ایک انفرادیت پسند صدر…

پرناب مکھرجی کا تقرر قوم کے منہ پر ایک طمانچے کے مترادف تھا۔

صدر پرناب مکھرجی کے دور حکومت کا جائزہ لینا کوئی مشکل کام نہیں جو اپنی پانچ سالہ مدت مکمل کرکے صدارت کے منصب سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ وہ ایک غلط انتخاب تھے اور انھیں اس منصب پر بیٹھنا ہی نہیں چاہیے تھا۔ پرناب مکھرجی سنجے گاندھی کے دلپسند شخص تھے جب کہ سنجے گاندھی از خود ایک ماورائے آئین اتھارٹی تھے، جس نے کہ ایمرجنسی کے دوران ملک پر مطلق العنان حکمرانی کی۔ یہ اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی کی آمرانہ حکومت تھی جس نے شہریوں کے بنیادی حقوق تک سلب کر لیے۔ پرناب مکھرجی اس وقت وزیر تجارت تھے جو سنجے گاندھی کے اشارۂ ابرو پر نیلامی کے موقع پر لائسنس روک لیتے یا جاری کر دیتے۔

اس حکومت کو کسی توثیق کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ اس عرصے کے دوران کوئی ناخوشگوار حادثہ پیش نہیں آیا حالانکہ یہ حکمرانی اپنے طور پر ایک جمہوری قوم کے لیے توہین کا درجہ رکھتی تھی۔ پرناب مکھرجی جنہوں نے عہدۂ صدارت قبول کر کے آئین کی خلاف ورزی کی تھی ان کو ان کی حکمرانی کے دوران قابل مذمت سمجھنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

جب مسز سونیا گاندھی نے مکھرجی کو وزیر تجارت سے ترقی دے کر ملک کا صدر مقرر کیا تو سونیا گاندھی پر نکتہ چینی کی گئی لیکن یہ اس خاتون کا ایک انتہائی وفادار شخص کے لیے ایک تحفہ تھا جو ان کی مرضی پر دن کو رات اور رات کو دن کہنے پر تلا ہوا تھا۔ انھیں خود ہی اپنی کامیابیوں کا اندازہ لگانا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ کیا وہ ان توقعات پر پورا اترے ہیں جو ان کی وجہ سے پیدا ہوئی تھیں۔ جب مکھرجی راشٹر پتی بھون (صدارتی محل) میں براجمان تھے تو میں نے ان کا جائزہ لیا اور دیکھا کہ ان کی حکمرانی کا اثر یکسر منفی ہے۔

اگر وہ ایک حساس شخص ہوتے تو یقینی طور پر 17 ماہ کی ایمرجنسی کے دوران کیے جانے والے غلط کاموں کے باعث ان کو خود ہی اپنا عہدہ چھوڑ دینا چاہیے تھا اور کچھ نہیں تو انھیں ایمرجنسی کے نفاذ کی مخالفت ضرور کرنی چاہیے تھی جب ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کو بغیر مقدمہ چلائے جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ پریس پر پابندیاں لگا دی گئیں۔ سرکاری افسروں میں حق و باطل کی تمیز اٹھ گئی۔ بی جے پی لیڈر ایل کے ایڈوانی بعض اخبارات کی ملامت کرنے میں حق بجانب تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر پریس کو جھک جانے کا حکم دیا گیا ہے لیکن اس نے تو گھٹنوں کے بل گھسٹنا شروع کر دیا ہے۔ مسز سونیا گاندھی نے ان کا تقرر اس وجہ سے کیا تھا کہ انھوں نے حکمران خاندان کی خدمت مکمل وفاداری سے انجام دی تھی۔ لوگوں نے الیکشن کے موقع پر انھیں اور اندرا گاندھی کو شکست سے درست طور پر دوچار کیا تھا۔ یہ انتخابات ایمرجنسی کے ختم ہونے کے بعد منعقد ہوئے جن میں کانگریس پارٹی کو بہت بری طرح شکست سے دوچار ہونا پڑا اور یوں عوام نے اپنا انتقام لے لیا۔

پرناب مکھرجی کا تقرر قوم کے منہ پر ایک طمانچے کے مترادف تھا۔ عوام نے کبھی بھی کسی ڈکٹیٹر کی حمایت نہیں کی اور نہ ہی کسی ایسے شخص کو کوئی عزت دی ہے جس نے جدوجہد آزادی کے دوران قوم سے کیے جانے والے وعدوں کی خلاف ورزی کی ہو۔

ان وعدوں میں جمہوریت اور سیکولرازم دو اہم وعدے ہیں۔ ایمرجنسی کے دوران تو آئین تک کی بے حرمتی کی گئی۔ مجھے توقع ہے کہ کچھ سالوں کے بعد خود ہی اپنے دور صدارت کو یاد کریں گے اور انھیں احساس ہوگا کہ انھیں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔ انھیں کم از کم کوئی ایک ایسا واقعہ تلاش کرنا ہوگا جس میں انھوں نے جمہوریت اور اجتماعیت کے فلسفہ پر عمل کیا۔ عوام کے لیے یہ ضرور ہونا چاہیے جنہوں نے انگریزوں کو نکال باہر کیا اور اپنی حکومت ووٹ کے ذریعے قائم کی۔


مجھے یقین ہے کہ جب پرناب مکھرجی اپنی یادداشتیں قلمبند کریں گے تو وہ اپنی ناکامیوں کا بڑی بے تکلفی سے ذکر کر دیں گے کیونکہ پرناب مکھرجی کے عہد صدارت میں عوام کو محسوس ہوتا تھا کہ جیسے اس انتخاب کے ذریعے انھیں نیچا دکھا دیا گیا ہے۔ کاش کہ اس زمانے میں لوک پال یعنی محتسب کا عہدہ موجود ہوتا جو اس بات کی نشاندہی کر سکتا کہ پرناب مکھرجی سے کہاں کہاں غلطی ہوئی ہے۔ آہ کہ ایسا کوئی ادارہ ملک میں نہیں ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی جو اقدار کے بارے میں بلند و بانگ باتیں کرتی ہے اسے اس قسم کا کوئی ادارہ ضرور قائم کرنا چاہیے اور یہ چیز سیاست سے بالاتر ہونی چاہیے یعنی کیا چیز غلط ہے کیا صحیح ہے، کیا اخلاقی ہے اور کیا غیر اخلاقی ہے۔

پرناب مکھرجی اگرچہ یہ بات کہنے کے لیے متاخر ہو گئے ہیں کہ راشٹرپتی بھون میں وہ اور ان کی کانگریس پارٹی ایمرجنسی کے نفاذ پر پچھتا رہی ہے۔ یہ قوم کے چہرے پر ایک دھبہ ہے جسے کہ ہر صورت صاف کیا جانا چاہیے۔ یہ بات کہ پرناب مکھرجی اپنے عہدے پر متمکن نہیں ہیں اس بات کی کوئی حیثیت نہیں۔ جس بات کی اہمیت ہے وہ یہ ہے کہ ایک جمہوری قوم کو اپنے آئینی راستے پر واپس آ جانا چاہیے۔ اداروں کے سربراہوں پر بالعموم الزام تراشی نہیں کی جاتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نکتہ چینی سے متذکرہ ادارے کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اداروں کی مضبوطی ایک جمہوری ملک کے لیے ناگزیر ہوتی ہے۔

اس خیال سے منسلک عہدہ صدارت بھی ہے لہٰذا صدر کو کچھ حدود عبور کرنے پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدر مکھرجی اس تعزیر سے بچ نکلے ہیں حالانکہ انھی کے رتبے کے کسی دوسرے شخص کو ہرگز معاف نہ کیا جاتا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اس بات کا ناجائز فائدہ اٹھائیں اور اپنے صوابدیدی اختیارات کا غلط استعمال کریں۔

سب سے پہلے یہ خبر سویڈن کے ایک ریڈیو نے نشر کی جس کی ''سورس'' کو آج تک خفیہ رکھا گیا ہے۔ اس ذریعے نے یہ خبر چترا سبرامنیم کو دی جو انڈین ایکسپریس کے لیے بطور صحافی کام کر رہی تھیں۔ یہ ذریعہ اندرونی واقعات سے مطابقت رکھنے والا تھا جس کو ابتداء میں 64 کروڑ روپے کی رشوت پیش کی گئی جس میں بعدازاں بھاری اضافہ کر کے اسے 300 کروڑ روپے کر دیا گیا۔

پرناب مکھرجی نے اس بات کو یقینی تصور کر لیا کہ چونکہ انھوں نے کانگریس پارٹی کے مشکل حالات میں اس کا بھر پور ساتھ دیا لہٰذا اب انھیں کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکے گا لیکن سونیا گاندھی اس بات پر مصر تھی کہ ان کے بیٹے راہول گاندھی کو وزارت عظمی کا عہدہ دیا جائے اور یوں پرناب مکھرجی ان کی سیاسی امنگوں کی راہ میں روکاوٹ بن گئے۔ مکھرجی کو اس بات کا احساس بروقت ہو گیا لہٰذا انھوں نے 2014ء کا انتخاب نہ لڑنے کا اعلان کر دیا تا کہ راہول گاندھی کا راستہ صاف ہو جائے۔

مکھرجی کو اس کے علاوہ بھی کچھ اور کرنا چاہیے تھا کیونکہ کانگریس کو ان کی قربانی کا صحیح اندازہ نہیں ہوا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ خود کانگریس پارٹی کے خلاف ''بوفورز'' توپوں کے سودے میں بھاری کک بیک لینے اور دولت مشترکہ کی کھیلوں کے انتظامات میں رشوت اور بے قاعدگیوں کا الزام موجود تھا جس بنا پر کانگریس کو انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)
Load Next Story