لاہورخودکش حملے میں 9 پولیس اہلکاروں سمیت 26 افراد شہید 52 زخمی
دھماکے میں پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا، ڈی آئی جی آپریشنز حیدر اشرف
فیروزپور روڈ پر ارفع کریم ٹاور کے قریب خودکش دھماکے کے نتیجے میں 9 پولیس اہلکاروں سمیت 26 افراد شہید اور 52 سے زائد زخمی ہوگئے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق لاہور میں فیروزپور روڈ پر ارفع کریم ٹاور کے قریب سبزی منڈی کے باہر دھماکا ہوا جس کے نتیجے میں 26 افراد شہید اور 52 سے زائد زخمی ہوگئے۔ امدادی کارکنوں نے زخمیوں کو اسپتال منتقل کردیا جن میں سے 20 کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے جس کی وجہ سے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔
جاں بحق ہونے والے پولیس اہلکاروں میں سب انسپکٹر ریاض، اے ایس آئی فیاض، کانسٹیبل علی، معظم، ساجد، عابد اور مرتضی شامل ہیں جب کہ حملے میں اے ایس آئی فیاض کی گاڑی مکمل طور پر تباہ ہوگئی۔ زخمی پولیس اہلکار اور عینی شاہدین کے مطابق پولیس ناکے کے قریب ایک موٹرسائیکل آکر رکی جس کے بعد زوردار دھماکا ہوگیا اور وہاں کھڑی گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں میں آگ لگ گئی۔
موٹرسائیکل کے مالک کا سراغ لگالیا گیا ہے جس کا ماڈل 2017 کا ہے جو لاہور کے رہائشی عثمان علی کے نام پر رجسٹرڈ ہے۔ حکام نے یہ شبہ بھی ظاہر کیا ہے کہ جائے وقوعہ پر کھڑی ہنڈا سوک میں بارودی مواد رکھا گیا تھا جسے دھماکے سے اڑادیا گیا۔
ڈی آئی جی آپریشنز حیدر اشرف نے کہا کہ یہ دھماکا خودکش تھا جس میں پولیس کو نشانہ بنایا گیا، حملے میں 9 اہلکار اور 17 عام شہری شہید ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ ترقی کی وجہ سے لاہور ہمیشہ دہشت گردوں کے نشانے پر رہا ہے اور حملوں کا پہلے سے خطرہ تھا، تجاوزات کے خلاف آپریشن کرنے والی ٹیم کی حفاظت پر پولیس تعینات تھی۔
سیکیورٹی اداروں نے جائے وقوعہ کو گھیرے میں لے کر سرچ آپریشن شروع کرتے ہوئے متعدد افراد کو حراست میں لے لیا جب کہ پاک فوج کے دستے بھی جائے وقوعہ پر پہنچ گئے۔ بم ڈسپوزل اسکواڈ اور فارنسک ماہرین نے موقع پر پہنچ کر تحقیقات شروع کردی ہیں۔ حملے میں 8 سے 10 کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا۔
ترجمان پنجاب حکومت نے بتایا کہ واقعے کے وقت علاقے میں پولیس اور مقامی انتظامیہ تجاوزات کے خلاف آپریشن میں مصروف تھی جب کہ ارفع کریم ٹاور کے قریب پرانی عمارتوں کو بھی گرایا جارہا تھا۔
وزیراعظم نوازشریف نے دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے قیمتی جانوں کے ضیاع پر دکھ اورافسوس کا اظہار کیا۔ وزیراعظم نے جاں بحق افراد کے لواحقین سے تعزیت کے ساتھ زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لئے دعا بھی کی۔
آئی ایس پی آر کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے لاہور دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے شہید افراد کے لواحقین سے تعزیت کی ۔ آرمی چیف نے پاک فوج کے دستوں کو فوری امدادی سرگرمیوں کی ہدایت بھی کی ۔
وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے پولیس حکام سے واقعے کی رپورٹ طلب کر لی۔ وزیراعلیٰ نے متعلقہ حکام کو دھماکے کی جگہ پر امدادی سرگرمیاں تیز کرنے اور زخمیوں کو علاج معالجے کی بہترین سہولتیں فراہم کرنے کی ہدایت کی۔
وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بھی لاہور دھماکے کے باعث آج اپنی اہم سیاسی پریس کانفرنس ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ واقعے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نشانہ بنایا گیا۔
صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کیخلاف 90 فیصد کامیابی حاصل کرلی ہے، دھماکا کرکے دہشت گرد خوف و ہراس پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں، کوئی نئی تنظیم ملک میں پنجے نہیں گاڑھ رہی بلکہ دہشت گرد نام بدل بدل کر کارروائیاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی طالبان کبھی جماعت الاحرار کبھی لشکر جھنگوی کا نام استعمال کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ چند روز قبل محکمہ داخلہ پنجاب نے دہشتگردی کا خدشہ ظاہر کیا تھا جس کے بعد شہر بھر میں سیکیورٹی ہائی الرٹ تھی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق لاہور میں فیروزپور روڈ پر ارفع کریم ٹاور کے قریب سبزی منڈی کے باہر دھماکا ہوا جس کے نتیجے میں 26 افراد شہید اور 52 سے زائد زخمی ہوگئے۔ امدادی کارکنوں نے زخمیوں کو اسپتال منتقل کردیا جن میں سے 20 کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے جس کی وجہ سے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔
جاں بحق ہونے والے پولیس اہلکاروں میں سب انسپکٹر ریاض، اے ایس آئی فیاض، کانسٹیبل علی، معظم، ساجد، عابد اور مرتضی شامل ہیں جب کہ حملے میں اے ایس آئی فیاض کی گاڑی مکمل طور پر تباہ ہوگئی۔ زخمی پولیس اہلکار اور عینی شاہدین کے مطابق پولیس ناکے کے قریب ایک موٹرسائیکل آکر رکی جس کے بعد زوردار دھماکا ہوگیا اور وہاں کھڑی گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں میں آگ لگ گئی۔
موٹرسائیکل کے مالک کا سراغ لگالیا گیا ہے جس کا ماڈل 2017 کا ہے جو لاہور کے رہائشی عثمان علی کے نام پر رجسٹرڈ ہے۔ حکام نے یہ شبہ بھی ظاہر کیا ہے کہ جائے وقوعہ پر کھڑی ہنڈا سوک میں بارودی مواد رکھا گیا تھا جسے دھماکے سے اڑادیا گیا۔
ڈی آئی جی آپریشنز حیدر اشرف نے کہا کہ یہ دھماکا خودکش تھا جس میں پولیس کو نشانہ بنایا گیا، حملے میں 9 اہلکار اور 17 عام شہری شہید ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ ترقی کی وجہ سے لاہور ہمیشہ دہشت گردوں کے نشانے پر رہا ہے اور حملوں کا پہلے سے خطرہ تھا، تجاوزات کے خلاف آپریشن کرنے والی ٹیم کی حفاظت پر پولیس تعینات تھی۔
سیکیورٹی اداروں نے جائے وقوعہ کو گھیرے میں لے کر سرچ آپریشن شروع کرتے ہوئے متعدد افراد کو حراست میں لے لیا جب کہ پاک فوج کے دستے بھی جائے وقوعہ پر پہنچ گئے۔ بم ڈسپوزل اسکواڈ اور فارنسک ماہرین نے موقع پر پہنچ کر تحقیقات شروع کردی ہیں۔ حملے میں 8 سے 10 کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا۔
ترجمان پنجاب حکومت نے بتایا کہ واقعے کے وقت علاقے میں پولیس اور مقامی انتظامیہ تجاوزات کے خلاف آپریشن میں مصروف تھی جب کہ ارفع کریم ٹاور کے قریب پرانی عمارتوں کو بھی گرایا جارہا تھا۔
وزیراعظم نوازشریف نے دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے قیمتی جانوں کے ضیاع پر دکھ اورافسوس کا اظہار کیا۔ وزیراعظم نے جاں بحق افراد کے لواحقین سے تعزیت کے ساتھ زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لئے دعا بھی کی۔
آئی ایس پی آر کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے لاہور دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے شہید افراد کے لواحقین سے تعزیت کی ۔ آرمی چیف نے پاک فوج کے دستوں کو فوری امدادی سرگرمیوں کی ہدایت بھی کی ۔
وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے پولیس حکام سے واقعے کی رپورٹ طلب کر لی۔ وزیراعلیٰ نے متعلقہ حکام کو دھماکے کی جگہ پر امدادی سرگرمیاں تیز کرنے اور زخمیوں کو علاج معالجے کی بہترین سہولتیں فراہم کرنے کی ہدایت کی۔
وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بھی لاہور دھماکے کے باعث آج اپنی اہم سیاسی پریس کانفرنس ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ واقعے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نشانہ بنایا گیا۔
صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کیخلاف 90 فیصد کامیابی حاصل کرلی ہے، دھماکا کرکے دہشت گرد خوف و ہراس پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں، کوئی نئی تنظیم ملک میں پنجے نہیں گاڑھ رہی بلکہ دہشت گرد نام بدل بدل کر کارروائیاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی طالبان کبھی جماعت الاحرار کبھی لشکر جھنگوی کا نام استعمال کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ چند روز قبل محکمہ داخلہ پنجاب نے دہشتگردی کا خدشہ ظاہر کیا تھا جس کے بعد شہر بھر میں سیکیورٹی ہائی الرٹ تھی۔