فیصلے کی گھڑی

سب سے پہلے میری ناقص رائے کے مطابق تین ججز میں اختلافی فیصلہ نہیں ہوگا۔


جاوید قاضی July 24, 2017
[email protected]

بالآخر ہاتھی پورا نکل گیا مگر دم باقی رہ گئی۔ پاناما کا فیصلہ مکمل نہ تھا۔ عمل درآمد بینچ بنا، JIT بنی، رپورٹ پیش کی اور پھر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ بنیادی نقطہ وزیراعظم کی نااہلی کا ہے۔

پانچ ججوں کی بینچ میں سے دو ججز نے کہا کہ آرٹیکل 62-63 کے تحت وزیراعظم صادق و امین نہیں رہے۔ تین ججوں نے اکثریتی رائے دی اور کہا کہ جن بنیادوں پر دو جج صاحبان نے وزیرِاعظم کو نااہل قرار دیا ہے ان شواہدات سے زیادہ شواہدات ہمیں درکار ہیں تاکہ ہم بھی درست نتیجے پر پہنچیں ۔ JIT تشکیل دینے کا مقصد کیا تھا؟ ایک تو یہ کہ احتساب کو عمل میں لانے کے لیے جو ادارے فعال تھے وہ اپنی ساکھ کھو چکے تھے۔ اور دوسری طرف کورٹ نے تیرہ سوال ترتیب دیے، جن کے جوابات حاصل کرنے کے لیے JIT کی (TORs) Dynamics وضع کیں۔ اب JIT کی رپورٹ کیا ہے؟ کورٹ نے اپنے ریمارکس میںکہا کہ Super Structure تھی۔ شواہدات کا مجموعہ، خط و کتابت کا ''والیوم 10''، 250 صفحات پر مبنی سفارشات وغیرہ۔

رپورٹ تفتیش کے تناظر میں بنی تھی اور کورٹ کو ٹھوس ثبوت درکار تھے۔ رپورٹ میں ثبوت موجود تھے اور کورٹ کو سب سے پہلے ایسے تمام ٹھوس جوابات کی ضرورت تھی جو کہ وزیراعظم کے بارے میں فیصلے کے Question میں درکار تھے، اور باقی ثبوت (Court of first instance) ٹرائل کورٹ کے تعین کے لیے تھے۔

شواہدات جو کورٹ کو ٹھوس انداز میں ملے ہیں، اس کی ترتیب کچھ اس طرح سے ہے۔

1۔ لندن میں فلیٹس میاں صاحب کے بچوں کے ہیں، یہ طے ہوا۔ یہ تمام پیسے میاں صاحب کے بچوں کے پاس کہاں سے آئے؟ بچے یہ ثابت کرنے سے قاصر ہیں۔

تو یہاں فطری طور پر Irrebuttable persumption کا سوال اٹھتا ہے کہ تو مطلب پیسے والد نے دیے۔

والد کے پاس پیسے کہاں سے آئے؟ اس کا ذکر نہ FBR کے داخل کیے ہوئے Income Returns میں ہے، نہ ECP کے داخل کیے ہوئے گوشواروں میں۔ مگر یہ ثبوت Direct ٹھوس ثبوت نہیں ہے، یہ Indirect ٹھوس ثبوت ہے، جو ایک طرف تو وزیرِاعظم کی نااہلی کے سوال کو بھی اٹھا سکتا ہے اور دوسری طرف یہ سوال Court of first instance (ٹرائل کورٹ) کی طرف بھی جاتا ہے کہ ایسے تمام ثبوت کی چھان بین کرکے سزا کا تعین کرے۔

2۔ وہ ثبوت جن کو دو جج صاحبان نے اپنے فیصلے کی بنیاد بنایا، جو وزیرِاعظم کی فلور آف دی ہاؤس پر تقریر تھی، اور قطری شہزادے کا خط، جو وہ سپریم کورٹ میں بطور ثبوت لائے تھے، دونوں متضاد ثابت ہوئے اور اس طرح وزیراعظم کی پارلیمنٹ میں تقریر پر بھی تحفظات سامنے آئے۔

3۔ وزیراعظم پاکستان کے عہدے کے ساتھ وہ Capital FZE نامی کمپنی کے چئیرمین بھی تھے اور ساتھ دس ہزار درہم تک کی تنخواہ بھی وصول کرتے تھے۔ اس طرح سے وہ وزیراعظم کے حلف نامے کے Para No 5 کے منحرف ٹھہرے۔ کیونکہ کوئی بھی نجی کاروبار یا نوکری Doctrine of Conflict of Interest کے منافی ہے۔ ایسی کمپنی کے Assets نہ FBR کے گوشواروں میں نظر آئے، نہ ECP کی Declaration میں نظر آئے۔

ان تینوں شواہدات کی اگر ٹھوس ثبوت ہونے کی ریٹنگ دی جائے تو سب سے پہلے Capital FZE کا نمبر سب سے پہلے ریٹ کیا جائے گا۔ دوسرے نمبر پر لندن فلیٹس کے ثبوت کو ریٹ کیا جائے گا اور تیسرے نمبر پر وہی جو دو جج صاحبان نے اپنے فیصلے کے لیے ترتیب دیے، یعنی وزیراعظم کا فلور آف دی ہاؤس پر تقریر میں جھوٹ بولنا۔

اس دفعہ تین جج صاحبان نے عمل درآمد بینچ میں کہا ہے کہ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں اس بات کو واضح طور پر کہا تھا کہ وہ تمام ثبوت اسپیکر صاحب کو پیش کر چکے ہیں مگر وہ تمام ثبوت آج تک نہ اسپیکر تک پہنچ سکے اور نہ ہم تک۔

آرٹیکل 184(3) کی تاریخ میں سب سے ہارڈ کیس پاناما کیس ہے۔

عمل درآمد بینچ ان تین ججز پر مبنی ہے جنھوں نے پاناما کیس میں اکثریتی فیصلہ دیا۔ جس میںکچھ سوالات اس ترتیب سے ٹھہرے ہیں۔

1۔ کہ کیا عمل درآمد بینچ کا فیصلہ واپس پانچ جج صاحبان کی بینچ کے پاس جائے گا؟ کہ اب اقلیتی اور اکثریتی فیصلہ کس طرح سے ٹھہرے گا؟

2۔ اگر عمل درآمد بینچ کا فیصلہ تقسیم ہوتا ہے2/1 کے تناسب یا 1/2 کے تناسب سے اور اس طرح سے اگر ایک جج کا فیصلہ، پانچ ججز والی بینچ کے دو ججوں کے فیصلے سے Match کرتا ہے تو پھر اس فیصلے کی کیا صورت بنے گی؟

سب سے پہلے میری ناقص رائے کے مطابق تین ججز میں اختلافی فیصلہ نہیں ہوگا۔ بلکہ یک رائے ہوگا۔ کیونکہ ثبوت Mathematical ہوتے ہیں۔ وہ خود اپنے وجود میں Self Explanatory ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر میاں صاحب نے ایک مخصوص Narrative بنانے کی بڑی کوشش کی کہ میرا قصور کیا ہے؟

کچھ لوگ ان حالات کو جمہوریت کی جنگ ٹھہرا بیٹھے۔ دانیال عزیز نے احتساب کی داستان چھیڑ دی جنرل ایوب سے لے کر جنرل مشرف تک۔ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ 1973 کے آئین کی یہ جیت تھی اور اس طرح سے یہ جمہوریت کی جیت ہے۔ 1973 سے اب تک جو بھی پارلیمنٹ بنیں، ان سب میں مینڈیٹ کے حساب سے بڑی پارلیمنٹ 1973 کی تھی۔ کیونکہ اس پارلیمنٹ کو آئین بنانے کا مینڈیٹ حاصل ہے، جو کہ باقی ماندہ پارلیمنٹ کو حاصل نہیں۔

باقی تمام پارلیمنٹس کو آئین میں صرف ترامیم کرنے کا حق ہے، اور وہ بھی سپریم کورٹ کے مطابق اس حد تک کہ پارلیمنٹ ترمیم کے ذریعے آئین کے (Basic Structure) (بنیادی ڈھانچے) کو نہ ہلائے۔

سپریم کورٹ کو اس پارلیمنٹ نے نہیں بنایا، بلکہ اس کو 1973 کے آئین یا پارلیمنٹ نے بنایا ہے۔ آرٹیکل 62 & 63 میں جنرل ضیاء الحق کی امین وصادق کی ترمیم کو ختم ہونا چاہیے، فرض کرلیں اگر یہ تر میم آئین کا حصہ نہ ہو تو وزیراعظم کے لیے اپنے حلف سے انحرافی کی سزا کا تعین کس طرح ہوگا؟

یہ وزیراعظم کی Fiduciary ڈیوٹی تھی کہ وہ وزیراعظم کے عہدے کے ساتھ کسی اور کاروبار یا نوکری سے منسلک نہ ہو، اس کو لیگل ٹرمز میں Breach of Contructive Trust کہا جائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں