جمہوریہ مالی۔۔۔۔۔ یورینیم اور سونے کی سرزمین

فرانس اور عالمی طاقتوں کی باغیوں کے خلاف مدد یا وسائل پر قبضہ کرنے کا منصوبہ


Ateeq Ahmed Azmi/Basheer Wasiq February 10, 2013
فوٹو : فائل

صحارا دنیا کا سب سے بڑا ریگستان ہے ،جس کا رقبہ نوے لاکھ مربع کلومیٹر یعنی پاکستان کے کل رقبے سے گیارہ گنا سے بھی زائد ہے۔

اس صحرا میں سفر کی مشکلات اور ہولناکیوں کی داستانیں قدیم تاریخ کا حصہ ہیں، سوچنے والی بات یہ ہے کہ پرانے زمانے کے لوگ آخر اس خوفناک لق و دق صحرا کا سفر کیوں کرتے تھے۔ مالی،سونغائی اور گھانا وہ سلطنتیں تھیں جن کی خوشحالی اور دولت مندی کے چرچے تاجروں کو ادھر کا رخ کرنے پر مجبور کر دیتے تھے اور وہ صحارا جیسے خوفناک صحرا کو بھی خاطر میں نہ لاتے تھے۔ بدقسمتی سے افریقہ کے ان ممالک کے حالات اب پہلے جیسے نہیں رہے اوران کا شمار دنیا کے غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ بالخصوص جمہوریہ مالی سالہا سال سے معاشی بد حالی کا شکار ہے اور خشک سالی اور قحط کی وجہ سے ہزاروں افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں،اوپر سے شمالی حصے میں ہونے والی بغاوت نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے۔

مالی ، گھانا اور سونغائی تینوں صحارین سلطنتوں کی سرحدیں دور دور تک پھیلی ہوئی تھیں ۔ ان میں سب سے پہلے گھانا سلطنت وجود میں آئی جس کی بنیاد سوننکے نسل کے قبیلہ نے رکھی، یہ سلطنت آٹھویں صدی سے گیارہویں صدی تک موجود رہی پھر اسے الموراویدز نے فتح کر لیا، یوں ایک نئی سلطنت مالی کی ابتدا ہوئی جس کو صحیح معنوں میں عروج چودھویں صدی میں حاصل ہوا ،اس دور میں تاریخی شہر ٹمبکٹو اور جنہ کو تجارت اور اسلامی علوم کے مرکز کی حیثیت حاصل تھی، سلطنت کا زوال اس وقت شروع ہوا جب 1591ء میں مراکو نے اس پر حملہ کر دیا،جنگ سے ملک کا نظم ونسق تباہ و برباد ہو گیا اور خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہو گئی جس کی وجہ سے تاجروں نے یہاں سے گزرنے والے تجارتی راستوں کو استعمال کرنا چھوڑ دیا، یورپی ممالک نے افریقی ممالک سے تجارت کے لئے بحری راستے دریافت کر لئے۔

یوں یہ علاقے تجارت کا مرکز نہ رہے۔17ویں صدی میں یہاں زبردست قحط پڑا ،خشک سالی اور ٹڈی دل کی وجہ سے فصلیں برباد ہو گئیں اور ٹمبکٹو کی آدھی سے زیادہ آبادی موت کے منہ میں چلی گئی، صورتحال اتنی خوفناک تھی کہ بہت سے لوگوں نے اپنی جان بچانے کے لئے خود کو فروخت کر کے ہمیشہ کی غلامی قبول کرلی۔19ویں صدی میں فرانس نے اس علاقے میں اپنے قدم جمانا شروع کر دئیے اور فرانسیسی سوڈان کے نام سے کالونی قائم کی۔ یہ فرانسیسی کالونی 1890ء سے1899ء تک قائم رہی، اس کے بعد وہاں کے حالات میں تیزی سے تبدیلیاں آئیں اور کالونی کی حیثیت وہ نہ رہی اور یہ مختلف حصوں یا صوبوں فرانسیسی گنی، آئیوری کوسٹ ، دوہامبے، نائیجیر اور سینیگال میں تقسیم ہو گئی ،یہ حالات 1958میں ہونے والے فرانسیسی آئینی ریفرنڈم تک قائم رہے۔



ریفرنڈم کے بعد فرانسیسی سوڈان اور سینیگال کو ملا کر مالی فیڈریشن بنا دی گئی اور فرانس اس کی سرپرستی کر رہا تھا ، فیڈریشن نے20جون 1960ء میں فرانس سے آزادی حاصل کی ۔22ستمبر 1960ء کوسینیگا ل کی فیڈریشن سے علیحدگی کی وجہ سے آزاد ریاست جمہوریہ مالی کا قیام عمل میں آیا، مودیبو کیٹا اس کے پہلے صدر منتخب ہوئے تھے۔ مودیبو نے ملک میں ون پارٹی کی حکمرانی کو رواج دیا اور وسائل کو قومیانے کی پالیسی پر سختی سے عمل کیا ، مگر اس سے ملک کے مسائل حل نہ ہو سکے اور معاشی بدحالی کی وجہ سے حالات خراب ہوتے چلے گئے اور 19نومبر1968ء کوفوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا،اس خانہ جنگی میں سیکڑوں افراد ہلاک ہوئے،عوام کو چونکہ زبردستی مسلط کی گئی ون پارٹی حکومت سے نجات ملی تھی اس لئے اس دن کو لبریشن ڈے کے طور پر منایا جانے لگا۔ بدقسمتی سے 1968ء سے 1974ء تک بدترین خشک سالی نے ملک کو نرغے میں لئے رکھا جس میں ہزاروں افراد ہلاک ہو گئے اور حکومت کی طرف سے معاشی بحالی کے لئے کی جانے والی تمام کوششیں رائیگاں گئیں۔ 1979ء میں ملک میں الیکشن کرائے گئے تاکہ جمہوریت کا ڈول ڈالا جا سکے مگر ون پارٹی الیکشن ہونے کی وجہ سے اسے جمہوری الیکشن نہیں کہا سکتا ۔

یوں جنرل موسیٰ طورے اپنے'' زور بازو'' سے صدر بن گئے ۔ جنرل موسیٰ کی خواہش تھی کہ ملک کو معاشی طور پر مضبوط کیا جائے مگر ملک میں سیاسی عدم استحکام سب سے بڑی رکاوٹ بنا رہا ، الیکشن میں دھاندلی کی وجہ سے صدر موسیٰ طورے کے خلاف طلبہ تنظیموں نے بھرپور احتجاجی ریلیاں نکالیں،1980ء تک ان کی حکومت کا تین مرتبہ تختہ الٹنے کی کوشش کی گئی مگر فوج نے ہر قسم کی شورش کو دبا دیا ، اس کے بعد تھوڑا سیاسی استحکام ہوا تو حکومت نے پھر سے معاشی اصلاحات کیں مگر انھیں عوام میں زیادہ پذیرائی نہ مل سکی۔1985ء میںصدر طورے نے ایک اور غلط اقدام کیا اور آئین میں تبدیلی کر کے خود کو تاحیات صدر منتخب کرا لیا۔ عوام ملک میں آمریت کا خاتمہ اور جمہوریت کی بحالی چاہتے تھے، صدر طورے نے سیاسی جماعتوں کو محدود آزادی دی مگر انھوں نے اسے بھی قبو ل نہ کیا۔1990ء میں آمرانہ حکومت کے خلاف منظم سیاسی جد وجہد شروع ہوئی ، سیاسی کشیدگی کے اس دور میں نسلی فسادات شروع ہوئے۔

ملک میں وسیع پیمانے پر احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں، خاص طور پر بماکو میں طلباء تنظیموں نے بڑے منظم انداز میںاحتجاج کیا جس کی تاجر اور دیگر تنظیموں نے بھی حمایت کی ، پرامن احتجاج کو دبانے کے لئے ریلی پر فائرنگ کر دی گئی جس میں 300سے زائد افراد مارے گئے۔ اس کے بعد ملک بھر میں فسادات پھوٹ پڑے ، جنرل طورے نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی،مگر احتجاج کرنے والوں کو کو ئی نہ روک سکا اور ملک بھر میں احتجاجی ریلیاں نکالی جاتی رہیں،1991میںایک مرتبہ ایسی ہی ایک احتجاجی ریلی پر فوجیوں کو گولیاں چلانے کا حکم دیا گیا تو انھوں نے گولی چلانے سے انکار کر دیا جس کے بعد ملک کے دیگر حصوں میں بھی فوجیوں نے ہتھیار پھینک دیئے اور فوجی بغاوت ہو گئی،کرنل امادو تومانی نے صدر موسیٰ طورے کو گرفتار کر لیا اور ایک سال کے لئے عبوری حکومت قائم کی اور ملک میں امن قائم کرنے کے بعد الیکشن کرانے کا اعلان کردیا ۔1992ء میں منعقد ہونے والے الیکشن میں ڈاکٹر الفا عمر ریپبلک مالی کے پہلے جمہوری صدرمنتخب ہوئے۔

اس کے بعد 1997ء میں دوسرے الیکشن میں بھی انھی کی پارٹی کو کامیابی حاصل ہوئی۔ اس کے بعد سابق جنرل امادو تومانی جو فوج سے ریٹائر ہونے کے بعد سیاسی زندگی کا آغاز کر چکے تھے' نے 2002ء کے الیکشن میں حصہ لیا اورکامیابی حاصل کی،اس کے بعد 2007ء کے الیکشن میں بھی انھوں نے حصہ لیا اور ایک مرتبہ پھر صدر کے عہدے کے لئے منتخب کئے گئے، اس جمہوری دور میں مالی کو سیاسی اورمعاشی استحکام حاصل ہوا۔

مالی کا شمالی علاقہ جسے ازاوادکہتے ہیں، وہاں تورگ قبیلہ آباد ہے، ہمیشہ سے سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا ہے۔ تورگ قبیلہ مالی، نائیجیر،الجزائر اور لیبیا میں بکھرا ہوا ہے۔ مالی میں اس قبیلے کی آبادی تقریباًآٹھ لاکھ کے قریب ہے،جب سے مالی نے آزادی حاصل کی ہے اس علاقے میں کئی مرتبہ بغاوت ہو چکی ہے۔آزادی پسندوں کی یہ تحریک این ایل ایم اے کہلاتی ہے۔ اسی تحریک کے پلیٹ فارم سے علیحدہ ریاست کے قیام کے لئے کوششیں کی جاتی رہیں ۔

2012ء میں شمالی مالی میں شورش کو دبانے کے لئے بھیجے گئے فوجیوں کے ایک گروہ نے بغاوت کردی اور ایک فوجی افسر کرنل امادو سانوگو نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور موقف یہ اختیار کیا کہ حکومت بغاوت سے نمٹنے میں ناکام رہی تھی اس لئے امن و امان قائم کرنے کے لئے ایسا کیا گیا ۔کرنل امادو نے شمالی علاقوں میں امن قائم کرنے اور صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لئے''نیشنل کمیٹی برائے ری اسٹوریشن آف ڈیمو کریسی اینڈ اسٹیٹ بنائی گئی جس کے بعد جمہوری صدر امادو تومانی نے استعفٰی دے دیا اور سینیگال میں جلا وطنی اختیار کر لی، اس کے بعد کرنل امادو سانوگو نے بھی اپنے اختیارات کمیٹی کو منتقل کر دئیے اورقومی اسمبلی کے سپیکر دینکونڈا طورے کو عبوری صدر مقر ر کر دیا۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مالی میں شورش اور بغاوتیں تو بہت مرتبہ ہوئی ہیں ، اب امریکہ ، فرانس اور دیگر ممالک کو مالی کے استحکام کا یک دم خیال کیسے آگیا ہے، اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یوں لگتا ہے جیسے عراق ، افغانستان اور لیبیا کے بعد جنگ کے لئے اب اس خطے کی باری ہے جس کی وجہ بظاہر تو دہشت گردی کے خلاف جنگ بتائی جارہی ہے مگر اصل میں وہاں کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لئے یہ سب کیا جا رہا ہے کیونکہ یہ خطہ تیل ،سونے،یورینیم، تانبے اور دیگر معدنیا ت سے مالامال ہے، دنیا کو دکھانے کے لئے ڈھونڈورا پیٹا جا رہا ہے کہ مالی میں دہشت گردوں نے قبضہ کر لیا ہے۔

مالی کے وسائل
مالی براعظم افریقہ کے مغرب میں واقع ہے،جس کی 90فیصد آبادی مسلم اکثریت پر مشتمل ہے۔ اس کے شمال میںالجیریا، مشرق میں نائیجیریا،برکینا فاسو ،جنوب میں آئیوری کوسٹ،جنوب مغرب میں گنی، مغرب میں سینیگال اور موریطانیہ واقع ہیں،شمال میں اس کی سرحدیں دنیا کے سب سے بڑے ریگستان صحارا تک پہنچتی ہیں جو کسی دور میں سلطنت مالی کا حصہ تھا۔ جمہوریہ مالی کا رقبہ 12لاکھ چالیس ہزار مربع کلومیٹر ہے جبکہ آبادی صرف ایک کروڑ چالیس لاکھ ہے، رقبے کے لحاظ سے افریقہ کا ساتواں اوردنیا میں اس کا نمبر چوبیسواں ہے۔

انتظامی حوالے سے ملک کو آٹھ صوبوں میں تقسیم کیا گیا ہے،جن کے نام بماکو، گوا، کیاس، کڈل، کولیکورو، موپتی، سیکاسو،سیگو اور ٹمبکٹو ہیں،ان میں سے ٹمبکٹو،گوا اور کڈل میں بغاوت کی لہر چل رہی ہے۔ تعلیمی حوالے سے مالی کی صورتحال کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں، ایک اندازے کے مطابق مالی میں تعلیم کی شرح 30سے45فیصد کے درمیان ہے ، ملک میں صرف چار یونیورسٹیاں ہیں ،بماکو اور ٹمبکٹو یونیورسٹی میں ہر سال بیس سے پچیس ہزار طالبعلم داخلہ لیتے ہیں ۔ صحارا زون میں ہونے کی وجہ سے موسم گرم اور خشک ہے جس کی وجہ سے خشک سالی کا سامنا رہتا ہے۔ملک کا 65فیصدرقبہ صحرائی یا نیم صحرائی علاقوں پر مشتمل ہے، صرف دریائے نائیجیر کے اطراف میں موجود علاقوں میں کپاس کاشت کی جاتی ہے، ملک کی 80فیصد آبادی ماہی گیری سے وابستہ ہے اور آبادی کا بیشتر حصہ جنوبی علاقے میں رہتا ہے۔ملک کا دار الحکومت بماکو ہے جو دریائے نائیجر کے کنارے واقع ہے۔لسانی بنیادوں پر جائزہ لیا جائے تومالی میں پانچ نمایاں گروہ بستے ہیں جن میں میندین50فیصد، فولا 17 فیصد، وولٹیک 12 فیصد، توراگ 10فیصد،سونغائی6فیصداور متفرق زبانیں بولنے والے پانچ فیصد ہیں۔

مالی کی زیادہ اہمیت وہاں کی سرزمین میں چھپے ہوئے معدنیات کے خزانوں کی وجہ سے ہے،یہاں پر سونا ،یورینیم، فاسفیٹ ، نمک اور لائم سٹون وسیع مقدار میں موجود ہے، مگر ملک میں سیاسی عدم استحکام اور خانہ جنگی کی وجہ سے کسی بھی دور حکومت میں ان وسائل سے فائدہ نہ اٹھایا جا سکا اور سونے اور یورینیم جیسی قیمتی معدنیا ت کی سرزمین ہمیشہ معاشی بدحالی کا شکا ر رہی۔ نصف سے زائد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور یومیہ فی کس آمدنی 1.25ڈالر سے بھی کم ہے۔ اسی وجہ سے غلامی جیسی لعنت اب بھی مالی کو اپنے شکنجے میں لئے ہوئے ہے ، ایک اندازے کے مطابق اب بھی 2لاکھ سے زائد افراد غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

قدیم تاریخی شہرٹمبکٹو کے قصے
مالی کا تاریخی شہر ٹمبکٹو اور جنہ پوری دنیا میں مشہور ہیں خاص طور پر ٹمبکٹو تو محاورے کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا اگر کوئی سفر کے لئے خاص طور پر تیار ہو تا تھا تو اسے کہا جاتا تھا ''بڑی تیاری ہے کہیں ٹمبکٹو تو نہیں جا رہے''کیونکہ یہ تاریخی شہر مشہور تو بہت تھا مگر دور افتادہ علاقہ ہونے کی سے وہاں جانے والے خاص طور پر تیاری کر کے جاتے تھے کیونکہ وہاں پہنچنے کے لئے صحارا جیسے خوفناک صحرا سے گزرنا پڑتا تھا جس کے لئے خصوصی تیاری کرنا پڑتی تھی،ٹمبکٹو کے معنی ڈکشنری میں دیکھے جائیں تو وہ بھی دور افتادہ اور دشوار گزار کے ہیں ۔

یہ شہر 12ویں صدی میں طوارق قوم نے بسایا تھا ،تجارتی قافلوں کی گزرگاہ ہونے کی وجہ سے اس شہر نے خوب ترقی کی،اس علاقے میں سونے کے حوالے سے قصے مشہور ہونے کی وجہ سے دوسرے ممالک کے بہت سے مہمم جو افراد نے یہاں پر پہنچنے کی کوشش کی مگر صحارا کی وسعتوں کو بہت کم لوگ پار کر سکے ، صرف وہی تجارتی قافلے وہاں پہنچتے تھے جو ان راستوں پر صدیوں سے سفر کر رہے تھے اور انھیں راستے کی صعوبتوں کا پوری طرح علم ہوتا تھا ۔ٹمبکٹو وسطی افریقہ میں اسلامی تہذیب کا مرکز رہا ہے ، یہاں پر جامعہ سان کوری کے نام سے ایک دینی درسگاہ قائم تھی جہاں دور درازسے طلبہ حصول علم کے لئے آیا کرتے تھے، یہاں پر 60کتب خانوں میں سات لاکھ سے زائدقدیم نادرکتابیں موجود ہیں ۔دیگر تاریخی عمارات بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں ، ٹمبکٹو کی تاریخی حیثیت کی وجہ سے یونیسکو نے اسے عالمی ورثہ قرار دے رکھا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں