نظام بدلتا کیوں نہیں
چہرے وہی پرانے ہیں جن کا منشور تبدیلی نہیں حصول اقتدار ہے تو ایسے مفاد پرست نظام کیسے بدل سکتے ہیں۔
PESHAWAR:
عمران خان نے تحریک انصاف کے ذریعے تبدیلی کا جو نعرہ بلند کیا تھا وہ کوئی ایسا نیا مطالبہ نہیں تھا جو پہلے نہ کیا گیا ہو۔ 50 سال قبل جب پیپلز پارٹی قائم ہوئی تھی اس وقت اقتدار میں طویل عرصہ گزار کر عوام میں آنے والے ایک بڑے جاگیردار ذوالفقارعلی بھٹو نے ملک کا نظام بدلنے کی بات کی تھی اور اپنے اسلامی سوشلزم کے نعرے سے ملک کے عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان کا خواب دکھایا تھا کہ مانگ رہا ہے ہر انسان، روٹی کپڑا اور مکان۔ اس پرکشش نعرے میں عوام کو تبدیلی کی موہوم سی امید پیدا ہوئی تھی کہ شاید ان کے حالات میں تبدیلی آجائے اور انھیں بھی انسانوں جیسی بنیادی سہولیات میسر آجائیں۔
اس وقت ملک میں جنرل ایوب خان کی مسلم لیگ کنونشن کی حکومت تھی جب کہ اس سے دو سال قبل 1965 کی جنگ کے بعد ایوب خان کو مقبولیت حاصل تھی۔ ملک کی صنعتی و مواصلاتی ترقی کے لیے ایوب خان کی حکومت نے بلاشبہ کارنامے انجام دیے تھے۔ ملک کے جاگیردار بڑی تعداد میں حکومت کے ساتھ تھے اور وہ جاگیردارانہ نظام قائم تھا جس میں عوام گھٹن محسوس کر رہے تھے۔
اس وقت ملک میں اس قدر مہنگائی اور بے روزگاری اور کرپشن بھی اتنی نہیں تھی اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن تھا مگر عوام میں بے چینی موجود تھی۔ ایوب خان کے دور میں چینی کی قیمت چار آنے بڑھی تو ملک میں مہنگائی نے سر ابھارا موقعے کی تاک میں موجود اپوزیشن جو ایوب دور میں سیاسی سرگرمیاں محدود ہونے کے باعث ایوب خان کی ایوبی آمریت سے نجات چاہتی تھی کیونکہ ایوب دور میں اپوزیشن مختلف جماعتوں میں تقسیم، کمزور اور عوام میں بے اثر تھی جس کی وجہ سے حکومت کا کچھ نہ بگاڑ سکی اور 1968 میں ایوب خان نے اپنے اقتدار کا دس سالہ جشن منایا تو ان کے من پسند وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو انھیں چھوڑ کر پیپلز پارٹی قائم کرچکے تھے اور ملک میں حکمرانی نہیں نظام بدلو کے نعرے بلند ہونے لگے تھے۔
ملک پر مسلط جاگیردارانہ نظام میں جو جماعتیں سیاست کر رہی تھیں وہ متحد نہ ہونے کے برابر تھیں جن کے ساتھ ایوب خان کی گول میز کانفرنس کامیاب نہ ہوسکی تو ایوب حکومت کے خلاف تحریک شروع ہوئی۔ ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کے نتیجے میں صدر ایوب نے اقتدار سیاستدانوں کو دینے کے لیے الیکشن کرانے کو ترجیح نہیں دی اور اقتدار آرمی چیف جنرل یحییٰ خان کو دے کر اپنے گھر جا بیٹھے۔ ایوب خان فوجی صدر تو تھے مگر انھوں نے ملک کی ساکھ بنائی تھی۔ ترقی بھی ہوئی تھی مگر عوام حکومتی نظام سے مطمئن نہیں تھے اور بھٹو کی صورت میں انھیں تبدیلی نظر آرہی تھی جو پھر مارشل لا کی نذر ہوگئی۔
جنرل یحییٰ نے 1970 میں غیر جانبدارانہ انتخابات کرائے تو ان کی توقع کے برعکس انتخابی نتائج برآمد ہوئے جو مجیب الرحمن کے حق میں مگر صدر اور بھٹو کے سیاسی مفادات کے خلاف تھے جو دونوں نے قبول نہ کیے اور اقتدار اکثریتی پارٹی عوامی لیگ کو منتقل نہیں کیا جو مشرقی پاکستان میں ایسی تبدیلی لے آئی تھی جو بھٹو مغربی پاکستان میں نہ لاسکے تھے اور پنجاب اور سندھ میں اکثریت لے سکے تھے۔
اقتدار عوامی لیگ کو اگر دے دیا جاتا تو نظام بھی بدل سکتا تھا اور ملک دو لخت بھی نہ ہوتا مگر اقتدار کے لالچ میں ملک کی پرواہ نہیں کی گئی اور بھارت کو مداخلت کا موقع دے کر ملک کے دو ٹکڑے کرادیے گئے نظام میں تبدیلی نہیں آنے دی گئی اور پھر ایک نیا پاکستان قائم ہوا جو اصل کا نصف بھی نہیں تھا۔
ملک ٹوٹ جانے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھال لیا جو انھیں مجبور ہوکر جنرل یحییٰ نے دیا تھا۔ بھٹو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور صدر مملکت بنے پھر انھوں نے 1973 میں ملک کو ایک مضبوط پارلیمانی نظام نئے دستور کے ذریعے دیا اور وزیراعظم بن کر وہ بھی اپنے پروگرام سے ہٹ گئے اور جاگیرداروں کو پی پی میں شامل کرتے چلے گئے اور ملک کا نظام بدلنے کی بجائے انھوں نے ساری توجہ اپنے اقتدار کو مضبوط اور مزید پانچ سال کے لیے منتخب ہونے پر مرکوز کی۔ انھوں نے اکثریت نہ ہونے کے باوجود سیاسی وفاداریاں تبدیل کراکر بلوچستان اور صوبہ سرحد میں بھی پی پی کی حکومت قائم کرائی۔ انھوں نے پہلی اسلامی کانفرنس منعقد کرائی۔ بھارت سے اپنے فوجی واپس لیے سیاست کو عوامی بنایا مگر ملک کا نظام بدلنے کے اپنے منشور سے ہٹ گئے اور جمہوریت کی آڑ میں اپنی بدترین آمریت مسلط کردی۔
انتخابی دھاندلیوں سے دوبارہ منتخب تو ہوگئے مگر ان کی مخالف جماعتوں نے متحد ہوکر نظام مصطفیٰ کا نعرہ بلند کردیا جس کے نتیجے میں بھٹو نے اقتدار بچانے کے لیے گرفتاریوں، بے پناہ تشدد اور تین شہروں میں مارشل لا لگا کر اپنا اقتدار بچانے کی بھرپور کوشش کی جس کے نتیجے میں مارشل لا لگ گیا جو طویل ترین تھا جس کے سربراہ نے 1985 میں غیر جماعتی الیکشن کرائے اور نیم سیاسی حکومت قائم ہوئی جس کے قیام کا مقصد نظام بدلنا نہیں تھا جسے بھی چلنے نہیں دیا گیا اور 1988 میں بے نظیر بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی دوبارہ اقتدار میں آئی۔
جس کا منشور ذوالفقار علی بھٹو جیسا نہیں تھا جس نے نہ نظام بدلنا تھا نہ اس کے پاس پارلیمانی طاقت تھی جو دو سال بعد کرپشن سمیت مختلف الزامات میں برطرف ہوئی جس کے بعد آئی جے آئی نے اسلامی نظام کے نام پر اکثریت حاصل کی اور نواز شریف پہلی بار وزیر اعظم بنے اور انھوں نے بھی اسلامی نظام کی بجائے اپنا ایجنڈا مضبوط اقتدار کو پروان چڑھانے کی کوشش کی تو اپنے ہی صدر کے ہاتھوں برطرف ہوئے جس کے بعد بے نظیر بھٹو دوبارہ وزیر اعظم بنیں جن کے پاس تبدیلی کی صرف باتیں تھیں عمل صرف کرپشن کے فروغ کا ملا جس پر وہ بھی اپنے ہی صدر کے ہاتھوں برطرف ہوئیں پھر مسلم لیگ (ن) نے اکثریت لے کر نواز شریف کو بھاری مینڈیٹ سے وزیر اعظم بنایا ،یہ حکومت بھی تبدیلی لانا نہیں اقتدار مضبوط کرنے میں لگی رہی پھر جنرل مشرف انھیں ہٹا کر اقتدار میں آگئے۔ ملک میں تبدیلی کے لیے سات نکاتی ایجنڈا دیا جو سیاست کی نذر ہوگیا مگر انھوں نے ملک کو پہلی بار بااختیار بلدیاتی نظام دیا جس میں کمشنری نظام سے نجات دلائی گئی جو واقعی اہم تبدیلی تھی۔
بے نظیر کی شہادت نے جنرل پرویز مشرف کو ناکام کردیا اور پھر پی پی اور (ن) لیگ نے مشرف دشمنی میں ضلع نظام ختم کرکے تبدیلی کا راستہ ہی بند کردیا اور ذاتی اور سیاسی مفادات سمیٹتے رہے جس میں تبدیلی کا نعرہ لگا کر عمران خان آگئے جن کی تحریک انصاف میں اب (ن) لیگ کے کم مگر پی پی کے رہنماؤں کی تعداد بڑھ رہی ہے جس کی وجہ (ن) لیگ سے مایوسی بھی ہے مگر بوتل نئی شراب پرانی ہے۔ چہرے وہی پرانے ہیں جن کا منشور تبدیلی نہیں حصول اقتدار ہے تو ایسے مفاد پرست نظام کیسے بدل سکتے ہیں۔
عمران خان نے تحریک انصاف کے ذریعے تبدیلی کا جو نعرہ بلند کیا تھا وہ کوئی ایسا نیا مطالبہ نہیں تھا جو پہلے نہ کیا گیا ہو۔ 50 سال قبل جب پیپلز پارٹی قائم ہوئی تھی اس وقت اقتدار میں طویل عرصہ گزار کر عوام میں آنے والے ایک بڑے جاگیردار ذوالفقارعلی بھٹو نے ملک کا نظام بدلنے کی بات کی تھی اور اپنے اسلامی سوشلزم کے نعرے سے ملک کے عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان کا خواب دکھایا تھا کہ مانگ رہا ہے ہر انسان، روٹی کپڑا اور مکان۔ اس پرکشش نعرے میں عوام کو تبدیلی کی موہوم سی امید پیدا ہوئی تھی کہ شاید ان کے حالات میں تبدیلی آجائے اور انھیں بھی انسانوں جیسی بنیادی سہولیات میسر آجائیں۔
اس وقت ملک میں جنرل ایوب خان کی مسلم لیگ کنونشن کی حکومت تھی جب کہ اس سے دو سال قبل 1965 کی جنگ کے بعد ایوب خان کو مقبولیت حاصل تھی۔ ملک کی صنعتی و مواصلاتی ترقی کے لیے ایوب خان کی حکومت نے بلاشبہ کارنامے انجام دیے تھے۔ ملک کے جاگیردار بڑی تعداد میں حکومت کے ساتھ تھے اور وہ جاگیردارانہ نظام قائم تھا جس میں عوام گھٹن محسوس کر رہے تھے۔
اس وقت ملک میں اس قدر مہنگائی اور بے روزگاری اور کرپشن بھی اتنی نہیں تھی اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن تھا مگر عوام میں بے چینی موجود تھی۔ ایوب خان کے دور میں چینی کی قیمت چار آنے بڑھی تو ملک میں مہنگائی نے سر ابھارا موقعے کی تاک میں موجود اپوزیشن جو ایوب دور میں سیاسی سرگرمیاں محدود ہونے کے باعث ایوب خان کی ایوبی آمریت سے نجات چاہتی تھی کیونکہ ایوب دور میں اپوزیشن مختلف جماعتوں میں تقسیم، کمزور اور عوام میں بے اثر تھی جس کی وجہ سے حکومت کا کچھ نہ بگاڑ سکی اور 1968 میں ایوب خان نے اپنے اقتدار کا دس سالہ جشن منایا تو ان کے من پسند وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو انھیں چھوڑ کر پیپلز پارٹی قائم کرچکے تھے اور ملک میں حکمرانی نہیں نظام بدلو کے نعرے بلند ہونے لگے تھے۔
ملک پر مسلط جاگیردارانہ نظام میں جو جماعتیں سیاست کر رہی تھیں وہ متحد نہ ہونے کے برابر تھیں جن کے ساتھ ایوب خان کی گول میز کانفرنس کامیاب نہ ہوسکی تو ایوب حکومت کے خلاف تحریک شروع ہوئی۔ ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کے نتیجے میں صدر ایوب نے اقتدار سیاستدانوں کو دینے کے لیے الیکشن کرانے کو ترجیح نہیں دی اور اقتدار آرمی چیف جنرل یحییٰ خان کو دے کر اپنے گھر جا بیٹھے۔ ایوب خان فوجی صدر تو تھے مگر انھوں نے ملک کی ساکھ بنائی تھی۔ ترقی بھی ہوئی تھی مگر عوام حکومتی نظام سے مطمئن نہیں تھے اور بھٹو کی صورت میں انھیں تبدیلی نظر آرہی تھی جو پھر مارشل لا کی نذر ہوگئی۔
جنرل یحییٰ نے 1970 میں غیر جانبدارانہ انتخابات کرائے تو ان کی توقع کے برعکس انتخابی نتائج برآمد ہوئے جو مجیب الرحمن کے حق میں مگر صدر اور بھٹو کے سیاسی مفادات کے خلاف تھے جو دونوں نے قبول نہ کیے اور اقتدار اکثریتی پارٹی عوامی لیگ کو منتقل نہیں کیا جو مشرقی پاکستان میں ایسی تبدیلی لے آئی تھی جو بھٹو مغربی پاکستان میں نہ لاسکے تھے اور پنجاب اور سندھ میں اکثریت لے سکے تھے۔
اقتدار عوامی لیگ کو اگر دے دیا جاتا تو نظام بھی بدل سکتا تھا اور ملک دو لخت بھی نہ ہوتا مگر اقتدار کے لالچ میں ملک کی پرواہ نہیں کی گئی اور بھارت کو مداخلت کا موقع دے کر ملک کے دو ٹکڑے کرادیے گئے نظام میں تبدیلی نہیں آنے دی گئی اور پھر ایک نیا پاکستان قائم ہوا جو اصل کا نصف بھی نہیں تھا۔
ملک ٹوٹ جانے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھال لیا جو انھیں مجبور ہوکر جنرل یحییٰ نے دیا تھا۔ بھٹو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور صدر مملکت بنے پھر انھوں نے 1973 میں ملک کو ایک مضبوط پارلیمانی نظام نئے دستور کے ذریعے دیا اور وزیراعظم بن کر وہ بھی اپنے پروگرام سے ہٹ گئے اور جاگیرداروں کو پی پی میں شامل کرتے چلے گئے اور ملک کا نظام بدلنے کی بجائے انھوں نے ساری توجہ اپنے اقتدار کو مضبوط اور مزید پانچ سال کے لیے منتخب ہونے پر مرکوز کی۔ انھوں نے اکثریت نہ ہونے کے باوجود سیاسی وفاداریاں تبدیل کراکر بلوچستان اور صوبہ سرحد میں بھی پی پی کی حکومت قائم کرائی۔ انھوں نے پہلی اسلامی کانفرنس منعقد کرائی۔ بھارت سے اپنے فوجی واپس لیے سیاست کو عوامی بنایا مگر ملک کا نظام بدلنے کے اپنے منشور سے ہٹ گئے اور جمہوریت کی آڑ میں اپنی بدترین آمریت مسلط کردی۔
انتخابی دھاندلیوں سے دوبارہ منتخب تو ہوگئے مگر ان کی مخالف جماعتوں نے متحد ہوکر نظام مصطفیٰ کا نعرہ بلند کردیا جس کے نتیجے میں بھٹو نے اقتدار بچانے کے لیے گرفتاریوں، بے پناہ تشدد اور تین شہروں میں مارشل لا لگا کر اپنا اقتدار بچانے کی بھرپور کوشش کی جس کے نتیجے میں مارشل لا لگ گیا جو طویل ترین تھا جس کے سربراہ نے 1985 میں غیر جماعتی الیکشن کرائے اور نیم سیاسی حکومت قائم ہوئی جس کے قیام کا مقصد نظام بدلنا نہیں تھا جسے بھی چلنے نہیں دیا گیا اور 1988 میں بے نظیر بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی دوبارہ اقتدار میں آئی۔
جس کا منشور ذوالفقار علی بھٹو جیسا نہیں تھا جس نے نہ نظام بدلنا تھا نہ اس کے پاس پارلیمانی طاقت تھی جو دو سال بعد کرپشن سمیت مختلف الزامات میں برطرف ہوئی جس کے بعد آئی جے آئی نے اسلامی نظام کے نام پر اکثریت حاصل کی اور نواز شریف پہلی بار وزیر اعظم بنے اور انھوں نے بھی اسلامی نظام کی بجائے اپنا ایجنڈا مضبوط اقتدار کو پروان چڑھانے کی کوشش کی تو اپنے ہی صدر کے ہاتھوں برطرف ہوئے جس کے بعد بے نظیر بھٹو دوبارہ وزیر اعظم بنیں جن کے پاس تبدیلی کی صرف باتیں تھیں عمل صرف کرپشن کے فروغ کا ملا جس پر وہ بھی اپنے ہی صدر کے ہاتھوں برطرف ہوئیں پھر مسلم لیگ (ن) نے اکثریت لے کر نواز شریف کو بھاری مینڈیٹ سے وزیر اعظم بنایا ،یہ حکومت بھی تبدیلی لانا نہیں اقتدار مضبوط کرنے میں لگی رہی پھر جنرل مشرف انھیں ہٹا کر اقتدار میں آگئے۔ ملک میں تبدیلی کے لیے سات نکاتی ایجنڈا دیا جو سیاست کی نذر ہوگیا مگر انھوں نے ملک کو پہلی بار بااختیار بلدیاتی نظام دیا جس میں کمشنری نظام سے نجات دلائی گئی جو واقعی اہم تبدیلی تھی۔
بے نظیر کی شہادت نے جنرل پرویز مشرف کو ناکام کردیا اور پھر پی پی اور (ن) لیگ نے مشرف دشمنی میں ضلع نظام ختم کرکے تبدیلی کا راستہ ہی بند کردیا اور ذاتی اور سیاسی مفادات سمیٹتے رہے جس میں تبدیلی کا نعرہ لگا کر عمران خان آگئے جن کی تحریک انصاف میں اب (ن) لیگ کے کم مگر پی پی کے رہنماؤں کی تعداد بڑھ رہی ہے جس کی وجہ (ن) لیگ سے مایوسی بھی ہے مگر بوتل نئی شراب پرانی ہے۔ چہرے وہی پرانے ہیں جن کا منشور تبدیلی نہیں حصول اقتدار ہے تو ایسے مفاد پرست نظام کیسے بدل سکتے ہیں۔