کابل میں خودکش دھماکا 30 افراد ہلاک
دھماکا اتنا شدید تھا کہ آس پاس کی عمارتیں بھی لرز اٹھیں اور دھماکے کی آواز دور تک سنی گئی، مقامی میڈیا
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں نجی کمپنی کے دفتر کے باہر خودکش کار بم دھماکے کے نتیجے میں 30 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق کابل کے علاقے گلئی دواخانہ میں خودکش بمبار نے بارودی مواد سے بھری گاڑی نجی کمپنی کے دفتر کے باہر دھماکا خیز مواد سے اڑا دی جس کے نتیجے میں کم از کم 30 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے، دھماکے کے بعد ریسکیو اہلکاروں نے زخمیوں کو فوری طور پر قریبی اسپتال میں منتقل کیا جہاں انہیں طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے جب کہ پولیس اور سیکیورٹی اداروں نے دھماکے کی جگہ کو گھیرے میں لیکر شواہد اکھٹے کر کے تفتیش شروع کر دی ہے۔
افغان میڈیا کے مطابق بم دھماکا اتنا شدید تھا کہ اس کی آواز دور تک سنی گئی اور آس پاس کی عمارتیں لرز اٹھیں جب کہ دھماکے کا نشانا بننے والی نجی کمپنی کے سی ای او محمد محقق کی رہائش گاہ بھی دھماکے سے قریب بتائی جاتی ہے۔
افغان سیکیورٹی کے اداروں کا کہنا ہے کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق کار بم دھماکا خود کش تھا تاہم اس میں استعمال ہونے والے بارودی مواد کی مقدار کے بارے میں جاننے کے لیے مزید تحقیقات کی جا رہی ہیں جب کہ اب تک کسی بھی تنظیم نے دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق کابل کے علاقے گلئی دواخانہ میں خودکش بمبار نے بارودی مواد سے بھری گاڑی نجی کمپنی کے دفتر کے باہر دھماکا خیز مواد سے اڑا دی جس کے نتیجے میں کم از کم 30 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے، دھماکے کے بعد ریسکیو اہلکاروں نے زخمیوں کو فوری طور پر قریبی اسپتال میں منتقل کیا جہاں انہیں طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے جب کہ پولیس اور سیکیورٹی اداروں نے دھماکے کی جگہ کو گھیرے میں لیکر شواہد اکھٹے کر کے تفتیش شروع کر دی ہے۔
افغان میڈیا کے مطابق بم دھماکا اتنا شدید تھا کہ اس کی آواز دور تک سنی گئی اور آس پاس کی عمارتیں لرز اٹھیں جب کہ دھماکے کا نشانا بننے والی نجی کمپنی کے سی ای او محمد محقق کی رہائش گاہ بھی دھماکے سے قریب بتائی جاتی ہے۔
افغان سیکیورٹی کے اداروں کا کہنا ہے کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق کار بم دھماکا خود کش تھا تاہم اس میں استعمال ہونے والے بارودی مواد کی مقدار کے بارے میں جاننے کے لیے مزید تحقیقات کی جا رہی ہیں جب کہ اب تک کسی بھی تنظیم نے دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔