میں آخر کس کو ووٹ دوں آخری حصہ
عمران خان کو چاہیے تھا خیبرپختونخوا کو ایک مثالی صوبہ بنانے کی کوشش کرتے
KARACHI:
آئیے! اب ذرا جائزہ لیتے ہیں اس ملک کی ایک اور بڑی سیاسی پارٹی ''پیپلز پارٹی'' کا، جوکہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سے درحقیقت ''زرداری پارٹی'' بن چکی ہے۔ آصف زرداری، ہمارے سابق صدر پاکستان نے جس دن ''پاکستان کھپے'' کا نعرہ لگایا دراصل اسی دن انھوں نے ''زرداری پارٹی'' کا سنگ بنیاد رکھ دیا تھا۔ زرداری Hide and Seek کھیل کے بہت شوقین ہیں۔ اس لیے آج بھی وہ یہ کھیل سیاسی طور پر کھیلتے رہتے ہیں۔ تبھی تو انھوں نے اپنے دور حکومت کی متعین مدت بھی پوری کی اور اب سندھ میں ان کی حکومت بھی ہے۔
مک مکا کی سیاست کے بانی آصف زرداری بھرپور کوشش کے باوجود سیاسی سے عوامی لیڈر نہ بن سکے۔ اپنی ہر تقریر میں یہی کہتے ہیں کہ میں نے 11 سال جیل کاٹی، کوئی ان سے پوچھے یہ گیارہ سال جیل آپ نے کوئی ''نیلسن منڈیلا'' بن کر نہیں کاٹی، بلکہ آپ پر کرپشن کے الزامات تھے۔ آپ نے جیل کسی نظریاتی یا عوامی مقاصد کے لیے نہیں کاٹی۔ بی بی شہید کی شہادت کے بعد نہ چاہتے ہوئے بھی پی پی پی کے ووٹرز نے آپ کو ووٹ دیے، یہ بی بی سے ان کے پیار اور بی بی کے خون کا قرض اتارنے کا ووٹ تھا۔ لیکن آپ نے اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں عوام کے لیے کیا کیا؟ کیا آپ روٹی، کپڑا اور مکان ہی اس ملک کے غریبوں کو دے سکے؟
اندرون سندھ جاکر لوگوں کی زندگیاں دیکھیں تو ہر طرف غربت و افلاس، بے روزگاری دکھائی دیتی ہے۔ نہ اچھے اسکول ہیں، نہ معیاری اسپتال۔ تھر کے کتنے بچے معیاری علاج نہ ملنے سے مرتے رہے لیکن مجال ہے آپ ان ننھی اموات کا تدارک کرتے۔ سندھ نے آپ کو ہمیشہ ووٹ دیا لیکن آپ نے سندھ کو کچھ نہ دیا۔ غریب غریب تر ہوتا چلا گیا جب کہ آپ اور آپ کے خاندان امیر سے امیر ترین ہوتے چلے جاتے ہیں۔
پیپلز پارٹی جو کبھی وفاقی پارٹی ہوا کرتی تھی آج صوبائی پارٹی ہوکر رہ گئی ہے اور سندھ کے ووٹ بھی شاید انھیں اس لیے مل رہے ہیں کہ بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے مزارات یہاں موجود ہیں، جو ان کے سچے جیالوں کو اپنی قربانیوں کی یاد دلاتے رہتے ہیں۔ رہی بات زرداری پارٹی کی تو ان کے دور حکومت کے دونوں وزیراعظم وکٹری کے نشان بنا بنا کر کرپشن کے کیسز بھگتنے عدالوں میں آتے رہے ہیں۔ کارکردگی کا یہ عالم کہ سندھ میں اپنے 9 سالہ دور حکومت میں بھی بی بی شہید کے قاتلوں تک نہ پہنچ سکے۔ میں جوکہ ایک عام پاکستانی ہوں، آخر پیپلز پارٹی کے اس 9 سالہ دور حکومت میں کس عوامی خدمت یا کارکردگی کو دیکھ کر انھیں ووٹ دوں؟ یہ واقعی میرے آگے ایک سوالیہ نشان ہے۔
آئیے اب ذرا سندھ کی تیسری بڑی پارٹی جوکہ تقریباً تیس برسوں سے سندھ خصوصاً کراچی پر راج کرتی رہی ہے ایک نظر اس پارٹی کو بھی عوامی ترازو میں تولتے ہیں۔ ایم کیو ایم جوکہ اب دھڑوں میں بٹ چکی ہے، اس نے تیس برسوں میں مہاجرازم کا کارڈ کھیل کر ووٹ لیا۔ تشدد کی سیاست، بوری بند لاشیں، بھتہ مافیا، ٹارگٹ کلنگ، ہڑتالیں، یہ ایم کیو ایم کی پہچان رہی۔ اپنے قائد کو شرک کی حد تک پوجنے والے آج محو حیرت ہیں کہ ہمارے قائد کا اصل روپ کیا تھا؟
کہتے ہیں ناں کہ ظلم جب حد سے گزر جاتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ تو ان کا قائد اپنے ظلم کے ہاتھوں خود ہی مٹ گیا۔ ان کے قائد کی تقاریر پر اب پاکستان میں پابندی عائد ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان اور دیگر دھڑوں پر عوام اور خود مہاجر قوم ابھی تذبذب کا شکار ہے۔ ایم کیو ایم لندن، ایم کیو ایم پاکستان، پاک سر زمین پارٹی اور ان کے دھڑے، ان کو اب ان کے ووٹروں کو خود پہچاننا ہے کیونکہ اب بھی اگر یہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی نہ کرسکے تو اس کا خمیازہ اب ان کی نسلیں بھگتیں گی۔
قارئین! آئیے اب ذرا پاکستان تحریک انصاف کو عوامی ترازو پر تولتے ہیں۔
اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کی صورت میں بیشتر پاکستانیوں کو ایک نجات دہندہ دکھائی دیا جوکہ ان موروثی سیاستدانوں کی سیاست سے بہت تنگ آچکے تھے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ تحریک انصاف نے (ن) لیگ کا ووٹ بینک کافی حد تک توڑا لیکن تحریک انصاف کے لیڈر عمران خان سے بھی کچھ سیاسی غلطیاں سرزد ہوئیں جن کی بنا پر وہ ووٹر جو پرانے کھلاڑیوں سے تنگ تھا اور نئے کھلاڑی کو آزمانا چاہتا تھا، تذبذب کا شکار ہوا۔
جیسے کہ میری ناقص رائے کے مطابق بے نظیر بھٹو کے بعد اس ملک میں ایک عوامی لیڈر کا بہت بڑا خلا تھا، عمران خان کو اس خلا کو پر کرنا چاہیے تھا۔ عمران خان اگر ایک سیاسی لیڈر کے بجائے عوامی لیڈر بنتے تو سیاسی لیڈر تو عوام انھیں خود ہی بنادیتے۔ بھٹو کی مثال ان کے سامنے موجود تھی، جیسے کہ عمران عوامی لیڈر بنے تھے تو شوکت خانم میموریل بن گیا تھا۔ دوسری سیاسی غلطی اپنے صوبے پر عدم توجہ ہے۔
عمران خان کو چاہیے تھا خیبرپختونخوا کو ایک مثالی صوبہ بنانے کی کوشش کرتے تاکہ دیگر صوبوں کے عوام ان کی کارکردگی سے متاثر ہوتے اور ان کے اس صوبے کے حالات بھی مزید بہتر ہوتے۔ عمران خان کو تبدیلی کے دعوے ہی نہیں بلکہ حقیقی تبدیلی لاتے ہوئے اپنی پارٹی کا سیاسی کلچر دیگر سیاسی جماعتوں سے مختلف رکھنا چاہیے تھا۔ ان ہی سیاسی پارٹیوں کے لوگ توڑنے کے بجائے انھیں نئے نئے لوگوں کو اپنی پارٹی میں شمولیت کا موقع دینا چاہیے تھا۔ عمران خان بھی اس ''اسٹیٹس کو'' کو نہیں توڑ پائے جس کی لوگوں کو ان سے توقعات تھیں۔ تحریک انصاف کی حکومت ابھی صرف خیبر پختونخوا تک ہے، اس لیے میں تو اس صوبے کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے ابھی انھیں Do More ہی کا مشورہ دوں گی۔
یوں تو اور بھی سیاسی پارٹیاں ہیں، لیکن آج کے کالم میں، میں نے بڑی چار پارٹیوں کو جب اپنے عوامی ترازو میں تولا تو کم ازکم میرے دل سے تو یہی آواز آئی۔ اب پاکستان کے پاس ایک بھی قائد اعظم نہیں۔ اب یہ سب محض اپنی اپنی پارٹیوں کے چھوٹے چھوٹے قائد ادنیٰ ہیں۔ اب کسی کا اتنا قد نہیں کہ کروڑوں کے عوام اب انھیں ووٹ دیں۔
صادق تو ان میں سے کوئی بھی نہیں کیونکہ ان میں سے ہر کوئی ہر وقت یہ دعویٰ کرتا ہے کہ پوری قوم ہمارے ساتھ ہے، ہر کوئی کہتا ہے بیس کروڑ عوام وہ چاہتے ہیں، یہ چاہتے ہیں، جب کہ انھیں تو یہ بھی یقین سے نہیں پتا کہ ان کے عوام بیس کروڑ ہے بھی یا نہیں۔ اور اگر ہے بھی تو یہ باری باری بیس کروڑ عوام کے ٹھیکیدار خودبخود کیسے بن جاتے ہیں۔ لہٰذا اپنے اس جھوٹ پر جو یہ سب لوگ کھلم کھلا عوام کے سامنے بولتے چلے آرہے ہیں ''صادق'' تو نہیں رہے۔ اب امین کا فیصلہ بھی انشا اللہ جلد ہوجائے گا۔
ان حالات میں، میں اپنے تمام پاکستانی بہن بھائیوں سے التجا کرتی ہوں کہ خدارا! اپنے ووٹ کا استعمال سوچ سمجھ کر کریں۔ یہ ایک مقدس امانت ہے، اسے اس کے حقدار تک ہی پہنچنا چاہیے۔ آپ خواہ پنجابی ہوں، سندھی ہوں، بلوچی یا پٹھان ہوں، یا مہاجر ہوں۔ یاد رکھیے آپ سب پاکستانی ہیں اور صرف پاکستانی بن کر ووٹ دیجیے۔ اور ووٹ اپنی ذاتی پسند ناپسند اور مفادات سے بالاتر ہوکر صرف اور صرف اپنے پاکستان کے وسیع تر مفاد میں دیجیے۔
دوسری جانب میری الیکشن کمیشن آف پاکستان سے بھی گزارش ہے کہ خدارا! آپ بھی عوام کو آگہی دیں اور باشعور ووٹر کو ووٹ ڈالتے ہوئے کن عوامل کو مدنظر رکھنا چاہیے، الیکشن سے قبل لوگوں کو یہ سیاسی شعور دینے کی کوشش کیجیے، بصورت دیگر پھر آپ بیلٹ پیپر پر ایک اور خانہ جس پر درج ہو ''کسی کو بھی نہیں'' کا بھی اضافہ کردیں۔ آپ دیکھیں گے کہ پاکستان کے بیشتر عوام اسی خانے پر ووٹ کا ٹھپہ لگائیں گے۔ وگرنہ مجھ جیسے کئی پاکستانی جو ان سب سیاستدانوں کے جھوٹ سے تنگ آچکے ہیں، ان کے دل میں بھی یہی سوال خلش بن کر چبھتا رہے گا کہ '' میں آخر ووٹ دوں تو کس کو دوں؟''