اندھا تو ٹھوکر کھائے گا

اب بدلے ہوئے حالات میں اس کا مطلب ہے کہ بھئی، اندھا تو اندھا ہوتا ہے، کبھی ٹھوکر بھی کھا سکتا ہے۔


سردار قریشی July 26, 2017

ISLAMABAD: جسٹس کارنیلس، پاکستان کے غیر مسلم مگر غیر متنازعہ چیف جسٹس گزرے ہیں۔ لاہورکا ہوٹل فلیٹیز ان کا گویا گھر تھا، مرتے دم تک اس میں مقیم رہے۔ ایک بار جب وہ لاہور پہنچے تو فلیٹیز میں اخبار نویسوں کے جمِ غفیرکو اپنا منتظر پایا، جو اس زمانے کے ایک ہائی پروفائل کیس کے حوالے سے وکلاء کے متضاد نکتہ ہائے نظر پر ان کی رائے جاننا چاہتا تھا۔ جسٹس کارنیلس اس ہائی پروفائل کیس کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کی بینچ کے سربراہ بھی تھے۔

انھوں نے پہلے توکیس کے حوالے سے کوئی بات کرنے سے ہی انکارکردیا، پھر اخبار نویسوں کے بے حد اصرار پر فرمایا ''ججزکسی کیس کے بارے میں بات نہیں کرتے، ان کے فیصلے بولا کرتے ہیں۔'' اب جہاں دوسری تمام اقدار بدل گئی ہیں وہاں زیرِ سماعت کیس کے حوالے سے ججزکے بات نہ کرنے کی روایت بھی ختم ہوگئی ہے اور اب فیصلے نہیں بلکہ ججز بولتے ہیں، بولتے بھی ایسا ہیں کہ ان کے کہے ہوئے جملے اگلے دن کے اخبارات کی شہ سرخیاں بنے ہوتے ہیں۔ پاناما پیپرز کیس کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ بینچ کے ججزکے وہ ریمارکس ابھی سب کی یادداشتوں میں تازہ ہیں جن میں منتخب حکومت کو ''گاڈ فادر'' اور ''سسیلین مافیا'' تک قرار دیا گیا تھا۔

حکومتی ترجمان اور حکمران جماعت کے رہنماؤں خواہ وزرا کا مدلل اور بھرپور رد عمل بھی، جس کا اظہار فطری تقاضا اور ان کا قانونی اور اخلاقی حق تھا، وہ بات پیدا نہ کرسکا جس کی توقع کی جارہی تھی، الٹا اپوزیشن جماعتوں نے اسے ''کھسیانی بلی کھمبا نوچے'' سے تعبیرکیا۔ ان کی مدد کو آیا بھی تو ایک ''باغی'' ملتان سے اٹھنے والی اس کی کمزور ونحیف آواز نے کیس کے فریقین ہی کو نہیں، عدلیہ اور فوج سمیت سب کو چونکا دیا اور ان کی توجہ اپنی طرف مبذول کروانے میں کامیاب ہوگئی۔

یہ آواز سینیئر سیاستدان مخدوم جاوید ہاشمی کی تھی جس کی گونج ایک ہفتے میں دوسری بار سنائی دی ہے، وہ بھی اس شان سے کہ اسے چیلنج کرنے والا کوئی نہیں۔''سب کا احتساب ہونا چاہیے'' کا نعرہ بلند کرنے والے اس مردِ قلندر نے دعویٰ کیا کہ ''بدعنوان عدلیہ ایک جمہوری طور پر منتخب وزیراعظم کو گھر نہیں بھیج سکتی۔''

بدھ 12 جولائی کو اپنے شہر ملتان میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، جس کے لیے ان کا کہنا تھا کہ ہوسکتا ہے یہ ان کی آخری پریس کانفرنس ثابت ہو، انھوں نے کہا ''میں نہیں کہتا کہ (وزیراعظم) نواز شریف کا احتساب نہیں ہونا چاہیے، احتساب کا مطالبہ کرنے والا میں پہلا آدمی ہوں گا، لیکن صرف نواز شریف ہی کا احتساب کیوں؟ میں نہیں جانتا کہ نواز شریف چور ہے یا نہیں، لیکن اس کے ساتھ ہر ایک کا محاسبہ کیا جانا چاہیے، فوج اورعدلیہ کا بھی احتساب ہونا چاہیے، سپریم کورٹ کا کوئی ایک بھی جج، فوج کا کوئی جرنیل یا سیاستدان صادق اور امین نہیں ہوسکتا، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اورکو صادق اور امین کے القاب زیب نہیں دیتے۔''

مخدوم جاوید ہاشمی نے نام لے کر کہا کہ جسٹس فرخ عرفان کا نام بھی پاناما پیپرز میں موجود ہے لیکن کوئی نہیں جو ان کے احتساب کا مطالبہ کرے۔ ان کی برطرفی کے لیے لاہور ہائی کورٹ اور سپریم جوڈیشل کونسل میں پٹیشنز بھی داخل کی گئی تھیں لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ انھوں نے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو مخاطب کرکے کہا آپ کو سپریم کورٹ کی عزت اور وقار برقرار رکھنا ہے، جس نے بارہا غلطیاں کیں (اور) آئین کو منسوخ کرنے کے علاوہ اس میں ترامیم کی گئیں۔

انھوں نے سپریم کورٹ کے ان ججوں کو آڑے ہاتھوں لیا جنہوں نے پاناما لیکس کیس کی سماعت کے دوران حکومت اور حکمراں پارٹی کو مافیا کے لقب سے نوازا تھا۔ مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا کہ جے آئی ٹی کی تشکیل سے پہلے وہ حکومت کو سسیلین مافیا قرار دے چکے تھے جو در اصل ان کی جانب سے اس کیس میں سنائے جانے والے فیصلے کے مترادف تھا۔انھوں نے سپریم جوڈیشل کونسل سے مطالبہ کیا کہ وہ ججوں کے دیے ہوئے ان ریمارکس کا نوٹس لے جنھیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ ایک جمہوری حکومت کو سسیلین گینگ یا گاڈ فادر کہہ کر پکاریں۔ انھوں نے پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کو بھی خوب لتاڑا جنہوں نے ان کے بقول کہا تھاکہ سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کے بعد آنے والا چیف جسٹس نہ صرف حکومت کی چھٹی کردے گا بلکہ پارلیمنٹ کو بھی توڑ دے گا۔

انھوں نے سوال کیا کہ آئین کوکچلنے والوں سے کوئی پوچھنے والا ہے؟ اب یہ نہہیں ہوسکتا کہ جب چاہو بادشاھ کو پیادوں سے مروا دو، جس جج کا نام پاناما میں ہے کوئی اس کا نام نہیں لے سکتا، جے آئی ٹی کیسے بنتی اور کام کرتی ہے جسٹس عظمت سعید کو پتہ ہے، نواز شریف کی کوئی حیثیت نہیں، جرنیلوں کی انگلی کے اشارے سے تو ملک ہل جاتا ہے، قربانی ہمیشہ سیاستدانوں کو دینی پڑتی ہے، احتساب صرف سیاستدانوں کا ہوتا ہے، سازشیں عروج پر ہیں۔ مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا کہ جے آئی ٹی کی تحقیقات ہمیشہ یک طرفہ ثابت ہوئی ہیں، دنیا میں ایسی کوئی عدالت نہیں جس کے حکم پر جے آئی ٹی بنی ہو لیکن ہم نے بنا کے دکھا دی، اس کی رپورٹ کس کام کی جب جج پہلے ہی حکمرانوں اور حکومت کو گاڈ فادر اور مافیا قرار دے چکے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ چند ریاستی اداروں اور بیوروکریسی نے ماضی میں ملک کو نقصان پہنچایا جب کہ سپریم کورٹ نے آمروں کو تحفظ فراہم کیا، جرنیل جوں ہی ریٹائر ہوتے ہیں امریکا چلے جاتے ہیں،آئی ایس آئی کے تمام سابق سربراہان ملک سے باہر بیٹھے ہیں، ان کی بیشمار جائیدادیں ہیں، کوئی نیوزی لینڈ میں ہے تو کوئی آسٹریلیا اور دبئی میں ہے، کسی میں جرات ہے کہ ان سے پوچھ سکے؟

آج تک سپریم جوڈیشل کونسل سے کسی جج کو سزا نہیں ہوئی، اس کونسل کی حیثیت کیا ہے، یہ غلط قسم کے ججوں کو کیوں نہیں پکڑتی؟ انھوں نے کہا میں جانتا ہوں کس کی ورتھ کیا ہے، میں سب کی ورتھ جانتا ہوں، مجھ پر کوئی الزام کیوں نہیں لگاتے، عدالتیں مجھے کیوں طلب نہیں کرتیں؟

انھوں نے کہا مجھے ساری عمرجیل میں پڑے رہنا تو منظور ہے لیکن میں سچ بولنے سے باز نہیں آؤں گا، عدالتیں مجھے اسی لیے نہیں بلاتیں کہ میں وہاں سچی باتیں کروں گا، نواز شریف، آصف زرداری اور بینظیر دس سال جرنیلوں کی خوشامد کرتے رہے، اسلم بیگ کو تمغہ جمہوریت دیا گیا، بینظیر نے جرنیلوں کے کچن میں جا کر برتن دھوئے، ان کے لیے چائے اور کافی بنائی، یہ ہے ہمارے ملک کا حال، جرنیل دس سال پلاٹ اور مربعے لیتے رہتے ہیں، پھر آ کر کہتے ہیں سیاستدان کرپٹ ہیں، ملک کو لوٹ کر کھا گئے، اب ہم آگئے ہیں، خود ملک کو چلائیں گے، یہ اس ملک کا مقدر ہے۔ اس سے پہلے بھی مخدوم جاوید ہاشمی نے پاناما گیٹ کیس کی سماعت کرنے والے ججوں کے خلاف بھرپور احتجاج کیا تھا جنہوں نے حکومت کے خلاف گاڈ فادر اور سسیلین مافیا جیسے ریمارکس دیے تھے اور پوچھا تھا کہ انھیں اس قسم کے ریمارکس پاس کرنے کا اختیار کس نے دیا ہے؟

ملکی خواہ بین الاقوامی میڈیا نے دونوں مرتبہ انھیں بھرپور کوریج دی۔ توقع کی جا رہی تھی کہ زیر سماعت کیس کی اہمیت کے پیش نظر ان کی باتوں کا ضرور نوٹس لیا جائے گا، لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ شاید وہ ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ کوئی بھی سچ سننا نہیں چاہتا۔ جہاں تک میرا تعلق ہے، مجھے ان کی ساری باتیں دل سے لگی ہیں، یہ کوئی لفاظی نہیں حقیقت ہے کہ میں ان سے غائبانہ بیعت ہوگیا ہوں۔ اگرچہ صحافیوں کی کوئی سیاسی وابستگی نہیں ہوتی، میں ان کی جراتِ رندانہ اور حق گوئی و بے باکی سے بہت متاثر ہوا ہوں، میں نہیں جانتا پاناما گیٹ کیس کے فیصلے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ملکی حالات پر اس کے کیا اثرات مرتب ہونگے، لیکن میں اپنے مرشد کو زیادہ دیر پریشانی میں مبتلا بھی نہیں دیکھ سکتا۔

میری ان سے دست بستہ گزارش ہے کہ وہ پاناما گیٹ کیس کے حوالے سے زیادہ پریشان نہ ہوں۔ کیا انھوں نے ''انصاف اندھا ہوتا ہے'' والی مشہورکہاوت نہیں سنی جس سے یہ مراد تھا کہ وہ یہ نہیں دیکھتا کہ اس کی زد میں کون آتا ہے۔ اپنا یا پرایا۔ اب بدلے ہوئے حالات میں اس کا مطلب ہے کہ بھئی، اندھا تو اندھا ہوتا ہے، کبھی ٹھوکر بھی کھا سکتا ہے۔ جسٹس منیر اور جسٹس نسیم حسن شاہ تو اعلانیہ اس کا اعتراف بھی کر چکے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں