شدید گرمی نے صدر ٹرمپ کا دماغ گھما دیا
امریکا میں بڑھتے درجہ حرارت نے عجوبے کو جنم دے ڈالا
لاہور:
دنیا بھر میں عالمی گرماؤ المعروف گلوبل وارمنگ بڑھنے سے گرمی کی شدت بڑھ رہی ہے۔ مگر امریکا کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ اس قدرتی عمل کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔اسی لیے انھوں نے پیرس معاہدے کو بھی خیرباد کہہ دیا۔ مگر حال ہی میں ایک ایسا انوکھا واقعہ پیش آیا جس نے امریکی صدر کو بھی اپنا ذہن بدلنے پہ مجبور کر دیا۔چناں چہ وہ گلوبل وارمنگ کو کسی حد تک حقیقت سمجھنے لگے ہیں۔
ہوا یہ کہ حالیہ ماہ جون کے دوران امریکا کے کئی علاقوں میں اتنی سخت گرمی پڑی کہ وہاں متعدد ایئرلائنز کو خصوصاً چھوٹے طیاروں کی سیکڑوں پروازیں منسوخ کرنا پڑیں۔آپ یقنناً کہیں گے کہ گرمی اور ہوائی جہاز کی پرواز کا بھلا کیا تعلق؟
حقیقت یہ ہے کہ بلند درجہ حرارت اور طیارے کی اڑان کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔دراصل ہوائی جہاز ہوا کی مدد ہی سے پرواز کرتا ہے۔ہر طیارے کے دونوں پر ایسے انداز میں بنائے جاتے ہیں کہ پر کے اوپر ہوا کا کم دباؤ جبکہ نیچے بلند دباؤ پیدا ہو جائے۔ہوا کا بلند دباؤ ہی اس لفٹ(lift) یعنی اٹھان کو جنم دیتا ہے جس کی مدد سے ہوائی جہاز با آسانی فضا میں بلند ہو جاتا ہے۔ ٹھنڈی ہوا میں زیادہ سالمات (مالیکیول) موجود ہوتے ہیں۔ اسی لیے وہ بھاری ہوتی ہے۔مگر ہوا گرم ہو جائے تو اس کے سالمے بکھر جاتے ہیں۔ اس کے باعث وہ ہلکی ہو جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے، گرمی شدید ہو جائے تو خاص طور پہ چھوٹے ہوائی جہاز کے پروں کے نیچے ہلکی ہوا کے سبب مطلوبہ دباؤ پیدا نہیں ہوتا اور وہ آسانی سے اٹھان نہیں لے سکتا۔بلند درجہ حرارت میں چھوٹا ہوائی جہاز اسی وقت اڑ سکتا ہے جب رن وے بہت لمبا ہو۔تب جہاز دور تک دوڑ کر خوب رفتار پکڑ سکتا ہے لیکن رن وے چھوٹا ہو تو مجبوراً پرواز کینسل کرنا پڑتی ہے۔
ماہرین کی رو سے اگر ہوائی اڈے کا درجہ حرارت 48.88 درجے سینٹی گریڈ ہو جائے تو چھوٹے رن وے سے چھوٹا ہوائی جہاز اڑانا خطرناک عمل ہے۔وجہ یہ کہ ٹیک آف کرتے ہوئے اسے موزوں اٹھان نہ ملی تو وہ گر کر تباہ ہو سکتا ہے۔جبکہ درجہ حرارت 52.22 درجے سینٹی گریڈ تک پہنچ جائے تو بڑے ہوائی جہاز مثلاً بوئنگ اور ائیر بس بھی خطرے کی زد میں آ جاتے ہیں۔
ایسی صورت حال میں مسافروں کی تعداد کم کر کے اور سامان کی وزن گھٹا کر انھیں اڑایا جاتا ہے۔تب بڑے جہاز اپنے انجنوں کی بھرپور قوت استعمال کرتے ہوئے پرواز کر جاتے ہیں۔یہ یاد رہے کہ اترتے ہوئے بھی طیارے کو ہوا کی ضرورت پڑتی ہے۔اگر تب ہوا ہلکی ہو تو جہاز کو لینڈنگ کرتے ہوئے دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ماہ جون میں کئی امریکی علاقوں میں زبردست گرمی پڑی اور درجہ حرارت بڑھنے کے کئی نئے ریکارڈ وجود میں آئے۔اسی باعث بہت سی ایر لائنز کو اپنی کئی فلائٹس منسوخ کرنا پڑیں۔یوں لاکھوں لوگوں کا نظام الاوقات درہم برہم ہو گیا۔انھیں پھر اپنی منزل تک پہنچنے کی خاطر بڑے پاپڑ بیلنے اور انوکھے کشٹ اٹھانے پڑے۔
ماہرین سائنس کا کہنا ہے کہ عالمی گرماؤ المعروف گلوبل وارمنگ بڑھنے سے گرمی کی لہریں امریکا بھر میں جنم لے رہی ہیں۔وہ خبردار کر رہے ہیں کہ آنے والے ادوار میں امریکا ہی نہیں پوری دنیا میں گرمی شدت اختیار کر جائے گی۔ایسی مخدوش صورت حال میں ہوائی جہاز سے سفر کرنے والے لاکھوں کروڑوں مسافروں کو ہوشیار و خبردار رہنا پڑے گا۔کیونکہ اچانک فلائٹ کینسل ہونے پر انھیں متبادل راستے اختیار کرنا پڑے گے۔
دنیا بھر میں عالمی گرماؤ المعروف گلوبل وارمنگ بڑھنے سے گرمی کی شدت بڑھ رہی ہے۔ مگر امریکا کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ اس قدرتی عمل کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔اسی لیے انھوں نے پیرس معاہدے کو بھی خیرباد کہہ دیا۔ مگر حال ہی میں ایک ایسا انوکھا واقعہ پیش آیا جس نے امریکی صدر کو بھی اپنا ذہن بدلنے پہ مجبور کر دیا۔چناں چہ وہ گلوبل وارمنگ کو کسی حد تک حقیقت سمجھنے لگے ہیں۔
ہوا یہ کہ حالیہ ماہ جون کے دوران امریکا کے کئی علاقوں میں اتنی سخت گرمی پڑی کہ وہاں متعدد ایئرلائنز کو خصوصاً چھوٹے طیاروں کی سیکڑوں پروازیں منسوخ کرنا پڑیں۔آپ یقنناً کہیں گے کہ گرمی اور ہوائی جہاز کی پرواز کا بھلا کیا تعلق؟
حقیقت یہ ہے کہ بلند درجہ حرارت اور طیارے کی اڑان کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔دراصل ہوائی جہاز ہوا کی مدد ہی سے پرواز کرتا ہے۔ہر طیارے کے دونوں پر ایسے انداز میں بنائے جاتے ہیں کہ پر کے اوپر ہوا کا کم دباؤ جبکہ نیچے بلند دباؤ پیدا ہو جائے۔ہوا کا بلند دباؤ ہی اس لفٹ(lift) یعنی اٹھان کو جنم دیتا ہے جس کی مدد سے ہوائی جہاز با آسانی فضا میں بلند ہو جاتا ہے۔ ٹھنڈی ہوا میں زیادہ سالمات (مالیکیول) موجود ہوتے ہیں۔ اسی لیے وہ بھاری ہوتی ہے۔مگر ہوا گرم ہو جائے تو اس کے سالمے بکھر جاتے ہیں۔ اس کے باعث وہ ہلکی ہو جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے، گرمی شدید ہو جائے تو خاص طور پہ چھوٹے ہوائی جہاز کے پروں کے نیچے ہلکی ہوا کے سبب مطلوبہ دباؤ پیدا نہیں ہوتا اور وہ آسانی سے اٹھان نہیں لے سکتا۔بلند درجہ حرارت میں چھوٹا ہوائی جہاز اسی وقت اڑ سکتا ہے جب رن وے بہت لمبا ہو۔تب جہاز دور تک دوڑ کر خوب رفتار پکڑ سکتا ہے لیکن رن وے چھوٹا ہو تو مجبوراً پرواز کینسل کرنا پڑتی ہے۔
ماہرین کی رو سے اگر ہوائی اڈے کا درجہ حرارت 48.88 درجے سینٹی گریڈ ہو جائے تو چھوٹے رن وے سے چھوٹا ہوائی جہاز اڑانا خطرناک عمل ہے۔وجہ یہ کہ ٹیک آف کرتے ہوئے اسے موزوں اٹھان نہ ملی تو وہ گر کر تباہ ہو سکتا ہے۔جبکہ درجہ حرارت 52.22 درجے سینٹی گریڈ تک پہنچ جائے تو بڑے ہوائی جہاز مثلاً بوئنگ اور ائیر بس بھی خطرے کی زد میں آ جاتے ہیں۔
ایسی صورت حال میں مسافروں کی تعداد کم کر کے اور سامان کی وزن گھٹا کر انھیں اڑایا جاتا ہے۔تب بڑے جہاز اپنے انجنوں کی بھرپور قوت استعمال کرتے ہوئے پرواز کر جاتے ہیں۔یہ یاد رہے کہ اترتے ہوئے بھی طیارے کو ہوا کی ضرورت پڑتی ہے۔اگر تب ہوا ہلکی ہو تو جہاز کو لینڈنگ کرتے ہوئے دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ماہ جون میں کئی امریکی علاقوں میں زبردست گرمی پڑی اور درجہ حرارت بڑھنے کے کئی نئے ریکارڈ وجود میں آئے۔اسی باعث بہت سی ایر لائنز کو اپنی کئی فلائٹس منسوخ کرنا پڑیں۔یوں لاکھوں لوگوں کا نظام الاوقات درہم برہم ہو گیا۔انھیں پھر اپنی منزل تک پہنچنے کی خاطر بڑے پاپڑ بیلنے اور انوکھے کشٹ اٹھانے پڑے۔
ماہرین سائنس کا کہنا ہے کہ عالمی گرماؤ المعروف گلوبل وارمنگ بڑھنے سے گرمی کی لہریں امریکا بھر میں جنم لے رہی ہیں۔وہ خبردار کر رہے ہیں کہ آنے والے ادوار میں امریکا ہی نہیں پوری دنیا میں گرمی شدت اختیار کر جائے گی۔ایسی مخدوش صورت حال میں ہوائی جہاز سے سفر کرنے والے لاکھوں کروڑوں مسافروں کو ہوشیار و خبردار رہنا پڑے گا۔کیونکہ اچانک فلائٹ کینسل ہونے پر انھیں متبادل راستے اختیار کرنا پڑے گے۔