سازش حقیقت یا فسانہ

جے آئی ٹی میں فوج کے دو افسروں کی شمولیت کا فیصلہ بھی فوج کا نہیں، سپریم کورٹ کا تھا۔

mohammad_asghar_abdullah@yahoo.com

KARACHI:
پاناما کیس کا سپریم کورٹ کا فیصلہ اب کسی وقت بھی آ سکتا ہے۔ پاناما کیس پر سپریم کورٹ کے اندر تو وزیراعظم نوازشریف اور ان کے خاندان کے وکلا نے قانونی دلائل ہی دیے کہ وہی دلائل دیے جا سکتے تھے، مگر سپریم کورٹ کے باہر اپنا دفاع اس طرح کرنے کی سعی کی گئی کہ پاناما کیس کو وزیراعظم کے خلاف ایک سوچی سمجھی ''سازش'' قرار دیا گیا۔

اول اول جب یہ بیانیہ سامنے آیا تو یوں لگا کہ حکومت اسٹیبلشمنٹ کی طرف اشارہ کر رہی ہے مگر کچھ دنوں بعد حکومتی وزیروں نے اس کو '' عالمی'' سازش قرار دے کر عالمی طاقتوں اور'' یہود وہنود'' بھی اس میں شامل کر دیا ۔کیاحکومت کے خلاف سازش کے اس بیانیے میں کچھ حقیقت بھی ہے یا یہ محض فسانہ ہے، آئیے دیکھتے ہیں۔

یہ بات سمجھنا کچھ زیادہ مشکل نہیں کہ پچھلے کچھ عرصہ میں حکومت اور فوج کے درمیان اگر کوئی تنازع تھا بھی، تو وہ پاناما لیکس نہیں، بلکہ نیوز لیکس کا تھا۔ مگر پھر یہ تنازع خوش اسلوبی سے طے پا گیا۔یہ تنازع طے ہو جانے کے بعد حکومت اور فوج کے درمیان کوئی اور تنازع نہیں تھا۔ مردم شماری مہم میں بھی جنرل قمر جاوید نے حکومت کے ساتھ بھرپور تعاون کیا،بلکہ اس تعاون کے نتیجے میں ہی مردم شماری کا بے قابو عفریت حکومت کے قابو میں آیا۔

جے آئی ٹی میں فوج کے دو افسروں کی شمولیت کا فیصلہ بھی فوج کا نہیں، سپریم کورٹ کا تھا ، جس کی عدم تعمیل کا سوال ہی نہ تھا۔ یہ بات اہم ہے کہ دوران تفتیش حکومت کی طرف سے جے آئی ٹی کے جن دو ارکان کے رویے کی شکایت کی گئی، ان میں بھی فوج کا کوئی رکن شامل نہیں تھا۔ یعنی جے آئی ٹی انکوائری کے کسی مرحلے پر بھی حکومت کو فوجی ارکان سے کوئی شکایت پیدا نہیںہوئی۔ لہٰذا وزیراعظم یا ان کی حکومت کے خلاف فوج کے کسی سازش میں ملوث ہونے کا سوال ہی پیدا ہی نہیں ہوتا۔

سب جانتے ہیں کہ پاناما لیکس عالمی مالیاتی اسکینڈل ہے اور دنیا میں کسی حکومت نے بھی اس کو اپنی اپوزیشن کی کارروائی قرار نہیں دیا ۔ یہاں بھی اپوزیشن یا عمران خان کا اس میں کوئی دخل نہیں اور نہ ہو سکتا ہے۔ بقول صدر مملکت ممنون حسین کے، یہ تو اوپر سے کوئی چیز نازل ہوئی ہے ۔ یہ بھی ان کی پیشن گوئی تھی کہ اس کی پکڑ میں ایسے ایسے لوگ آئیں گے کہ دیکھنے والے دنگ رہ جائے گی۔ پاناما کیس پر اپوزیشن کی دوسری بڑی پارٹی ، یعنی پیپلزپارٹی نے حکومت کو کبھی ٹف ٹائم نہیں دیا۔

جب عمران خان نے پاناما کیس پر حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کا اعلان کیا تو پیپلزپارٹی نے ان کی قطعاً حوصلہ افزائی نہیں کی اور ان کو ٹی او آر کی تیاری میں الجھا دیا۔ بعد ازاں جب عمران خان یہ کیس لے کر سپریم کورٹ جا پہنچے تو یہ بھی پیپلزپارٹی کو اچھا نہیں لگا تھا ، اور یہ کہہ کے اس کی مخالف کی کہ نوازشریف حکومت کے خلاف عمران خان کو سپریم کورٹ سے کبھی کوئی ریلیف نہیں ملے گا۔ لہٰذا یہ کہنا کہ پاناما کیس حکومت کے خلاف اپوزیشن کی سازش ہے، انتہائی بے تکی بات ہے ۔ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ پاناما لیکس کی صورت میں اپوزیشن کے ہاتھ میں حکومت کے خلاف ایک انتہائی موثر ہتھیار آ گیا، جس کا فی الحال حکومت کے پاس کوئی توڑ نہیں ہے۔

اب رہ گیا بیرونی سازش کا قضیہ۔جے آئی ٹی رپورٹ کے والیم 10 کو اگرچہ پبلک نہیں کیا گیا، لیکن اس کی ایک ایک کاپی حکومت کی درخواست پر فریقین کو مہیا کر دی گئی ہے۔ یہ اطلاعات چھن چھن کر آ رہی ہیں کہ اس میں جے آئی ٹی کی بیرونی ملکوں کے ساتھ خط وکتابت کی تفصیل دی گئی ہے۔ جب سے والیم 10 حکومتی وکیلوں کے زیرمطالعہ آیا ہے ، حکومت نے والیم 10کو پبلک کرنے کا مطالبہ نہیں کیا، جب کہ اس سے پہلے حکومت زور وشور سے اسے پبلک کرنے کا مطالبہ کر رہی تھی۔ اب صرف عمران خان ہی اس کو پبلک کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ واقفان راز کہتے ہیں کہ والیم 10 اگر منظر عام پرآ جاتا ہے تو اس کے مشتہر ہوتے ہی حکومت کا عالمی سازش کا الزام بھی بے حقیقت ہو جائے گا ۔


یوں بھی پاناما لیکس کی زد میں امریکا اور برطانیہ خود بھی ہیں۔ برطانیہ اس کی قیمت ادا کر چکا ہے۔ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون پارلیمنٹ میں اپنی پوزیشن کلیئر کرنے کے بعد مستعفی ہونے سے بچ گئے، لیکن اس کی وجہ سے ان کی مقبولیت کو اتنا ضعف پہنچا کہ چند ماہ بعد ہی جب یورپین یونین کا حصہ رہنے یا نہ رہنے کے مسئلہ پر ریفرنڈم ہوا تو وہ ہار گئے اور ان کو مستعفی ہونا پڑا اور اب تک ان کی پارٹی اپنے زخم چاٹ رہی ہے۔ پھرامریکا اور برطانیہ کو کیا پڑی ہے کہ پاکستانی سیاست دانوں کے جو بینک بیلنس یا جائیدادیں ان کے پاس ہیں اور ان کی قومی معیشت کو فائدہ پہنچا رہی ہیں، اس کی تفصیلات پاکستان کو مہیا کرکے اپنا نقصان کریں۔ بیرونی سازش کاروں میں رہ گیا بھارت ، تواس کی نوازشریف حکومت سے کیا پرخاش ہو سکتی ہے۔ لہٰذا یہ کہنا درست ہو گا کہ پاناما کیس پر حکومت کا سازش کے بیانیہ میں کوئی حقیقت نہیں ہے، اور یہ محض فسانہ ہی معلوم ہوتا ہے، جو دفاعی حکمت عملی کے تحت گھڑا گیا ہے۔

مرزا غالب کی ایک غزل ہے ، جس کا مقطع پچھلے دنوں وزیراعظم نوازشریف نے سیالکوٹ میں اپنے مخالفوں کو مخاطب کرکے پڑھا تھا کہ

کعبہ کس منہ سے جاؤ گئے غالب

شرم تم کو مگر نہیں آتی

اسی غزل کا مطلع تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ حکومت کے سازش کے بیانیہ پر بھی صادق آتا ہے کہ

؎کوئی امید بر نہیں آتی

کوئی سازش نظر نہیں آتی
Load Next Story