کیا آرٹیکل 62 اور 63 ضروری ہے
اب ہمارے سیاستدان اس تگ و دو میں لگ گئے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح مذکورہ آرٹیکل کو آئین پاکستان سے ختم کرا دیا جائے۔
آج کل سپریم کورٹ میں پاناما کیس کے ''محفوظ'' فیصلے پر چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں ،چہ مگوئیاں ہوں بھی کیوں نا، پوری قوم سنجیدہ اور فکر مند ہے، کہ ملک کا کیا بنے گا ۔ ایوب خان کے دور سے لے کر آج تک جتنے بھی سیاستدانوں پر کرپشن کے الزامات لگے ، وہ ثابت نہیں ہوسکے۔
نواز شریف کے پہلے دور سے آج تک جتنے کرپشن کے الزامات لگے، عدالتوں میں ثابت نہیں ہوئے، بینظیر بھٹو پر کرپشن کے کیسزچلتے رہے مگر کسی میں بھی انھیں سزا نہ ہوسکی، چوہدری برادران پر جتنے کرپشن کیسز چلے کسی ایک میں بھی سزا نہ ہوسکی، پرویز مشرف،میر ظفر اللہ خان جمالی، پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے وزراء، ق لیگ دور کے وزراء، زرداری کو کرپشن کیس میں 11 سال تک جیل میں رکھا گیا مگر سزا نہ ہوئی اور وہ باعزت بری ہوگئے، کیا یہاں یہ سوال نہیں اُٹھتا کہ کرپشن کو پروموٹ کرنے میں ہمارا نظام بھی اہم کردار رہا ہے۔
آئین پاکستان کے آرٹیکل 62 اور 63 کی رو سے پارلیمنٹ کے رکن بننے کی اہلیت یہ ہے کہ وہی مسلمان شخص رکن پارلیمان بن سکتا ہے جو اچھے کردار کا حامل ہو اور شعائر اسلام کی خلاف ورزی کے لیے نہ جانا جاتا ہو۔ اسلامی تعلیمات کا مناسب علم رکھتا ہو۔ لازمی مذہبی فرائض پورے کرتا ہو اور کبیرہ گناہوں میں ملوث نہ ہو۔ وہ عاقل ہو، فاسق نہ ہو اور صادق و امین ہو۔ ویسے یہ الگ بحث ہے کہ جس شخص (جنرل ضیاء الحق) نے اس شق کو آئین کا حصہ بنایا وہ خود بھی اس پر پورا نہیں اُترتا تھا۔ اور یہاں تو 62اور63کی عملداری کا معیار یہ ہے کہ اگر کوئی پارلیمنٹ کا رکن جعلی ڈگری کی وجہ سے نااہل ہوگیا تو دوبارہ جب اُس کے کاغذات جمع ہونے کے لیے آئے تو انھیں دوبارہ قبول کر لیا گیا۔
رہی بات پاکستان کے 1000سے زائد پارلیمنٹیرینز کے صادق اور امین ہونے کی تو یقینا باسٹھ تریسٹھ کی شق پر کوئی بھی پورا نہیں اُترتا ہوگا، اور یہ سپریم کورٹ کے الفاظ ہیں کہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پر عمل درآمد کیا گیا تو پارلیمنٹ میں موجود تمام اراکین میں سے صرف سراج الحق ہی بچ پائیں گے۔ حیرانی اپنے اور اپنے جیسے عوام پر ہوتی ہے کہ ہم نے کیسے کیسے قائدین کو منتخب کر کے پارلیمنٹ میں بھیجا ہے۔ اب ہمارے سیاستدان اس تگ و دو میں لگ گئے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح مذکورہ آرٹیکل کو آئین پاکستان سے ختم کرا دیا جائے۔ جیسا کہ راقم نے اپنے گزشتہ کالم میں اس حوالے سے خبر سنا دی تھی کہ جلد ہی ایسا ممکن ہوگا کہ وزیراعظم بننے کے لیے آپ کا صرف ''مسلمان'' ہونا ضروری ہے۔ باقی کسی اوصاف کی ضرورت نہیں ہوگی ۔ اس حوالے سے اب حکمران جماعت اور اپوزیشن جماعتیں مل کر ایسا ہی ایک لائحہ عمل ترتیب دے رہی ہیں۔
اس حوالے سے جب میں نے دنیا میں جمہوریت کی تاریخ کو کھنگالا تو معلوم ہوا کہ 5 سو سال قبل مسیح میں بھی جب کونسل اور اسمبلی کا وجود ہوتا تھا تو اُس وقت بھی عوام ایسے قائد کو منتخب کیا کرتے تھے جو نسبتاََ دوسرے لوگوں سے ایماندار، صاف گو اور ذہین ہوتے تھے۔ پھر رومن ایمپائر وجود میں آئی، ہندوستان میں پنچایت سسٹم وجود میں آیا، جرمن قبائلی نظام بنا، آئس لینڈ کی پارلیمنٹ بنی، ان سب میں ایک چیز مشترک تھی کہ چنا جانے والا شخص ذہین اور ایماندار ہو تاکہ لوگ اُس کی تقلید کریں۔
تاریخ میں یہ کہیں نہیں ملتا کہ جو لیڈر جمہوری طریقے سے منتخب ہوا وہ پاکباز اورسچا نہیں تھا، ہاں بعد میں اگر وہ کرپٹ ہوگیایا دولت کے نشے نے اُسے اندھا کر دیا یا وہ اپنوں کو نوازتا رہا تو یہ ایک الگ بات ہے ، اس کی بھی مثالیں دنیا میں موجود ہیں جن میں یوگینڈا کے عیدی امین، تھائی لینڈ کے تھاکسین اور انڈونیشیا کے سابق صدر جنہوں نے کرپشن اور قتل و غارت گری کے ریکارڈ قائم کیے۔
آج برطانوی قوانین جنھیں ہم فالو کرتے ہیں یا جہاں سے ہمارے قوانین اخذ کیے گئے ہیں اُن کے مطابق وہاں کا وزیر اعظم صادق اور امین ہونا چاہیے۔حتیٰ کہ برطانوی ہاؤس آف لارڈز میں پہنچنے والے ہر شخص میں سے کوئی ایک بھی سزا یافتہ نہیں ہوتا۔ آپ پورے یورپ کی مثالیں اُٹھا کر دیکھ لیں جہاں جہاں جمہوریت ہے وہاں ایسا تصور بھی موجود نہیں کہ کوئی ایسا شخص اقتدار پر بیٹھا ہو جس پر کئی کیسز بھی چل رہے ہوں۔ اگر کہیں آرٹیکل 62، 63جیسا قانون لاگو نہیں ہے تو اُن میں افریقی ممالک سرفہرست ہیں، اور کئی ممالک میں تو آرٹیکل 62یا 63نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے، کیوں کہ وہاں یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگ قانون سے بالا کوئی کام نہیں کریں گے اور کریں گے تو خود بخود قانونی احتساب کی زد میں آ جائیں گے۔
ہندوستان میں مغل دور حکومت میں ایسے ایسے نالائق حکمران مسلط رہے جنھیں رعایا سے زیادہ اپنے اقتدار کی فکر لگی رہتی تھی، پھر ان کا جو حال ہوا ، تاریخ کا ہر طالب علم اس سے واقف ہے۔مطلب یہ کہ اگر آپ جمہوری حکمرانی کے حامی نہیں ہیں تو آپ کا حال بیشتر مغل شہنشاہوں جیسا ہوتا ہے۔
خیر بات ہو رہی تھی کہ 62 اور 63کی شق کے حوالے سے تو جب پوری دنیا میں جہاں جہاں جمہوریت ہے وہاں وہاں سبھی قائدین پر وہاں کے قانون کے مطابق صادق اور امین ہونا لازم ہے تو یہاں کیوں نہیں ہوسکتا، قانون تو بنا دیا گیا مگر اداروں کے کمزور ہونے کی وجہ سے اس پر عملدرآمد مشکل ہوگیا۔ میرے خیال میں تو آرٹیکل 62 صرف پارلیمنٹیرینز کے علاوہ جنرلز، ججز، جرنلسٹس اور بیوروکریٹس پر بھی لاگو ہونا چاہیے۔
وہ اس آرٹیکل کے احاطے سے کیوں باہر ہیں۔ کیا ان کے بارے میں فرض کر لیا گیا ہے کہ وہ تو ہوتے ہی راست گو، ایماندار، فسق و فجور سے پاک اور پابندِ صوم و صلوۃ۔ یا ان کے لیے یہ سب ہونا اتنا ضروری نہیں، الیکشن کمیشن پابند ہے کہ وہ کسی بھی امیدوار کے بارے میں یہ اطمینان کرے کہ وہ آرٹیکل 62 میں صادق اور امین کی شرائط پر پورا اترتا ہے۔ گویا یہ تو طے ہے کہ کمیشن کے ارکان اور کاغذات کی جانچ پڑتال کرنے والے پریزائیڈنگ افسر صادق اور امین ہیں۔
اس فرسودہ نظام میں جہاں ہر سرکاری عہدہ رکھنے والے کو صادق اور امین ہونا چاہیے وہاں جھوٹے،کرپٹ افسران کو لگا دیا گیا ہے، ہم اکثر و بیشتر مغربی ممالک کی برائی کرتے نہیں تھکتے۔ میں اکثر ان ممالک میں آتا جاتا رہتا ہوں لیکن میں نے ان ممالک کے بارے میں ایک ہی چیز اخذ کی ہے کہ مغربی معاشروں میں تو جھوٹ بولنا ایک مسلمہ برائی ہے۔ صدر نکسن جیسا مدبر' مفکر اور منفرد حکمران محض ایک جھوٹ بولنے کی وجہ سے امریکی صدارت سے فارغ ہوگیا۔ مغرب کے لوگ تو ہمارے بارے میں اکثر کہتے ہیں کہ
خود اپنی آنکھوں کے شہتیر پر نظر رکھیں
ہماری آنکھ سے کانٹے نکالنے والے
اب جب کہ آرٹیکل 62، 63کو آئین پاکستان سے نکالنے کی کوششوں میں تیزی لائی جانی ہے تو میں شہر خموشاں کا باسی ایک بار پھر تماشا ہوتا دیکھوں گا اور عین ممکن ہے کہ اس آ رٹیکل کی تدفین بھی کہیں میرے آس پاس ہی ہو جائے، لیکن میں قارئین سے یہ سوال کرنے کا حق ضرور رکھتا ہوں کہ جس کرپٹ ترین معاشرے میں کھربوں ڈالر کی کرپشن ہوئی ہو، کیا وہاں اس آرٹیکل کی ضرورت ہے یا نہیں؟جواب ضرور دیجیے گا!