کیوں لکھتے ہیں
ہم حقائق اور حقیقت کی دنیا میں رہتے ہیں وہیں کی باتیں کرتے ہیں
KARACHI:
کیوں لکھتے ہو؟ یہ سوال ہر لکھنے والے سے خود اس کا اپنا ضمیر پوچھتا ہے! ہوسکتا ہے کہ اپنے آپ کو جواب دینا لکھنے والوں کو آسان لگتا ہو، مجھے بہت دشواری ہوتی ہے اپنے آپ کو اس سوال کا جواب دینے میں! وجہ یہ ہے کہ لوگوں کے پاس اس سوال کے 100 جواب ہوسکتے ہیں، معاوضہ ملتا ہے۔ لکھنے سے شہرت ملتی ہے، تسکین ہوتی ہے، رعب پڑتا ہے، لوگوں میں کہ ہم لکھنے والے ہیں، شاید اس کے لیے جدید لفظ ''لکھاڑی'' ہے! تو پہلے تو ہمارے ساتھ یہ مسئلہ ہے کہ اس میں سے کوئی ایک بھی وجہ ہمارے لیے نہیں ہے۔
تقریباً ڈیڑھ سو کالم لکھ چکے ہیں، ڈاک خرچ بھی خود برداشت کرتے ہیں، نشریات کی دنیا سے تعلق تھا اور ہے، بہت بڑا نام نہیں تو چھوٹا بھی نہیں۔ اس پر ہی سر بسجود رہتے ہیں کہ یہ سب اس کا ایک حقیر بندے پر کرم ہے! تسکین بھی اس زمرے میں نہیں آتی کہ ریڈیو کے سیکڑوں پروگرام لکھ چکے بول چکے ہیں ، داد سے مبرا نہیں کہ اس کا کبھی شوق نہیں رہا۔ شاعری ورثہ ہے ضرورت نہیں تو جب ''دل'' چاہتاہے شعر کہتے ہیں۔
اس شہر میں رہتے ہیں جہاں کبھی حمایت علی شاعر، مرزا عابد عباس، الیاس عشقی اور سندھی اردو کے نگینے لوگ رہا کرتے تھے، رہتے ہیں اور جہاں اب دو نمبر کے شعرا اور ادبا کا ایک جوہڑ ہے یہی حال نشریاتی دنیا کا ہے۔ غلط زبانی سیکھنی ہو تو ریڈیو سنوکبھی ریڈیو سن کر لوگ تلفظ درست کیا کرتے تھے۔
ہوسکتا ہے اور جگہ بھی یہی حال ہو کیونکہ جوئے کی پرچی کی طرح سفارش کی پرچی نے اس ادارے کا خانہ خراب کردیا ہے۔ دو دو جگہ ملازمت کرنے والوں کی بھرمار ہے۔ صرف ریڈیو کا آدمی نہیں ملتا، یہ ہمارے شہرکا حال ہے نام جس کا حیدرآباد ہے! خیر یہ تو مقطع میں سخن گسترانہ بات آئی کہ شاید یہی کوئی کم ہی سمجھ پائے، بات تھی کہ کیوں لکھتے ہو تو ہمارے پاس اس کا ایک سیدھا سا جواب ہے کیوں پڑھا تھا؟ ان درس گاہوں نے جہاں اب صرف نقل اور سفارش اور اقربا پروری کا دور دورہ ہے ہمیں علم دیا تھا۔ آٹھ آنے اسکول کی ماہانہ فیس تھی، تعلیم بکتی نہیں تھی، عطا کی جاتی تھی اور استاد آنکھوں کو مزید بھلے لگتے تھے اب تو وہ سوداگر ہیں علم کے۔
تو ان درسگاہوں نے اساتذہ نے جو سبق دیا تھا وہ یہ تھا کہ سچ بولو اور اونچا بولو، یہ فطرت تھی ہماری ہے کہ بدل نہیں سکتی، شبنم گل صاحبہ کی وجہ سے آپ تک پہنچ گئے کہ بار بار انھوں نے لکھنے کا کہا اور اب ہر ہفتے کالم کی صورت پرچا دیتے ہیں اور اخبار چھاپ رہا ہے لہٰذا کہہ سکتے ہیں کہ پاس ہوجاتے ہیں۔
ہمارے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ گل و بلبل کی داستانیں اور ماحول کی فرحت انگیزی جیسی دوسروں کو نظر آتی ہے، بینائی کمزور ہونے کی وجہ سے شاید ہمیں نظر نہیں آتی یا ہوسکتا ہے کہ ہمارے پاس وہ سب کچھ نہیں جو ''بڑے لوگوں'' کے پاس ہوتا ہے توہمیں دنیا کلر فل نظر نہیں آتی، بلیک اینڈ وائٹ نظر آتی ہے۔ بات یہ ہے کہ چیزیں ہوتی بلیک اینڈ وائٹ ہیں ہم ان پر ''رنگ'' چڑھادیتے ہیں۔
سارے ملک کے لوگوں کا ''دماغ'' سیاست دانوں نے گھماکر رکھا ہوا ہے، ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک روٹی چرانے والا بری طرح مار کھاتا ہے اور ملک کے عوام کا پیسہ کھاجانے والے ''قافلوں'' میں آتے جاتے ہیں، موجودہ یا سبق ''پروٹوکول'' سب کے پاس ہے۔ ذاتی یا سرکاری! پانچ سال تک عوام کو لوٹنے کے بعد پھر ان سے ووٹ ''لوٹنے'' کے لیے ''اداکار'' بن جاتے ہیں یہ دنیا کے سب سے بڑے اورگھٹیا بھکاری ہیں۔ انھیں ہر پانچ سال بعد عوام ''ووٹ'' کی بھیک دیتے ہیں جن سے یہ پانچ سال اپنا ''خرچ'' چلاتے اور ''ووٹرز'' کی ''چمڑی'' اتارتے رہتے ہیں۔ 1947 سے آج تک یہی ہورہا ہے پہلے کچھ شنوائی ووٹر کی تھی، ووٹ لینے والوں کو غیرت آتی تھی وہ کام نہ کرنے پر شرمندہ ہوتے تھے۔
اب صرف تقریر کرتے ہیں، آرام سے کہہ دیتے ہیں ''نہیں ہوسکا'' کرلو جو کرنا ہے، بھلا آپ کیا کریںگے کچھ بھی نہیں پھر ان کو ووٹ دے دیںگے۔ ''شہیدوں'' کے نام پر ''دین'' کے نام پر ''نام نہاد کارکردگی'' کے نام پر اور بھی بہت سے خانے ہیں، عوام بھی کم نہیں! جادوگروں کے ساتھ رہ کر شعبدہ گر وہ بھی بن چکے ہیں۔ عوام ہی عوام کا سودا کردیتے ہیں۔ برادری، مسلک، زبان کے سہارے۔
صحت، تعلیم، روزگار، ترقی سب کچھ برائے فروخت اور قابل فروخت ہے اور یہ جو چھاپے، شاپے پڑتے رہتے ہیں یہ تو اس کا ایک حصہ ہے، کاروبار میں isk Factor Rبھی تو ہوتا ہے۔ یہ سب رسک فیکٹر ہے۔ ہم نے سنا ہے کہ بینکوں میں ایک رواج تھا (شاید اب بھی ہو) کہ کلوزنگ میں اگر کچھ رقم زیادہ ادا ہو جاتی تھی تو وہ بینک کے ملازمین مل کر پورا کرتے تھے اور یہ ایک عام رواج تھا۔
زیادہ وصول ہوجانے والی رقم کے بارے میں نہیں سنا، لہٰذا کچھ عرض نہیں کرسکتے تو یہ جو ملک میں سیاسی بینک ہیں بلکہ یوں کہنا پڑے گا اور زیادہ درست ہوگا کہ ''یہ جو ملک میں سیاست کا بینک ہے'' اور جس کے ملازم خاندان در خاندان یہ سیاست دان ہیں یہ بھی ایسا ہی کرتے ہیں، ان کے بیان فادر کوٹہ، مدرکوٹہ بھی پکا ہے کسی کسی کے پاس تو دونوں کوٹے ہیں۔ کون سا ایک نمبر کا کوٹا ہے اورکون دو نمبری کوٹا، یہ کوٹا رکھنے والے کو خوب پتا ہے۔تو جن درسگاہوں سے ہم نے پڑھا، جن اساتذہ نے ہمیں پڑھایا وہ خالص پاکستانی تھے۔
محب وطن ہونے کا بھی ان پر الزام تھا اور ہم بھی یہ تہمت اٹھائے ہوئے ہیں۔ انھوں نے ہمیں پڑھایا تھا کہ سچ بولو، اونچا بولو تو ہم آج تک یہی کررہے ہیں، زندگی کی اس درسگاہ میں صاحب کردار ہونے کی بہت بڑی فیس ہے وہ ادا کررہے ہیں کرتے رہیںگے۔
ہم حقائق اور حقیقت کی دنیا میں رہتے ہیں وہیں کی باتیں کرتے ہیں، خوامخواہ کے آسرے نہیں دیتے نہ ہمیں کسی غیر ملکی ٹور پر جانا ہے نہ سرکاری سیر و تفریح کی ضرورت ہے، قلم خود ہمیں نہ جانے کن کن جہانوں کی سیر کرادیتا ہے اور ہم ایک سیاح اور مسافر آوارہ کی طرح زندگی کی داستان لکھتے رہتے ہیں۔
چونکہ، چنانچہ، اگر مگر یہ سب ریاضی میں ٹھیک ہیں جس کو MATHS کہتے ہیں، زندگی بہت سادہ مضمون ہے جب تک جیو اچھی طرح جیو، اچھی طرح سب کے لیے صرف اپنے لیے نہیں کہ قدرت نے ایک دوسرے کو ایک دوسرے کا ساتھی بنایا ہے۔ درست بنایا ہے دشمن تو ہم نے بنایا ہے ایک دوسرے کو مختلف خانوں میں بانٹ کر۔
کیوں لکھتے ہو؟ یہ سوال ہر لکھنے والے سے خود اس کا اپنا ضمیر پوچھتا ہے! ہوسکتا ہے کہ اپنے آپ کو جواب دینا لکھنے والوں کو آسان لگتا ہو، مجھے بہت دشواری ہوتی ہے اپنے آپ کو اس سوال کا جواب دینے میں! وجہ یہ ہے کہ لوگوں کے پاس اس سوال کے 100 جواب ہوسکتے ہیں، معاوضہ ملتا ہے۔ لکھنے سے شہرت ملتی ہے، تسکین ہوتی ہے، رعب پڑتا ہے، لوگوں میں کہ ہم لکھنے والے ہیں، شاید اس کے لیے جدید لفظ ''لکھاڑی'' ہے! تو پہلے تو ہمارے ساتھ یہ مسئلہ ہے کہ اس میں سے کوئی ایک بھی وجہ ہمارے لیے نہیں ہے۔
تقریباً ڈیڑھ سو کالم لکھ چکے ہیں، ڈاک خرچ بھی خود برداشت کرتے ہیں، نشریات کی دنیا سے تعلق تھا اور ہے، بہت بڑا نام نہیں تو چھوٹا بھی نہیں۔ اس پر ہی سر بسجود رہتے ہیں کہ یہ سب اس کا ایک حقیر بندے پر کرم ہے! تسکین بھی اس زمرے میں نہیں آتی کہ ریڈیو کے سیکڑوں پروگرام لکھ چکے بول چکے ہیں ، داد سے مبرا نہیں کہ اس کا کبھی شوق نہیں رہا۔ شاعری ورثہ ہے ضرورت نہیں تو جب ''دل'' چاہتاہے شعر کہتے ہیں۔
اس شہر میں رہتے ہیں جہاں کبھی حمایت علی شاعر، مرزا عابد عباس، الیاس عشقی اور سندھی اردو کے نگینے لوگ رہا کرتے تھے، رہتے ہیں اور جہاں اب دو نمبر کے شعرا اور ادبا کا ایک جوہڑ ہے یہی حال نشریاتی دنیا کا ہے۔ غلط زبانی سیکھنی ہو تو ریڈیو سنوکبھی ریڈیو سن کر لوگ تلفظ درست کیا کرتے تھے۔
ہوسکتا ہے اور جگہ بھی یہی حال ہو کیونکہ جوئے کی پرچی کی طرح سفارش کی پرچی نے اس ادارے کا خانہ خراب کردیا ہے۔ دو دو جگہ ملازمت کرنے والوں کی بھرمار ہے۔ صرف ریڈیو کا آدمی نہیں ملتا، یہ ہمارے شہرکا حال ہے نام جس کا حیدرآباد ہے! خیر یہ تو مقطع میں سخن گسترانہ بات آئی کہ شاید یہی کوئی کم ہی سمجھ پائے، بات تھی کہ کیوں لکھتے ہو تو ہمارے پاس اس کا ایک سیدھا سا جواب ہے کیوں پڑھا تھا؟ ان درس گاہوں نے جہاں اب صرف نقل اور سفارش اور اقربا پروری کا دور دورہ ہے ہمیں علم دیا تھا۔ آٹھ آنے اسکول کی ماہانہ فیس تھی، تعلیم بکتی نہیں تھی، عطا کی جاتی تھی اور استاد آنکھوں کو مزید بھلے لگتے تھے اب تو وہ سوداگر ہیں علم کے۔
تو ان درسگاہوں نے اساتذہ نے جو سبق دیا تھا وہ یہ تھا کہ سچ بولو اور اونچا بولو، یہ فطرت تھی ہماری ہے کہ بدل نہیں سکتی، شبنم گل صاحبہ کی وجہ سے آپ تک پہنچ گئے کہ بار بار انھوں نے لکھنے کا کہا اور اب ہر ہفتے کالم کی صورت پرچا دیتے ہیں اور اخبار چھاپ رہا ہے لہٰذا کہہ سکتے ہیں کہ پاس ہوجاتے ہیں۔
ہمارے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ گل و بلبل کی داستانیں اور ماحول کی فرحت انگیزی جیسی دوسروں کو نظر آتی ہے، بینائی کمزور ہونے کی وجہ سے شاید ہمیں نظر نہیں آتی یا ہوسکتا ہے کہ ہمارے پاس وہ سب کچھ نہیں جو ''بڑے لوگوں'' کے پاس ہوتا ہے توہمیں دنیا کلر فل نظر نہیں آتی، بلیک اینڈ وائٹ نظر آتی ہے۔ بات یہ ہے کہ چیزیں ہوتی بلیک اینڈ وائٹ ہیں ہم ان پر ''رنگ'' چڑھادیتے ہیں۔
سارے ملک کے لوگوں کا ''دماغ'' سیاست دانوں نے گھماکر رکھا ہوا ہے، ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک روٹی چرانے والا بری طرح مار کھاتا ہے اور ملک کے عوام کا پیسہ کھاجانے والے ''قافلوں'' میں آتے جاتے ہیں، موجودہ یا سبق ''پروٹوکول'' سب کے پاس ہے۔ ذاتی یا سرکاری! پانچ سال تک عوام کو لوٹنے کے بعد پھر ان سے ووٹ ''لوٹنے'' کے لیے ''اداکار'' بن جاتے ہیں یہ دنیا کے سب سے بڑے اورگھٹیا بھکاری ہیں۔ انھیں ہر پانچ سال بعد عوام ''ووٹ'' کی بھیک دیتے ہیں جن سے یہ پانچ سال اپنا ''خرچ'' چلاتے اور ''ووٹرز'' کی ''چمڑی'' اتارتے رہتے ہیں۔ 1947 سے آج تک یہی ہورہا ہے پہلے کچھ شنوائی ووٹر کی تھی، ووٹ لینے والوں کو غیرت آتی تھی وہ کام نہ کرنے پر شرمندہ ہوتے تھے۔
اب صرف تقریر کرتے ہیں، آرام سے کہہ دیتے ہیں ''نہیں ہوسکا'' کرلو جو کرنا ہے، بھلا آپ کیا کریںگے کچھ بھی نہیں پھر ان کو ووٹ دے دیںگے۔ ''شہیدوں'' کے نام پر ''دین'' کے نام پر ''نام نہاد کارکردگی'' کے نام پر اور بھی بہت سے خانے ہیں، عوام بھی کم نہیں! جادوگروں کے ساتھ رہ کر شعبدہ گر وہ بھی بن چکے ہیں۔ عوام ہی عوام کا سودا کردیتے ہیں۔ برادری، مسلک، زبان کے سہارے۔
صحت، تعلیم، روزگار، ترقی سب کچھ برائے فروخت اور قابل فروخت ہے اور یہ جو چھاپے، شاپے پڑتے رہتے ہیں یہ تو اس کا ایک حصہ ہے، کاروبار میں isk Factor Rبھی تو ہوتا ہے۔ یہ سب رسک فیکٹر ہے۔ ہم نے سنا ہے کہ بینکوں میں ایک رواج تھا (شاید اب بھی ہو) کہ کلوزنگ میں اگر کچھ رقم زیادہ ادا ہو جاتی تھی تو وہ بینک کے ملازمین مل کر پورا کرتے تھے اور یہ ایک عام رواج تھا۔
زیادہ وصول ہوجانے والی رقم کے بارے میں نہیں سنا، لہٰذا کچھ عرض نہیں کرسکتے تو یہ جو ملک میں سیاسی بینک ہیں بلکہ یوں کہنا پڑے گا اور زیادہ درست ہوگا کہ ''یہ جو ملک میں سیاست کا بینک ہے'' اور جس کے ملازم خاندان در خاندان یہ سیاست دان ہیں یہ بھی ایسا ہی کرتے ہیں، ان کے بیان فادر کوٹہ، مدرکوٹہ بھی پکا ہے کسی کسی کے پاس تو دونوں کوٹے ہیں۔ کون سا ایک نمبر کا کوٹا ہے اورکون دو نمبری کوٹا، یہ کوٹا رکھنے والے کو خوب پتا ہے۔تو جن درسگاہوں سے ہم نے پڑھا، جن اساتذہ نے ہمیں پڑھایا وہ خالص پاکستانی تھے۔
محب وطن ہونے کا بھی ان پر الزام تھا اور ہم بھی یہ تہمت اٹھائے ہوئے ہیں۔ انھوں نے ہمیں پڑھایا تھا کہ سچ بولو، اونچا بولو تو ہم آج تک یہی کررہے ہیں، زندگی کی اس درسگاہ میں صاحب کردار ہونے کی بہت بڑی فیس ہے وہ ادا کررہے ہیں کرتے رہیںگے۔
ہم حقائق اور حقیقت کی دنیا میں رہتے ہیں وہیں کی باتیں کرتے ہیں، خوامخواہ کے آسرے نہیں دیتے نہ ہمیں کسی غیر ملکی ٹور پر جانا ہے نہ سرکاری سیر و تفریح کی ضرورت ہے، قلم خود ہمیں نہ جانے کن کن جہانوں کی سیر کرادیتا ہے اور ہم ایک سیاح اور مسافر آوارہ کی طرح زندگی کی داستان لکھتے رہتے ہیں۔
چونکہ، چنانچہ، اگر مگر یہ سب ریاضی میں ٹھیک ہیں جس کو MATHS کہتے ہیں، زندگی بہت سادہ مضمون ہے جب تک جیو اچھی طرح جیو، اچھی طرح سب کے لیے صرف اپنے لیے نہیں کہ قدرت نے ایک دوسرے کو ایک دوسرے کا ساتھی بنایا ہے۔ درست بنایا ہے دشمن تو ہم نے بنایا ہے ایک دوسرے کو مختلف خانوں میں بانٹ کر۔