بے مقصد باتیں
عدالت ایک سیاسی رہنما کی بہن سے سوال کرتی ہے کہ نوے ارب روپے لاڑکانہ میں کہاں خرچ ہوئے؟
پاکستان چمک دمک میں کسی سے کم نہیں۔ یہاں دنیا کی بہترین گاڑی، کپڑے، غذا، علاج اور آسائشیں موجود ہیں، مگر چند خاندانوں کے لیے۔ پاکستان کے عوام کے اہم مسائل پینے کا صاف پانی مہیا کرنا، دودھ، تیل اور دیگر خورو نوش کی اشیا کی ملاوٹ کو سختی سے ختم کرنا، بروقت، معقول اور مفت علاج فراہم کرنا، سب کو مفت اور معیاری تعلیم مہیا کرنا، تمام لوگوں کو روزگار اور رہائش فراہم کرنا، مہنگائی پر سخت کنٹرول حاصل کرنا ہے۔ یہاں پینے کے پانی میں گندے پانی، گٹر کا پانی، یہاں تک کہ انسانی فضلے کی ملاوٹ پائی گئی ہے۔
پانی کا دوسرا نام زندگی ہے۔ پانی شفاف بنا کر جراثم سے پاک اور منرل سے بھرپور عوام کو باآسانی مہیا کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے بجٹ کا بڑا حصہ آئی ایم ایف کے قرضوں، سود اور جنگی بجٹ پر خرچ ہوجاتا ہے تو پانی پر کیونکر خرچ ہو۔ اور جو بجٹ مہیا بھی کیا جاتا ہے، اپنے وزرا اور نوکرشاہی کے ہاتھوں سے گزرتے گزرتے بمشکل بجٹ کا دس فیصد ہی بچ پاتا ہے۔ آلودہ پانی پینے سے زیادہ تر لوگ بیمار ہوتے ہیں، اس سے بچوں کی اموات میں اضافہ ہوتا ہے۔
تھرپارکر، چولستان اور بلوچستان کی تو بات ہی نہ کریں، وہاں کا پانی بلا کا رنگین ہوتا ہے۔ یہاں دودھ بغیر دودھ کے بنتا ہے اور جو دودھ ملتا ہے اس میں آٹھ قسم کے زہریلے کیمیکل کی ملاوٹ ہوتی ہے، جس میں یوریا کھاد بھی ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں دودھ کی جانچ پڑتال کرنے کا باقاعدہ محکمہ موجود ہے، جن کا ڈائریکٹر، انسپکٹر، کلرک، پیون سب موجود ہیں۔ ماہانہ کروڑوں روپے تنخواہیں دی جاتی ہیں۔ یہ دودھ کی انسپیکشن کرنے کے بجائے ان سے رشوت کی وصولیابی میں ہی مصروف پائے جاتے ہیں۔
دودھ کے باڑے، فیکٹریوں اور مصنوعی دودھ بنانے کی خفیہ فیکٹریوں پر اگر سختی سے چھاپے پڑیں اور ہر ہفتے ان کی انسپیکشن ہو تو کسی قسم کی ملاوٹ نہیں ہوسکتی۔ پاکستان میں ٹماٹر کا کیچپ بغیر ٹماٹر کے بنتا ہے۔ یہ کیچپ کیمیکل پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اس میں ایک بوند بھی ٹماٹر کی نہیں ہوتی۔ یہ ٹماٹو کیچپ ملک بھر کے شہروں کے ہوٹلوں، ٹھیلوں، فٹ پاتھوں اور برگروں میں پائے جاتے ہیں۔ اسی طرح برگر کے لیے مائینیز بنتے ہیں۔ مائینیز بنیادی طور پر دودھ کی پیداوار ہے، جب کہ ہمارے ہاں مائینیز انڈے کی سفیدی، تیل اور کیمیکل سے بنایا جاتا ہے۔ سب سے زیادہ ہمارے ہاں ملاوٹ تیل اور گھی میں ہوتی ہے۔
ملک بھر کے لاکھوں مرغی، بکرے، گائے، بھینس اور اونٹ کے گوشت کی دکانوں پر جا کر دیکھیں کہ روزانہ لاکھوں ٹن چربی، سیکڑوں فیکٹریوں میں لے جا کر ان سے تیل اور گھی بنائے جاتے ہیں۔ اور ان کنستروں پر پوسٹر چسپاں کرکے باقاعدہ کمپنیوں کے نام لکھے ہوتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ان چربی سپلائی کرنے والوں کا پیچھا کرے اور دیکھے کہ یہ کہاں سے کہاں جاتی ہیں اور کہاں کہاں ترسیل کی جاتی ہیں۔ سب سے زیادہ بیماریاں ان ہی سڑی ہوئی چربی کے تیل سے پھیلتی ہیں اور خاص کر پیٹ کی بیماری، کولیسٹرول، چکنائی وغیرہ خون کی شریانوں میں سرائیت کرجاتی ہے۔
تعلیم کا حال یہ ہے کہ تعلیم کو تجارت کا ذریعہ بنادیا گیا ہے۔ غریب لوگ جو ننانوے فیصد ہیں، وہ بچوں کو معقول اور بہتر تعلیم مہیا ہی نہیں کرا سکتے ہیں۔ سب سے خراب صورتحال اسپتالوں کی ہے۔ کراچی، پشاور، کوئٹہ، اسلام آباد اور ملتان وغیرہ کے بڑے اسپتالوں میں جاکر دیکھیں کہ لاکھوں مریض روزانہ اسپتال کے صحن میں چادریں بچھا کر اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں۔ ان کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ وہ اپنا علاج کرائیں۔ عدم ادویات کی وجہ سے تڑپ تڑپ کر لوگ مر رہے ہیں۔
واہ رے سرمایہ دارانہ نظام؟ اس بدتر صورتحال پر حکومت کا خاموش رہنا تو سمجھ میں آتا ہے کہ وہ عوام کی فلاح نہیں بلکہ اپنا مال بنانے میں لگے ہوتے ہیں۔ یہ تو رہا حکمران طبقات کا برسر اقتدار دھڑا۔ مگر حزب اختلاف کا دھڑا کیا کررہا ہے؟ سوائے نان ایشوز پر ٹاک شوز کرنا، ایک دوسرے کو گالیاں دینے میں ہی اپنی تمام تر صلاحیتوں کو کام میں لاتے ہیں۔ کوئی بھی حزب اختلاف کی جماعت عوام کے ان دیرینہ مسائل پر بولنے کو تیار ہے اور نہ اس پر احتجاج کرتی ہے۔
ایک دن تو درکنار، ایک گھنٹے کی ٹوکن اسٹرائیک بھی نہیں کرتی۔ کے پی کے حکمران وفاقی حکومت کے حزب اختلاف ہیں، وہاں بھی عوام اپنی تمام تر دکھوں، اذیتوں اور ذلتوں سے گزر رہے ہیں۔ مردان ولی خان یونیورسٹی میں مشال خان شہید ہوتا ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری، لوڈشیڈنگ، کرپشن، لاعلاجی اور رشوت عروج پر ہیں۔ شرح خواندگی ملک بھر کی طرح وہاں بھی گھٹ رہی ہے۔ مریض پشاور میں بھی رل رہے ہیں۔ سندھ کا بھی وہی حال ہے، جو پنجاب کا ہے۔
عدالت ایک سیاسی رہنما کی بہن سے سوال کرتی ہے کہ نوے ارب روپے لاڑکانہ میں کہاں خرچ ہوئے؟ جنرل پرویز مشرف نے آئین توڑا اور ٹھاٹ سے دنیا کی سیر کررہے ہیں۔ حزب اختلاف کی پارٹیاں اس لیے ان مسائل پر احتجاج نہیں کرتیں کہ وہ اقتدار میں آکر یہی سب کچھ کریں گی جو اب ہورہا ہے۔ ان مسائل کا واحد حل ایک اشتمالی، کمیونسٹ یا امداد باہمی کے سماج میں ہی ممکن ہے۔ اس کے سوا سارے راستے بند گلی میں جاتے ہیں۔ ایک ایسا نظام، جہاں دنیا کی ساری سرحدیںختم ہوجائیں، کوئی گداگر ہو اور نہ کوئی ارب پتی۔ وہ انقلاب آنے والا ہے اور یہ کام پیداواری قوتیں خود انجام دیں گی۔