیں'' (بخاری مسلم) یعنی دوسرے مسلمانوں کا امن و امان خطرے میں نہ پڑے اور مسلمان پرسکون طریقے سے اپنی زندگی گزاریں لیکن اس دور میں اسلام کا چہرہ مسخ کرنے کی مکروہ کوششیں کی جارہی ہیں۔ اس کے ارکان کو توڑ مروڑ کر ثابت کیا جارہا ہے کہ یہ غلط ہیں۔ اسلام کے ماننے والے دہشت گرد، بنیاد پرست، جاہل اور قومی و عالمی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں، اور تمام مسلم ممالک ایسے دہشت گردوں کی آماجگاہ ہیں، ان کی پشت پناہی کی جاتی ہے، کچھ مغربی مفکرین ایسی شرارتوں کو اس انداز میں قلم زد کر رہے ہیں کہ جس سے اہل مغرب اور غیر مسلم ممالک میں اسلام دہشت گردی، قتل و خونریزی اور بربریت کی علامت بن رہا ہے۔ The Clash of Civilizations میں مصنف نے اپنی سی کوشش کی ہے، 1996 کی تحریر کردہ اس کتاب سے واضح ہوتا ہے کہ اسلامی تاریخ کے صریحاً جائز اور بے داغ واقعات کو خون آلود قرار دے کر اپنی منطق کو اسلام مخالف رویے کا رخ دے کر اسے جاہلانہ سوچ رکھنے والے مذہب پر محیط کردیا گیا۔
9/11 کا واقعہ اور ماضی سے لے کر حالیہ دہشت گردی کی وارداتیں جس انداز میں رونما ہورہی ہیں اسے دیکھ کر ایک عام اسلام سے شناسائی نہ رکھنے والا انسان بلا جھجھک کہہ اٹھتا ہے کہ ہاں اسلام میں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ اسلام کسی قوم یا ملک کے لیے نہیں ہے، یہ مذہب تو پوری دنیا کے انسانوں کے لیے ایک ایسا مکمل اور جامع مذہب ہے جس میں حکومتوں سے لے کر ایک عام انسان مرد، عورت، بوڑھے، بچے تک کے حقوق کی وضاحت کی گئی ہے، سیاست ہو یا جنگ کا میدان، گھر ہو یا دفتر، ہر بات کی وضاحت ایسے کی گئی ہے کہ اس کے بعد کوئی گنجائش باقی ہی نہیں رہتی جو کچھ قرآن مجید میں تحریر ہے آج بھی مغربی مفکرین ان نقطوں پر تجربات کر رہے ہیں، کیا اسلام کی آمد سے پہلے اتنے واضح، اتنے کھلے ثبوت کے ساتھ حقوق کسی اور مذہب میں تھے؟ ''اب کسی کو نا حق قتل نہیں کیا جائے گا، لیکن ظالم بھی بخشا نہیں جائے گا'' (الانعام 15,16) قرآن مجید میں بڑی وضاحت کے ساتھ ناحق قتل نہ کرنے پر زور دیا گیا ہے گویا اسلام میں بلاوجہ قتل کرنے کی تو کوئی گنجائش ہی نہیں۔ 9/11 کا واقعہ طالبان نے کیا، القاعدہ نے کیا یا خود امریکا کی اپنی شیطانی اختراع تھی، اس سے بالاتر ہوکر یہ بات یہاں واضح ہوجاتی ہے کہ اس کا تعلق مذہب اسلام سے نا جوڑا جائے کیونکہ اسلام معصوم لوگوں کے خون بہانے کی اجازت ہی نہیں دیتا۔ اسی طرح ظالم کی بھی سزا مقرر ہے، ویسے تو یہ حاکموں پر فرض ہے، ورنہ دنیا کا سب سے بڑا حاکم سزا دینا خوب جانتا ہے۔ آج، ابھی، کل یا برسوں بعد اس کا سزا دینے کا نظام ایسا منظم اور مربوط ہے کہ سزا یافتہ خود حیران رہ جاتا ہے، لیکن اس کی نظروں میں یقیناً وہ گناہ ضرور گھوم جاتے ہوں گے جس کی اسے سزا دی گئی ہوتی ہے، جب اسلام پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے ہے تو جہاد اس کا رکن بھی پوری دنیا کے انسانوں کے لیے ہے۔ آج مغرب کی تعلیم یافتہ قومیں ملالہ یوسفزئی کو امن کا نوبل پرائز دینے پر یقین رکھتی ہیں، کیوں؟ دراصل یہ بھی تو ان کی جانب سے جہاد کی ایک صورت ہے، جو وہ ملالہ کے حق میں بڑھ چڑھ کر بول رہی ہیں، جہاد کے معنی کس قدر وسیع ہیں، اس کی روح کو سمجھنا بہت ضروری ہے ، ظالم کے خلاف تلوار اٹھانا، تلوار اٹھانے کی اہلیت نہ رکھنا تو احتجاج کرنا اور سب سے کمزور صورت کہ دل میں اس امر کو غلط اور برا سمجھنا بھی جہاد ہے، لیکن ان تمام کا تعلق صرف اﷲ کی ذات سے ہو، اس کے لیے فی سبیل اﷲ ہو، درپردہ چھپے اپنے مفاد کے لیے، کسی دوسرے کے لیے، پیسے کے لیے جہاد کا نام استعمال کرنا اس زمرے میں بالکل نہیں آتا۔