افریقی ریاست میں فوجی آپریشن کب‘ کیسے اور کیوں کیا گیا
گذشتہ 23سال کی فوجی آمریت کے بعد1992میں یہاں جمہوریت قائم ہوئی.
February 10, 2013
مغربی افریقہ کا ملک جمہوریہ مالی شدید بے چینی کا شکار ہے۔
گذشتہ 23سال کی فوجی آمریت کے بعد1992میں یہاں جمہوریت قائم ہوئی، لیکن شمال میں واقع ''ازاواد'' کے علاقے میں ''توراگ'' قبیلے کی خودمختاری کی تحریک اور پھر اسلام پسند قوتوں اور مالی کی فوج کے مابین جنگ کہ وجہ سے شمالی علاقہ ایک مرتبہ پھر بدامنی کا شکار ہوگیا ہے۔ اس تمام صورت حال کا ایک منفی پہلو یہ بھی سامنے آیا ہے کہ1960میں فرانسیسی استعمار سے آزادی حاصل کرنے والے اس ملک کو بہ ظاہر باغیوں کی کارروائیوں سے بچانے کے لیے ایک مرتبہ پھر فرانسیسی فوج نے اپنے ڈیرے مالی میں ڈال دیے ہیں۔
اس مقصد کے لیے فرانسیسی فوج نے مالی کے شمالی علاقے میں باغیوں پر حملہ کرکے ان کے بہت سے ٹھکانوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ مسئلے کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس جنگی بحران پر غور کرنے کے لیے مغربی افریقہ کے ملکوں کی تنظیم ''ایکواس'' (Ecowas) Economic Community of West African Statesبھی سرگرم عمل ہوچکی ہے اور اس حوالے سے ایکواس کے متعدد اجلاس ہوئے، جن میں عسکریت پسندوں کے ساتھ لڑی جانے والی اس جنگ میں مغربی افریقہ کے ممالک کے کردار کے حوالے سے بحث و مباحثہ کیا گیا۔
آئیوری کوسٹ کے شہر ''آبیدجان'' میں ہونے والے ایک اجلاس میں فرانس کے وزیر خارجہ ''لاراں فابیوس'' نے اقوام متحدہ کی سیکیوریٹی کونسل کی قرارداد نمبر 2085کی روشنی میں ''بین الااقوامی امدادی مشن برائے مالی (مالی انٹرنیشنل مشن فار اسسٹنس) (MIMSA)'' کے معاہدے پر عمل درآمد تیز کرنے کی کوششوں پر زور دیا۔ واضح رہے اس معاہدے کے تحت فرانس کے ڈھائی ہزار فوجیوں کے ساتھ مغربی افریقی ممالک کے تین ہزار فوجی بھی اس مشن میں ان کے ساتھ ہیں۔ تاہم یہ ایک پیچیدہ اور حساس معاملہ بنتا جارہا ہے، کیوں کہ افریقی ممالک کی حکومتیں اور عوام خطے کی ماضی کی سیاسی اور عسکری صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے مالی میں فرانسیسی فوجیوں کی آمد کو غیرملکی افواج کی مداخلت کا راستہ کھولنے کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔
اگرچہ امریکا نے اس حوالے سے اپنی پالیسی واضح نہیں کی ہے، تاہم امریکی اخبار لاس اینجلس ٹائمز کا کہنا ہے کہ وائٹ ہاؤس اور امریکی وزارت دفاع دیگر یورپی ممالک کی طرح اس بات پر یکسو ہیں کہ مالی کے شمالی علاقوں میں برسرپیکار اسلام پرست تنظیموں کو القاعدہ کی حمایت حاصل ہے۔ لیکن وہ ابھی یہ فیصلہ نہیں کرسکے ہیں کہ یہ تنظیمیں کس حد تک مقامی سطح پر امریکا کے مفادات کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں۔ امریکا نے اس فوجی پیش قدمی کے دوران مالی کے شمالی علاقوں میں فرانسیسی فوجیوں کی مدد کے لیے جدید برقی مواصلات کا جال بچھا دیا۔ اس کے علاوہ برطانیہ نے اپنے دو مال بردار C17طیارے فرانس کی فوج کو امدادی سامان کی ترسیل کے لیے فراہم کیے جب کہ بلجیم اور ڈنمارک نے بھی اسی قسم کی فضائی مدد فراہم کی۔
مالی کے شمال میں واقع قدامت پسند توراگ قبائل اور اسلامی ملیشیا کے خلاف کارروائی کی آڑ میں مالی کی فوج کے کیپٹن ''امادو سانوگو'' نے 21مارچ2012کو صدر ''امادو تومانی طورے'' کی منتخب جمہوری حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے صدارتی محل پر قبضہ کرنے کے بعد ان کے تمام اختیارات معطل کردیے تھے اور 72گھنٹے میں عسکریت پسندوں کی شورش ختم کردینے کا دعویٰ کیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ وہ دوبارہ جمہوری حکومت ، ادارے اور آئین بحال کردیں گے۔ تاہم وہ اس میں بری طرح ناکام رہے۔ نتیجتاً فرانسیسی اور دیگر افریقی اور یورپی افواج نے مالی میں آپریشن شروع کر دیا۔ واضح رہے کہ یہ فوجی قبضہ عام انتخابات سے چند ماہ قبل کیا گیا، معطل صدر امادوتومانی طورے نے29اپریل 2012کو مالی میں عام انتخابات کا اعلان کیا تھا۔
دوسری جانب اسلامی سربراہ کانفرنس (OIC)نے فرانسیسی فوج کی قیادت میں حملے کی مذمت کرتے ہوئے حملوں کو روکنے پر زور دیا۔ تاہم، محض ایک دن بعد تنظیم کے سربراہ ''اکمل الدین احسان اوغلو'' نے فرانسیسی فوج پر اعتماد کرتے ہوئے مغربی افریقہ کے رکن ممالک کو اس بات کی اجازت دے دی کہ جمہوریہ مالی کے قومی اتحاد، سالمیت اور یکجہتی کے لیے یہ حملے ناگزیر ہیں۔ OICکی اس حمایت کے بعد فرانسیسی فوج کے سربراہ ''ایڈورڈ گیلاڈ'' نے زمینی حملوں کے ساتھ عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر فضائی حملے بھی شروع کردیے۔
نوراگ قبائل ملک کے شمالی صحرا میں مختلف اسلام پسند گروپوں کے ساتھ مل کر اپنے جداگانہ تشخص اور ثقافت کی پہچان کے لیے 90کی دہائی کی سے جدوجہد کررہے ہیں۔ اس حوالے سے توراگ قبائل نے ''ازاواد '' کے علاقے میں خود مختار ریاست بنانے کا اعلان بھی کیا تھا، جسے عالمی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا، جس کے نتیجے میں توراگ قبائل نے اپنی آزادی کی منظم جدوجہد شروع کردی۔ اس مسلح جدوجہد میں اس وقت2007میں مزید تیزی آگئی جب لیبیا میں خانہ جنگی کے اثرات کے نتیجے میں اس خطے میں ایک سازش کے تحت ہتھیاروں کا انبار لگادیا گیا۔
اس دوران توراگ قبائل نے اکتوبر2011میں ''نیشنل موومنٹ فار لبریشن آف ازاواد''(NMLA) بنانے کا اعلان کردیا اور ایک سال کی چھاپا مار کارروائیوں اور مختلف علاقوں پر قبضہ کرنے کے بعد توراگ قبائل کے عسکریت پسندوں نے شمال میں ''ازاواد'' (Azawad)علاقے کو آزاد مملکت قرار دیتے ہوئے خود کو جمہوریہ مالی سے علیحدہ کرلیا۔ اس اعلان میں، جو 6 اپریل 2012ء کو NMLAکے ترجمان موسیٰ اطہر نے کیا،''کڈال، گائیو اور ٹمبکٹو شہر تک اپنے قبضے کا دعویٰ کیا گیا۔ اعلامیے کے بعد تنظیم کے سیکرٹری جنرل ''بلال اجشرف'' کو ''ازاواد'' کی قومی حکومت کی تشکیل سے پہلے تک ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ تفویض کیا گیا۔ فرانسیسی زبان میں تحریر کیے گئے آزادی کے اس اعلامیے پر تنظیم کے سیکرٹری جنرل بلال اجشرف نے گائیو شہر میں دستخط کیے تھے۔
جمہوریہ مالی کے شمالی خطے میں ابھرنے والے اس تمام صورت حال میں NMLAکو سلفی عقائد کی جماعت ''انصاردین'' اور Movement for Oneness and Jihad in West Africa '' جماعت جہاد و توحید مغربی افریقہ''(MOJWA)کی حمایت حاصل تھی، لیکن سیکولر نظریات کے NMLAکے قائدین کی شدت پسند نظریات کی اسلامی تنظیموں سے نہ نبھ سکی۔ اس کے باوجود 26مئی 2012کو ''جماعت انصاردین'' اور ''MOJWA تنظیم'' کی سرکردگی میں ایک مرتبہ پھر NMLAنے اپنی پیش قدمی ملک کے جنوب میں مرکزی علاقوں تک پھیلا نے کا عندیہ دیا۔ تاہم اختلافات ختم ہونے کے بجائے مزید بڑھنے لگے اور 26جون2012کو ''گائیو'' کے تاریخی شہر میں یہ نظریاتی اختلاف ایک جنگ کی صورت میں سامنے آیا۔ اس جنگ میں اسلام پسندوں نے سیکولر نظریات کی تنظیم NMLAکو شمالی علاقوں سے بے دخل کرکے اپنا جھنڈا لہرادیا۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ 11جنوری2013کو چھے ماہ بعد جب فرانسیسی فوج نے اسلام پسند گروپوں کے خلاف آپریشن شروع کیا توNMLAنے فرانسیسی فوج اور اس کے اتحادیوں کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ اس اعلان کے فوراً بعد ہی مغربی اقوام اور جمہوریہ مالی کی سیکولر حکومت نے ماضی کی دہشت گرد تنظیم NMLAکو فوراً پسندیدہ تنظیم قرار دے دیا۔
شمالی خطے میں جب ایک ایسی آزاد مملکت جو اسلام کے نفاذ کے لیے تشکیل دی گئی تو تمام استعماری قوتیں ہمیشہ کی طرح اس تحریک کو ختم کرنے کے لیے اس کے خلاف کمربستہ ہوگئیں اور جیسے کہ اوپر ذکر آچکا ہے کہ 12اکتوبر2012کو اقوام متحدہ کی سیکیوریٹی کونسل نے مالی کے شمالی علاقے میں واقع توراگ قبائل کی خودمختاری کی جدوجہد کو بزور ختم کرنے کے لیے فوجی کشی کی اجازت دے دی۔ فرانسیسی فوج کی جانب سے کیے جانے والے اس آپریشن کا نام افریقہ کی ایک جنگلی بلی ''سرول'' کے نام پر ''مشن سرول''(Mission Servel)رکھا گیا ہے۔ بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے چوں کہ فوج کشی کے لیے جواز ڈھونڈنا ضروری تھا، چناں چہ توراگ قبائل کے عسکریت پسندوں، MOJWAتنظیم کے جنگ جوئوں اور دیگر اسلامی گروپوں کے القاعدہ سے تعلق کا شوشہ چھوڑا گیا اور مغربی ذرائع ابلاغ نے شور مچانا شروع کردیا کہ جمہوریہ مالی کے شمالی علاقے القاعدہ کے جنگجوئوں کے نئے مرکز بنتے جارہے ہیں، لہٰذا یہاں فوج کشی نہایت ضروری ہے اور چوں کہ مالی کی فوج القاعدہ کے جنگ جوئوں کا مقابلہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی، لہٰذا ایسا صرف اور صرف بیرونی فوجی امداد ہی سے ممکن ہوسکتا ہے، جس کا عملی مظاہرہ رواں برس11جنوری کو فرانسیسی فضائی اور زمینی حملوں کی شکل میںہوا ۔
حملوں کے دوران فرانسیسی فضائیہ نے ابتدائی طور پر گن شپ ہیلی کاپٹر ''گیزیلی''(Gazelle) سے شمال میں ''موپتی ریجن'' میں عسکریت پسندوں کے مضبوط گڑھ ''سیورے''(Sevare) اور ''کونا'' (Konna) پر حملے کیے۔ اس کے علاوہ فرانسیسی فوج کو دو میراجF1 CR طیارے، چھ میراج 2000Dطیارے، تین فضا میں رہتے ہوئے جنگی طیاروں میں تیل کی ری فیولنگ کرنے والے بوئنگ KC-135 Stratotanker طیارے اور مال برداری کے لیے Transall C-160 ملٹری ٹرانسپورٹ ایئر کرافٹ اور ہرکولیس C130 طیاروں کے علاوہ Eurocopterٹائیگر ہیلی کاپٹر کی سہولیات بھی حاصل ہیں۔ ان طیاروں کو مالی کے پڑوس میں واقع چاڈ کے دارالحکومت ''نجامینا'' میں قائم فرانسیسی ائیر بیس میں رکھا گیا، جب کہ 13جنوری 2013کو گائیو شہر پر حملے کے لیے فرانس کے 1/7اسکواڈرن میں شامل Rafaleجیٹ طیارے استعمال کیے گئے۔ ان طیاروں نے حملے کے لیے فرانس کے شمال مغرب میں واقعSaint-Dizier Robinson ایئر بیس سے اڑان بھری تھی۔ اسی طرح 16جنوری کو فرانسیسی فوج نے عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر ڈرون طیاروں سے بھی حملہ کیا۔ اس کے علاوہ زمینی فوج کے لیے پندرہ رجمنٹ کے یونٹس تعینات کیے گئے، جب کہ چار اسپیشل رجمنٹ فورس بھی علاقے میں موجود رہی۔ فرانسیسی بحریہ کی جانب سے سمندر پر گشت کر کے دشمن کی نقل وحمل اور زیرآب ، آب دوزوں کی نشان دہی کرنے والا Breguetایئر کرافٹ سینگال کے شہر ڈکار میں ، جب کہ ہیلی کاپٹربردار گن شپ بحری جہازDixmude آئیوری کوسٹ کے ساحلی شہر ''آبیدجان'' میں جنگ کے لیے تیار رہے۔ ان انتہائی مہلک ہتھیاروں کے علاوہ فرانسیسی اور مالی افواج کو جدید زمینی ہتھیار اور بکتربند گاڑیوں کی سہولیات بھی حاصل ہیں۔
امداد دینے کے نام پر قرض کے چنگل میں جکڑنے والے امدادی پروگراموں نے مالی کو دنیا کا غریب ترین ملک بنادیا ہے اور اب انقلابیوں کو باغیوں کا روپ دے کر IMFکے دوسرے روپ یعنی مغربی افواج نے اپنے قدم جمانا شروع کردیے ہیں، جس کے لیے مغربی ممالک نے حسب دستور مالی کی فوج کو اپنا دست راست بنایا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ فوج کے قبضے اور پیش قدمی کے بعد مغربی افریقہ کے بیشتر ہمسایہ ممالک نے مالی کے ساتھ اپنی سرحدیں بند کر دیں اور فرانسیسی بلاک نے مالی کے اوپر اقتصادی پابندیوں کا بھی شوشہ چھوڑ دیا۔ آپریشن سرول کے دوران عسکریت پسندوں کے خلاف مالی کی فوج کا ساتھ فرانس کے علاوہ بلجیم، کینیڈا، چاڈ، ڈنمارک، جرمنی، نیدرلینڈ، اسپین، برطانیہ اور امریکا نے دیا۔ ان تمام ممالک کی جانب سے مختلف صلاحیتوں کے آٹھ جدید جنگی طیاروں نے بھی حصہ لیا۔ جب کہ ان طیاروں کو حملے کرنے کے لیے الجزائر نے اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دی۔ فرانس ، مالی اوردیگر ممالک کی افواج نے اب تک اکثرعلاقے باغیوں سے واپس لے لئے ہیں جن میں ٹمبکٹو اور کڈال کے علاقے بھی شامل ہیں۔