میں آخر کس کو ووٹ دوں   پہلا حصہ

آج تک صرف نظریاتی تقاریر کرکے عوام سے فلاحی ریاستوں کے خواب دکھا کر ووٹ مانگتے رہے۔

میں ایک پاکستانی ہوں۔ اتنی عام کہ جس کا اس ملک میں سوائے شناختی کارڈ کے اور کچھ نہیں بنتا۔ میرے پیارے وطن پاکستان کو بنے 70 سال ہوگئے، ان 70 سال میں، اس ملک میں اقتدار کے نام پر بلی چوہے کا کھیل ہی ہوتے دیکھا۔ کبھی فوجی ڈکٹیٹر دیکھے تو کبھی جمہوری آمر۔ کسی بھی نظام نے ایک عام پاکستانی کی حالت کو نہ بدلا۔

کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہم عوام نہیں بلکہ بکرے بکریوں کا ایک ریوڑ ہیں، 70 سال سے ہمارے چرواہے بدلتے رہتے ہیں، کبھی ہمیں آمرانہ ڈنڈے سے ہانکا جاتا ہے اور کبھی جمہوری ڈنڈے سے۔ بہرحال ہمیں اسی حال میں بس چلتے رہنا ہے۔ ہمارے یہ سیاسی چرواہے کبھی کبھار مہربانی کرکے کچھ بکریوں کو ذرا سی عزت بخش دیتے ہیں، ان کے گلے میں کارکن یا ورکر کا ٹیگ لٹکا کر انھیں کبھی بھنگڑوں پر لگا دیتے ہیں، کبھی نعروں پر۔ اور جب یہ ان کے کام کے نہیں رہتے تو انھیں قربانی کا بکرا سمجھ کر قربان بھی کر ڈالتے ہیں۔

باقی ماندہ عوامی ریوڑ کی ضرورت انھیں صرف الیکشن میں پڑتی ہے اور اگر ان کی یہ ضرورت ان سے وابستہ نہ ہوتی تو ان سب کو یہ کسی مذبح خانے میں بھیج دیتے۔ کیونکہ اقتدار کی کرسی پر یہ اپنی ہی 'میں میں' کرنا چاہتے ہیں، عوامی ریوڑ کی 'میں میں' اس وقت انھیں بہت ناگوار گزرتی ہے۔ تو جناب! یہ ہے اس بیس کروڑ عوام کی حیثیت ان جمہوریت کے ٹھیکے داروں کی نظر میں۔

اب جب کہ 2018 کے الیکشن آنے کو ہیں، میں نے بحیثیت ووٹر جب اپنے ملک کی سیاسی جماعتوں کا بغور جائزہ لیا تو مجھے سیاسی منظرنامے پر مسلم لیگ (ن)، پاکستان تحریک انصاف (PTI)، پاکستان پیپلز پارٹی(PPP)، اور ایم کیو ایم (MQM) (جوکہ اب دھڑوں میں بٹ چکی ہے) بطور بڑی سیاسی جماعتیں دکھائی دیں۔ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم ہماری وہ بڑی سیاسی جماعتیں ہیں جو گزشتہ تیس برسوں سے کسی نہ کسی طور پر اقتدار کے مزے اڑاتی رہی ہیں۔ لیکن ان تیس سال میں ان میں سے کوئی سی بھی پارٹی نہ تو صحیح معنوں میں ایک وفاقی پارٹی بن سکی اور نہ ہی یہ پارٹیاں عوام کو ان کی بنیادی ضروریات تک فراہم کرپائیں۔

جہاں تک بات ہے ہماری اسلامی نظریاتی جماعتوں، جیسے جمعیت العلمائے اسلام (JUIF) اور جماعت اسلامی، اگر یہ جماعتیں دیگر سیاسی جماعتوں سے ہٹ کر عوام کی اخلاقی حالت کو سدھارنے کے لیے بھی کوئی کردار ادا کرتیں تو میرا خیال ہے کہ پاکستانی مسلمانوں کی دینی حالت بھی بہتر ہوتی اور عوام کے دلوں میں ان کا وقار دیگر سیاسی جماعتوں کی نسبت بہت بلند ہوتا۔ لیکن ان معزز علما کرام نے بھی عوام کی اخلاقی حالت پر کوئی توجہ نہ دی اور آج تک صرف نظریاتی تقاریر کرکے عوام سے فلاحی ریاستوں کے خواب دکھا کر ووٹ مانگتے رہے۔

یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ اب پاکستان میں اکثریت کے ووٹ حاصل نہیں کر پاتے۔ ایک مخصوص نقطۂ نظر کے لوگ انھیں ووٹ ضرور دیتے ہیں لیکن زیادہ تر لوگ جو ان سے سیاست سے کہیں بڑھ کر (یعنی مسلمانوں کی اخلاقی حالت بہتر کرکے انھیں قرآن و سنت پر چلانے کی امید رکھتے تھے) وہ لوگ جب انھیں ان کے اصل کردار کو بااحسن طور پر نبھاتے ہوئے نہیں دیکھتے تو وہ ان سے مایوس اور دل شکستہ ہوجاتے ہیں اور ان پر وہ دوسری سیاسی جماعتوں کو ہی اپنا نجات دہندہ سمجھ کر ووٹ دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

بحیثیت ایک پاکستانی ووٹر میں نے جب اپنی تمام بڑی سیاسی جماعتوں اور ان کے لیڈران کو آئین کے آرٹیکل 62, 63 کے معیار کی کسوٹی پر پرکھا، تو یقین جانیے ان میں سے کوئی سیاسی قائد مجھے اس معیار پر پورا اترتا دکھائی نہ دیا۔ صادق و امین۔۔۔۔ کہنے کو تو صرف دو لفظ ہیں لیکن ان دو لفظوں میں ایک اسلامی ریاست کے خلیفہ کے کردار کا معیار متعین کر دیا گیا ہے۔


قارئین! آئیے آج ایک غیر جانبدار پاکستانی ووٹر کی حیثیت سے ہم اپنے ملک کی صرف ان چار بڑی سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کو صادق و امین کے معیار پر پرکھنے کے لیے عوامی ترازو میں تولتے ہیں، اور کچھ نہیں تو شاید آیندہ انتخابات میں ہم اپنا ووٹ ذاتی مفادات، پسند و ناپسند، جذباتی لگاؤ، شخصی لگاؤ، روحانی لگاؤ، لسانی لگاؤ، فرقہ واریت، صوبائیت اور ایسے دیگر کئی غلط رجحانات سے بالاتر ہوکر ایک سچے پاکستانی بن کر دے سکیں۔ ہمارے پیش نظر ہو تو صرف ایک سوچ ''سب سے پہلے پاکستان''۔

سب سے پہلے بات کرتے ہیں موجودہ حکمراں پارٹی ''ن لیگ'' کی۔ ن لیگ جس کے قائد میاں محمد نواز شریف ہیں جوکہ تاحال وزیراعظم پاکستان بھی ہیں اور اس سے قبل بھی دو مرتبہ وزیراعظم پاکستان بننے کا شرف حاصل کرچکے ہیں۔ گزشتہ تین دہائیوں سے شریف برادران پاکستان کی اور خصوصاً پنجاب کی سیاست اور ریاست سے وابستہ رہے ہیں۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ گزشتہ سال، سوا سال سے وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف اور ان کا خاندان پاناما سے اقامہ تک کا جو ہنگامہ ہے، اس کی گتھیاں سلجھانے میں الجھا ہوا ہے۔

فی الحال سچ اور جھوٹ کا فیصلہ ابھی ہونا ہے۔ دو ڈھائی سال تک مخالف پارٹیاں مبینہ الیکشن دھاندلی پر دھرنے کرتی رہیں لیکن (ن) لیگ نے ہرگز اپنے مخالفین کو جمہوری انداز میں مطمئن نہیں کیا، جس کی وجہ سے ملک بھر میں دھرنوں اور جلسوں کا ماحول گرم رہا اور اس سب صورتحال میں پاکستان اور پاکستانیوں کو بہت سی مشکلات سے دوچار ہونا پڑا۔ اسی دوران سانحہ ماڈل ٹاؤن بھی پیش آیا، جس میں چودہ انسانی جانیں بھی گئیں اور بہت سے لوگ زخمی اور معذور بھی ہوئے۔ لیکن اس سانحے کو بھی جمہوری انداز سے نہیں نبھایا گیا۔ پھر ایک اور دلخراش سانحہ آرمی پبلک اسکول (پشاور) پر دہشت گردوں کے حملے کا پیش آیا۔ اس پر بھی انڈیا کو کوئی سخت پیغام نہ دیا گیا، جب کہ ہمارے اداروں کو اس دہشت گردی میں انڈیا کے ملوث ہونے کے ثبوت بھی مل گئے تھے۔

سابق آرمی چیف راحیل شریف نے پرعزم ہوکر آپریشن ضرب عضب شروع کیا۔ لیکن میاں صاحب حسب روایت پھر آرمی سے خائف رہنے لگے کیونکہ جب دہشت گردی کے خلاف آپریشن کرتے ہوئے ان کے سہولت کاروں یعنی معاشی دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی بھی ضرورت محسوس ہوئی تو ہر ایک کو ان کی ''حد'' دکھانے لگے۔ اسی دوران مختلف میگا پروجیکٹس پر کام ہونے لگے۔ نندی پور پاور پراجیکٹ، اورنج لائن منصوبہ اور دیگر کئی پراجیکٹس پر خوب تنقید بھی ہوتی رہی اور اچانک پاناما کا ہنگامہ شروع ہوگیا۔ اسے ایک سازش قرار دیا جا رہا ہے اور سپریم کورٹ کی بنائی ہوئی جے آئی ٹی کو متنازعہ بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ایک ہی معصوم سوال کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ ''آخر ہمیں یہ تو بتایا جائے کہ ہمارا قصور کیا ہے؟''

سانحہ ماڈل ٹاؤن، بیرون ملک آف شور کمپنیوں اور اثاثوں نے آپ کے حقیقی ووٹر کو بہت مایوس کیا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر ایک غریب ملک کے حکمران اتنے امیر کیوں اور کیسے ہوجاتے ہیں؟

میں نہیں جانتی کہ پاناما کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، ان دنوں جب میں یہ کالم لکھ رہی ہوں سپریم کورٹ میں اس کا کیس چل رہا ہے۔ ہوسکتا ہے اس بار بھی فیصلہ آپ کے حق میں آجائے، ہوسکتا ہے اس بار بھی پاناما لیکس سے آپ سرخرو ہوجائیں۔ درحقیقت آپ جس ترقی کے سفر کی بارہا بات کرتے ہیں اس پر آپ تو شاید ضرور پہنچ چکے ہیں لیکن پاکستان اور پاکستانی نہیں۔

(جاری ہے)
Load Next Story