کبھی اے حقیقتِ منتظر
وسائل کی بہتات ایک اضافی عنصر ضرور ہے، لیکن ترقی کی کلید نہیں ہے۔
میں آج کل امریکا میں ہوں۔ ابھی صرف چار شہروں ہی میں گیا ہوں، لیکن اس ملک کے سیاسی، انتظامی اور سماجی ڈھانچے کے بارے میں خاصی حد تک جان گیا ہوں۔ میری کوشش ہے کہ ہر ہر لمحہ جو جانکاری حاصل ہو، اس کا اپنے یہاں جاری نظام سے تقابلی جائزہ بھی لیتا رہوں۔ امریکا بڑا ملک ہے۔ اس کے وسائل بیشمار ہیں، افرادی قوت بھی بہت زیادہ ہے۔ تاریخ بھی ڈھائی سو برس پر محیط ہے۔ لیکن قدرتی اور انسانی وسائل کی تو ہمارے یہاں بھی کمی نہیں ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ہماری حکمران اشرافیہ اس سیاسی عزم وبصیرت سے عاری ہے جو قوموں کی ترقی کے لیے لازم وملزوم ہوتی ہے۔
ایک معروف ماہر معاشیات کا قول ہے کہ غربت کا سبب اقتصادیات نہیں بلکہ غلط سیاسی و سماجی منصوبہ بندی ہوتی ہے۔ بل گیٹس کا کہنا ہے کہ کسی فرد، کمیونٹی یا قوم کا غریب ہونا یا ہوجانا تعجب کی بات نہیں، لیکن اس کا تسلسل کے ساتھ جاری رہنا، اس فرد، کمیونٹی اور قوم کی نااہلی کو ظاہر کرتا ہے۔ ہمیں یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کوئی ملک بڑا ہو یا چھوٹا، اسے ترقی کی راہ پر درست منصوبہ بندی ہی لگاتی ہے۔ وسائل کی بہتات ایک اضافی عنصر ضرور ہے، لیکن ترقی کی کلید نہیں ہے۔ کیونکہ دنیا کی کئی اقوام نے وسائل کی کمیابی کے باوجود ترقی کی منازل طے کی ہیں۔ یعنی عقل و دانش کا بروقت استعمال قوموں کو عالمی منظر نامے میں ممتاز بناتا ہے۔
دورِِ حاضر میں اس کی مثال مشرق وسطیٰ اور جاپان و کوریا ہیں۔ متذکرہ بالا خطہ تیل کی دولت سے مالا مال ہے، مگر اس بصیرت سے عاری ہے، جو پائیدار ترقی کے لیے لازم و ملزوم ہے۔ اس کے برعکس جاپان اور کوریا، قدرتی وسائل کی شدید کمیابی کا شکار ہیں، لیکن سائنس و ٹیکنالوجی میں تحقیق اور مہارتوں کے باعث مغربی دنیا کے ہم پلہ ہوچکے ہیں۔
اب یہاں پھر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ترقی سے کیا مراد ہے؟ ترقی دراصل ارتقائی عمل کے ساتھ آگے بڑھنا اور اس عمل کو مہمیز لگانا ہے۔ اس سلسلے میں سابق صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر ذاکر حسین مرحوم کا ایک قول انتہائی اہم ہے، فرماتے ہیں کہ میں جب بھی کسی بیرونی ملک کے دورے پر جاتا ہوں تو اس کے تعلیمی و سماجی نظام کا باریک بینی سے مطالعہ کرتا ہوں۔ وہ ملک جس کے بازار انواع واقسام کی اشیا سے بھرے ہوں، خوب چہل پہل بھی ہو، مگر تعلیمی نظام فرسودگی کا شکار ہو تو سمجھ لیتا ہوں کہ چار دن کی چاندنی ہے، پھر اندھیری رات ہے۔ اس کے برعکس جب کسی ایسے ملک کا دورہ کرتا ہوں جس کے بازاروں میں معمولی اشیا فروخت ہورہی ہوں اور زیادہ چہل پہل بھی نہ ہو، لیکن تعلیمی نظام مضبوط ہو تو دعویٰ کردیتا ہوں کہ آنے والا کل اس قوم کا ہے۔
ڈاکٹر صاحب مرحوم کی اس مثال سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اگر کسی ملک وقوم نے تعلیم، تحقیق و تجربہ کواولیت دی تو مستقبل اس کا ہے۔ وہ اقوام جو قدرتی ذرایع سے میسر وسائل پر تکیہ کرکے تحقیق و تجربے سے غافل ہوگئیں تو ان کا وہی حشر ہوتا ہے جو آج مسلم معاشروں کا ہے۔ جنھوں نے آٹھویں سے گیارہویں صدی تک تین صدیوں کے دوران تحقیق وتجربہ پرخصوصی توجہ دی تو ایک نئی تہذیب کے امین ٹھہرے۔ مگر جیسے ہی اس راہ کو چھوڑا اور عقیدے کے جھگڑوں میں الجھے، تو صحرائے گوبی سے اٹھنے والے وحشی تاتاریوں نے ان کے تہذیبی مرکز کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔
1258ء میں تاتاریوں کے ہاتھوں بغداد کی تباہی کے بعد مسلم معاشرے پھر کبھی پنپ نہ سکے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی جب مسلمان اکابرین نے اجتہاد کے دروازے بند کردیے تو فکری جمود وقت گزرنے کے ساتھ گہرا ہوتا چلا گیا، جس کے نتیجے میں مسلم معاشرے انسانی ارتقائی عمل سے بہت پیچھے رہ گئے۔ تحقیق وتجربہ کی جو خشت اول مسلمان علما و حکما نے رکھی تھی، اس پر اہل یورپ نے وسیع و عریض عمارات تعمیر کرلیں۔ یہ طے ہے کہ جب آپ کام ادھورا چھوڑیں گے، تو کوئی نہ کوئی اسے مکمل کرکے اپنے نام سے موسوم کرلے گا۔ اب آپ لاکھ دہائیاں دیں کہ اس کی بنیاد ہم نے رکھی تھی، کون سنے گا۔ کیونکہ دنیا تو تعمیر شدہ عمارت کو دیکھتی ہے، اس کی بنیاد کو نہیں۔
ہم نے دنیا کے کئی ممالک دیکھے ہیں۔ آج کل امریکا میں ہیں۔ یہ ملک اچانک سپر پاور نہیں بنا۔ بلکہ ڈھائی سو برس کی جہد مسلسل ہے، جس نے اسے اس مقام تک پہنچایا ہے۔ جرمنی نے دو عالمی جنگوں میں بدترین ناکامی کی ذلت اٹھائی۔ شکست و ریخت کا شکار ہوا، مگر اپنی سیاسی بصیرت اور عزم وحوصلے کے نتیجے میں ایک بار پھر اپنے پاؤں پر کھڑا ہوگیا۔ جاپان کے دو شہر دوسری عالمی جنگ میں جوہری بموں کا نشانہ بن کر تباہ ہوئے۔ مگر آج عالمی معیشت کی سمت کا تعین کرتا ہے۔ جب کہ اس ملک میں قدرتی وسائل کی بدترین کمیابی بھی ہے۔ کوریا نے، جہاں سال کے آٹھ ماہ برف جمی رہتی ہے، ایک پاکستانی ماہر معاشیات ڈاکٹر محبوب الحق کی تجاویز پر عمل کیا۔ آج دنیا کی چند مضبوط معیشتوں میں سے ایک بن گا۔ جب کہ ہمارے بیشتر لوگ یہ بھی نہیں جانتے کہ محبوب الحق کون تھے۔
یہ طے ہے کہ جب تک قومیں تہذیبی نرگسیت سے چھٹکارا نہیں پاتیں، وہ آگے نہیں بڑھ پاتیں۔ جو معاشرے اپنے اہل علم ودانش اور محققین کی قدر نہیں کرتے، جلد یا بدیر بربادی ان کا مقدر ہوتی ہے۔ جہاں حکمران سوداگری کی تنگ نظری میں مبتلا سود وزیاں کے چکر میں گھرے ہوں، یا سلامتی کے خوف میں مبتلا اپنے وسائل دفاع کی بھینٹ چڑھا رہے ہوں، وہاں حکمرانی کی اعلیٰ اقدار کے قیام اور ترقی کی راہوں پر گامزن ہونے کا تصور محض خواب ہی رہتا ہے۔
ہم تو وہ بدنصیب لوگ ہیں جنھیں کوئی خوشی، کوئی تفاخر راس نہیں آتا۔ اس ملک کو دو نوبل انعام ملے۔ ایک انعام یافتہ کو عقیدے کی بنیاد پر قبولیت بخشنے سے انکار کردیا۔ دوسری کی جی بھر کر کردار کشی جاری ہے۔ شرمین عبید چنائے آسکر ایوارڈ لے کر آئی، تو بجائے خوش ہونے کے اس کی ذات پر بھی حملے شروع کردیے گئے۔
کیا کیا عرض کروں، کہتے ہوئے شرم آتی ہے۔ یورپ اور امریکا میں جو سیکولر معاشرت اٹھارویں صدی سے متعارف ہوئی اس کی بدولت دنیا کے کسی بھی خطے، عقیدے اور نسلی ولسانی شناخت رکھنے والا فرد قانونی شرائط پوری کرنے کے بعد یہاں کا مکمل شہری بن سکتا ہے۔ جسے اہلیت کی بنیاد پر اعلیٰ ترین عہدے تک پہنچنے کا حق حاصل ہوجاتا ہے۔ تحریرو تقریرکی آزادی اور اپنے عقیدے کے مطابق آزادانہ عبادات کرنے کا حق بھی حاصل ہوتا ہے۔
کوئی ایمانداری سے بتائے کہ آیا 56 سے زائد مسلم ممالک میں یہ سہولت میسر ہے؟ کیا وہاں مذہبی اور لسانی اکائیوں کو مساوی مقام حاصل ہیں؟ کیا وہاں دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے مذہب کی تبلیغ کا حق حاصل ہے؟ بلکہ ان ممالک میں تو ذرا سے شک پر غیر مسلموں کی بستیاں تاراج کردی جاتی ہیں۔ معمولی سے شک پر زندہ درگور کردیا جاتا ہے۔ ہماری جاہلانہ سفاکی تو مشعل خان کے قتل ناحق سے ظاہر ہے۔ اس کے برعکس یورپ و امریکا میں چند ہفتے کوئی نہ کوئی قافلہ تبلیغ کے نام پر پہنچا ہوتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ وہاںمذہبی منافرت اور تعصب کو ہوا دی جارہی ہوتی ہے۔
ہماری منافقتوں کا تو یہ عالم ہے کہ جو جماعتیں پاکستان کو تھیوکریٹک ریاست بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہیں، ان کی مدر تنظیمیں (Mother Organizations) (جن کے بطن سے ان جماعتوں نے جنم لیا ہے) بھارت میں سیکولر ازم کی سب سے بڑی داعی ہیں۔ یہ منافقت اور دہرا معیار نہیں تو اور کیا ہے۔ پھر کون سا عیب یا برائی ہے، جو مسلم معاشروں میں نہیں پائی جاتی۔ غذائی اشیا میں ملاوٹ ہم کرتے ہیں۔ جعلی ادویات ہم فروخت کرتے ہیں۔ ذخیرہ اندوزی ہمارا محبوب مشغلہ ہے۔ رمضانوں میں عوام کو کمتر معیار کی اشیا مہنگے داموں بیچنا ہمارا وتیرہ ہے۔ پھر بھی دعویٰ ہے کہ دنیا بھر سے افضل ہیں۔ نجانے وہ کون سا سرخاب کا پر لگا ہے جس کی وجہ سے ارفع و اعلیٰ بنے پھرتے ہیں۔
پھر عرض ہے کہ جب بھی بیرون ملک جاتا ہوں، میرا فشار خون بڑھ جاتا ہے، ذہنی الجھنوں میں اضافہ ہوجاتا ہے، کیونکہ ہر قسم کے قدرتی اور انسانی وسائل رکھنے کے باوجود ہم صرف اس لیے غریب ہیں کہ ہم اپنے حکمرانوں کے انتخاب میں غیر سنجیدہ ہیں۔ ہم کہیں برادری کے نام پر، کہیں قبائلی اور نسلی ولسانی شناخت کی بنیاد پر نااہلوں کو اپنے سروں پر خود ہی مسلط کرلیتے ہیں۔ پھر دہائیاں دیتے پھرتے ہیں۔ الطاف حسین حالی نے کیا خوب کہا ہے کہ خدا اس قوم کی حالت کبھی نہیں بدلتا، نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا۔
ایک معروف ماہر معاشیات کا قول ہے کہ غربت کا سبب اقتصادیات نہیں بلکہ غلط سیاسی و سماجی منصوبہ بندی ہوتی ہے۔ بل گیٹس کا کہنا ہے کہ کسی فرد، کمیونٹی یا قوم کا غریب ہونا یا ہوجانا تعجب کی بات نہیں، لیکن اس کا تسلسل کے ساتھ جاری رہنا، اس فرد، کمیونٹی اور قوم کی نااہلی کو ظاہر کرتا ہے۔ ہمیں یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کوئی ملک بڑا ہو یا چھوٹا، اسے ترقی کی راہ پر درست منصوبہ بندی ہی لگاتی ہے۔ وسائل کی بہتات ایک اضافی عنصر ضرور ہے، لیکن ترقی کی کلید نہیں ہے۔ کیونکہ دنیا کی کئی اقوام نے وسائل کی کمیابی کے باوجود ترقی کی منازل طے کی ہیں۔ یعنی عقل و دانش کا بروقت استعمال قوموں کو عالمی منظر نامے میں ممتاز بناتا ہے۔
دورِِ حاضر میں اس کی مثال مشرق وسطیٰ اور جاپان و کوریا ہیں۔ متذکرہ بالا خطہ تیل کی دولت سے مالا مال ہے، مگر اس بصیرت سے عاری ہے، جو پائیدار ترقی کے لیے لازم و ملزوم ہے۔ اس کے برعکس جاپان اور کوریا، قدرتی وسائل کی شدید کمیابی کا شکار ہیں، لیکن سائنس و ٹیکنالوجی میں تحقیق اور مہارتوں کے باعث مغربی دنیا کے ہم پلہ ہوچکے ہیں۔
اب یہاں پھر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ترقی سے کیا مراد ہے؟ ترقی دراصل ارتقائی عمل کے ساتھ آگے بڑھنا اور اس عمل کو مہمیز لگانا ہے۔ اس سلسلے میں سابق صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر ذاکر حسین مرحوم کا ایک قول انتہائی اہم ہے، فرماتے ہیں کہ میں جب بھی کسی بیرونی ملک کے دورے پر جاتا ہوں تو اس کے تعلیمی و سماجی نظام کا باریک بینی سے مطالعہ کرتا ہوں۔ وہ ملک جس کے بازار انواع واقسام کی اشیا سے بھرے ہوں، خوب چہل پہل بھی ہو، مگر تعلیمی نظام فرسودگی کا شکار ہو تو سمجھ لیتا ہوں کہ چار دن کی چاندنی ہے، پھر اندھیری رات ہے۔ اس کے برعکس جب کسی ایسے ملک کا دورہ کرتا ہوں جس کے بازاروں میں معمولی اشیا فروخت ہورہی ہوں اور زیادہ چہل پہل بھی نہ ہو، لیکن تعلیمی نظام مضبوط ہو تو دعویٰ کردیتا ہوں کہ آنے والا کل اس قوم کا ہے۔
ڈاکٹر صاحب مرحوم کی اس مثال سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اگر کسی ملک وقوم نے تعلیم، تحقیق و تجربہ کواولیت دی تو مستقبل اس کا ہے۔ وہ اقوام جو قدرتی ذرایع سے میسر وسائل پر تکیہ کرکے تحقیق و تجربے سے غافل ہوگئیں تو ان کا وہی حشر ہوتا ہے جو آج مسلم معاشروں کا ہے۔ جنھوں نے آٹھویں سے گیارہویں صدی تک تین صدیوں کے دوران تحقیق وتجربہ پرخصوصی توجہ دی تو ایک نئی تہذیب کے امین ٹھہرے۔ مگر جیسے ہی اس راہ کو چھوڑا اور عقیدے کے جھگڑوں میں الجھے، تو صحرائے گوبی سے اٹھنے والے وحشی تاتاریوں نے ان کے تہذیبی مرکز کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔
1258ء میں تاتاریوں کے ہاتھوں بغداد کی تباہی کے بعد مسلم معاشرے پھر کبھی پنپ نہ سکے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی جب مسلمان اکابرین نے اجتہاد کے دروازے بند کردیے تو فکری جمود وقت گزرنے کے ساتھ گہرا ہوتا چلا گیا، جس کے نتیجے میں مسلم معاشرے انسانی ارتقائی عمل سے بہت پیچھے رہ گئے۔ تحقیق وتجربہ کی جو خشت اول مسلمان علما و حکما نے رکھی تھی، اس پر اہل یورپ نے وسیع و عریض عمارات تعمیر کرلیں۔ یہ طے ہے کہ جب آپ کام ادھورا چھوڑیں گے، تو کوئی نہ کوئی اسے مکمل کرکے اپنے نام سے موسوم کرلے گا۔ اب آپ لاکھ دہائیاں دیں کہ اس کی بنیاد ہم نے رکھی تھی، کون سنے گا۔ کیونکہ دنیا تو تعمیر شدہ عمارت کو دیکھتی ہے، اس کی بنیاد کو نہیں۔
ہم نے دنیا کے کئی ممالک دیکھے ہیں۔ آج کل امریکا میں ہیں۔ یہ ملک اچانک سپر پاور نہیں بنا۔ بلکہ ڈھائی سو برس کی جہد مسلسل ہے، جس نے اسے اس مقام تک پہنچایا ہے۔ جرمنی نے دو عالمی جنگوں میں بدترین ناکامی کی ذلت اٹھائی۔ شکست و ریخت کا شکار ہوا، مگر اپنی سیاسی بصیرت اور عزم وحوصلے کے نتیجے میں ایک بار پھر اپنے پاؤں پر کھڑا ہوگیا۔ جاپان کے دو شہر دوسری عالمی جنگ میں جوہری بموں کا نشانہ بن کر تباہ ہوئے۔ مگر آج عالمی معیشت کی سمت کا تعین کرتا ہے۔ جب کہ اس ملک میں قدرتی وسائل کی بدترین کمیابی بھی ہے۔ کوریا نے، جہاں سال کے آٹھ ماہ برف جمی رہتی ہے، ایک پاکستانی ماہر معاشیات ڈاکٹر محبوب الحق کی تجاویز پر عمل کیا۔ آج دنیا کی چند مضبوط معیشتوں میں سے ایک بن گا۔ جب کہ ہمارے بیشتر لوگ یہ بھی نہیں جانتے کہ محبوب الحق کون تھے۔
یہ طے ہے کہ جب تک قومیں تہذیبی نرگسیت سے چھٹکارا نہیں پاتیں، وہ آگے نہیں بڑھ پاتیں۔ جو معاشرے اپنے اہل علم ودانش اور محققین کی قدر نہیں کرتے، جلد یا بدیر بربادی ان کا مقدر ہوتی ہے۔ جہاں حکمران سوداگری کی تنگ نظری میں مبتلا سود وزیاں کے چکر میں گھرے ہوں، یا سلامتی کے خوف میں مبتلا اپنے وسائل دفاع کی بھینٹ چڑھا رہے ہوں، وہاں حکمرانی کی اعلیٰ اقدار کے قیام اور ترقی کی راہوں پر گامزن ہونے کا تصور محض خواب ہی رہتا ہے۔
ہم تو وہ بدنصیب لوگ ہیں جنھیں کوئی خوشی، کوئی تفاخر راس نہیں آتا۔ اس ملک کو دو نوبل انعام ملے۔ ایک انعام یافتہ کو عقیدے کی بنیاد پر قبولیت بخشنے سے انکار کردیا۔ دوسری کی جی بھر کر کردار کشی جاری ہے۔ شرمین عبید چنائے آسکر ایوارڈ لے کر آئی، تو بجائے خوش ہونے کے اس کی ذات پر بھی حملے شروع کردیے گئے۔
کیا کیا عرض کروں، کہتے ہوئے شرم آتی ہے۔ یورپ اور امریکا میں جو سیکولر معاشرت اٹھارویں صدی سے متعارف ہوئی اس کی بدولت دنیا کے کسی بھی خطے، عقیدے اور نسلی ولسانی شناخت رکھنے والا فرد قانونی شرائط پوری کرنے کے بعد یہاں کا مکمل شہری بن سکتا ہے۔ جسے اہلیت کی بنیاد پر اعلیٰ ترین عہدے تک پہنچنے کا حق حاصل ہوجاتا ہے۔ تحریرو تقریرکی آزادی اور اپنے عقیدے کے مطابق آزادانہ عبادات کرنے کا حق بھی حاصل ہوتا ہے۔
کوئی ایمانداری سے بتائے کہ آیا 56 سے زائد مسلم ممالک میں یہ سہولت میسر ہے؟ کیا وہاں مذہبی اور لسانی اکائیوں کو مساوی مقام حاصل ہیں؟ کیا وہاں دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے مذہب کی تبلیغ کا حق حاصل ہے؟ بلکہ ان ممالک میں تو ذرا سے شک پر غیر مسلموں کی بستیاں تاراج کردی جاتی ہیں۔ معمولی سے شک پر زندہ درگور کردیا جاتا ہے۔ ہماری جاہلانہ سفاکی تو مشعل خان کے قتل ناحق سے ظاہر ہے۔ اس کے برعکس یورپ و امریکا میں چند ہفتے کوئی نہ کوئی قافلہ تبلیغ کے نام پر پہنچا ہوتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ وہاںمذہبی منافرت اور تعصب کو ہوا دی جارہی ہوتی ہے۔
ہماری منافقتوں کا تو یہ عالم ہے کہ جو جماعتیں پاکستان کو تھیوکریٹک ریاست بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہیں، ان کی مدر تنظیمیں (Mother Organizations) (جن کے بطن سے ان جماعتوں نے جنم لیا ہے) بھارت میں سیکولر ازم کی سب سے بڑی داعی ہیں۔ یہ منافقت اور دہرا معیار نہیں تو اور کیا ہے۔ پھر کون سا عیب یا برائی ہے، جو مسلم معاشروں میں نہیں پائی جاتی۔ غذائی اشیا میں ملاوٹ ہم کرتے ہیں۔ جعلی ادویات ہم فروخت کرتے ہیں۔ ذخیرہ اندوزی ہمارا محبوب مشغلہ ہے۔ رمضانوں میں عوام کو کمتر معیار کی اشیا مہنگے داموں بیچنا ہمارا وتیرہ ہے۔ پھر بھی دعویٰ ہے کہ دنیا بھر سے افضل ہیں۔ نجانے وہ کون سا سرخاب کا پر لگا ہے جس کی وجہ سے ارفع و اعلیٰ بنے پھرتے ہیں۔
پھر عرض ہے کہ جب بھی بیرون ملک جاتا ہوں، میرا فشار خون بڑھ جاتا ہے، ذہنی الجھنوں میں اضافہ ہوجاتا ہے، کیونکہ ہر قسم کے قدرتی اور انسانی وسائل رکھنے کے باوجود ہم صرف اس لیے غریب ہیں کہ ہم اپنے حکمرانوں کے انتخاب میں غیر سنجیدہ ہیں۔ ہم کہیں برادری کے نام پر، کہیں قبائلی اور نسلی ولسانی شناخت کی بنیاد پر نااہلوں کو اپنے سروں پر خود ہی مسلط کرلیتے ہیں۔ پھر دہائیاں دیتے پھرتے ہیں۔ الطاف حسین حالی نے کیا خوب کہا ہے کہ خدا اس قوم کی حالت کبھی نہیں بدلتا، نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا۔