سب ساتھ ساتھ چلے گا بس ہم نہ ہوں گے
نواز شریف کو سمجھ آگئی کہ ان کے پاس اقتدار تو ہے لیکن اختیار نہیں ہے۔
PESHAWAR:
''جمہوریت اور مارشل لا ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے'' یہ جملے ایک ایسا شخص کہہ رہا تھا جس کو وزیراعظم ہی مارشل لا نے بنایا۔ اس کمزور شخص میں یہ توانائی کہاں سے آئی کہ وہ اپنے ''باس'' کے خلاف یہ جملے ادا کرسکے۔کیا ''کرسی''ایک غلام کو بھی اتنی جسارت دے دیتی ہے کہ وہ حق کے لیے اپنے گلے میں پھانسی کا پھندا بھی لگانے کے لیے تیار ہوجاتا ہے یا پھر ''کرسی'' مزید طاقت مانگتی ہے؟ اور''کرسی'' کو زیادہ اختیار چاہیے ہوتا ہے۔
اقتدار زیادہ سے زیادہ اختیارکا بھوکا ہوتا ہے۔ میرے ذہن میں ہمیشہ یہ کشمکش رہی کہ اقتدار میں آکرکیوں انسان خود کو خدا سمجھنے لگتا ہے اور اُس کے بعد اختیارکی ''محلاتی'' جنگ شروع ہوجاتی ہے۔ ایک اور نظریہ بھی ہے کہ جو لوگ ناجائز طریقوں سے ''کرسی'' تک پہنچے انھوں نے بعد میں اپنے گناہوں کی معافی مانگی اور پھر عوام اور جمہوریت کے لیے آواز اُٹھائی۔
میں آج تک اس سوال کا جواب نہیں ڈھونڈھ سکا کہ کیوں 14 اگست 1985ء میں مینار پاکستان پر جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ''جمہوریت اور مارشل لا ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے'' اگلے روز صرف پاکستان ہی نہیں دنیا کے کئی اخبارات کی اہم خبر یہ تھی کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا وزیر اعظم یہ کہہ رہا ہے کہ اُسے مارشل لا نہیں چاہیے۔ یہ جانتے ہوئے کہ بھی جنرل ضیاء الحق صدرکے عہدے پر موجود ہیں اور انھیں لانے والا بھی وہ ہی ہے۔
انھیں پورا یقین تھا کہ سندھ سے آیا یہ کمزور رکن اسمبلی کبھی بھی ان کے خلاف نہیں بول سکتا۔ پھر ایسا کیا تھا کہ یہ کمزور جسم کا انسان ایک طاقتور شخص کے خلاف آواز بلند کر رہا تھا؟ اُسی وقت فیصلہ ہوچکا تھا کہ اب واقعی جمہوریت اور مارشل لا ساتھ نہیں چل سکتے ۔ پھر ایک جنبش قلم میں جونیجو صاحب کے ساتھ پوری حکومت کوگھر بھیج دیا گیا۔ طاقت اوراختیار کے آگے سب بے بس ہو تے ہیں۔ طاقتور ہمیشہ یہ سمجھتا ہے کہ اُس سے زیادہ بہتر فیصلہ کوئی نہیں کرسکتا، آئیے آپ کو دو مثالوں سے بتاتا ہوں۔
1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں ایک نام نہاد اسمبلی وجود میں آچکی تھی ۔ اب طاقت کے چھوٹے چھوٹے جن اس بات کی کوشش کر رہے تھے کہ کسی طرح اُن کا مہرہ وزیراعظم کی کرسی حاصل کر لے۔ ضیاالحق اس بات پر تو قائل ہو چکے تھے کہ وزیراعظم کو سندھ یا بلوچستان سے آنا چاہیے تاکہ بھٹوکے زورکوکم کیا جاسکے۔ اس حوالے سے تین لوگوں کو ایوان صدر سے گرین سگنل دیا گیا۔ پہلا نام الہی بخش سومروکا تھا دوسرا نام سندھ سے محمدخان جونیجوکا تھا، جب کہ تیسرا نام بلوچستان سے میر ظفر اللہ خان جمالی کا تھا۔ جمالی صاحب امیدوار تو بڑے اچھے تھے لیکن آنکھوں کی ٹھنڈک نہیں بن سکتے تھے۔
جب ان تین لوگوں کو یہ بتا دیا گیا کہ صدر صاحب آپ کے بارے میں سوچ رہے ہیں تو ان تینوں نے اراکین اسمبلی سے رابطے شروع کر دیے، مگر ضیاالحق فیصلہ کرچکے تھے۔ سب امیدوار اپنی طرف سے کوشش کررہے تھے مگر ایوان صدر سے پس پردہ ایک خاص امیدوارکے لیے گراؤنڈ بنایا جا رہا تھا۔ ایک ملاقات اُن دنوں میں پیر پگارا ہاؤس میں ہوئی۔
پیر صاحب کے پاس خواجہ صفدر، ضیاالحق کا پیغام لائے تھے۔ (خواجہ صفدر موجودہ وفاقی وزیرخواجہ آصف کے والد) یوسف رضا گیلانی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ اس ملا قات میں وہ بھی موجود تھے اور بقول ان کے پیر صاحب نے جونیجو صاحب کی حمایت کی تھی، مگر کئی لوگوں سے گفتگو کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ خواجہ صفدر یہ ہی پیغام لائے تھے کہ جونیجو صاحب کو وزیر اعظم بنایا جائے گا اور پیر صاحب ان کی حمایت کریں۔ خیر اس سے قطع نظر جو بات میں کہنا چاہتا ہوں وہ طاقت کے فیصلے کی ہے۔
اس ملاقات کے دو دن بعد ضیاء الحق نے اراکین اسمبلی کو یہ کہہ کر بلایا کہ ان سے رائے لی جائے اور فیصلہ کیا جا سکے کہ کسے وزیر اعظم بنانا ہے۔ سارے امیدوار اس خوش فہمی میں تھے کہ ووٹنگ ہوگی، لیکن ضیا الحق نے اپنی بات شروع کرتے ہوئے کہا کہ میں نہیں چاہتا کہ کسی قسم کی تفریق ہو۔ آپ کے درمیان ایک کمزور سا شخص موجود ہے لیکن کوئی اس پر کرپشن کی انگلی نہیں اُٹھا سکتا اور وہ نام ہے محمدخان جونیجوکا۔ یہ سُننا تھا اور پورے ہال میں خاموشی چھا گئی سب سمجھ گئے کہ فیصلہ ہو چکا ہے اور سب نے مبارک باد دینا شروع کردی۔
یہاں دو باتیں ہیں پہلی یہ کہ جو طاقتور اور بااختیار آدمی کہہ دے پھرکسی رائے اور جمہوریت کی ضرورت نہیں۔ ایسا ہی آئندہ نواز شریف کریں گے اور سب لوگ ''یس باس'' کہہ کر مبارکباد دیں گے۔ دوسری بات یہ کہ جب ضیا الحق جیسے با اختیارصدر نے کچھ عرصے بعد اس جملے کو صحیح ثابت کیا کہ جمہوریت اور مارشل لا ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے اور جونیجو کو گھر بھیجا تو سب لوگ خاموشی سے پھر بھی ''یس سر''کہتے رہے۔
اب آئیے دوسری مثال پر کہ جب آپ کے پاس اقتدار ہو لیکن اختیار نہ ہو تو پھر آپ کو فیصلے کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔ ضیا الحق دور میں ہی میاں نوازشریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے۔ انھیں اس بات کا یقین تھا کہ پنجاب کے عوام اور اراکین اسمبلی ان کے ساتھ ہیں اور وہ اپنے صدرضیاالحق سے زیادہ پنجاب میں اثر رکھتے ہیں۔کچھ فیصلوں پر انھوں نے ضیا الحق کے خلاف چلنے کی کوشش کی تو ایوان صدر سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ نواز شریف کو بتایا جائے کہ اقتدار (وزارت اعلیٰ) تو ان کے پاس ہے لیکن اختیار ان کے پاس نہیں ہے۔
اس کے لیے ایوان صدر سے پیر پگارا صاحب کو ٹاسک دیا گیا اور پیر صاحب نے اس کے لیے ایک اور پنجاب کے ابھرتے ہوئے نوجوان یوسف رضا گیلانی کو استعمال کیا۔ ان سے کہا گیا کہ وہ پنجاب جائیں اور ایک متوازی وزیر اعلیٰ کے طور پرکام کریں۔ یوسف رضا گیلانی کے بقول انھوں نے ''یس سر'' کیا اور لاہور کے ''چمبہ ہاؤس'' میں ایک اور وزیر اعلیٰ ہاؤس بنا دیا۔ نواز شریف کو یہ بات بہت بری لگی۔ اب اراکین اسمبلی کو معلوم تھا کہ یوسف رضا گیلانی کے پیچھے ضیاالحق خود ہیں اور نواز شریف کی اب کوئی اہمیت نہیں ہے۔ سب نے ایک ہی دن میں اپنا قبلہ تبدیل کرلیا۔
نواز شریف کو سمجھ آگئی کہ ان کے پاس اقتدار تو ہے لیکن اختیار نہیں ہے۔ انھوں نے فوراً صدر ضیا الحق، وزیراعظم محمد خان جونیجو اور پیر پگارا سے ملاقاتیں کرنا شروع کر دیں۔ یوسف رضا گیلانی استعمال ہو گئے اور یہ بات نوازشریف کبھی نہیں بھولے کہ یوسف رضا گیلانی نے ان کے ساتھ کیا کیا تھا۔
کہنے کی بات یہ ہے کہ آج کل کچھ لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کے پاس عوام کی اکثریت ہے تو میں انھیں بتا دوں کی جس کی وجہ سے ہے انھیں معلوم ہے کہ کس کے تابوت میں کیل لگانی ہے۔ کہنے کی بات ساری اتنی ہے کہ اس وقت موجودہ حکومت کے پاس اختیار نہیں ہے کہ وہ اپنی غلطی کو ٹھیک کر سکے۔ نئے چہرے کا فیصلہ بھی کسی سے مشورے سے نہیں ہوگا بلکہ ہر جگہ کے اختیار والے لوگ اپنا فیصلہ کرچکے ہیں۔ ہم سب کو بہلانے کے لیے بس اتنا کہا جائے گا کہ ''مارشل لا اور جمہوریت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے'' لیکن ہر وقت یہ سب ساتھ ساتھ ہی چلتا رہے گا، بس ہم نہ ہوںگے ۔