تعلیمی پسماندگی اور ذہنی انقلاب
ہمارا حکمران طبقہ کیا اس حقیقت سے نابلد ہے کہ ہمارے ملک میں تعلیم کا کیا حشر ہو رہا ہے۔
پسماندہ معاشروں کی سب سے بڑی ضرورت تعلیم کو لازمی اور مفت کرنا ہوتی ہے اور اس کام کی ذمے داری حکومتوں کی ہوتی ہے لیکن ہمارا حکمران طبقہ چونکہ تعلیم کی اہمیت کو ثانوی حیثیت دیتا ہے اور اس حوالے سے اس کے اقدامات فرض نبھانے سے زیادہ حیثیت کے حامل نہیں ہوتے، لہٰذا ملک میں تعلیم کا شعبہ جس افلاس کا شکار ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، اس شعبے کا حال یہ ہے کہ دیہی علاقوں میں اساتذہ گھروں میں بیٹھ کر تنخواہیں لیتے ہیں، تعلیمی ادارے وڈیروں کے مویشی خانوں میں بدل گئے ہیں۔
ان حالات میں تعلیم کا مستقبل اور بالواسطہ نونہالوں کا مستقبل کیا ہو سکتا ہے اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ زرعی معیشت سے جڑی 60 فی صد آبادی میں وڈیرہ شاہی کی ذہنیت یہ ہے کہ ہاریوں، کسانوں کے بچے پڑھ لکھ گئے تو وڈیرہ شاہی کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ لہٰذا انھیں اسکولوں سے دور رکھا جائے۔ اس سوچی سمجھی سازش پر بھرپور طریقے سے عمل ہو رہا ہے۔
ہمارے پسماندہ ملک میں تعلیم کا مقصد نوکری حاصل کرنا ہے۔ بلاشبہ ملازمت کا حصول تعلیم کے بغیر ممکن نہیں، لیکن ملازمتوں کی منڈی میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بڑی بڑی ڈگریاں ہاتھوں میں تھامے جوتیاں چٹخاتے پھر رہے ہیں اور حکمرانوں کے سفارش یافتہ جہلاء اعلیٰ عہدوں پر متمکن ہو کر میرٹ کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ جس ملک میں کلچر یہ ہو اس کے مستقبل کے بارے میں دو رائے نہیں ہو سکتیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ کیا اس حقیقت سے نابلد ہے کہ ہمارے ملک میں تعلیم کا کیا حشر ہو رہا ہے۔ نوجوانوں کا کتنے فی صد حصہ زیور تعلیم سے آراستہ ہے اور معیار تعلیم کیا ہے؟ ان سوالوں کے جوابات سے ایلیٹ واقف ہیں لیکن اس کا مفاد اسی میں ہے کہ غریب طبقات کے بچے تعلیم سے محروم رہیں۔
ہمارے ملک میں سیاست اور حکمرانی پر 70 سال سے اشرافیہ اسی لیے ہی قابض ہے کہ عوام کی بھاری اکثریت ناخواندہ ہے اور سیاست دان اس علم اور شعور سے نابلد عوام کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے آسانی سے استعمال کر سکتے ہیں اور یہی ہو رہا ہے، جس طرح صنعتی علاقوں میں ٹھیکیداری نظام نافذ ہے اور مزدوروں کے حقوق پامال کر کے انھیں بھیڑ بکریوں کی طرح استعمال کیا جا رہا ہے، اسی طرح سیاست میں بھی ٹھیکیداری نظام چل رہا ہے۔
ٹھیکیدار لوگ جن میں عوام کے ''منتخب'' نمایندے بھی شامل ہوتے ہیں بھاری رقوم کے عوض سیاسی رہنماؤں خصوصاً حکمران طبقات کے جلسوں جلوسوں کی رونق بڑھانے کے لیے دیہاڑی پر مجبور غریب عوام کی خدمات حاصل کرتے ہیں اور ان مجبور دیہاڑی دار عوام کو سیاسی کارکن اور حمایتی عوام کے طور پر پیش کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ عوام ان کے ساتھ ہیں۔ انتخابات میں غریب عوام کی مجبوریوں کو استعمال کر کے یہ جعلی دعوے کیے جاتے ہیں کہ ہمیں عوام کا مینڈیٹ حاصل ہے۔ لہٰذا پانچ سال حکومت کرنا ہمارا حق ہے۔
ہم نے علم کی حالت زار سے اپنے کالم کا آغاز کیا تھا، آج سیاست کی منڈی میں جو دھاندلیاں ہو رہی ہیں اس کی بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ ہماری آبادی کی بھاری اکثریت تعلیم سے بے بہرہ ہے اور تعلیم سے بے بہرہ ملکوں میں سیاست دان ہر قسم کی دھاندلیوں میں آزاد ہوتے ہیں۔ ہمارا میڈیا خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا اپنا تین چوتھائی وقت ٹاک شوز کو دیتا ہے اور دنیا دیکھ رہی ہے کہ ٹاک شوز کے دھوبی گھاٹ پر سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے اور ایک دوسرے کو گندا کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کر رہی ہیں۔ عوام اب ان کے الزامات اور جوابی الزامات ہی سے نہیں بلکہ ان کی شکلوں سے بھی متنفر ہو رہے ہیں۔
پاکستان جیسے ملکوں میں جہاں شرح تعلیم افسوسناک حد تک کم ہے اور عوام سیاست کے داؤ پیچ سے ناواقف ہیں، میڈیا پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عوام کو ملکی سیاست سے آگاہ کرنے اور اشرافیہ کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے ٹاک شوز کے اکھاڑوں سے سازشی سیاست بازوں کو نکال کر عوام کے حقیقی نمایندوں کو ٹاک شوز میں بلائے جو ملکی سیاست کے اسٹاک ایکسچینج کی اصل صورت حال سے عوام کو آگاہ کر سکیں اور اس 70 سالہ ''اسٹیٹس کو'' کو توڑنے کی کوشش کریں جو ملک میں زندگی کے ہر شعبے پر قابض ہے اور کسی قیمت پر اسٹیٹس کو کو نقصان پہنچانے نہیں دیتا۔ اس حوالے سے ایک المیہ یہ ہے کہ عوام کی نظریاتی رہنمائی کرنے والی مڈل کلاس اشرافیہ کی ایجنٹ بنی ہوئی ہے اور اپنی ساری توانائیاں ٹاک شوز میں چوروں، ڈاکوؤں اور لٹیروں کے مفادات کے تحفظ میں لگا رہی ہے۔
ہمارے ملک میں ساڑھے چار کروڑ مزدور ہیں، دیہی علاقوں کی آبادی کا 60 فی صد حصہ زرعی حیثیت میں زرعی غلاموں کی حیثیت سے کام کر رہا ہے۔ ہمارے ملک میں لاکھوں کی تعداد میں وکلا ہیں، لاکھوں کی تعداد میں ڈاکٹر ہیں، لاکھوں کی تعداد میں انجینئر ہیں جن کی باضابطہ تنظیمیں بنی ہوئی ہیں۔ ساڑھے چار کروڑ مزدور ملک کی زرعی حیثیت سے جڑی 60 فی صد آبادی کسانوں، ہاریوں پر مشتمل ہے، ملک میں ادیب ہیں، شاعر ہیں، فنکار ہیں، صحافی ہیں، دانشور ہیں کیا ٹاک شوز چلانے والوں کی نظر ان پر نہیں جاتی؟ اگر ان کے نمایندوں کو ٹاک شوز میں بلایا جائے گا تو یہ نمایندے ملک اور ملکی سیاست کے اصرار و رموز سے پردے ہٹائیں گے اور 20 کروڑ عوام ملک کی سیاست اور سیاست دانوں کے اصلی چہرے دیکھ سکیں گے اور ان میں ذہنی انقلاب برپا ہو گا۔