آسان ہدف تک دہشتگردوں کی رسائی کیوں
حالیہ سانحے سے یہ سبق ملنا چاہیے کہ ریاست کی بنیادی ذمے داری عوام کی جان و مال کا تحفظ ہے
لاہور میں فیروزپور روڈ پر خود کش دھماکے کے ساتھ ہی سیاسی اور عوامی حلقوںمیں دہشتگردوں کے آسان ہدف تک رسائی کی بحث اس بات کا عندیہ ہے کہ انتہا پسند اور خود کش بمبار ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے کی اپنی سی کوشش کرنے سے باز نہیں آتے اور ان کی حکمت عملی جمہوری نظام، زندگی کے معمولات اور حکومتی انتظامات سمیت ہائی الرٹ کی دیو مالائی حیثیت کو مسلسل چیلنج کرنا ہے اور وہ اس میں وقتا فوقتاً کامیاب بھی ہوتے نظر آتے ہیں ، تاہم فیروزپور سانحے سے دہشتگردوں کے علاقائی اور خطے کے دیگر دہشتگردانہ واقعات کی مربوط کڑیوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔
جس میں داعش کے علاوہ طالبان ، اس کے مختلف دھڑے اور مذہبی ، فرقہ وارانہ اور عسکری مفادات کے حامل دیگر گروپ شامل ہیں جن کی کڑیاں سیکیورٹی پر مامور حکام ملالیں تو یہ حقیقت واضح ہوتی نظر آئیگی کہ پورے عالم اسلام کو دہشتگرد نیٹ ورک کے عالمی تانے بانے اپنے آج کے اور مستقبل کے ہدف پر نظر رکھے ہوئے ہیں ، بد قسمتی سے ہم عالمی قوتوں کی حمایت اور وعدوں پر کبھی افغانستان کبھی بھارت کبھی داعش اور کبھی طالبان کی دشمنی کے تناظر میں قوم کو باور کراتے ہیں کہ انتہا پسندوں کی کمر توڑ دی گئی ہے مگر اس نوید جانفزا کے باوجود وطن عزیز اور اس کے عوام پر الم ناک حملوں کا سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آتا۔ فیروز پور کا آسان ہدف جگر کو پار پارہ کردیتا ہے۔
اس لیے '' آسان ہدف '' کی نئی اصطلاح بھی اس امر کی متقاضی ہے کہ حساس شہروں اور دیہی علاقوں میں موجود آسان اہداف پر توجہ دی جائے اور ان اہداف تک رسائی کو سہل سمجھنے والی باطل قوتوں کی عسکری دیوانگی کو کچل دیا جائے۔ دہشتگردوں کو ممکنہ آسان اہداف کو روندتے ہوئے شہروں پر حملے کرنے سے روکنے کی اسٹرٹیجی مکمل فعال ہونی چاہیے،دہشتگردوں کی اصل پہچان انسانیت دشمن قوتوں کی رہیگی جنہیں مذہب، تہذیب، انسانی اقدار ، جمہوریت اور امن و خیر سگالی سے دور کا بھی واسطہ نہیں یہ اکیسویں صدی کی بربریت کی انتقامی لہر ہے جو کبھی مدھم پڑتی ہے اور کبھی رد عمل یا خفیہ کارروائی کی شکل میں ہمارے دفاعی ، سلامتی اور خود حفاظتی انتظامات کو درہم برہم کردیتی ہے۔
حالیہ سانحے سے یہ سبق ملنا چاہیے کہ ریاست کی بنیادی ذمے داری قومی سلامتی ، امن و استحکام اور عوام کی جان و مال کا تحفظ ہے، اسی لیے دہشتگردانہ کارروائیوں کو روکنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا جس پر عملدرآمد کے حوالے سے قومی اتفاق رائے محکم ہو جب کہ سیاسی رہنما ہر واقعہ کے بعد یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل نہیں ہورہا، اس شکایت کی منطقی بنیاد بھی ہے، کیونکہ دہشتگرد عناصر جب بھی موقع ملتا ہے قوم کو درد وغم اور صدمات و زخموں سے چور چور کردیتے ہیں۔
ایک بیس بائیس سالہ غیر ملکی بمبار بلکہ اکثراوقات سرحد پار سے آیا ہوا بارود بھرا ٹرک یا اپنے جسم پر بھاری بھرکم خود کش جیکٹ ڈال کر ہائی الرٹ زون میں کوئی قاتل اس طرح داخل ہوجا تا ہے جیسے ہالی وڈ ایکٹر کلنٹ ایسٹ وڈ مسلح بدمعاشوں کی صفیں آن کی آن میں الٹ دیتا ہے ،لاشیں دھڑادھڑ گرتی ہیں ۔ وطن عزیز میں بھی خود کش حملہ اور دھماکے کی اطلاع ملتے ہی لوگ غم کے عالم میں اپنے پیاروں کے چیتھڑوں کو سمیٹنے کی تلاش میں گھروں سے نکل پڑتے ہیں،آہوں سسکیوں اور چیخ و پکار سے آسمان کا کلیجہ پھٹ جاتا ہے ، اسپتالوں میں خون کے عطیے دینے والوں کی قطاریں لگ جاتی ہیں۔
ایسے رقت آمیزمناظردیکھنے کا سلسلہ آخر کب بند ہوگا۔فیروز پور روڈ خودکش دھماکے کی ابتدائی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ خودکش بمبار کا ہدف سی سی پی او لاہور کیپٹن(ر) امین وینس تھے جو دھماکے سے 15منٹ پہلے جائے وقوعہ پر موجود تھے ، اس سے قبل بھی دہشت گردوں کی جانب سے لاہور پولیس کے اعلیٰ افسران کو نشانہ بنایا جا چکا ہے، مال روڈ پر خودکش دھماکے میں دو اعلیٰ پولیس افسران شہید ہوچکے ہیں۔ لاہور کے علاوہ کراچی ،کوئٹہ ، پشاور سمیت فاٹا کے علاقے میں گزشتہ برسوں کے دوران دہشتگردی کی کئی الم ناک واقعات رونما ہوچکے ہیں، یہ درست ہے کہ آپریشن ضرب عضب اور رد الفساد سے دہشتگردوں کے مین اسٹریم گروپ،ماسٹر مائنڈز فعال کمانڈرز ، خفیہ ٹھکانے اور بارودی فیکٹریاں مکمل طور پر تباہ کی جا چکی ہیں، مگر دہشتگروں کی باقیات سے کسی کو انکار نہیں ہونا چاہیے، ان کی ریکروٹمنٹ پاکستان سے باہر بھی ہوتی ہے جس طرح داعش کے پر فریب جال میں ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان طلبا و طالبات بھی پھنسنے پر تیار ہیں۔
ضرورت دہشتگردی کے مقامی، علاقائی اور عالمی لہر اور عسکریت پسندی کی فیکٹریوں کی جہادی مصنوعات کے ہر قسم کے انتہا پسند برانڈ پر نظر رکھنے کی ہے، دہشتگردی سائبر کرائم، نیٹ ، ویڈیوز ، مسلکی و نظریاتی پمفلٹس اور گمراہ کن لٹریچر کے دوش پر محو سفر ہے، اس کی کوئی خاص سرحد نہیں، اس کی سریع الحرکتی کثیر جہتی ہے، خودکش بمبار افغانی ، بھارتی ایجنٹ اور غیر ملکی جاسوس کی شکل میں ہمارے درمیان آموجود ہوتا ہے اس کو گردن سے پکڑنے کا وقت آگیا ہے۔
جس میں داعش کے علاوہ طالبان ، اس کے مختلف دھڑے اور مذہبی ، فرقہ وارانہ اور عسکری مفادات کے حامل دیگر گروپ شامل ہیں جن کی کڑیاں سیکیورٹی پر مامور حکام ملالیں تو یہ حقیقت واضح ہوتی نظر آئیگی کہ پورے عالم اسلام کو دہشتگرد نیٹ ورک کے عالمی تانے بانے اپنے آج کے اور مستقبل کے ہدف پر نظر رکھے ہوئے ہیں ، بد قسمتی سے ہم عالمی قوتوں کی حمایت اور وعدوں پر کبھی افغانستان کبھی بھارت کبھی داعش اور کبھی طالبان کی دشمنی کے تناظر میں قوم کو باور کراتے ہیں کہ انتہا پسندوں کی کمر توڑ دی گئی ہے مگر اس نوید جانفزا کے باوجود وطن عزیز اور اس کے عوام پر الم ناک حملوں کا سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آتا۔ فیروز پور کا آسان ہدف جگر کو پار پارہ کردیتا ہے۔
اس لیے '' آسان ہدف '' کی نئی اصطلاح بھی اس امر کی متقاضی ہے کہ حساس شہروں اور دیہی علاقوں میں موجود آسان اہداف پر توجہ دی جائے اور ان اہداف تک رسائی کو سہل سمجھنے والی باطل قوتوں کی عسکری دیوانگی کو کچل دیا جائے۔ دہشتگردوں کو ممکنہ آسان اہداف کو روندتے ہوئے شہروں پر حملے کرنے سے روکنے کی اسٹرٹیجی مکمل فعال ہونی چاہیے،دہشتگردوں کی اصل پہچان انسانیت دشمن قوتوں کی رہیگی جنہیں مذہب، تہذیب، انسانی اقدار ، جمہوریت اور امن و خیر سگالی سے دور کا بھی واسطہ نہیں یہ اکیسویں صدی کی بربریت کی انتقامی لہر ہے جو کبھی مدھم پڑتی ہے اور کبھی رد عمل یا خفیہ کارروائی کی شکل میں ہمارے دفاعی ، سلامتی اور خود حفاظتی انتظامات کو درہم برہم کردیتی ہے۔
حالیہ سانحے سے یہ سبق ملنا چاہیے کہ ریاست کی بنیادی ذمے داری قومی سلامتی ، امن و استحکام اور عوام کی جان و مال کا تحفظ ہے، اسی لیے دہشتگردانہ کارروائیوں کو روکنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا جس پر عملدرآمد کے حوالے سے قومی اتفاق رائے محکم ہو جب کہ سیاسی رہنما ہر واقعہ کے بعد یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل نہیں ہورہا، اس شکایت کی منطقی بنیاد بھی ہے، کیونکہ دہشتگرد عناصر جب بھی موقع ملتا ہے قوم کو درد وغم اور صدمات و زخموں سے چور چور کردیتے ہیں۔
ایک بیس بائیس سالہ غیر ملکی بمبار بلکہ اکثراوقات سرحد پار سے آیا ہوا بارود بھرا ٹرک یا اپنے جسم پر بھاری بھرکم خود کش جیکٹ ڈال کر ہائی الرٹ زون میں کوئی قاتل اس طرح داخل ہوجا تا ہے جیسے ہالی وڈ ایکٹر کلنٹ ایسٹ وڈ مسلح بدمعاشوں کی صفیں آن کی آن میں الٹ دیتا ہے ،لاشیں دھڑادھڑ گرتی ہیں ۔ وطن عزیز میں بھی خود کش حملہ اور دھماکے کی اطلاع ملتے ہی لوگ غم کے عالم میں اپنے پیاروں کے چیتھڑوں کو سمیٹنے کی تلاش میں گھروں سے نکل پڑتے ہیں،آہوں سسکیوں اور چیخ و پکار سے آسمان کا کلیجہ پھٹ جاتا ہے ، اسپتالوں میں خون کے عطیے دینے والوں کی قطاریں لگ جاتی ہیں۔
ایسے رقت آمیزمناظردیکھنے کا سلسلہ آخر کب بند ہوگا۔فیروز پور روڈ خودکش دھماکے کی ابتدائی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ خودکش بمبار کا ہدف سی سی پی او لاہور کیپٹن(ر) امین وینس تھے جو دھماکے سے 15منٹ پہلے جائے وقوعہ پر موجود تھے ، اس سے قبل بھی دہشت گردوں کی جانب سے لاہور پولیس کے اعلیٰ افسران کو نشانہ بنایا جا چکا ہے، مال روڈ پر خودکش دھماکے میں دو اعلیٰ پولیس افسران شہید ہوچکے ہیں۔ لاہور کے علاوہ کراچی ،کوئٹہ ، پشاور سمیت فاٹا کے علاقے میں گزشتہ برسوں کے دوران دہشتگردی کی کئی الم ناک واقعات رونما ہوچکے ہیں، یہ درست ہے کہ آپریشن ضرب عضب اور رد الفساد سے دہشتگردوں کے مین اسٹریم گروپ،ماسٹر مائنڈز فعال کمانڈرز ، خفیہ ٹھکانے اور بارودی فیکٹریاں مکمل طور پر تباہ کی جا چکی ہیں، مگر دہشتگروں کی باقیات سے کسی کو انکار نہیں ہونا چاہیے، ان کی ریکروٹمنٹ پاکستان سے باہر بھی ہوتی ہے جس طرح داعش کے پر فریب جال میں ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان طلبا و طالبات بھی پھنسنے پر تیار ہیں۔
ضرورت دہشتگردی کے مقامی، علاقائی اور عالمی لہر اور عسکریت پسندی کی فیکٹریوں کی جہادی مصنوعات کے ہر قسم کے انتہا پسند برانڈ پر نظر رکھنے کی ہے، دہشتگردی سائبر کرائم، نیٹ ، ویڈیوز ، مسلکی و نظریاتی پمفلٹس اور گمراہ کن لٹریچر کے دوش پر محو سفر ہے، اس کی کوئی خاص سرحد نہیں، اس کی سریع الحرکتی کثیر جہتی ہے، خودکش بمبار افغانی ، بھارتی ایجنٹ اور غیر ملکی جاسوس کی شکل میں ہمارے درمیان آموجود ہوتا ہے اس کو گردن سے پکڑنے کا وقت آگیا ہے۔