منشیات اِک زہرِ قاتل
افیون کے نشے کا استعمال آبادی کے تناسب سے 0.4 امریکا اور تعداد کے حوالے سے 85 لاکھ 30 ہزار ایشیائی لوگ کرتے ہیں۔
آج دنیا کو اتنا خطرہ ایٹم بم سے نہیں جتنا منشیات سے ہے۔ یہ وبا اس قدر تیزی سے پھیل رہی ہے کہ اگر اسے روکا نہ گیا تو خطرہ ہے کہ آیندہ چند برسوں میں نشے کے عادی افراد کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوجائے گا۔ سب سے زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ اس سے متاثر ہونے والوں کی غالب اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے، جن پر اقوام عالم کے مستقبل کا دار و مدار ہے۔
دنیا میں اس وقت منشیات کے عادی افراد کی تعداد بیس کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ بھنگ اور اس سے تیار ہونے والی منشیات کا استعمال سب سے زیادہ امریکا میں کیا جاتا ہے جہاں 15 سے 64 سال تک کے 6.2% افراد اس کا نشہ کرتے ہیں، لیکن تعداد کے حوالے سے سب سے زیادہ بھنگ کا استعمال ایشیائی باشندے کرتے ہیں جن کی تعداد سوا پانچ کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس کے بعد کوکین کا نشہ ہے جس کا سب سے زیادہ استعمال امریکا میں کیا جاتا ہے۔
افیون کے نشے کا استعمال آبادی کے تناسب سے 0.4 امریکا اور تعداد کے حوالے سے 85 لاکھ 30 ہزار ایشیائی لوگ کرتے ہیں۔ ہیروئن کے استعمال میں بھی تعداد کے لحاظ سے ایشیا سر فہرست ہے جہاں نصف کروڑ سے زیادہ افراد اس کے نشے میں مبتلا ہیں۔ 15 سے 64 سال کے افراد کی آبادی کے لحاظ سے سب سے زیادہ یعنی 0.6 فی صد یورپی باشندے ہیروئن کے عادی ہیں۔
اس وقت دنیا بھر میں منشیات کی سب سے زیادہ طلب یورپ میں ہے جہاں تقریباً 75 فی صد لوگ ذہنی دباؤ اور دیگر امراض سے عارضی سکون حاصل کرنے کے لیے منشیات کا سہارا لیتے ہیں۔ یورپ کی بلیک مارکیٹس پر ایسی مافیا کا قبضہ ہے جس کا اثرورسوخ حکومتی حلقوں تک ہے۔ دنیا بھر کی منشیات کی تقریباً 80 فی صد پیداوار افغانستان سے حاصل کی جاتی ہے جہاں طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد افیون کی فصل میں حد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ افغانستان ایک مرتبہ پھر افیون کی بین الاقوامی مارکیٹ بن چکا ہے۔
1980 میں افغانستان پوری دنیا کی پیداوار کی 30 فی صد افیون کاشت ہورہی تھی جب کہ اس پیداوار میں اب کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ صرف صوبہ ہلمند میں 70,000 ہیکڑ رقبے پر پوست کی کاشت ہورہی ہے۔ وطن عزیز میں بھی منشیات کا گھناؤنا کاروبار دن بدن زور پکڑتا جارہا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ راتوں رات امیر بننے کی خواہش ہے۔ منشیات سے حاصل کی ہوئی بے پناہ دولت کہاں کہاں خرچ کی جارہی ہے اس کا اندازہ لگانا آسان کام نہیں ہے۔ ایک سروے کے مطابق ہیروئن کے نشے کے عادی افراد کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے جس کے مظاہر سرعام دیکھے جاسکتے ہیں۔ ایک اور تحقیقی رپورٹ کے مطابق تمباکو نوشی کے مسلسل استعمال کے بعد 48 فی صد افراد نے شراب اور 24 فی صد نے انجکشن کے ذریعے نشہ کیا۔ 76 فی صد لوگ وہ ہیں جن کے حلقہ احباب میں نشہ کرنے والے لوگ موجود ہیں۔
پاکستان میں گزشتہ چند سالوں کے دوران خودکشی کا رجحان تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے جوکہ انتہائی تشویش کی بات ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ ہماری صوبائی اور وفاقی حکومتیں اس بات سے قطعی لا تعلق نظر آتی ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انھیں عوام کی فلاح و بہبود سے زیادہ اپنے اقتدار کی فکر ہے۔ ایک اندازے کے مطابق وطن عزیز میں ہر سال پانچ ہزار سے زائد افراد خودکشی کی کوشش کرتے ہیں جب کہ ان میں سے تین ہزار سے زائد افراد اس کوشش میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خودکشی کرنے والے بہت سے افراد میں وہ لوگ شامل ہیں جو معاشی اور معاشرتی اسباب کی بنا پر ایسا کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں گویا:
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
بد قسمتی سے ہمارے حکمرانوں کو کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ مال کمانے سے ہی فرصت نہیں۔ اسی لیے ان میں سب کے سب جمہوریت کے حسن کے دلدادہ ہیں۔ بقول شاعر:
ہربو الہوس نے حسن پرستی شعار کی
کوئی ٹین پرسنٹ ہے تو کوئی سینیٹ پرسنٹ ہے جس کا جتنا بس چل رہا ہے وہ قومی خزانے پر ہاتھ صاف کر رہا ہے۔ اس حمام میں تو سبھی ننگے ہیں۔ واردات ایک ہی ہے صرف طریقہ واردات کا فرق ہے۔ سیاست خدمت کے بجائے تجارت بن چکی ہے۔ اس صورت حال پر کسی دل جلے شاعر کا یہ شعر حرف بہ حرف صادق آتا ہے۔
مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
پاکستان میں خودکشی کے اسباب میں نشہ سر فہرست ہے۔ دوسری جانب تمباکو نوشی کی وجہ سے ایک لاکھ افراد ہر سال موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ حالانکہ سگریٹ کے ہر پیکٹ کے اوپر نمایاں طور پر یہ لکھا ہوا ہوتا ہے کہ ''تمباکو نوشی مضر صحت ہے'' اگر دنیا بھر کا جائزہ لیا جائے تو ہر 8سیکنڈ بعد ایک شخص تمباکو نوشی کی وجہ سے ہلاک ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں اس وقت تقریباً 3 کروڑ افراد سگریٹ نوشی کرتے ہیں جن میں نہ صرف پڑھے لکھے لوگ بلکہ ڈاکٹرز بھی شامل ہیں۔ بات در اصل یہ ہے کہ سگریٹ نوشی ایک فیشن اور Status Symbol بن چکی ہے، نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری بے لگام نوجوان نسل اہم مقامات پر مختلف نشے کرتی ہوئی نظر آتی ہے اس میں شیشے کا نشہ خاص طور پر قابل ذکر ہے جو ہماری Elite Class میں عام ہے۔ اس کی دیکھا دیکھی ہماری Middle Class کے نوجوان بھی تیزی کے ساتھ اس نشے میں مبتلا ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
شکر ہے لیاری میں ماری پور روڈ پر نارکوٹکس کنٹرول حکام کی جانب سے منشیات کے عادی افراد کے ٹھوس اور مفت علاج کے لیے ادارہ کام کررہا ہے، یہsiut جیسا ہی منی اسپتال ہے، کئی مریض شفا پا چکے ہیں،اس کا دائرہ مزید وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ ماضی میں ہماری عدلیہ نے اس کا ضرور نوٹس لیا ہے اور وقتی طور پر کافی پیش رفت بھی ہوئی ہے لیکن اس کے بعد حسب روایت رات گئی بات گئی افسوس اس بات کا ہے کہ حکومتی اور نجی سطح پر اس کی روک تھام کے لیے کوئی سنجیدہ اقدامات نہیں کیے جارہے۔
دوسری جانب نشے کے گھناؤنے اور جان لیوا کاروبار میں ملوث لوگوں کے خلاف کوئی خاص ایکشن نہیں لیا جارہا۔ پاکستان میں منشیات کی اسمگلنگ کرنے والے مجرم کی سزا موت ہے لیکن اس جرم میں آج تک کسی کو سزا نہیں دی جاسکی۔ اس زہر قاتل کے تسلسل کو روکنے کے لیے بڑے زور و شور سے عوامی آگاہی مہم چلانے کی فوری اور اشد ضرورت ہے جس میں ہماری پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو کلیدی کردار ادا کرنا چاہیے۔
دنیا میں اس وقت منشیات کے عادی افراد کی تعداد بیس کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ بھنگ اور اس سے تیار ہونے والی منشیات کا استعمال سب سے زیادہ امریکا میں کیا جاتا ہے جہاں 15 سے 64 سال تک کے 6.2% افراد اس کا نشہ کرتے ہیں، لیکن تعداد کے حوالے سے سب سے زیادہ بھنگ کا استعمال ایشیائی باشندے کرتے ہیں جن کی تعداد سوا پانچ کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس کے بعد کوکین کا نشہ ہے جس کا سب سے زیادہ استعمال امریکا میں کیا جاتا ہے۔
افیون کے نشے کا استعمال آبادی کے تناسب سے 0.4 امریکا اور تعداد کے حوالے سے 85 لاکھ 30 ہزار ایشیائی لوگ کرتے ہیں۔ ہیروئن کے استعمال میں بھی تعداد کے لحاظ سے ایشیا سر فہرست ہے جہاں نصف کروڑ سے زیادہ افراد اس کے نشے میں مبتلا ہیں۔ 15 سے 64 سال کے افراد کی آبادی کے لحاظ سے سب سے زیادہ یعنی 0.6 فی صد یورپی باشندے ہیروئن کے عادی ہیں۔
اس وقت دنیا بھر میں منشیات کی سب سے زیادہ طلب یورپ میں ہے جہاں تقریباً 75 فی صد لوگ ذہنی دباؤ اور دیگر امراض سے عارضی سکون حاصل کرنے کے لیے منشیات کا سہارا لیتے ہیں۔ یورپ کی بلیک مارکیٹس پر ایسی مافیا کا قبضہ ہے جس کا اثرورسوخ حکومتی حلقوں تک ہے۔ دنیا بھر کی منشیات کی تقریباً 80 فی صد پیداوار افغانستان سے حاصل کی جاتی ہے جہاں طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد افیون کی فصل میں حد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ افغانستان ایک مرتبہ پھر افیون کی بین الاقوامی مارکیٹ بن چکا ہے۔
1980 میں افغانستان پوری دنیا کی پیداوار کی 30 فی صد افیون کاشت ہورہی تھی جب کہ اس پیداوار میں اب کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ صرف صوبہ ہلمند میں 70,000 ہیکڑ رقبے پر پوست کی کاشت ہورہی ہے۔ وطن عزیز میں بھی منشیات کا گھناؤنا کاروبار دن بدن زور پکڑتا جارہا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ راتوں رات امیر بننے کی خواہش ہے۔ منشیات سے حاصل کی ہوئی بے پناہ دولت کہاں کہاں خرچ کی جارہی ہے اس کا اندازہ لگانا آسان کام نہیں ہے۔ ایک سروے کے مطابق ہیروئن کے نشے کے عادی افراد کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے جس کے مظاہر سرعام دیکھے جاسکتے ہیں۔ ایک اور تحقیقی رپورٹ کے مطابق تمباکو نوشی کے مسلسل استعمال کے بعد 48 فی صد افراد نے شراب اور 24 فی صد نے انجکشن کے ذریعے نشہ کیا۔ 76 فی صد لوگ وہ ہیں جن کے حلقہ احباب میں نشہ کرنے والے لوگ موجود ہیں۔
پاکستان میں گزشتہ چند سالوں کے دوران خودکشی کا رجحان تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے جوکہ انتہائی تشویش کی بات ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ ہماری صوبائی اور وفاقی حکومتیں اس بات سے قطعی لا تعلق نظر آتی ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انھیں عوام کی فلاح و بہبود سے زیادہ اپنے اقتدار کی فکر ہے۔ ایک اندازے کے مطابق وطن عزیز میں ہر سال پانچ ہزار سے زائد افراد خودکشی کی کوشش کرتے ہیں جب کہ ان میں سے تین ہزار سے زائد افراد اس کوشش میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خودکشی کرنے والے بہت سے افراد میں وہ لوگ شامل ہیں جو معاشی اور معاشرتی اسباب کی بنا پر ایسا کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں گویا:
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
بد قسمتی سے ہمارے حکمرانوں کو کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ مال کمانے سے ہی فرصت نہیں۔ اسی لیے ان میں سب کے سب جمہوریت کے حسن کے دلدادہ ہیں۔ بقول شاعر:
ہربو الہوس نے حسن پرستی شعار کی
کوئی ٹین پرسنٹ ہے تو کوئی سینیٹ پرسنٹ ہے جس کا جتنا بس چل رہا ہے وہ قومی خزانے پر ہاتھ صاف کر رہا ہے۔ اس حمام میں تو سبھی ننگے ہیں۔ واردات ایک ہی ہے صرف طریقہ واردات کا فرق ہے۔ سیاست خدمت کے بجائے تجارت بن چکی ہے۔ اس صورت حال پر کسی دل جلے شاعر کا یہ شعر حرف بہ حرف صادق آتا ہے۔
مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
پاکستان میں خودکشی کے اسباب میں نشہ سر فہرست ہے۔ دوسری جانب تمباکو نوشی کی وجہ سے ایک لاکھ افراد ہر سال موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ حالانکہ سگریٹ کے ہر پیکٹ کے اوپر نمایاں طور پر یہ لکھا ہوا ہوتا ہے کہ ''تمباکو نوشی مضر صحت ہے'' اگر دنیا بھر کا جائزہ لیا جائے تو ہر 8سیکنڈ بعد ایک شخص تمباکو نوشی کی وجہ سے ہلاک ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں اس وقت تقریباً 3 کروڑ افراد سگریٹ نوشی کرتے ہیں جن میں نہ صرف پڑھے لکھے لوگ بلکہ ڈاکٹرز بھی شامل ہیں۔ بات در اصل یہ ہے کہ سگریٹ نوشی ایک فیشن اور Status Symbol بن چکی ہے، نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری بے لگام نوجوان نسل اہم مقامات پر مختلف نشے کرتی ہوئی نظر آتی ہے اس میں شیشے کا نشہ خاص طور پر قابل ذکر ہے جو ہماری Elite Class میں عام ہے۔ اس کی دیکھا دیکھی ہماری Middle Class کے نوجوان بھی تیزی کے ساتھ اس نشے میں مبتلا ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
شکر ہے لیاری میں ماری پور روڈ پر نارکوٹکس کنٹرول حکام کی جانب سے منشیات کے عادی افراد کے ٹھوس اور مفت علاج کے لیے ادارہ کام کررہا ہے، یہsiut جیسا ہی منی اسپتال ہے، کئی مریض شفا پا چکے ہیں،اس کا دائرہ مزید وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ ماضی میں ہماری عدلیہ نے اس کا ضرور نوٹس لیا ہے اور وقتی طور پر کافی پیش رفت بھی ہوئی ہے لیکن اس کے بعد حسب روایت رات گئی بات گئی افسوس اس بات کا ہے کہ حکومتی اور نجی سطح پر اس کی روک تھام کے لیے کوئی سنجیدہ اقدامات نہیں کیے جارہے۔
دوسری جانب نشے کے گھناؤنے اور جان لیوا کاروبار میں ملوث لوگوں کے خلاف کوئی خاص ایکشن نہیں لیا جارہا۔ پاکستان میں منشیات کی اسمگلنگ کرنے والے مجرم کی سزا موت ہے لیکن اس جرم میں آج تک کسی کو سزا نہیں دی جاسکی۔ اس زہر قاتل کے تسلسل کو روکنے کے لیے بڑے زور و شور سے عوامی آگاہی مہم چلانے کی فوری اور اشد ضرورت ہے جس میں ہماری پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو کلیدی کردار ادا کرنا چاہیے۔