4000 فلموں سے جُڑی 9000 یادیں

پاکستانی فلم انڈسٹری کے پوسٹرز، تصاویر اور بُک لیٹس کا نادر ذخیرہ

لولی وڈ کے ’’آرکائیوز‘‘ مرتب کرنے والی محقق، وجیہہ رضا رضوی کے جمع کردہ خزانے کی کہانی۔ فوٹو : فائل

شوق، اَن مول ہوتا ہے کہ اِسی سے نمی پا کر ذوق کا پودا پنپتا ہے، خواہش جنم لیتی ہے، جستجو کا شعلہ بھڑکتا ہے، جو انسان کو اَن دیکھی زمینوں کی اُور لے جاتا ہے، جہاں ہر موڑ پر نئی کہانی منتطر ہوتی ہے!

یہ شوق ہی تو تھا، جس نے وجیہہ رضا رضوی کو ایک ناممکن منصوبے کی تکمیل کے لیے تیار کیا۔ پاکستانی فلم انڈسٹری کی تاریخ، جسے بلاشبہہ گم شدہ تاریخ کہا جاسکتا ہے، مرتب کرنے کا حوصلہ دیا۔ اور یوں اُنھوں نے ایک اجنبی زمین پر قدم رکھا، جہاں راستہ وقت کے گرداب میں گُم تھا۔ منزل کا کوئی نشان نہیں ملتا تھا۔ قطب نما بھی خاموش تھا، مگر اُن کی جستجو کے سامنے رکاوٹیں ٹھہر نہیں سکیں۔ قدم بہ قدم وہ آگے بڑھتی گئیں، راستہ کھوجتی رہیں۔ دھیرے دھیرے نشانات ظاہر ہونے لگے، منزل نظر آنی لگی۔ اِسی تلاش نے اُنھیں ایک اَن کہی کہانی سے لیس کیا، جو نہ صرف فلم انڈسٹری کے عروج و زوال کا قصہ بیان کرتی ہے، بلکہ وجیہہ کے بلند حوصلوں کی تفصیلات بھی فراہم کرتی ہے۔

آج اُن کے پاس، قیام پاکستان سے 2012 تک ریلیز ہونے والی بیش تر پاکستانی فلموں کے پوسٹرز، فوٹوسیٹس اور بک لیٹز کا اَن مول ذخیرہ موجود ہے۔ اِس دورانیے میں سنیما گھروں کی زینت بننے والی فلموں کی تعداد، وجیہہ کے اندازے کے مطابق، 4000 ہے، اور اُن کا ذخیرہ 9000 آئٹمز پر مشتمل ہے۔ ریکارڈ مرتب کرنے کا سلسلہ شروع کر چکی ہیں۔ 57ء سے گذشتہ برس تک کی فلموں اور اُن سے جُڑی اشیا کا ریکارڈ موجود ہے، جس کے مطابق اُن کے پاس 451 فلموں کے 849 پوسٹر ہیں۔ (اصل تعداد اِس سے زیادہ ہے کہ ان کے ریکارڈ میں 47ء سے 56ء کی فلموں کی فی الحال انٹری نہیں کی گئی ہے) 120 فلموں کے فوٹو سیٹس اُن کے پاس ہیں۔ 800 فلموں کی بک لیٹز ذخیرے میں شامل ہیں۔ 106 آئٹمز ایسی فلموں کے ہیں، جن کا فلمی تاریخ میں ریکارڈ نہیں ملتا، جس کا مطلب ہے کہ یا تو تیاری کے وقت فلم کا ٹائٹل کچھ اور تھا، جو ریلیز کی وقت، سینسر بورڈ کی کہنے پر، یا کسی اور باعث بدل دیا گیا، یا پھر وہ کبھی ریلیز ہی نہیں ہوسکیں۔ اِس ضمن میں وہ 95ء میں ریلیز ہونے والی مسعود بٹ کی ایک فلم کی مثال دیتی ہیں، جس کا ایک پوسٹر ''جنرل رانی'' کے نام سے اُن کے پاس ہے، مگر یہ فلم بعد میں ''میڈم رانی'' کے نام سے ریلیز ہوئی، غالب امکان ہے کہ پہلا ٹائٹل سینسر شپ کی نذر ہوگیا۔

اُن کے پاس 48ء میں ریلیز ہونے والی فلم ''تیری یاد'' کا بُک لیٹ موجود ہے، جو اُن کے ذخیرے میں موجود قدیم ترین آئٹم ہے۔ پوسٹرز کا موضوع نکلا، تو بتانے لگیں کہ اُن کے پاس 55ء کی فلم ''بلبل'' کا پوسٹر موجود ہے۔ تقسیم سے قبل ریلیز ہونے والی فلم ''شکنتلا'' کا پوسٹر بھی ذخیرے میں شامل ہے۔ قدیم تک فوٹو سیٹ 69ء کی فلم ''مکھڑا چن ورگا'' کا ہے۔ ذاتی ذخائر میں 1300 سینسر سرٹیفکیٹس بھی شامل ہیں۔ یہ تعداد نو ہزار آئٹمز کے علاوہ ہے۔

پاکستان فلمز کے آرکائیوز مرتب کرنے کا خیال کیسے سُوجھا؟ یہ سوال اُنھیں نیشنل کالج آف آرٹس، لاہور لے جاتا ہے، جہاں وہ فلم اینڈ ٹی وی ڈیپارٹمنٹ کے قیام میں جُٹی تھیں۔ نصاب تیار کرنے والی کمیٹی کی سیکریٹری بھی تھیں۔ بتاتی ہیں، تعلیمی پروگرام کے تحت، فلم اینڈ ٹی وی ڈیپارٹمنٹ میں پہلے دو برس بین الاقوامی فلموں کی تاریخ اور نظریات پڑھائے جانے تھے، تھرڈ ایئر کے پروگرام میں پاکستانی فلم انڈسٹری کی تاریخ اور نظریات کو موضوع بنا تھا، مگر اِس تعلق سے مواد موجود نہیں تھا۔ خیال آیا کہ اِس ضمن میں تحقیق شروع کی جائے، تاکہ جب پہلا بیج تھرڈ ایئر کا حصہ بنے، اُس وقت تک مطلوبہ مواد دست یاب ہو۔ اُنھوں نے یہ تجویز پرنسپل، پروفیسر ساجدہ حیدر ونڈل کو دی، مگر کام کی وسعت کے پیش نظر یہ سلسلہ فوری شروع نہیں ہوسکا۔ امریکا میں تحقیق کے دوران اُنھوں نے انٹرنیشنل سنیما پر کام کیا۔

وہاں رہتے ہوئے احساس ہوا کہ پاکستانی فلم انڈسٹری کی بابت بین الاقوامی دنیا زیادہ نہیں جانتی۔ امریکا میں قیام کے زمانے میں اُنھوں نے کوشش کی کہ پاکستان فلم انڈسٹری سے منسلک خواتین کو کام کو وہاں پراجیکٹ کیا جائے، مگر اِس راہ میں بھی کئی رکاوٹیں تھیں۔ بس، یہی وہ پل تھا، جب اُنھوں نے ایک فیصلہ کیا۔ ایسا فیصلہ، جس نے اُن کی زندگی بدل دی۔امریکا سے لوٹنے کے بعد پاکستان فلمز کے آرئیوز تک رسائی کے لیے ابتداً اُنھوں نے عثمان پیرزادہ اور سجاد گل سے رابطہ کیا۔ یہ جان کر مایوسی ہوئی کہ اِس تعلق سے کوئی ادارہ موجود نہیں، البتہ عثمان پیزادہ کے مشورے پر وہ رائل پارک، لاہور پہنچ گئیں۔ شروع میں تو کئی پیچیدگیاں آئیں، مگر پھر راہیں نکلنے لگی۔ وہاں اُن افراد سے ملاقات ہوئی، جو نسل در نسل فلموں کے پوسٹر تیار کرنے کے پیشے سے منسلک تھے۔ اوائل میں چند ٹرانسپریسیز تک رسائی حاصل کی۔ پھر چند ''فوٹو سیٹ'' اُن کے ہاتھ لگے۔ (فوٹو سیٹ سے مراد فلم کی شوٹ کے دوران لی جانے والے تصاویر ہیں، جو فلم کی ریلیز کے وقت سنیما میں لگائی جاتی ہیں۔ عام طور سے ایک سیٹ بیس تصاویر پر مشتمل ہوتا ہے) یوں دھیرے دھیرے کام وسعت اختیار کرتا گیا۔

اِس دوران کئی مشکلات بھی پیش آئی ہوں گی؟ اِس سوال کا جواب وہ اثبات میں دیتی ہیں۔ اُن کے مطابق یہ منہگا شوق ہے، خاصے اہتمام کا تقاضا کرتا ہے۔ چُوں کہ انفرادی حیثیت میں کام کر رہی ہیں، اِس لیے آئٹمز کو سنبھالنا آسان نہیں۔ بتاتے ہیں، اُنھوں نے ڈھاکا سے چند پوسٹرز منگوائے ہیں، لیکن وہ اب ان تک پہنچے نہیں ہیں۔ اسی نوع کے دیگر مسائل بھی پیش آئے۔

وجیہہ سے گفت گو کرتے ہوئے اُن افراد کا بھی ذکر آتا ہے، جو اُن کے مانند فلم انڈسٹری سے جُڑی اشیا اکٹھا کرنے میں مصروف ہیں۔ ذاتی ذخائر کو وہ اَن مول خزانہ قرار دیتی ہیں۔ اُن کے بہ قول،''اِس وقت پاکستان میں بارہ، تیرہ افراد کے پاس فلموں سے منسلک آئٹمز موجود ہیں۔ ''ہمیں اِن ذخائر کو ایک جگہ اکٹھا کر لینا چاہیے، یہ بکھرائو ختم ہوگا، تو پاکستان فلم کی تاریخ مرتب کرنے کے امکانات پیدا ہوجائیں گے۔'' اِس ضمن میں لاہور میں مقیم، شاہد پردیسی کا ذکر کرتی ہیں، جن کے پاس اب تک ریلیز ہونے والی تمام فلموں کے بک لیٹز موجود ہیں۔ ''کچھ اور لوگ بھی ہیں۔ میرے خیال میں فلم آرکائیوز کے لیے یہ ذاتی ذخائر بیش قیمت ہیں۔''

''آرکائیوز'' نے اُنھیں نئے زاویوں سے فلمی تاریخ کا جائزہ لینے کا بھی موقع دیا۔ رجحانات کا اندازہ ہوا۔ اُن کے مطابق گذشتہ ساٹھ برس میں پاکستان فلمز میں رومانوی رجحان غالب رہا ہے۔ خاتون ڈائریکٹرز/ پروڈیوسرز کی بات ہو، تو وہ میڈم سنگیتا کا نام لیتی ہیں، جنھوں نے ساٹھ سے زاید فلمیں فلم انڈسٹری کو دیں۔ شمیم آرا کی فلموں کی تعداد، اُن کے مطابق، 29 ہے۔

وجیہہ کی تحقیق جاری ہے۔ یہ امید کی جاسکتی ہے کہ ان کی محنت کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے، اور پاکستان فلمز کی تاریخ مرتب کرنے میں، ان کا کام معاون ثابت ہوگا۔


٭ سفرِ زندگی پر ایک نظر

وجیہہ رضا رضوی نے راول پنڈی میں آنکھ کھولی۔ اُن کے والد، علی رضا تدریس کے پیشے سے منسلک تھے۔ منڈی بہائوالدین سے میٹرک کرنے کے بعد وجیہہ نے اسلام آباد سے انٹر کا مرحلہ طے کیا۔ اُن ہی دنوں مصوری کا شوق چَرّایا، جو سائنس سے فائن آرٹس کے مضمون کی جانب لے گیا۔ 84ء میں وہ نیشنل کالج آف آرٹس، لاہور کا حصہ بن گئیں، جہاں سے بیچلرز کی ڈگری لینے کے بعد اُنھوں نے پانچ برس ایڈورٹائزنگ سیکٹر میں کام کیا۔ پھر برٹش کونسل کی اسکالر شپ پر برطانیہ چلی گئیں، جہاں نارتھ ایسٹ میڈیا ٹریننگ سینٹر اور گولڈ اسمتھ کالج میں دو برس گزرے۔ انھوں نے ڈاکومینٹری کے موضوع پر ماسٹرز کی سند حاصل کی۔ 95ء کے اواخر میں واپسی ہوئی۔ اِسی عرصے میں اُن کی وقار احمد قریشی سے شادی ہوئی، جو ٹیلی کمیونیکیشن ایکسپرٹ کے طور پر شناخت رکھتے ہیں۔ اُن کے تعاون اور حوصلہ افزائی نے عملی زندگی میں اُن کی بھرپور معاونت کی۔ تعلیم، تحقیق اور ملازمت کے سلسلے میں وجیہہ کو، بیرون اور اندرون ملک خاصا فضائی سفر کرنا پڑتا ہے، اِس ضمن میں بھی شوہر نے بھرپور ساتھ دیا۔ خدا نے وجیہہ کو ایک بیٹی، ایک بیٹے سے نوازا۔ رہایش لاہور میں ہے۔ ان کا جمع کردہ ذخیرہ بھی وہیں ہے۔

96ء تا 98ء وہ معروف ایڈورٹائزنگ ایجنسی اورینٹ سے منسلک رہیں۔ اِس عرصے میں کئی پراجیکٹس مکمل کیے۔ نویں سیف گیمز کی نسبت سے شروع ہونے والے ''سیف اسٹارز کوئز شو'' کی ذمے داری، بہ طور ایگزیکٹو پروڈیوسر اُن ہی کے کندھوں پر تھی۔ اِس میگا پراجیکٹ کی تکمیل وجیہہ کا بڑا کارنامہ ہے۔ پی ٹی وی سے نشر ہونے والے اُس شو نے ریکارڈ کام یابی حاصل کی۔ پھر نیشنل کالج آف آرٹس سے منسلک ہوگئیں۔ وہاں فلم اینڈ ٹی وی ڈیپارٹمنٹ قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ 2006 میں یونائیٹڈ اسٹیٹ ایجوکیشن فائونڈیشن، پاکستان اور انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ایجوکیشن کی فُل برائٹ اسکالر شپ پر امریکا چلی گئیں، جہاں دو برس اوکلاہاما یونیورسٹی میں تحقیق کرتے گزرے۔ سنیما کا بہ طور ادب جائزہ لیا۔ 2007 میں لوٹیں۔ اِس وقت وہ لاہور اور کراچی کی مختلف درس گاہوں میں وزیٹنگ فیکلٹی کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہی ہیں۔ کراچی کے ایک نجی میڈیا انسٹی ٹیوٹ کی انتظامی ذمے داری بھی اُن ہی کے کندھوں پر ہے۔

مختلف زبانوں میں ریلیز ہونے والی فلموں کی تعداد

وجیہہ رضوی کا ریکارڈ 2009 تک ریلیز ہونے والی فلموں کا احاطہ کرتا ہے۔ اُن کے ڈیٹا کے مطابق اب تک 3819 فلمیں ریلیز ہوچکی ہیں، اور اگر اِس میں گذشتہ تین برس میں ریلیز ہونے والی فلمیں بھی شامل کرلی جائیں، تو تعداد بہ آسانی 4000 تک پہنچ جاتی ہے۔

وہ دیگر شخصیات کے ذخائر سے اپنے ریکارڈ کا موازنہ کرتی رہتی ہیں۔ اِس ضمن میں مظہر اقبال کے اعدادوشمار کا حوالہ دیتی ہیں۔
وجیہہ کے ریکارڈ کے مطابق اب تک 1605 اردو، 1329 پنجابی، 148 اردو۔ پنجابی، 79 سندھی، 650 پشتو، 5 سرائیکی فلمیں سنیماگھروں کی زینت بن چکی ہیں۔ اِس عرصے میں بنگالی، گجراتی، انگریزی، بلوچی اور دیگر زبانوں میں بننے والے آٹھ فلمیں بھی سنیما گھروں کی زینت بنیں۔ ان کے مطابق ریکارڈ کو حتمی نہیں کہا جاسکتا، جس کا سبب اس تعلق سے کسی ادارے کی عدم موجودگی ہے، جو فلموں کی تعداد کی تصدیق کر سکے۔

ہمارے حکم راں اور ہماری فلمیں

مختلف حکم رانوں کے دوران میں فلم انڈسٹری کی صورت حال کا بھی جائزہ لی چکی ہیں۔ بتاتی ہیں، مختلف ادوار میں ریلیز ہونے والی فلموں کا، تعداد کے زاویے سے سالانہ جائزہ لیا جائے، تو اندازہ ہوتا ہے کہ بھٹو صاحب اور جنرل ضیاء الحق کے دور میں سب سے زیادہ فلمیں ریلیز ہوئیں۔ اُن کے بہ قول، 48ء میں فقط ایک فلم ریلیز ہوئی تھی۔ فلم سازی کا باقاعدہ سلسلہ خواجہ ناظم الدین کے دور میں شروع ہوا۔ ''گروتھ'' کے نقطۂ نظر سے ایوب خان کے دور کا خصوصی طور پر ذکر کرتی ہیں کہ جس وقت اُنھوں نے اقتدار سنبھالا، سالانہ لگ بھگ 30 فلمیں ریلیز ہوا کرتی تھیں، مگر اُن کی آخری دور میں اوسط سو تک پہنچ گئی تھی۔ یہ سلسلہ بھٹو صاحب کے دور میں اپنے عروج پر پہنچا، جب لگاتار دو برس سو سے زاید فلمیں سنیما گھروں کی زینت بنیں۔ ان کا کہنا ہے، پرائیویٹ چینلز آنے کے بعد سنیما پر بہت برا اثر پڑا، اسی 92-93 کے بعد زوال آنے لگا۔ وجہ سے مشرف دور کے آتے آتے فلموں کی اوسط خاصی گر چکی تھی۔

اُن کے مطابق ضیا الحق پر الزام لگایا جاتا ہے کہ اُن کے دور میں سنیما کو نقصان پہنچا، لیکن اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ان کے دورحکومت میں خاصی فلمیں بنیں۔ ''فلموں کی تعداد کم نہیں ہوئی، ہوا یہ کہ اردو فلموں کے بجائے پنجابی فلمیں بننے لگیں۔''

پاکستان کی پہلی ایک ہزار فلموں کی تکمیل میں، وجیہہ کے مطابق 25 سال لگے۔ اگلی ایک ہزار فلمیں اگلے گیارہ برس میں ریلیز ہوئیں۔ تیسری بار ہزار کا ہندسہ عبور کرنے میں بھی گیارہ برس ہی صرف ہوئے، مگر اِس کے بعد ہزار فلموں کی تکمیل میں سولہ سے سترہ برس کا عرصہ صرف ہوا، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم نیچے کی طرف جارہے ہیں۔
Load Next Story